حضرت مولانااکبرعلی سہارنپوری

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت مولانااکبرعلی سہارنپوری
ناصرالدین مظاہری​
عالم جلیل حضرت مولانا شیخ محمد اکبرعلیؒ بن شیخ احسان علی سہارنپوریؒ نامورعالم تھے،انہوں نے حفظ قرآن کے بعد ۱۳۴۲ھ میںمظاہر علوم سہارنپور کے نصاب ونظام کے مطابق حصول تعلیم کابابرکت سلسلہ شروع کیا،ابتدائی کتب کے علاوہ متوسطات تک کی کتابیں حضرت مولانا مفتی ضیاء احمد گنگوہیؒ ،مولانا عبدالمجیدمہیسرویؒ،مولاناسیدظہورالحق دیوبندیؒ،مولانا محمد زکریاقدوسیؒ، مولاناعبدا لشکور کاملپوریؒ،مولانا صدیق احمد کاشمیریؒ وغیرہ سے پڑھیں،حضرت مولانا مفتی سعید احمد اجراڑویؒ ؒسے بھی شرف تلمذحاصل کیا۔
۱۳۴۸ھ میں مظاہرعلوم سے فارغ ہوکرمادرعلمی میں معین مدرس مقررکئے گئے ،آپ نے عربی اورفارسی کی ابتدائی کتابوں کا درس دیا پھرمدرس اول فارسی منتخب ہوئے ،آپ نے فارسی کے علاوہ بعض عربی کتب بھی پڑھائیں اوربیس سال مظاہرعلوم میں تدریسی فرائض انجام دئے،۱۳۷۰ھ میں عربی مدرس مقررہوئے اورمختلف کتابوں کادرس دیا، چنانچہ جلالین ،ہدایہ،مقامات حریری ،سبعہ معلقہ ،فرائض سجاوندی،وغیرہ زیر درس رہیں، آپ نے الہٰ آباد بورڈ اورپنجاب بورڈمیں بھی بعض امتحانات دیکرامتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل کی۔
آپ نے ایک سال اخبار’’زمیندارلاہور‘‘میں بھی کام کیا جونامور صحافی ظفرعلی خاںؒ کی زیرادارات شائع ہوتاتھا،آپ اس اخبارکے معاون مدیررہے،تقریباًتیس سال تک وعظ وتدریس کے ذریعہ مظاہرعلوم میںخدمات انجام دیکر ۱۳۷۷ھ میںدارالعلوم کراچی پاکستان تشریف لے گئے،وہاں حدیث وغیرہ کی اہم کتابوں کادرس دیا اور طلبہ کی ایک کثیر تعداد نے آپ سے استفادہ کیا،آپنے پوری زندگی دین کی خدمت میں صرف فرمائی،۱۳۹۸ھ میںرحلت ہوئی۔
حضرت اقدس مولانااطہرحسینؒ نے مولانا موصوف سے بحث اسم ،فوائد ضیائیہ ،مختصرالمعانی ،ہدایہ اولین، مقامات حریری،سبعہ معلقات،اورفرائض سجاوندی پڑھی ہیں۔
بعض مدارس دینیہ میں بغرض امتحان مولانا موصوفؒ کے ساتھ حضرت مولانااطہرحسینؒبھی تشریف لے گئے۔
معروف عالم دین حضرت مولانامفتی محمدتقی عثمانی مدظلہ نے اپنے ایک مضمون میں ان کی دیگرخوبیوں اور خصوصیتوں کے علاوہ ان کی تدریسی مہارت کابایں الفاظ تذکرہ کیاہے۔
’’ان کا اندازتدریس اس قدردلنشین ہوتاتھاکہ مشکل سے مشکل بحث پانی ہوجاتی تھی‘‘
اسی طرح مولاناموصوف کوتفسیرسے کس قدرمناسبت تھی اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
’’تفسیرسے مولاناکوخاص شغف تھااور ان کاجلالین کا درس اس قدر سلیس،رواں،شگفتہ اور مفید ہوتا تھاکہ قرآن کریم کے مضامین بڑی خوبی کے ساتھ ذہن نشین ہوتے جاتے تھے‘‘۔
آپ کے علمی کارناموں میں معروف عالم وفاضل،محقق ومناظر،داعی اورمصلح حضرت مولانارحمت اللہ کیرانویؒ (بانی مدرسہ صولتیہ مکۃ المکرمہ)کی معرکۃ الآراء کتاب’’اظہارالحق‘‘کاعالمانہ ترجمہ اورمحققانہ تشریح ہے ، جس کو آپ نے عربی سے اردومیں منتقل کرکے اردوداں طبقہ کے لئے آسانیاں پیدافرمادی ہیں۔
مفتی محمدتقی عثمانی لکھتے ہیں کہ
’’اظہارالحق‘‘کااردوترجمہ جو’’بائبل سے قرآن تک‘‘کے نام سے شائع ہواہے،مولاناکی گرانقدریادگارہے، حضرت مولانارحمت اللہ کیرانویؒکی یہ کتاب رد عیسائیت میں بے نظیرکتاب ہے،لیکن دنیاکی پانچ زبانوں میں ترجمہ ہونے کے باوجوداردوکادامن اس قیمتی سرمائے سے خالی تھا،حضرت مولانااکبرعلی صاحبؒنے اس کتاب کا اردو ترجمہ شروع کیااورچھ ماہ کی مسلسل محنت کے بعداسے پایۂ تکمیل تک پہنچادیا،مولاناکاکمال یہ تھاکہ انہوں نے یہ ترجمہ کسی مددگارکتاب کے بغیرمکمل فرمایاحدیہ ہے کہ کتب مقدسہ کی عبارتوں کا ترجمہ کرتے وقت بائبل کے موجودہ اردو ترجمہ کو بھی سامنے نہیں رکھااور اسکے باوجودبائبل کی دقیق ترین عبارتوں کاترجمہ اتناصحیح اوربرمحل کیاکہ حیرت ہوتی ہے‘‘
حضرت مولانااکبرعلیؒ کوخانوادۂ سعیدی سے بے انتہامحبت تھی ،یہاں رہتے ہوئے بھی اوریہاں سے جانے کے بعدکبھی بھی فراموش نہیں فرمایا۔
مظاہر علوم میں دوران قیام حضرت شیخ الادب کے برادراکبرحضرت مولانامفتی مظفرحسین ؒؒ آپ ؒکی خصوصی توجہات اورعنایات سے مستفید رہے آپ ؒکی ضرورت کی چیزیں بازاراوردوکانوں سے خرید کر پہنچاتے رہے ۔
اسی طرح حج بیت اللہ کیلئے جب حضرت فقیہ الاسلام ؒ تشریف لے گئے تو وہاں آپ سے ملاقات ہوگئی ،آپ کو سینہ سے لگالیا ،پرانی یادیں تازہ ہوگئیں اوربہت بہت دعائیں دیتے رہے ۔
دارالعلوم کراچی کی مسند حدیث پر جلوہ افروز ہونے کے بعد بڑھنے والی مصروفیات کے باوجود اپنی مادرعلمی مظاہر علوم اوریہاں کے اکابر وشیوخ اورتلامذہ ومحبین سے مراسلت اورمکاتبت جاری رکھی مدرسہ کے احوال وکیفیات معلوم کرتے رہتے ،چنانچہ حضرت مولانااطہرحسینؒکے والد ماجد حضرت مفتی سعید احمد صاحبؒ کے سانحہ ارتحال کی اطلاع جب آپ کو ملی تو بہت رنجیدہ ہوئے اورفوری طورپراپنے قلبی رنج وتاثر اورمفتی صاحبؒ کی رحلت سے پہونچنے والے نقصان عظیم کو اپنے تعزیتی مکتوب میں یوں ظاہر فرمایا۔
’’از دارالعلوم مانک واڑا کراچی ،۲۰؍صفر ۷۷ھ؁ یوم یکشنبہ
محترمان ومکرمان مولانا مظفر حسین صاحب واطہر حسین صاحبان زید مجدہما
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
طالب خیر بخیر اوردعا گوودعاجو ہے ۔طلبہ کے خطوط سے پھر بعض طلبہ کی زبانی جناب مفتی صاحب مرحوم کا سانحہ ٔوفات مسموع معلوم ہوکر اللہ جانتا ہے سخت رنج اورقلب کو صدمہ پہونچا ۔انا للّٰہ واِنا الیہ راجعون ۔حق تعالیٰ شانہٗ مرحوم کی مغفرت اوران کو درجات عالیہ نصیب فرمائیں علمی دنیا کو بالعموم اورمظاہر علوم کوبالخصوص کوانکی مفارقت سے ناقابل تلافی نقصان پہنچا حق تعالیٰ شانہ ٗ آپ صاحبوں کو ان کا نعم البدل بنائیںاور آپ کو صبر جمیل اوروالدہ محتر مہ کو سکون واستقلال عطافرمائیں میری جانب سے والدہ محترمہ کی خدمت میں سلام مسنون کے بعد اظہار افسوس ورنج کے ساتھ فرمادیں کہ احقر دعائے خیر بھی کرتا ہے مجھے امید ہے کہ آپ حضرات بھی اس خادم کے حق میںاگر کبھی یاد آجائے دعائے خیر سے دریغ نہ فرمائیں۔فقط والسلام
اکبر علی
چندممتا زفیض یافتگان
مولاناؒ کے فیض یافتگان کی تعدادبھی بہت زیادہ ہے اور اس فہرست میں بعض حضرات تووہ ہیں جنہوں نے اپنے دورمیمون میں اسلام کی لازوال خدمات انجام دی ہیں ،چندبرگزیدہ حضرات بطورنمونہ درج ذیل ہیں۔
٭ رئیس التبلیغ حضرت مولانامحمدیوسف صاحب کاندھلویؒ(مرکزتبلیغ نظام الدین دہلی)
٭ محی السنۃ حضرت مولاناابرارالحق صاحب ہردوئیؒ(اشرف المدارس ہردوئی)
٭ فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسین ؒناظم مظاہرعلوم وقف سہارنپور
٭ حضرت مولاناانعام الحسن کاندھلویؒ(مرکزتبلیغ نظام الدین دہلی)
٭ حضرت مولاناعبیداللہ صاحب بلیاویؒ(مرکزتبلیغ نظام الدین دہلی)
٭ حضرت مولاناسعیداحمدخان صاحب امیرجماعت تبلیغ حجاز
٭ حضرت مولانامفتی محمدرفیع عثمانی مدظلہ مہتمم دارالعلوم کراچی(پاکستان)
٭ حضرت مولانامفتی محمدتقی عثمانی مدظلہ دارالعلوم کراچی(پاکستان)
٭ حضرت مولانانسیم احمدصاحب غازی مظاہری،شیخ الحدیث جامع الہدیٰ مرادآباد
٭ حضرت مولاناعبدالرشیدافغانی ناظم جمعیۃ علماانگلستان(لندن)
٭ حضرت مولانامفتی بشیراحمدصاحب قاضی ومفتی تحصیل باغ مقبوضہ کشمیر(پاکستان)​
 
Last edited by a moderator:
Top