اسلامی بیداری اورمغربی طاقت
مولاناسید محمد رابع حسنی ندوی مدظلہ العالی
٭ موجودہ عالمی اوربین الاقوامی حالات کیا تیسری جنگ عظیم کی تمہید ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟مولاناسید محمد رابع حسنی ندوی مدظلہ العالی
٭ عالم اسلام کے خلاف صلیبی اورصہیونی دہشت گردی کا راز کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
٭ یہودی استعمار،مظلوم انسانیت کو تباہی کی طرف ڈھکیل رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟
٭ عالمی ادارے اورملٹی نیشنل کمپنیاں کیا دجال کے لئے راہ ہموار کررہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
٭ پوری دنیامیں جاری کفر واسلام کی جنگیں کیا رخ اختیار کریں گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
٭ کیا پنٹاگن میں موجود عسکری ماہرین میں یہودیوں کی اکثریت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
٭ ’’ناٹو‘‘کیااسلام دشمن عسکری ادارے کا نام ہے جس کا مقصد ابلیسی مشن کی حفاظت ہے ۔۔۔۔؟
٭ افغانستان میں دہشت گردی طالبان دورِ حکومت میں تھی یا اب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
٭ عراق پر امریکی لشکرکشی ……پس پردہ کیا اسباب وعوامل ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
مذکورہ بالا چشم کشاحقائق جاننے کے لئے آئینہ ٔ مظاہر علوم کا مطالعہ کیجئے ۔یا د رکھئے اگرکوئی شمارہ مطالعہ سے رہ گیا تو اس کی تشنگی آپ کو بے چین رکھے گی ۔ (ادارہ )
ہرزمانہ اورہردو ر میں اسلام کو ابتلاء وآزمائش کے مرحلہ سے گزرنا پڑا ہے ،طاغوتی اورباطل عناصر نے ہمیشہ ہی اسلام کو اپنی سازشوں ،شیطانی چالوں اورمکر وفریب کا نشانہ بنایاہے ،چراغ مصطفوی سے شراربولہبی کی ستیزہ کاری ہردو ر میں رہی ہے ۔ ؎
ستیزہ کار رہاہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرارِ بو لہبی
موجودہ زمانہ میںبھی اسلام کو اپنے تمام شعبہ ہائے زندگی میں ابتلاء وآزمائش اورمصائب وآلام کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ،یہ آزمائشیں نئے نئے روپ اورنئی نئی شکلوں میں نمودار ہورہی ہیں،کبھی ظلم وزیادتی جبرواستبداداورکبھی مقابلہ آرائی اورکبھی جنگ وجدال اورجھڑپوں کے بھیس میں سامنے آرہی ہے لیکن یہ آزمائشیں اس اعتبارسے منفرد حیثیت کی حامل ہیں کہ یہ اپنی تمام تر ظلمتوں اورتاریکیوں کے باوجود ایک صبح نو کی پیامبر ہیں جو یہ پیغام لے کر آئیں ہیں کہ امت مسلمہ ایک طویل خواب غفلت کے بعد بیداری کے لئے کروٹیں لے رہی ہیں اورایک تابناک روشن مستقل اس کامنتظر ہے جس میںاسے قوت وشوکت بھی حاصل ہوگی اورعزت ومرتبہ بھی ۔ ؎چراغ مصطفوی سے شرارِ بو لہبی
جہانِ نو ہورہا ہے پیدا وہ عالم پیر مررہا ہے
جسے فرنگی مقامروں نے بنادیا ہے قمار خانہ
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اگر مسلمان خواب غفلت کے شکار نہ ہوئے ہوتے تو مغربی قومیں ان سے آگے نہ بڑھ پاتیں حالانکہ وہ قومیں پسماندہ جہالت وضلالت کے عمیق غاروں میں بھٹک رہی تھیں ،جب کہ اس کے برعکس دنیا کی قیادت اورسیادت کی باگ ڈورمسلمانوں کے ہاتھ میں تھی ،وہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں فائق تھے ، ریسرچ ہو یا تحقیق ،ایجا دہو یا انکشافات ،سانئس ہو یا ٹکنالوجی ۔ہر میدان میں ان کی پوزیش میر کارواں کی تھی ۔ طاقت وقوت اورجنگی سازوسامان ان کے گھرکی باندی تھی ،عظمت وبڑائی ،رعب ودبدبہ اورعزت ومنزلت ان کے قدم چومتی تھیں،یہا ں تک کہ ان کے دانش کدوں میں تشنگانِ علم یورپ سے کھنچ کھنچ کر آتے اورعلم وفن کے چشمۂ حیواں سے سیرابی حاصل کرتے ،مسلمانوں کی علم وحکمت کی جلوہ آرائی اورتہذیب وتمدن کی نیرنگی سے ان کی آنکھیں چکاچوندہوگئیں،مگر افسوس کہ مسلمان بجائے اسکے کہ وہ ان علوم وفنون کو مزید ترقی دیتے ان پر سستی ،کاہلی ،غفلت وبے حسی کی کیفیت طاری ہوگئی ،اورتقریباً چارسے زیادہ صدیوں تک قائم رہیں ۔یہ ایک ایسی مدت تھی جو کسی دیگر قوم کی بیداری کے لئے کافی تھی لہٰذااسلامی درس گاہوں کے تعلیم یافتہ مغربی نوجوان اٹھ کھڑے ہوئے ،پہلے انہو ں نے طاقت وقوت حاصل کی پھر دنیا کی قیادت اپنے ہاتھ میں لینا شرو ع کی ۔جسے فرنگی مقامروں نے بنادیا ہے قمار خانہ
یورپ کے اس جدید گروہ میں یوں تو مختلف مکاتب فکر اورمختلف نظریات وخیالات رکھنے والے قوموں ، ملکوں اورعلاقوں کے افراد شامل تھے ،لیکن اسلام دشمنی اورمسلمانوں سے بغض وعداوت کے جذبہ نے انہیں ایک پلیٹ فارم پر جمع کردیا تھا ۔انہوں نے غفلت وکاہلی کے شکار اوراپنے تابناک ماضی سے فریب خوردہ ملت کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑنا شروع کردیااوران کے تمام اخلاقی اقداروروایات کو پامال کرنے پر توجہ دی اورایسی ایسی حرکتیں کیں جو محتاج بیان نہیں صرف اتنا بتادینا کافی ہوگا کہ مغرب کے دانشوروںنے اسی پر بس نہیں کیا کہ مسلمانوں کی طاقت کو مفلوج کردیں بلکہ ان کی تمام کدو کاوش اورکارناموں کی تصویر گذاردینے پر اپنی ذہانت اورقلم کو پوری طرح استعمال کیا اوراسی طرح اب مختلف حیلوں بہانوں سے مسلمانوں کے اندر پیدا ہونیوالی بیداری ،خود اعتمادی ،قیادت وسیادت کی اہلیت ایمان ویقین اورعزت نفس وخودداری سے بڑھتے ہوئے رجحانات کو دبانے کی پوری کوشش کررہے ہیں اوراس بات پر اپنی محنت صرف کررہے ہیں کہ مسلمانوں کے اندر احساس عزت وحوصلہ اورہمت کے جذبات کے ابھرنے کے امکانات کو کسی طرح دباکر ان میں کمزوری وضعف ،پسماندگی اورذلت ورسوائی کے احساسات پیدا کردئے جائیں اورانہیں احساس کمتری کاشکار بنادیاجائے اوربیداری ماضی کے کارناموں پر فخر اورحصول شوکت وحکومت کے جذبات کی طرف سے ان کادھیان بالکل ہٹادیا جائے اوراگر مستقبل میں ترقی کی راہوں پرگامزن ہونے کا جذبہ ابھرے تو ان خیالات وافکارکے سہارے اوران طریقوں کو اختیارکرنے کے ساتھ جو اسلام اورمسلمانوں کے سلسلے میں مغرب کے حریفانہ اوررومن تہذیب وتمدن کے ساتھ قدردانی کے رہے ہیں جن کے تحت ایک سفیدفام شخص اصل انسان اورمعززومکرم ہوتا ہے اورغیر سفید فام خاص طورسے سیاہ فام انسان کی حیثیت ایک پست درجہ کی مخلوق بلکہ کا م کرنے والے جانور سے زیادہ نہیں ،یورپ کے پرکھوں یعنی رومن تمدن کے زمانے کے یورپین قوموں کے اسلاف نے اپنے غلاموں کے ساتھ اسی طرح کا برتاؤ کیا اورموجودہ متمدن یورپ وامریکہ میں اب بھی سیاہ فام انسانو ں کے ساتھ کئے جانے والے سلوک میں اس کی جھلک ملتی ہے ۔
