مدارس کے دم توڑتے ہوئے رشتے
اور
تبا ہ کن خاموشی
مولانامیرزاہد مکھیالوی قاسمی
ایک دفعہ عشا ء کی نماز اورمعمولات سے فارغ ہوکر میں اپنی قیام گاہ میں مطالعہ کرنے لگا ابھی چند سطریںہی دیکھ پایا تھا کہ جامعہ فلاح دارین بلاسپور کی چہاردیواری کے احاطہ میں کچھ شوروغل سنا ،خیال آیا کہ پونے دس بجے ہیں ،شعبۂ حفظ کے بچوںکی چھٹی ہوئی ہوگی ،ان کی طالب علمانہ شرارتوںکی آوا ز ہے لیکن جب شورشراباکچھ زیادہ ہی محسوس ہونے لگا تو جلدی سے میں کمرہ سے باہر نکلا ،اچانک وہم وگمان سے بالا ترایسا دلدوزمنظر دیکھنے کو ملا کہ جسم پر لرزہ طاری ہوگیا،آنکھیںنم ہوگئیں،ایک طالب علم کے بائیں پیر سے خون تیزی سے بہہ رہا تھا ،کئی ساتھی اس بچہ کو تھامے ہوئے دلاسہ دے رہے تھے ،گھٹنے سے نیچے پنڈلی میں اتنا گہرا زخم لگا کہ باہرنکلاہوا گوشت اندر کرکے عارضی طورپر پٹی باندھ کر خون کی رو ک تھام کی گئی ،قضاء حاجت کرکے وہ طالب علم بیت الخلاء سے باہر نکلا تو پہلے سے موجود کالے کپڑے پہنے ہوئے دو بد معاشوںنے اس معصوم بچہ کو اپنی چنگل میں لے لیا اورباؤنڈری کی دیوارکی طرف لے جانے لگے تو چھوٹی عمر کے دو بچوںنے جو اپنی ضرورت کے لئے اد ھرآرہے تھے یہ منظر دیکھ کر شورمچایاتو ان ظالموںنے اس بچہ کے ساتھ وحشیانہ سلوک کرتے ہوئے کسی دھاردارچیزسے حملہ کرکے فرار ہوگئے ۔
اس واقعہ سے مدرسہ کے بچو ں میں خوف وہراس اوردہشت کاماحول پیدا ہونا ایک فطری بات تھی اورجن شیطان صفت درندوںنے اس معصوم بچہ کواپنے ظلم وستم کانشانہ بنایا ،ان کا مقصد بھی یہی محسوس کیا گیا کہ ان کاٹارگیٹ کوئی خاص بچہ نہیں تھا بلکہ جو بھی طالب علم انہیں پھنس جائے اسے نقصان پہنچاکر تمام مدرسہ والوںکو متوحش بناناتھا ،صبح فجر بعد مدرسہ کے مہتمم جناب مولانامحمداسمٰعیل صادق صاحب نے مسجد میں تمام طلبہ سے قرآن وحدیث کی روشنی میں مبسوط خطاب فرمایا ،حضرا ت انبیاء کرام اورصحابہ وبزرگان دین کے مختلف واقعات سناکربچوںکاحوصلہ اورہمت افزائی کی اورانہیں اپنے تعلیمی مشن کو مضبوطی کے ساتھ جاری رکھنے کی تلقین کی نیز مولانا موصوف نے طلبہ کو فوری طورپرحفاظتی انتظامی اورزیاد ہ کرانے کا اعلان کیا۔محترم موصوف کی اس تقریرسے طلبہ کے ذہنوںپر بہت مثبت اثرات الحمد للہ مرتب ہوئے ۔
بہرحال واقعہ کی نزاکت کو ملحوظ رکھتے ہوئے مدرسہ کے صدر مہتمم جناب مولانا ممشاد علی قاسمی سے سنجیدگی کے ساتھ سرکاری سطح پربھی فوری اقدامات کرائے ،واقعہ کی ایف آئی آردرج کرائی اورمدرسہ میں بچوںکے مزید حفاظتی کی کارروائی بھی شروع کردی گئی ،اگلے روز صبح مقامی ذمہ دارلوگوںکی ایک میٹنگ بھی مدرسہ میںبلائی گئی جس میں سبھی مذہب وبرادری کے لوگ شریک ہوئے ،ایسے پر نزاکت موقع پر بستی کے ذمہ دار حضرات نے مدرسہ کے ساتھ اپنی ہمدردی وخیرخواہی اورمخلصانہ محبت وحمایت کا اظہار کیا اورپھر گاہ بگاہ عوام الناس کی آمد اورحادثہ کے بارے میں پوچھ تاچھ کا سلسلہ لگارہا ۔گاؤں کے بعض نوجوان ساتھیوںنے مدرسہ میں پہرہ دینے کی غرض سے رات مدرسہ میں گذارنے کی پیش کش کی ،مقامی اوراطراف کے بڑی عمر کے لوگوں نے بھی اپنے اپنے اندازسے اپنی محبت وہمدردی کایقین دلایااورمدرسہ کے وحشت زدہ بچوںکودلاسہ دیا ۔
جس رات یہ حادثہ ہوا اسی وقت سے مدرسہ میں پولیس کے آنے جانے کا سلسلہ لگارہا اورانہو ں نے بستی کے محلوں میں تحقیق وتفتیش کاکام جاری رکھا ،تھانہ منڈی مظفرنگر سے کوتوال صاحب بھی جائے واردات کا معائنہ کرنے کے لئے مدرسہ آئے ،ایک گھنٹہ قیام کے دوران انہوں نے مدرسہ اورکالج کی تمام بلڈنگوںکامعائنہ کیا ۔ دارالحدیث کے ہال میں جمع تمام طلبہ اساتذہ اورمدرسہ کے ملازمین کے سامنے ہمت افزاء باتیںاوربچوں کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے یقین دہانی کرائی ……الحمد للہ تقریباً سو طلبہ میں سے کوئی ایک طالب علم بھی نہیں گیا اورنہ کسی بچہ کے سرپرست کی طرف سے کوئی ایسی اطلاع اورفرمائش آئی کہ وہ بچوںکو لے جانا چاہتے ہیں ،اس طرح اللہ رب العزت نے حاسدین کی سوچی سمجھی سازش کو ناکام بنادیا کہ طلبہ متوحش ہوکر منتشرہوجائیں گے مدرسہ کا شیرازہ بکھرجائے گا اورعلاقہ میں فرقہ وارانہ فساد برپاہوجائے گا …لیکن بڑے کرب کے ساتھ لکھنا پڑرہا ہے کہ اس حادثہ کاایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارے مدرسہ کے بچہ کی قسمت میں یہ سانحہ مقدر تھا جو پیش آیا کسی بھی مدرسہ کے طالب علم کے ساتھ یہ واقعہ ہوسکتاتھاایسے موقع پر سبھی اہل مدارس کا مشترکہ طورپر اخلاقی فریضہ بنتا تھا کہ وہ یکجہتی اورباہمی تعاون وہمدردی کا ثبوت دیں،ہمیں تعجب اور افسوس ہورہا ہے کہ ایک دو مدرسوں کے علاوہ کسی بھی مدرسہ کا اخلاقی تعاون ہمیں نہ مل سکا ،اہل علم کی جماعت میں سے بھی ایک دو کے علاوہ بالواسطہ یا بلا واسطہ اظہار ہمدردی اورہمت افزائی کی ہو اوراپنی اخلاقی حمایت کااظہار کیا ہوجب کہ کئی روز تک مورخہ ۱۷؍۱۸؍فروری کے اردو ہندی اخبارات میں یہ واقعہ سرخیوںمیں رہا حالانکہ بعض ایسے لوگوں کے فون آئے جو مدرسوں سے وابستہ نہیں بلکہ ان کا شمارخالص دنیادارطبقہ میں ہوتا ہے ۔
ہمیں صرف ایک انسانی واخلاقی ہمدردی کی ضرورت تھی اوریہ ضرورت ہربڑے چھوٹے ادارے کو ہوی ہے لیکن افسوس کہ ہمدردی کے دو لفظ بھی دینداروں اورارباب مدارس کے سننے کو نہ مل سکے ۔
آخران احادیث شریفہ کا کیا مفہوم ومقصدہے جن میں تعزیت کے فضائل وترغیبات ذکر کی گئی ہیں یا صرف وہ پڑھنے پڑھانے تک محدود ہیں۔
اس واقعہ سے یہ تشویشناک خیال بھی ہمارے ذہنوں میں آرہا ہے کہ اہل مدارس کی یہ قبرستان جیسی خاموشی کہیں ان مدارس کے زوال اورتباہی کا پیش خیمہ تو نہیں ؟ ؎
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
اور
تبا ہ کن خاموشی
مولانامیرزاہد مکھیالوی قاسمی
ایک دفعہ عشا ء کی نماز اورمعمولات سے فارغ ہوکر میں اپنی قیام گاہ میں مطالعہ کرنے لگا ابھی چند سطریںہی دیکھ پایا تھا کہ جامعہ فلاح دارین بلاسپور کی چہاردیواری کے احاطہ میں کچھ شوروغل سنا ،خیال آیا کہ پونے دس بجے ہیں ،شعبۂ حفظ کے بچوںکی چھٹی ہوئی ہوگی ،ان کی طالب علمانہ شرارتوںکی آوا ز ہے لیکن جب شورشراباکچھ زیادہ ہی محسوس ہونے لگا تو جلدی سے میں کمرہ سے باہر نکلا ،اچانک وہم وگمان سے بالا ترایسا دلدوزمنظر دیکھنے کو ملا کہ جسم پر لرزہ طاری ہوگیا،آنکھیںنم ہوگئیں،ایک طالب علم کے بائیں پیر سے خون تیزی سے بہہ رہا تھا ،کئی ساتھی اس بچہ کو تھامے ہوئے دلاسہ دے رہے تھے ،گھٹنے سے نیچے پنڈلی میں اتنا گہرا زخم لگا کہ باہرنکلاہوا گوشت اندر کرکے عارضی طورپر پٹی باندھ کر خون کی رو ک تھام کی گئی ،قضاء حاجت کرکے وہ طالب علم بیت الخلاء سے باہر نکلا تو پہلے سے موجود کالے کپڑے پہنے ہوئے دو بد معاشوںنے اس معصوم بچہ کو اپنی چنگل میں لے لیا اورباؤنڈری کی دیوارکی طرف لے جانے لگے تو چھوٹی عمر کے دو بچوںنے جو اپنی ضرورت کے لئے اد ھرآرہے تھے یہ منظر دیکھ کر شورمچایاتو ان ظالموںنے اس بچہ کے ساتھ وحشیانہ سلوک کرتے ہوئے کسی دھاردارچیزسے حملہ کرکے فرار ہوگئے ۔
اس واقعہ سے مدرسہ کے بچو ں میں خوف وہراس اوردہشت کاماحول پیدا ہونا ایک فطری بات تھی اورجن شیطان صفت درندوںنے اس معصوم بچہ کواپنے ظلم وستم کانشانہ بنایا ،ان کا مقصد بھی یہی محسوس کیا گیا کہ ان کاٹارگیٹ کوئی خاص بچہ نہیں تھا بلکہ جو بھی طالب علم انہیں پھنس جائے اسے نقصان پہنچاکر تمام مدرسہ والوںکو متوحش بناناتھا ،صبح فجر بعد مدرسہ کے مہتمم جناب مولانامحمداسمٰعیل صادق صاحب نے مسجد میں تمام طلبہ سے قرآن وحدیث کی روشنی میں مبسوط خطاب فرمایا ،حضرا ت انبیاء کرام اورصحابہ وبزرگان دین کے مختلف واقعات سناکربچوںکاحوصلہ اورہمت افزائی کی اورانہیں اپنے تعلیمی مشن کو مضبوطی کے ساتھ جاری رکھنے کی تلقین کی نیز مولانا موصوف نے طلبہ کو فوری طورپرحفاظتی انتظامی اورزیاد ہ کرانے کا اعلان کیا۔محترم موصوف کی اس تقریرسے طلبہ کے ذہنوںپر بہت مثبت اثرات الحمد للہ مرتب ہوئے ۔
بہرحال واقعہ کی نزاکت کو ملحوظ رکھتے ہوئے مدرسہ کے صدر مہتمم جناب مولانا ممشاد علی قاسمی سے سنجیدگی کے ساتھ سرکاری سطح پربھی فوری اقدامات کرائے ،واقعہ کی ایف آئی آردرج کرائی اورمدرسہ میں بچوںکے مزید حفاظتی کی کارروائی بھی شروع کردی گئی ،اگلے روز صبح مقامی ذمہ دارلوگوںکی ایک میٹنگ بھی مدرسہ میںبلائی گئی جس میں سبھی مذہب وبرادری کے لوگ شریک ہوئے ،ایسے پر نزاکت موقع پر بستی کے ذمہ دار حضرات نے مدرسہ کے ساتھ اپنی ہمدردی وخیرخواہی اورمخلصانہ محبت وحمایت کا اظہار کیا اورپھر گاہ بگاہ عوام الناس کی آمد اورحادثہ کے بارے میں پوچھ تاچھ کا سلسلہ لگارہا ۔گاؤں کے بعض نوجوان ساتھیوںنے مدرسہ میں پہرہ دینے کی غرض سے رات مدرسہ میں گذارنے کی پیش کش کی ،مقامی اوراطراف کے بڑی عمر کے لوگوں نے بھی اپنے اپنے اندازسے اپنی محبت وہمدردی کایقین دلایااورمدرسہ کے وحشت زدہ بچوںکودلاسہ دیا ۔
جس رات یہ حادثہ ہوا اسی وقت سے مدرسہ میں پولیس کے آنے جانے کا سلسلہ لگارہا اورانہو ں نے بستی کے محلوں میں تحقیق وتفتیش کاکام جاری رکھا ،تھانہ منڈی مظفرنگر سے کوتوال صاحب بھی جائے واردات کا معائنہ کرنے کے لئے مدرسہ آئے ،ایک گھنٹہ قیام کے دوران انہوں نے مدرسہ اورکالج کی تمام بلڈنگوںکامعائنہ کیا ۔ دارالحدیث کے ہال میں جمع تمام طلبہ اساتذہ اورمدرسہ کے ملازمین کے سامنے ہمت افزاء باتیںاوربچوں کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے یقین دہانی کرائی ……الحمد للہ تقریباً سو طلبہ میں سے کوئی ایک طالب علم بھی نہیں گیا اورنہ کسی بچہ کے سرپرست کی طرف سے کوئی ایسی اطلاع اورفرمائش آئی کہ وہ بچوںکو لے جانا چاہتے ہیں ،اس طرح اللہ رب العزت نے حاسدین کی سوچی سمجھی سازش کو ناکام بنادیا کہ طلبہ متوحش ہوکر منتشرہوجائیں گے مدرسہ کا شیرازہ بکھرجائے گا اورعلاقہ میں فرقہ وارانہ فساد برپاہوجائے گا …لیکن بڑے کرب کے ساتھ لکھنا پڑرہا ہے کہ اس حادثہ کاایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارے مدرسہ کے بچہ کی قسمت میں یہ سانحہ مقدر تھا جو پیش آیا کسی بھی مدرسہ کے طالب علم کے ساتھ یہ واقعہ ہوسکتاتھاایسے موقع پر سبھی اہل مدارس کا مشترکہ طورپر اخلاقی فریضہ بنتا تھا کہ وہ یکجہتی اورباہمی تعاون وہمدردی کا ثبوت دیں،ہمیں تعجب اور افسوس ہورہا ہے کہ ایک دو مدرسوں کے علاوہ کسی بھی مدرسہ کا اخلاقی تعاون ہمیں نہ مل سکا ،اہل علم کی جماعت میں سے بھی ایک دو کے علاوہ بالواسطہ یا بلا واسطہ اظہار ہمدردی اورہمت افزائی کی ہو اوراپنی اخلاقی حمایت کااظہار کیا ہوجب کہ کئی روز تک مورخہ ۱۷؍۱۸؍فروری کے اردو ہندی اخبارات میں یہ واقعہ سرخیوںمیں رہا حالانکہ بعض ایسے لوگوں کے فون آئے جو مدرسوں سے وابستہ نہیں بلکہ ان کا شمارخالص دنیادارطبقہ میں ہوتا ہے ۔
ہمیں صرف ایک انسانی واخلاقی ہمدردی کی ضرورت تھی اوریہ ضرورت ہربڑے چھوٹے ادارے کو ہوی ہے لیکن افسوس کہ ہمدردی کے دو لفظ بھی دینداروں اورارباب مدارس کے سننے کو نہ مل سکے ۔
آخران احادیث شریفہ کا کیا مفہوم ومقصدہے جن میں تعزیت کے فضائل وترغیبات ذکر کی گئی ہیں یا صرف وہ پڑھنے پڑھانے تک محدود ہیں۔
اس واقعہ سے یہ تشویشناک خیال بھی ہمارے ذہنوں میں آرہا ہے کہ اہل مدارس کی یہ قبرستان جیسی خاموشی کہیں ان مدارس کے زوال اورتباہی کا پیش خیمہ تو نہیں ؟ ؎
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں