گمشدہ حکمت

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
گمشدہ حکمت
مولانا محمد زکریا قدوسی سابق مدرس مظاہرعلوم وقف سہارنپور

دنیا اب تک جن بڑی بڑی غلط فہمیوں میں مبتلارہی ہے ان میں اکثر کی بنیاد مغالطہ پرہے ایک لفظ دوفریقوں میں مشترک ہے لیکن اس کا مفہوم ہرفریق دوسرے سے الگ لے رہا ہے یہی صورت دور حاضر میں لفظ علم کی ہے ایک طرف کتاب حکیم علم کی فضیلتوں سے معمور ہے ۔حدیث نبوی میں تحصیل علم کی سخت تاکید ،اس کے نہ سیکھنے پربڑی بڑی وعیدیں اور سیکھنے کی صورت میں بہتر سے بہتر ثواب بتلائے گئے ہیں ۔تحصیل علم کی ترغیب بہت کچھ ہے اور جہل کی مذمت بھی بہت کچھ ،دوسری طرف موجودہ تمدن کے مغربی اساتذہ اور ان کے مشرقی شاگرد علم ہی کے فضائل پرزور دے رہے ہیں رسالوں میں،اخباروں میں،لیکچروں میںاور تقریروں میں تحصیل علم کی بڑی اہمیت بتلائی جارہی ہے ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اور ان کے مفہوم میں بجز علم کے اور کوئی چیز مشترک نہیں،بلکہ سچ پوچھو تو ایک دوسرے کی ضد ہے۔
لفظ حکمت بھی منجملہ ان الفاظ کے ہے جن سے آج کل ایک بڑی جماعت کو دھوکہ ہورہا ہے۔آج علوم جدیدہ کی فرہنگ میں لفظ حکمت سائنس کا مرادف اور ہم معنی ہے اور اس کا اطلاق تمام ترمادی اور طبعی علوم پر ہوتا ہے۔
اجرام فلکی کا ایک دوسرے سے کیا تعلق ہے؟ یہ علم ہئیت ہے، مادہ اور صورت کے قوانین کیا ہیں؟ طبعیات کیاہے؟ اجسام کی ترکیب کیونکر دی جاتی ہے؟ اس کا نام کیمسٹری ہے ،حیوانی زندگی کے نشوونماکے کیا اصول ہیں؟ اسے تم بیالوجی کہتے ہو۔سطح زمین پر کیا کیا تبدیلیاں ہوتی ہیں اس کانام تمہارے یہاں جیالوجی ہے اس قسم کے سارے مادی علوم حکمت کے تحت میں آتے ہیں۔اس حکمت کا تعلق یکسر اس عالم سے ہے جو حواس ظاہری سے محسوس ہوتا ہے اس لئے جس ملک کی تعلیم گاہوں میں تجربہ اور اختیار کا جتنا زیادہ اہتمام ہوتا ہے اسی قدروہ ملک حکمت اور علم میں زیادہ کامل اور ترقی یافتہ سمجھاجاتا ہے یہ مفہوم حکمت جدیدکاہے حکمت قدیم میں مشاہدہ تجربہ،اختیار اور عملیت سے زیادہ زور قیاس ،برہان استدلال پرتھا ،ذہنی تشقیقات اور امکانی صورتیں بحث وجدل ان کے یہاں سب سے بڑی حکمت کہلاتی تھی ،جس طرح حکمت جدیدکا دائرہ بحث و نظر کائنات ظواہر اور محسوسات مادی تک ہے۔حکمت قدیم کابھی تھا۔ذوق حال،کشف واشراق ،معجزہ اور وحی اور الہام رحمانیت اور ربوبیت کے عالم سے جو بے تعلقی حکمت جدید کو ہے حکمت قدیم کو بھی تھی۔لفظ حکمت کا یہ وہ عام مفہوم ہے جو آج علمی دنیا میں پھیلاہواہے اور ہمارے مغربی کرم فرمااس حکمت کے بہت بڑے حکیم اور اس علم کے بہت بڑے عالم اور مبصر سمجھے جارہے ہیں۔عالم ان کو سراہ رہا ہے اور دنیا ان کی تعریف کررہی ہے لیکن یہی لفظ حکمت قرآن حکیم میں بھی انیس جگہ آیا ہے اور مقام مدح پروارد ہے حدیثوں میں بھی اس کی بہت بڑی فضیلت آئی ہے سوال یہ ہے کہ کیا اس حکمت سے بھی وہی ڈارون، نیوٹن اور ہکسلے والی حکمت مراد ہے ؟کیا جس حکمت کو حدیثوں میں حکیم مطلق کی ایک بہت بڑی نعمت فرمایا گیا ہے وہ وہی ہے جس کے حامل بقراط،جالینوس ،افلاطون اور ارسطوتھے؟ کیا قرآن عزیز میں جس حکمت کو موقع احسان میں بیان کیا گیا ہے وہ وہی ہے جس کی تعلیم یورپ کی یونیورسٹیوں اور جس کی سرپرستی امریکہ کی تجربہ گاہوں میں ہورہی ہے کیا حکمت آسمانوں اور زمینوں کے پیداکرنے والے کا بہتر ین عطیہ ہے ؟وہ وہی ہے جو وسیع کتب خانوں،عظیم الشان عجائب گھروں ،پرتکلف تجربہ گاہوں اور بیش بہاآلات مادی کا محتاج ہے ؟۔
سوال قرآن سے متعلق ہے، جو اب بھی قرآن ہی سے لینا ہے کہ وہ کتاب مبین اپنے متعلق ہر سوال کا جواب شافی خود اپنے اندر رکھتی ہے قرآن کی زبان عربی ہے ظاہر ہے کہ الفاظ قرآنی کے معانی لغت عرب سے باہر نہیں ہوسکتے۔بے شبہ یہ ممکن ہے کہ کسی الفاظ کے وسیع اور عام مفہوم کو دوسرے مصنفین کی طرح قرآن حکیم نے بھی اپنے محاورہ میں خاص اور محدود کرلیا ہے لیکن اس کا امکان نہیں کہ قرآن میں کسی لفظ کا وہ مفہوم لیا گیا ہوکہ جس سے لغت عرب ہی سرے سے ناآشنا ہو۔پس قرآن سے جواب حاصل کرنے کا ایک مقدمہ یہ بھی ہے کہ دیکھا جائے کہ زبان عرب میں اس لفظ سے کیا مفہوم سمجھا گیا ہے۔
صحاح میں جوہری نے قاموس میں فیروزآبادی نے مجمع البحار میں شیخ محمد طاہر پٹنی نے مفردات القرآن میں امام راغب نے تنویر المقیاس میں سدی صغیر اور محمد ابن مروان نے تفسیر کی بیشتر اور معتبر کتابوں میں جو اہل لغت کے مختلف اقوال نقل کئے گئے ہیں۔ان سب کو نہایت دقت نظری اور نکتہ سنجی کے ساتھ فاضل زبیدی نے تاج العروس میں نقل کیا ہے جس کا حاصل یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ حکمت کے معنی مثل حکم کے فیصلہ میں عدل کو ملحوظ رکھنا ہے اور حکمت حقائق اشیاء کے صحیح علم اور اس کے مطابق عمل کرنے کو بھی کہتے ہیں حق کو علم وعمل کے ذریعہ پالینا بھی حکمت کہلاتا ہے اور آیت کریمہ ’’وَلَقَدْ اٰتَیْنَا لُقْمَانَ الْحَکِمَۃَ‘‘میں حکمت سے مراد شریعت کی تائید پرعقل کی شہادت کا قائم ہونا ہے ۔حکمت جب اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہوتی ہے تو اس سے اشیاء کی ایجاد انتہائی پختگی کے ساتھ مرادہوتی ہے اور جب یہ انسان کی طرف منسوب ہوتی ہے تو اس سے مراد اس کی اپنی معرفت اور عمل خیر ہوتا ہے اور حکمت علم کے معنی میں بھی وارد ہوئی ہے جس کا مفہوم ہیجان غضب کے وقت طبیعت کو قابو میں رکھنا ہے حکمت سے مراد نبوت ورسالت بھی ہے اور یہ لفظ تورات وانجیل وقرآن کے معنی میں بھی مستعمل ہوا ہے اور حکمت کے مفہوم میں شریعت وطریقت کے اسرار بھی داخل ہیں۔ حکمت کا اطلاق اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور دین کی سمجھ پرعمل ،خشیت اور پرہیزگاری اور احکام الٰہی میں تفکر پربھی ہوتا ہے آیت مبارکہ ’’یوتی الحکمۃ من یشائ‘‘ میں حکمت سے مراد فہم قرآن ہے۔
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
اس تمام بیان کا اگر لب لباب اخذکرنا چاہیں تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ لغت عرب میں حکمت سے مراد یا تو کچھ صفات اخلاقی مراد ہوتے ہیں خواہ ایجابی شکل میں ہوں مثلاً عدل،علم،خشیت،تقوی وغیرہ خواہ سلبی صورت میں جیسے برائی،جہالت اور بد اخلاقی سے بچنا یا اس سے مراد ایمان وعقیدہ کی پختگی اور معرفت الٰہی ہے جس کا تعلق ملکۂ نبوت،آسمانی کتب،تفصیل شریعت اور اسرار طریقت سے ہے۔پس ان دونوں مفہوموں کے لیے علاوہ لغت عرب میں حکمت کا کوئی مفہوم نہیں ملتا جہاں کہیں مجازاً قدرومنزلت کے معنی میں مستعمل ہوا ہے تو یہ معنی بھی بدی سے روکنے اور نکوکاری حاصل کرنے ہی سے ماخوذ ہیں کہ عزت وشرف کا اصلی معیار نکوکاری ہی ہے نہ کہ نسب۔
محض غور وفکر ،ذہانت وذکاوت، تجربہ ومشاہدہ، ایجاد واختراع ،قیاس واستدلال، تمثیل واستقرائ، دلیل انی ولمی ،برہان،تطبیق،برہان سلمی،استخراج واستنباط ،ترتیب مقدمات ،تدوین کامیاب ،نقدوتبصرہ ، بحث وجدل،کوئی مفہوم حکمت سے صراحۃً توکیا کنایۃً بھی نہیں نکلتا۔
پس جو مفہوم آج علمی دنیا میں لفظ حکمت سے سمجھا جارہا ہے اس مفہوم کا تو قرآن میں وارد ہونے کا احتمال ہی نہیں اور وہ حکمت اسلام کا مطلوب ہوسکتی ہے نہ مذہب کا جو لوگ یونان کے فلسفہ اور یورپ کی سائنس کو اسلامی علوم کی ترقی کا معیار سمجھ رہے ہیں نہیں معلوم وہ کس طرح ان علوم کو قرآن وحدیث والی حکمت میں داخل کرتے ہیں۔ان علوم کی ترقی اسلام کی ترقی ہے نہ دین کی،نہ کلمۃ اللہ کی ترقی ہے نہ انوار نبوت کی، حکمت کا لفظ قرآن عزیز میں جس معنی کے اندر مستعمل ہوا ہے۔وہ تو وہی معنی ہوسکتے ہیں کہ جس کو مفسرین نے قرآن وحدیث کی خدمت گار جماعت نے صحابہ نے اور خود ذات گرامی اقدس ﷺ نے بیان فرمائے ہیں اور بس قرآن کی حکمت کو انہی معنی سے تعلق ہے نہ کسی اور سے ۔
اسلام کا عہد زریں عباسیہ کا زمانہ تھا، اندلس کا عہد نہ تھا، اسلام کے عروج کا تعلق بغداد سے ہے نہ قرطبہ سے، دہلی سے، نہ استنبول سے ،سندھ سے نہ ملتان سے، مامون کے بیت المقدس سے ،نہ اکبر کے نور تن سے ،فیضی سے، نہ ابو الفضل سے ،بوعلی سینا سے ،نہ ابن رشد سے یہ ساری یادگاریں اسلام کے عہد عروج کی نہیں عہدتنزل کی ہیں کمال کی نہیں زوال کی ہیں۔ترقی کی نہیں انحطاط کی ہیں ۔اسلام کا عہد زریں کل تئیس سال رہا اور ۱۰ھ ؁میں ختم ہوگیا یا پھر ایک لحاظ سے اسے ۴۰ھ؁ یعنی آخری اور سچے خلیفہ الرسول سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت تک وسیع کیا جاسکتا ہے اس کے بعد جو دریا بہے وہ علوم وفنون کے ہوں گے،زراعت اور ملازمت کے ہوں گے ،منطق اور فلسفہ کے ہوں گے،طب اور شاعری کے ہوں گے،نجوم اور ہئیت کے ہوں گے ، لیکن حقیقی علم اور سچی حکمت کے ہرگز نہ تھے ،اسلامی عقیدہ میں جو اگلے اور پچھلے عالموں کا سردار اور ہر ملک وقوم اور ہرزمانے کے حکیموں سے بڑھ کرحکیم گزراہے (صلی اللہ علیہ وسلم)وہ کسی مقالہ کا مصنف ،کسی یونیورسٹی کا ڈاکٹر،کسی کالج کا پروفیسر الگ رہا ،سرے سے حرف شناس تک نہ تھا، اس نے جس جس یونیورسٹی کا افتتاح صفا کی چوٹی پرفرماکر تکمیل مسجد مدینہ کے کچے چبوترے پرکیا اس کا نصاب عرش الٰہی سے جبرئیل امین لے کرآئے تھے،اس ازلی اور ابدی یونیورسٹی کا فیض آج بھی جاری ہے اس علم کے دریائے بے پایا ں سے سیراب ہوکر ہرزمانہ میں کچھ لوگ نکلتے رہے ہیںاور اس کے اپنے زمانے میں تو ایک ہی وقت میں ہزاروں سے گزر کرلاکھوں تک اس کے فیض یافتہ لوگوں کا گروہ نظرآتا ہے لیکن وہ لوگ کبھی بھی نہیں ہوئے جنہوں نے مشین گنیں ایجاد کی ہوں ۔لاسلکی آلات بنائے ہوں کروڑوں ٹن والے اسٹیمر اور ہوامیں اڑنے والے جہازتیار کئے ہوں اور جنہوں نے بندرکی کھوپڑیوں پراپنی تجربہ گاہوں میں بیٹھ کر دیدہ ریزی کی ہو۔
اسلام کی یونیورسٹی تو صرف وہی ہے جو موجود ہ رسد گاہوں سے الگ آکسفورڈ اور کیمرج سے جدا میڈیکل ہال اور مردہ ہڈیوں کے توڑنے مروڑنے کی تجربہ گاہوں سے دوعرب کے بے آب وگیاہ ریگستان خشک اور سیاہ چٹانوں کے درمیان قائم ہوئی تھی۔اسلامی عقیدہ میں علم خارج سے بیش بہاآلات مادی سے نہیں باطن حاصل ہوتا ہے کتابیں پڑھنے سے نہیں،نفس کی آلودگیوں کو دور کرنے اور باطل کو صیقل کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔
علم کے ماخذ پاک لوگوں(انبیاء علیہم السلام)کے سینے ہیں ،الماریوں میں سجے ہوئے سفینے نہیں اس علم کا تعلق تمام تروحی الٰہی سے ہے۔الہام ہی علم کا وہ چمکتا ہوا سورج ہے جو ایک دم میں ظلمت کدہ عالم کو منور کرسکتا ہے اس روشنی کو حاصل کرنے اور اس خزینہ نور کی طرف رجوع کرنے ہی کانام علم ہے اس کے حصول میں محض ذہانت کام نہیں دیتی بلکہ تقوی ضروری ہے۔
وَاتَّقُوْ اللّٰہ وَیُعَلِّمُکُمْ اللّٰہ (بقرہ ع ۲۹) اللہ سے تقوی حاصل کرو۔
علم حقیقی کا سرچشمہ تم کو خود علم دے گا ۔یہ علم ارسطو اور افلاطون ،نیوٹن اور ڈارون کے حصہ میں نہیں آتا ہے یہ علم ریگستان عرب کے ان پڑھ سیدنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حصہ میں آتا ہے۔اور آپؐ کی جوتیوں کے صدقے اور کفش برداری کے طفیل میں حبشی غلام بلالؓ اور ایرانی جلاوطن سلمانؓ کے حصہ میںآجاتا ہے اس علم میں نظریات قائم ہوکربدلتے نہیں اس کی بنیاد اٹل اور ناقابل تبدیل بدیہیات پرہوتی ہے اس کے اندر بحث وجدل ظن وقیاس کی گنجائش نہیں اس کی بنیاد تمام تراذعان ویقین پرہوتی ہے ماہرین فنون کی تحقیقات صبح کو ہوتی اور شام کو بدل جایا کرتی ہیں پراس علم کے جتنے پروفیسر عالم غائب سے سطح شہو دپر ہوئے وہ سب ایک دوسرے کی تائید اور تصدیق کرتے ہوئے آئے ترد…ریب اور شک سے اگرنجات ملتی ہے تو اسی علم میں دل کو سکون اور قرارتسکین اور تشفی ،اطمینان اور سلامتی اگرحاصل ہوتی ہے تواسی علم کے ذریعے سے۔
یہ علم عبدیت کی طرف لے جاتا ہے فرعونیت ،انسانیت ،تکبراور حسد سے اگرنجات ملتی ہے تو اسی علم کے حاصل کرنے سے درندگی اور بہمیت اگربھاگتی ہے تو اسی علم کے پڑھنے سے فحاشی اور بدکاری اگرگم ہوتی ہے تو اسی علم کے واسطہ سے جو اس علم کا زیادہ ماہرہوگا اسی قدرپاک باطن نیک طینت اور عبادت گزار ہوگا یہاں تک کہ اس علم کا جوسب سے بڑا عالم ہوا ہے وہی عبد کامل بھی تھا اور چونکہ انسانی زندگی کی غایت عبادت ہی ہے اسی لئے یہ کہنا بالکل صحیح ہوگا کہ اسی علم کا حصول انسان کا مقصد زندگی ہونا چاہئے۔
اور اگر اس نے اس کے سوا کسی اور مشغلہ کو اپنا نصب العین قراردیا تو کہاجائے گا کہ وہ اپنے مقصد کو بھول کر دوسری چیزوں میں پڑگیا ہے موجودہ علوم وفنون میں مٹنا ان میں انتہائی ڈگریاں حاصل کرنا اس مقصد سے اسی طرح بیگانہ اور اس منزل سے اسی طرح دورہیں جیسے اور بہت سے مشغلے جنہیں ہرشائستہ انسان لغو،اور متبذل خیال کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ پیغمبران کرام کے جتنے نمونے قرآن حکیم میں پیش کئے گئے ہیں وہ علوم وفنون میں ماہر ہونے کے نہیں سب کے سب ایک ہی علم(وحی) کے حاصل کرنے کے ہیں قرآن حکیم میں انبیاء کرام کے واقعات زندگی کو سینکڑوں ہی مرتبہ دہرایا گیا ہے مگریہ تذکرہ کہیں ایک جگہ بھی نہیں ملا کہ فلاں پیغمبر مورخ تھے ،ادیب تھے،مصنف تھے ،ماہر ریاضی تھے،کیمسٹری کے جاننے والے تھے،اس کا شائبہ بھی نہیں ملتا کہ فلاں بزرگوار نے ایتھر کی تحقیقات پر مقالہ لکھا تھا کسی نے دوربین ایجاد کی تھی ہوائی جہازکے پرزے بنائے تھے۔
غرض جن چیزوں کو آج علوم وفنون کے نام سے پکارا جارہا ہے اور جس کے حصول پرآج انتہائی درجہ کا فخر ہے ان کی جانب کوئی خفیف سی رہنمائی بھی ان سب سے بڑے عالموں اور حکیموں نے نہیں فرمائی ان کی پاک سیرتوں میں اگرکچھ ملتا ہے تو ان کی اخلاقی زندگی کے اوصاف ہیں کہ سیدنا ایوبؑ بڑے صابر تھے حضرت اسماعیل صادق الوعد تھے ،موسی علیہ السلام مقام صدیقیت پرفائز تھے،ابراہیم خلیلؑ حلیم ومنیب تھے اور یورپ کے خداوند یسیوع اور مسلمانوں کے عیسیٰ بن مریم ؑ زاہد وعابد اور خدا کے عبادت گزارتھے اور ایک ان میں ایسا تھا کہ جوسب عالم اور معلموں سے حکیموں اور دانائوں سے پیچھے آنے کے باوجود تمام اخلاق فاضلہ میں سب سے آگے اور سب کا پیشروتھا۔
اللّٰہم صل علی جمیع الانبیاء والمرسلین
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
عزیز دوستو!تم قرآن کو اگرزندگی کا مکمل نظام اور کامل صحیفہ ہدایت تسلیم کرتے ہوتو اس کھلی ہوئی حقیقت پرتمہیں کیوں حیرت نہیں ہوتی کہ اگرموجودہ علوم وفنون ایسے ہی ضروری اور اہم اور قابل وقعت ہیں جیسا کہ آج ان کو سمجھا جارہا ہے تو آخریہ کتاب ناطق ان علوم سے کیوں یکسرگنگ ہے نماز،روزہ، حج، زکوٰۃ، قربانی، نکاح ،طلاق،مہر،رضاعت وغیرہ وغیرہ مسائل کی جزئیات تک اس میں موجود ہیں لیکن نہیں ہے تو کوئی فنی اصطلاح کوئی فلسفیانہ بحث شروع سے آخرتک کوئی ایک چیز بھی اسی نہیں ملتی جو آج کسی متمدن ملک کی کسی یونیورسٹی کی ڈگری دلانے میں معین ہوسکے۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن کا عالم تمام تر عالم روح عالم جان اور عالم علوی ہے عالم عنصر کی سفلیات کی طرف رخ کرنا اس کے لیے ایسا ہی باعث اہانت ہے جیسا کہ قانون شیخ میں جوتی گانٹھنے کی ترکیب کا ہونا اسے اس سے مطلق بحث نہیں کہ زمین ساکن ہے کہ متحرک مربع ہے یا گول ،زلزلہ کن اسباب سے آتا ہے بارش کیونکر ہوتی ہے اس قسم کے سارے مسائل جو آج علوم وفنون کا خمیربنے ہوئے ہیں قرآن پاک کے علم سے بدرجہاپست اور فردترہیں۔
عنصریات کا عالم انسان اور حیوان میں مشترک ہے انسان کی طرح حیوان بھی سنتا،دیکھتا،چلتا پھرتا،رنج وراحت محسوس کرتا اور اپنی ضروریات طبعی کے موافق سمجھتا بوجھتا ہے۔
انسان کو جو شے حیوان سے ممتاز کرنے والی ہے کہتے ہیں کہ وہ عقل ہے مگرفی الحقیقت انسان کو حیوان سے برترکرنے والی اس کی روح اور روحانیت ہے خیروشرپرقدرت نیکی اور بدی میں تمیز ،اخلاق کی پاکیزگی یاقرآن کی اصطلاح میں امانت یہی چیزیں ہیں کہ جن سے انسانی برتری کا ایوان آراستہ ہے ایمان اور عمل صالح یادوسرے معنی میں عدل اور نیکی ان ہی چیزوں کو انسان کے اشرف کہلانے میں دخل ہے قرآن پاک اسی ذمہ داری کو یاد دلانے اور اسی امانت کی یاد تازہ رکھنے اور اسی روحانی زندگی کو نشوونماکے لیے نازل ہوا ہے آنکھ کان،عقل وغیرہ سے کام لینے کا جو ذکر آیا ہے وہ اسی کے ضمن میں اور اسی کی ماتحتی میں،سیاست مدن،تدبیر منزل کے متعلق جو ہدایتیں واردہوئی ہیں وہ سب اسی روحانی زندگی کی بالیدگی کے لئے ورنہ ترا کھانا،پینا،سونا،جاگنا،آرام وراحت کرنا سب حیوانات میں مشترک ہے۔
مسلم زندگی کا نصب العین یہی روحانی زندگی ضمیری اور اخلاقی زندگی ہے یہی اصل ہے اور سب زندگیاں اس کے ماتحت اور اس کی محکوم ہیں یہ زندگی قابومیں آگئی تو ساری زندگیاں ازخود بلاطب وتلاش حاصل ہو جائیں گی۔
بڑادھوکہ ہمارے نوجوانوں کو! نوجوانوں کیا بلکہ بوڑھوں تک کو یہ ہورہا ہے کہ اگر اس معیاری زندگی کی طرف توجہ کی گئی تو معاشی زندگی ہاتھ سے نکل جائے گی اگر ہم قرآنی اور روحانی علوم میں مشغول ہوئے تو ہماری تجارت برباد ہوجائے گی بادشاہت ہمارے قبضہ میں نہ آسکے گی افلاس ہمیں گھیرلے گا۔
عزیزو! یہ دھوکہ ہے اور شیطانی کید قرآن پاک میں تکرار اور صراحت کے ساتھ وعدے موجود ہیں کہ روحانی علوم سیکھنے قرآنی علوم پرعمل کرنے دین ودنیا کے منافع قریب وبعید دونوں حاصل ہوتے ہیں جب زمین وآسمان کا پیداکرنے والا اپنا ہوجاتا ہے تو زمین کی کھیتیاں اور آسمان کی بارشیں زمین کی پیداواریں ، آسمان کی برکتیں،زمینی نعمتیں اور آسمانی رحمتیں سب اپنی کیوں نہ ہوجائیں گی۔
سید نا نوحؑ نے جہاز سازی اور جہازرانی کی تعلیم کون سے کالج میں پائی تھی لیکن جب عالمگیرطوفان نے دنیا کے تمام جہاز سازوں اور جہازرانوں میں کسی ایک کوبھی نہ چھوڑا توتم ہی بتائوکہ پناہ کس کو ملی اور کس کی کشتی میں ملی ابراہیمؑ خلیل نے حرارت کے قوانین کا کبھی بھی تجربہ نہ کیا تھا لیکن جو آگ دوسروں کو بھون اور جھلس رہی تھی اور خاکستر بنانے ہی کیلئے دھونکی گئی تھی۔وہ ابراہیمؑ کے حق میں بردوسلام کیونکر بن گئی موسیٰ علیہ السلام نے دریاکے اصول وقوانین کی تعلیم کس استاذ سے کس یونیورسٹی میں حاصل کی تھی لیکن نیل کی غرقابی سے اس وقت ماہرین فنون کو ان کے علوم وفنون ذرہ بھر بھی نہ بچا سکے اور موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی جماعت امن وسلامتی کے ساتھ کنارہ پرپہنچ گئی۔ایک ہی وقت میں دریا کے تلاطم نے ایک کو ڈبودیا دوسرے کو سلامتی سے کنارہ تک پہنچایا۔
سلیمان علیہ السلام نے ہوا میں اڑنے والے جہازوں کو بناناکس سے سیکھاتھا۔لیکن تم جانتے ہو کہ ان کا تخت رواں تمہارے طیاروں اور ہوائی جہازوں سے بڑھ کر تیز پرواز اور صبارفتار تھا۔مدینہ میں ٹیلیفون تھا نہ ٹیلی گراف اس کی کھمبانہ تاروں کا جال لیکن کون تھا جس نے ممبر پرکھڑے ہونے والے عمرؓ کی آواز کو سینکڑوںمیل ادھر ساریہؓ کے کان میں پہنچادیا تھا کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ مدنی خلیفہ کے پرچہ کونیل میں ڈال دینے کی وجہ سے پانی جاری ہوگیا تھا جب غلام کی روحانی قوت کا یہ حال تھا تو آقاکی روحانی قوت کا کون اندازہ کرسکتا ہے یہ سارے معجزات اور خوارق کیا ہیں اہل علم کی وہ طاقتیں اور وہ علم میں جو موجودہ فنون والوں کی عقلوں کو حیران اور عاجز کردیتی ہیں پس آج تم نے علم قرآن حاصل کرلیا تو سارے علوم کی روح بلا طلب از خودتمہارے ہاتھ میں ہوگی۔اور جہاں ایک طرف قلب وسکون واطمینان بے انتہاء اور غیر محدود الفاظ کے ذریعہ ناقابل بیان راحتوں کا میدان ہوگا وہاں دوسری طرف بفضل باری تعالیٰ بغیر ہوائی جہاز ہرجگہ پہنچ سکوگے اور اسی کے حکم کے ساتھ بغیر ٹیلی فون کے ہردورکی بات سن سکوگے اور بغیر دوربین کے صرف ظاہر ہی نہیں بلکہ حقیقت تک تم نظر آجائے گی اس اعلیٰ اور برتر علم کی موجودگی میں ہم کو ان علوم وفنون کی طرف توجہ کرنا جو آخرت میں نہیں بلکہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہی دنیا میں فرنگیوں کی زندگی،امریکہ اور لندن والوں کی حیات جسمانی ،قلبی سکون برباد کررہے ہیںمحرومی اور بدنصیبی کی ایسی مثال ہے کہ جس سے بڑھ کر کوئی دوسری مثال سمجھ میں بھی نہیں آتی تم تو یہ کہتے ہو کہ یورپ کی علمی ترقیوں کا انکارنا ممکن ہے اور بقول مورخ شبلی کے کہ یورپ کا آسمان علم کا آب حیات برسارہا ہے۔
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
میرے دوستو!تمہارے لئے اگر اس کا انکار ناممکن ہے تومیرے لئے اس کا اقرارناممکن ہے آخر کس چیز کانام تم نے علمی ترقیاں رکھا ہے کیا اس کا کہ اپنے بھائیوں کے قتل وہلاکت کے لئے تیز سے تیز اور مہلک سے مہلک آلات کی تیاری کے لئے بہترین دماغ اور قوتیں وقف کردیں اور اپنے تجربہ گاہوں میں بیٹھ کر زہریلی گیسیں اور زہریلے جراثیم ایجادکرتے رہیں پچاس پچاس میل کے مارکی توپیں ڈھالیں اور بارش کی طرح آگ برسانے والی مشین گنیں تیار کرتے رہیں ۔شہروں کو اُجاڑیں اور بستیوں کو تاراج کرڈالیں۔ کیمسٹری کے بڑے سے بڑے ماہرین فن کا نصب العین کیا اس کے سوا کجھ اور بھی ہے۔
اور کیا اس کانام علمی ترقی ہے کہ ڈاکٹر اور طبی درسگاہوں کے ماہرفن اساتذہ اپنی دولت اور اپنی ذہنی قوتیں صرف ان تجربوں پرصرف کردیں کہ بوڑھوں کو جوان کس طرح کیا جاتا ہے اور انسان کے بدن میں بندر کے غدود پیوست کرنیکا کیا طریقہ ہے؟ تاکہ انہیں عیاشی اور نفس پرستی بدکاری اور سیہ کاری کے لئے چندسال کی اور مہلت مل جاوئے نیتوں کا سوال نہیں واقعات کا سوال ہے اور کیا اسے علمی ترقی کہہ کر پکارتے ہوکہ مصوری کانام لیکر مردوں اور عورتوں کے برہنہ مجسمے ننگی تصویریں منظر عام پر لائی جائیں اور شہوانی قوتوں کے بھڑکنے سے پہلے خوب بھڑکایا جاوئے ۔
کیا پارکوں کی سیر،تھیٹروں اور سنیمائوں کے ناچ ورنگ کانام علمی ترقی رکھوگے؟کیا اس کانام علمی ترقی رکھوگے کہ کیا ماہرین فن معاشیات کے ذریعہ نظام سرمایہ داری کی گرفتیں تمام عالم پر مضبوط کرکے کمزور اور مفلس قوتوں کا گلا گھونٹ دیا جاوے۔
روزروزنئی بیماریوں کا پھیلنا،قسم قسم کی دبائوں کا پھوٹنا،ڈکیتی ،چوری،قتل وغارت وغیرہ جرائم کے نئے نئے طریقوں کا دریافت ہونا جعل سازی، دھوکہ دہی کا نئی نئی صورتوں کا ظاہر ہونا،خودکشی کے واقعات کا بڑھتے رہنا ، بے حیائی اور فحش کاری کاعام اور عالمگیرہوجانا،شراب،افیون،اور چرس کے ساتھ ساتھ نشہ کی نئی نئی چیزوں کا رواج ہوتے رہنا اس پرآپریشن کی مہذب تعبیرسے اولادکشی کے نئے نئے طریقے ایجاد کرنا،حاجتوں اور ضرورتوں کی تعدادمیں اضافہ ہوتے رہنا،مصنوعی آلات کا سہارادیکر فطری قوتوں کو تباہ وبرباد کرڈالنا،کیا یہی تمہاری علمی ترقیاں ہیں کیا انہیں کارناموں پرتمہاری…یونیورسٹیاں،تمہارے کالجوں،تمہاری لائبریریوں اور کتب خانوں ،تمہارے عجائب گھروں ،اور کارخانوں کونازہے کیا یہی تمہارے علمی کارنامے ہیں جن پرتمہارے مشرقی شاگرد اور مغربی اساتذہ گلے پھاڑپھاڑ کر لیکچر دیا کرتے اور سنایا کرتے ہیں؟
ہوامیں اڑنا اگر تمہارے لئے ترقیوں کا منتہائے کمال ہے توچیل اور کوّے بلکہ مکھی اور مچھر اس کمال کو پہلے حاصل کئے ہوئے ہیں دورکی چیز دیکھ لینا دورکی آوازسن لینا اور دورکی چیزسونگھ لینا۔اگر تمہارے علمی ترقیوں کے پُرفخر کارنامے ہیں تو گدھ اور عقاب ،کبوتر اور چڑیاں ،سانپ اور بچھو ،کھٹمل اور پسو ان علوم وفنون میں انتہائی ڈگریاں حاصل کرچکے ہیں ہم بھی ان کارناموں کو ترقی کی دلیل سمجھتے ہیں لیکن انسانیت کی نہیں حیوانیت کی یہ ترقی تہذیب وشائستگی کی نہیں،یہ ترقی ہے شقاوت ،بہیمت اور درندگی کی،یہ چیزیں حیوانوں کے لئے منتہائے کمال ہوسکتی ہیں۔آدمؑ کے بیٹوں اور اشرف المخلوقات کے لئے نہیں۔
اسلام نے علم اسے قراردیا ہے جو تمہاری اصلاح کرے تزکیہ نفس اور تصفیۂ باطن کاکام دے غریبوں کی محبت اور لاچاروں کی ہمدردی تم میں پیداکرلے اور انسانیت کی سطح سے اٹھاکر ملکوتیت کے درجہ تک پہنچادے نہ کہ اور الٹا حیوانیت کے گڑھے میں دھکیلے اور انسان کو درندہ بنادے۔
تم کہتے ہو کہ اب قرطبہ نہیں بغدادنہیں اور بیت الحکمت کے علوم وفنون نہیں اگر مسلمان آکسفورڈ اور کمیرج کے گریجویٹ نہ بنے تو آخر اپنا پیٹ کہاں سے پالیں ۔یہ وہ فرنگت سے مرعوب ذہنیت ہے جو دماغوں پر مسلط ہوکر ادراک اور احساس روح کومردہ بنائے جاری ہے پیٹ کا پالنا ہر گز آکسفورڈ اور کیمرج پرموقوف نہیں ۔سات آٹھ کروڑمسلمانوں میں لاکھ نہ سہی ،ہزارکے ہزار سہی کتنے سو مسلمانو برلن اور امریکہ کی یونیورسٹیوں کی بدولت روٹی کھارہے ہیں سرکاری ملازمت تو اس وقت بھی قوم کا عام ذریعہ معاشرت نہیں ہوسکتی جبکہ اپنی قومی حکمت ہو چہ جائیکہ بیرونی حکومت کی ماتحتی میں آخر ساری قوم تجارت کیوں نہیں کرسکتی ہندوپاک ایک زراعتی ملک ہے یہاں تو عام پیشہ زراعت اور کاشتکاری ہونا چاہئے کاشتکاری کے بعد مختلف تجارتیں اور اس کے بعد اور مختلف جائز پیشے ہیں۔
پیٹ کا سوال جسکی خاطر یہ سب کچھ کیا جارہا ہے ہر حرام کو حلال،ہرناجائز کو جائز،ہرگناہ کو ثواب، بیاج اور سودکو تجارتی منافع سمجھتے ہیں بجائے اس کے حل ہونے کے روزکے روز دشوارہی ہوتا جارہا ہے مسئلہ بے روزگاری جوفرانس اور انگلستان کا خون خشک کئے دیتا ہے اسی دورترقی کا پیداوارہے یا ہمارے عہد ترقی میں بھی تھا سانس قائم رکھنے تک کا غلہ اور ستر پوشی تک کا کپڑہ تالیس اور بلوے یازورآزمائیاں اور حقوق طلبیاں کیوں کہ جارہی ہیں ،ہر قسم کے جرائم کم ہوتے جاتے ہیں کہ زیادہ نئے امراض اور مہلک بیماریاں نکلتی ہی چلی آتی ہیں یا پرانے امراض معدوم ہی ہوتے جارہے ہیں ۔
بیشک اسلام ایسی ترقی کا دشمن ہے جس کی بنیاد ظلم پرہووہ ترقی امن کی چاہتا ہے فساد کی نہیں انصاف کی ترقی کا وہ خواہاں ہے ،ظلم اورعدوان کی نہیں انسان کی بہبود کا وہ خواہش مند ہے درندگی اور بیعت کانہیں اور اس معنی پر ترقی اس وقت تک محال ہے جب تک کالجوں اور یونیورسٹیوں علوم وفنون کی اہمیت دماغوں اور دلوں پرنماز،روزہ،زکوٰۃ،تقویٰ اور طہارت سے زیادہ مسلط ہے۔
وہ زمانہ تمہارے سامنے ہے کہ جس وقت غار حراسے آفتاب ہدایت طلوع ہوا ہے اور ساری دنیا کے عالموں سے بڑھ کر سرورکونین حضور محمد صلی اللہ علیہ وسلم علم الٰہی کا صحیفہ کامل لیکر تشریف لائے ہیں کیا اس وقت دنیا علوم وفنون سے ناآشنا تھی۔مصر کی ہیئت ،یونان کا فلسفہ،چین کی صنعت،ہندوستان کی ریاضی وبندسہ، ہیئت، نجوم وطب روما کا قانون،ایران کاتمدن،سب ہی چیزیں ،دنیا میں پھیل چکی تھیں ، ارسطو،افلاطون،بقراط اور جالینوس سب اپنے اپنے کمال کی نمائش تماشگاہ عالم میں کرچکے تھے۔پھر حضور ﷺ دنیا میں تشریف لائے تو آپ نے اس سارے دفتر بے پایا ں کی طرف کچھ بھی توجہ فرمائی ؟یہ چین کی صنعت قابل کافن تعمیر خود سیکھا،کسی کو اس کی طرف رغبت دلائی۔اگر جواب نفی میں ہے اور یقینا نفی میں ہے تو پھر موجودہ علوم وفنون کو اتنا اہم کیوں سمجھا جارہا ہے ان چیزوں کی کسی درجہ میں ضرورت ہے۔نے ابھی ان کے متعلق ہدایات دی ہیں مگر اس لئے نہیں کہ انسان انہی کارہورہے اور خداسے اپنا قطع تعلق کرلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کا منشایہ ہے کہ سب کا رشتہ دوسری کتابوں سے توڑکرآسمانی کتاب سے جوڑلے دل کے سیاہ نقوش کو مٹائے اور تجلی گاہ حقیقی کا پردہ دل کے اندرکھول لے مٹنے والے تمدن اور فناہونے والے علوم کا نہیں،باقی رہنے والی حکمت کادرس دے مظاہر قدرت سے نہیں فاطرکائنات سے دل کو اٹکائے ۔دنیا میں زندہ رہے تو اس کا بندہ بن کر ،آخرت میں جائے تو سرخرد ہوکر ، سلطنت کی باگ ہاتھ میں لے توظالم سے مظلوم کا حق دلوانے کے لئے اور خداکے ملک میں امن قائم کرنے کیلئے تجارت کرے تو اس کے بندوں کی ضروریات فراہم کرنے کے واسطے ،کھیت سینچے اور باغ لگائے تو خداکی مخلوق کو روزی پہنچانے کیلئے ،سپاہی اور سپہ سالار بنے تو خداکا کلمہ بلند کرنے کیلئے علوم سیکھے تو خداکی مخلوق کیلئے ، ہدایت کے لئے اور انہیں مشاغل میں صبح وشام کرتا ہو اپنے خالق سے مل جائے اور یہ اس وقت تک محال ہے جب تک علوم وفنون کی چاٹ لگی ہوئی ہے ۔برلن اور پیرس کے ساتھ دل اٹکاہواہے اور فرعون کی حکومت کا بھول دل اور دماغ پر مسلط ہے۔ (ختم شد)

معززقارئین!
یہ مضمون مظاہرعلوم کے ایک جلیل القدرسابق استاذحضرت مولانامحمدزکریاقدوسی گنگوہی علیہ الرحمۃ کاتحریرفرمودہ ہے۔بہت جلدمیں ان ہی صفحات میں مولاناموصوف کے مختصرحالات لے کرحاضرہونے کی کی کوشش کروں گا۔تب تک کے لئے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
 
Top