بہرحال یورپ نے اپنی موجودہ ترقی کے دور میں مسلمانوں کو فکری طورپر بے دست وپاکرنے کی کوششوں میں خاطرخواہ کامیابی حاصل کی اور اس نے عملی طورپرمشرق کی قوموں کو جانوروںاورغلاموں کے ایک ریوڑکی طرح چلادیااورکبھی حیلوں بہانوں سے اورکبھی ظلم وجبرکے ساتھ اپنے مقاصدکی تکمیل میں ان سے کام لیا اوران پر ہر طرح سے ظلم وستم اورآزمائش کے پہاڑتوڑے اورمشرقی ممالک خاص طورسے اسلامی ممالک کے طورپر اپنے ساتھ لگایا اوران کی پیداواری صلاحیتوں اوردولت کے مختلف ذرائع سے پورا فائدہ اٹھایا اوراس طرح اپنے خزانوں کو بھرا اوراس سے اپنی قوم کو ترقی دینے میں پوری مددلی،دوسری طرف یورپ نے علمی وتحقیقی میدانوں میں جدوجہد کرکے زیر زمیں چھپی ہوئی قوتوں اورفطری علوم وفنون کو آشکارا کرنے میں بھی تگ ودو کی ، اوران تمام چیزوں کو ترقی وعروج حاصل کرنے اورتہذیب وتمدن کو ترقی دینے کے لئے مسخر کیا ،بلاشبہ پٹرول اوربجلی کی قوت کا انکشاف ،ٹکنالوجی اورصنعت وحرفت کی ترقیات اورالیکٹرونک اورفضائی انکشافات وترقیات کے میدانوں میں انہوں نے خاصی کوششیں کی اوران کے اچھے نتائج حاصل کئے اورانہیں ایجادات وانکشافات کے سہارے انہوں نے ستارو ں پر کمندیں ڈالناشروع کیا،زیر زمیں سیکڑوں رازہائے سربستہ کو باہر نکالااوران سب اساب کی بنا ء پر ایسا محسوس ہونے لگا کہ یورپ ہی ساری دنیا کاحاکم وفرمانبرداربن جائے گا اورباقی قوم کی حیثیت جانوروں اورغلاموں سے زیادہ نہ ہوگی لیکن فطرت کے ازلی قانون کے مطابق ہر قوم اپنی غفلت سے بیدار ہوتی ہے لہٰذامسلم ممالک نے بھی ہوش سنبھالنا شروع کردیا ہے اورعلمی وتجرباتی میدان میں جو انکشافا ت ہوگئے ہیں وہ سب کی مشترکہ ملکیت بنتے جارہے ہیں اورمسلمانوں نے ماضی کے خطوط پر مستقبل کی راہیں تلاش کرنا شروع کردیا ہے ،ظلم واستبداداوراہانت کے خلاف ان کے اندررد عمل پیدا ہوچکا ہے جس کی وجہ سے ان کی رگوں میں بیداری کی لہردوڑنے لگی ہے ۔
سامراجی عناصرکی جانب سے اس اسلامی بیداری کی لہر کو دبانے روکنے اورپسپاکرنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے جس کے نتیجے میں اسلامی بیداری اورمغربی قساوت کے درمیان کشمکش اورمعرکہ آرائی میں اضافہ ہورہا ہے اوراس کے رد عمل کے طورپر پورا عالم اسلام اورآزمائشوں میں گھر گیا ہے لیکن یہ آزمائشیں رائیگاہ نہیں جائیں گی یہ مسلمانوں کے اندر مزید طاقت اورقوت پیدا کررہی ہیں جس کے اثرسے مغربی اقوام کی صفوں میں شکست خوردگی اورپسپائی کے آثاربھی ظاہر ہونا شروع ہورہے ہیں یقیناامت مسلمہ ابتلاء وآزمائش کی اس بھٹی میں تپ کر کندن بن جائے گی ۔ ؎
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی وہ ابھرے گا جتنا کہ دباؤ گے
مسلمانو ں کی ترقی وعروج اورغلبہ کا وقت آپہنچا ہے اوران شاء اللہ جلد ہی وہ اپنے کھوئے ہوئے وقار کو دوبارہ حاصل کرلیں گے اورعزت ووقارقوت وشوکت کی اسی بلندی پر فائز ہوں گے جوان کا طرہ ٔ امتیازرہ چکا ہے ان کی تگ ودو پھر سے علم وحکمت کے خزانوں کو آشکاراکرنے میں صرف ہوگی وہ ایک بار پھر خیر امت ہونے کا ثبوت اورسسکتی ہوئی انسانیت کو حیات جاوداں سے ہمکنارکریں گے اورضلالت وگمراہی کی تاریکیوں میں پھنسے ہوئے لوگوں کو توحید کی روشنی دکھائیں گے اوربالآخردشمنانِ اسلام کو پسپائی اورشکست اوراسلام کی شمع تمام اتنا ہی وہ ابھرے گا جتنا کہ دباؤ گے
آندھیوں اورطوفانوں کے باوجودتاباںوفروزاں رہے گی ۔ ؎
ہوا ہے گو تندوتیزلیکن چراغ اپنا جلارہا ہے
ہوا ہے گو تندوتیزلیکن چراغ اپنا جلارہا ہے
وہ مرد درویش جس کو حق نے دئے ہیں انداز خسروانہ