[size=xx-large]
مفتی ناصرالدین مظاہری
واقعہ ہے کہ آپ ا کے زمانہ میںایک عورت سے زناہوگیا وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اوراس نے درخواست کی کہ اے اللہ کے رسول !مجھ سے یہ سنگین گناہ سرزدہوگیا ،آپ مجھ پر حد جاری فرمادیجئے ،بہرحال اسے سزا دی گئی اوراس کی نماز جنازہ پڑھائی گئی ،حضرت عمررضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول !آپ زانیہ پر نماز پڑھیں گے ؟رحمۃ للعالمین نے فرمایا ،عمر !قسم اس پاک ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر مدینہ کے ستر لوگوں پر بھی تقسیم کردوتوبڑھ جائے گی ،یہ ہے وہ تریاق جس کی بدولت بد عملی کا زہر زائل ہوجاتا ہے ،اندازہ کیجئے کہ آپ ا کی نگاہ میں ایک اقراری مجرم بھی توبہ کی بدولت کتنا باوقعت ہوگیا ،یہ تریاق آج بھی موجود ہے ،لغزشوںکاشکار ہونے اورکبائرکاارتکاب کرنے والے توبہ کی بدولت خدا کے فضل سے ترقی کرتے آئے ہیں اورآج بھی کررہے ہیں ،خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو کہ بد عملی کا زہریلا گھونٹ جانے یا انجانے میں پینے کے بعدتوبہ کا تریاق نوش کرکے اپنے اوراللہ کے درمیان معاملہ صاف کرالیتے ہیں ۔
افسوس! سیاہ بخت ہیں وہ مبصرین جو مجرم کے جرم اوراس کی ذات پر تبصرہ کرتے نہیں تھکتے ،نہ جانے کتنی عدالتیں مجرم کو باعزت رہا بھی کردیتی ہیں لیکن انکی زبانوں پر اورمجلسوںمیں وہ مسلسل مجرم ہی رہتا ہے ،بعض بیچارے شک کے دائرہ میں آکر صرف ’’ملزم ‘‘ہی قرار پاتے ہیںلیکن بے رحم معاشرہ کے تبصرہ باز انہیں’’ مجرم‘‘ گرداننے اوران بیکسوںکے خلاف مختلف طریقوںسے افواہوںکا بازار گرم کرنے میںکوئی دقیقہ نہیں اُٹھارکھتے حالانکہ جسوقت آفتاب ِ حقیقت طلوع ہوتاہے تو تہمتوںوافواہوںکے بادل چھٹ جاتے ہیں اورالفاظ کے بازی گرتبصرہ بازوںکو منھ کی کھانا پڑتی ہے ،درحقیقت غیر سنجیدہ وبے معنی تبصرہ بازی کاگھن ہمارے معاشرہ کو دن بدن کھوکھلا کررہا ہے ۔
فضول وبے مقصدتبصرہ بازوں کیلئے ڈرنے اورافسوس کرنے کا مقام ہے کہ جس مجرم کے بارے میںوہ تبصرہ کررہے ہیں اوراس کی پگڑی سرراہ اچھالنے میں بے باک بنے ہوئے ہیں اگر اس نے توبہ کا تریاق نوش کرلیا یا وہ صرف ملزم تھااوردائرۂ شک سے باعزت بری کردیا گیا تو کورچشم مبصرین کو ان کے غیر منصفانہ تبصروں کی زہرناکی اس رب قدیرکی پکڑسے بچنے کاموقع دے سکے گی جس کے بارے میںقرآن کہتا ہے ان بطش ربک لشد ید۔
ماہنامہ آئینۂ مظاہرعلوم سے ماخوذ[/size]
توبہ ایک تریاق
مفتی ناصرالدین مظاہری
واقعہ ہے کہ آپ ا کے زمانہ میںایک عورت سے زناہوگیا وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اوراس نے درخواست کی کہ اے اللہ کے رسول !مجھ سے یہ سنگین گناہ سرزدہوگیا ،آپ مجھ پر حد جاری فرمادیجئے ،بہرحال اسے سزا دی گئی اوراس کی نماز جنازہ پڑھائی گئی ،حضرت عمررضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول !آپ زانیہ پر نماز پڑھیں گے ؟رحمۃ للعالمین نے فرمایا ،عمر !قسم اس پاک ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر مدینہ کے ستر لوگوں پر بھی تقسیم کردوتوبڑھ جائے گی ،یہ ہے وہ تریاق جس کی بدولت بد عملی کا زہر زائل ہوجاتا ہے ،اندازہ کیجئے کہ آپ ا کی نگاہ میں ایک اقراری مجرم بھی توبہ کی بدولت کتنا باوقعت ہوگیا ،یہ تریاق آج بھی موجود ہے ،لغزشوںکاشکار ہونے اورکبائرکاارتکاب کرنے والے توبہ کی بدولت خدا کے فضل سے ترقی کرتے آئے ہیں اورآج بھی کررہے ہیں ،خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو کہ بد عملی کا زہریلا گھونٹ جانے یا انجانے میں پینے کے بعدتوبہ کا تریاق نوش کرکے اپنے اوراللہ کے درمیان معاملہ صاف کرالیتے ہیں ۔
افسوس! سیاہ بخت ہیں وہ مبصرین جو مجرم کے جرم اوراس کی ذات پر تبصرہ کرتے نہیں تھکتے ،نہ جانے کتنی عدالتیں مجرم کو باعزت رہا بھی کردیتی ہیں لیکن انکی زبانوں پر اورمجلسوںمیں وہ مسلسل مجرم ہی رہتا ہے ،بعض بیچارے شک کے دائرہ میں آکر صرف ’’ملزم ‘‘ہی قرار پاتے ہیںلیکن بے رحم معاشرہ کے تبصرہ باز انہیں’’ مجرم‘‘ گرداننے اوران بیکسوںکے خلاف مختلف طریقوںسے افواہوںکا بازار گرم کرنے میںکوئی دقیقہ نہیں اُٹھارکھتے حالانکہ جسوقت آفتاب ِ حقیقت طلوع ہوتاہے تو تہمتوںوافواہوںکے بادل چھٹ جاتے ہیں اورالفاظ کے بازی گرتبصرہ بازوںکو منھ کی کھانا پڑتی ہے ،درحقیقت غیر سنجیدہ وبے معنی تبصرہ بازی کاگھن ہمارے معاشرہ کو دن بدن کھوکھلا کررہا ہے ۔
فضول وبے مقصدتبصرہ بازوں کیلئے ڈرنے اورافسوس کرنے کا مقام ہے کہ جس مجرم کے بارے میںوہ تبصرہ کررہے ہیں اوراس کی پگڑی سرراہ اچھالنے میں بے باک بنے ہوئے ہیں اگر اس نے توبہ کا تریاق نوش کرلیا یا وہ صرف ملزم تھااوردائرۂ شک سے باعزت بری کردیا گیا تو کورچشم مبصرین کو ان کے غیر منصفانہ تبصروں کی زہرناکی اس رب قدیرکی پکڑسے بچنے کاموقع دے سکے گی جس کے بارے میںقرآن کہتا ہے ان بطش ربک لشد ید۔
ماہنامہ آئینۂ مظاہرعلوم سے ماخوذ[/size]