حضرت مولانامحمدزکریاقدوسی گنگوہی:عظیم خطیب۔بے باک صاحب قلم
ناصرالدین مظاہری
ناصرالدین مظاہری
حضرت مولانا محمدزکریاقدوسی گنگوہیؒ نیک طینت علماء اورمظاہرعلوم کے جلیل القدراساتذہ میں سے تھے،آپؒنے حضرت مولاناخلیل احمدمحدث سہارنپوری اوردیگرکباراساتذہ ٔجامعہ سے علم حاصل کیا۔۱۳۴۰ھ میں یہاںمدرس منتخب ہوئے،مختلف علوم وفنون کی کتابوں کا درس دیا،آپ کادرس طلبہ میں نہایت مقبول تھا،آپؒاپنے سبق میں دقیق علمی مباحث اوراہم پیچیدہ مسائل کی گتھیاںاپنی فصیح وبلیغ زبان میںایسے انداز میں سلجھاتے تھے،کہ طلبہ ان کی پرنوربصیرت افروزعلمی تقریرکونہایت آسانی کے ساتھ سمجھ لیتے تھے،آپ کی تقریرنہایت مسلسل اورمربوط ہوتی تھی۔
آپؒاپنی بات سمجھانے اور طلبہ کے اذہان وافکارمیں کماحقہ بٹھانے کی مہارت تامہ رکھتے تھے،وعظ وتدریس،اورتذکیرمیں آپ کوید طولیٰ حاصل تھا،بالخصوص سیرت نبوی کے موضوع پروعظ وتقریرمیں حذاقت کاملہ کے مالک تھے ۔
حضرت عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے آپ کی سیرت کے موضوع پرتقریرسننے کے بعدمتعجب ہوکرفرمایا تھاکہ
’’ سیرت نبوی کے موضوع پرمیںخوداچھی تقریرکرلیتاہوں،اوراہم علماء سے بھی اس موضوع پر مختلف تقریریںسنی ہیں لیکن سیرت نبوی کے موضوع پرمیں نے حضرت مولانا محمد زکریا قدوسی گنگوہیؒ کی تقریرسنی تو حیرت زدہ رہ گیا اس لئے کہ آپ کی تقریرنہایت ہی عجیب وغریب ہے‘‘۔
حضرت مولانامرحوم ایک بڑے عالم دین ،فقہ،تفسیر،اصول فقہ،عربی ادب اورہندی ادب میں درک رکھتے تھے اورعربی فارسی اورہندی کے کثیراشعار آپ کے ذہن ثاقب میں محفوظ تھے،آپ اپنے مواعظ وتقاریر میں نعتیہ اشعارکچھ ایسے رقت آمیزاندازاورفصیح لہجہ میںپڑھتے تھے کہ سننے والے کے قلوب اوران کی روح متاثر ہوئے بغیرنہیںرہتی تھی۔
آپ نے مظاہرعلوم میں درس وتدریس اوروعظ سے تقریباً ۴۰؍سال خدمت کی ،مختلف اجلاس وپروگرام میں بصیرت افروزخطاب فرماتے تھے ،اسی طرح جامعہ مظاہرعلوم میں مختلف مواقع پر کبارعلماء کی موجود گی میں بیان فرماتے اورکبھی کسی کی وجاہت سے مرعوب نہیں ہوتے تھے۔
آپ کاوعظ عوام وخواص کے درمیان نہایت مقبول تھا، دوبارحج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی، پہلی بار ۱۳۴۴ھ میں اور دوسری باراپنی زندگی کے اخیرایام میں اپنے مخصوص شاگرد حضرت مولانا مفتی محمودحسن گنگوہیؒ کے ساتھ ۱۳۶۳ھ میںشرف حج سے بہرہ ورہوئے۔
آپؒکو بحث ومباحثہ اورمناظرہ میں بھی خصوصی مہارت حاصل تھی،چنانچہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سیدعبداللطیف پورقاضوی ؒکے ہمراہ مرشدآبادمیں اہل بدعت سے مناظرہ کیلئے حضرت مولاناقدوسی بھی تشریف لے گئے تھے۔
مولانا مرحوم اپنی مستقل رائے رکھتے تھے اور کسی کی وجاہت سے اس کی تقلیدومتابعت پربالکل آمادہ نہ ہوتے تھے،بعض لوگوں نے آپ پرمودودیت کاالزام لگایالیکن سچائی یہ ہے کہ وہ صحیح الفکرو العقیدہ تھے،اپنے اسلاف کے نقش قدم پرچلتے تھے اور اس سے سرموانحراف نہ کرتے تھے،البتہ حضرت مولانا مرحوم مودودیت کے بعض ایسے اصولوں سے اتفاق کرتے تھے جس سے اتفاق ہر صحیح العقیدہ مسلمان کوکرناہی چاہئے،مثلاً اسلامی حکومت کاقیام،شرعی قوانین کانفاذ،لیکن حضرت مولانامرحوم مودودیت کے باطل افکار اورفاسد نظریات کے قطعاً قائل اورمعترف نہ تھے،جیساکہ بعض لوگوں نے گمان کیاہے۔
حضرت مولانا محمدزکریاصاحب قدوسی ؒمال کے سلسلہ میںبہت محتاط تھے ،متقی ، پاکباز،نیک طینت، متدین،متصلب ،نیکوکار،طلبہ کیلئے نہایت مشفق اوران کے ساتھ رعایت کرنے والے،طلبہ کوان کی غلطیوں پر متنبہ کرنے والے،شفیق وغمگسار یہاں تک کہ ان کے آرام وراحت کیلئے اپنی گھریلو ضروریات کوبھلادیتے تھے۔
آپؒاپنی بات سمجھانے اور طلبہ کے اذہان وافکارمیں کماحقہ بٹھانے کی مہارت تامہ رکھتے تھے،وعظ وتدریس،اورتذکیرمیں آپ کوید طولیٰ حاصل تھا،بالخصوص سیرت نبوی کے موضوع پروعظ وتقریرمیں حذاقت کاملہ کے مالک تھے ۔
حضرت عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے آپ کی سیرت کے موضوع پرتقریرسننے کے بعدمتعجب ہوکرفرمایا تھاکہ
’’ سیرت نبوی کے موضوع پرمیںخوداچھی تقریرکرلیتاہوں،اوراہم علماء سے بھی اس موضوع پر مختلف تقریریںسنی ہیں لیکن سیرت نبوی کے موضوع پرمیں نے حضرت مولانا محمد زکریا قدوسی گنگوہیؒ کی تقریرسنی تو حیرت زدہ رہ گیا اس لئے کہ آپ کی تقریرنہایت ہی عجیب وغریب ہے‘‘۔
حضرت مولانامرحوم ایک بڑے عالم دین ،فقہ،تفسیر،اصول فقہ،عربی ادب اورہندی ادب میں درک رکھتے تھے اورعربی فارسی اورہندی کے کثیراشعار آپ کے ذہن ثاقب میں محفوظ تھے،آپ اپنے مواعظ وتقاریر میں نعتیہ اشعارکچھ ایسے رقت آمیزاندازاورفصیح لہجہ میںپڑھتے تھے کہ سننے والے کے قلوب اوران کی روح متاثر ہوئے بغیرنہیںرہتی تھی۔
آپ نے مظاہرعلوم میں درس وتدریس اوروعظ سے تقریباً ۴۰؍سال خدمت کی ،مختلف اجلاس وپروگرام میں بصیرت افروزخطاب فرماتے تھے ،اسی طرح جامعہ مظاہرعلوم میں مختلف مواقع پر کبارعلماء کی موجود گی میں بیان فرماتے اورکبھی کسی کی وجاہت سے مرعوب نہیں ہوتے تھے۔
آپ کاوعظ عوام وخواص کے درمیان نہایت مقبول تھا، دوبارحج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی، پہلی بار ۱۳۴۴ھ میں اور دوسری باراپنی زندگی کے اخیرایام میں اپنے مخصوص شاگرد حضرت مولانا مفتی محمودحسن گنگوہیؒ کے ساتھ ۱۳۶۳ھ میںشرف حج سے بہرہ ورہوئے۔
آپؒکو بحث ومباحثہ اورمناظرہ میں بھی خصوصی مہارت حاصل تھی،چنانچہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سیدعبداللطیف پورقاضوی ؒکے ہمراہ مرشدآبادمیں اہل بدعت سے مناظرہ کیلئے حضرت مولاناقدوسی بھی تشریف لے گئے تھے۔
مولانا مرحوم اپنی مستقل رائے رکھتے تھے اور کسی کی وجاہت سے اس کی تقلیدومتابعت پربالکل آمادہ نہ ہوتے تھے،بعض لوگوں نے آپ پرمودودیت کاالزام لگایالیکن سچائی یہ ہے کہ وہ صحیح الفکرو العقیدہ تھے،اپنے اسلاف کے نقش قدم پرچلتے تھے اور اس سے سرموانحراف نہ کرتے تھے،البتہ حضرت مولانا مرحوم مودودیت کے بعض ایسے اصولوں سے اتفاق کرتے تھے جس سے اتفاق ہر صحیح العقیدہ مسلمان کوکرناہی چاہئے،مثلاً اسلامی حکومت کاقیام،شرعی قوانین کانفاذ،لیکن حضرت مولانامرحوم مودودیت کے باطل افکار اورفاسد نظریات کے قطعاً قائل اورمعترف نہ تھے،جیساکہ بعض لوگوں نے گمان کیاہے۔
حضرت مولانا محمدزکریاصاحب قدوسی ؒمال کے سلسلہ میںبہت محتاط تھے ،متقی ، پاکباز،نیک طینت، متدین،متصلب ،نیکوکار،طلبہ کیلئے نہایت مشفق اوران کے ساتھ رعایت کرنے والے،طلبہ کوان کی غلطیوں پر متنبہ کرنے والے،شفیق وغمگسار یہاں تک کہ ان کے آرام وراحت کیلئے اپنی گھریلو ضروریات کوبھلادیتے تھے۔
Last edited by a moderator: