عجیب واقعہ

zakwan

وفقہ اللہ
رکن
مضارب ابن ابراہیم نے حسن بن مفضل سے عرض کیا کہ آپ کا یہ امتیازبذات خود ایک ضرب المثل بن چکاہے کہ آپ عربی اورعجمی ضرب الامثال کی اصل اپنی خدادادذہانت وذکاوت سے کتاب اللہ سے نکال لیتے ہیں ،کیا آپ اس مشہور عوام وخواص عربی ضرب المثل کے کسی مآخذکی قرآن کریم سے نشاندہی فرمائیں گے ’’خیرالامور اوسطھا‘‘(تمام چیزوں میں درمیانہ درجہ بہتر ہوتا ہے )حسن ابن مفضل نے جواباً برجستہ فرمایاکہ اس ضرب المثل کے چار مآخذ قرآن کریم میں موجود ہیںجویہ ہیں ۔
(۱)قوم موسیٰ علیہ السلام کو جب ایک مقتول کے قاتل کا پتہ معلوم کرنے کے لئے ایک بچھڑا ذبح کرکے اس کاگوشت مقتول کے بدن سے لگانے کا حکم دیا گیا تاکہ وہ باذن خداوندی زندہ ہوکر اپنے قاتل کا مکمل پتہ بتائے تو قوم ِموسی علیہ السلام نے ابتداء اً تو اس غیر مقید حکم کی تعمیل سے گریزکرتے ہوئے بچھڑے کے اوصاف متعین کرنے کا سوال کیا تو جواباً حق تعالیٰ نے اس خیر الامور اوسطھاکی جانب رہنمائی فرماتے ہوئے ارشاد فرمایاکہ بچھڑا ایسا معتدل ہوکہ لافارض ولابکر عوان بین ذٰلک (نہ بالکل بوڑھا ہونہ بہت بچاہو(بلکہ) دونوں عمروں کے وسط میں)​
 

zakwan

وفقہ اللہ
رکن
۲) قرآن کریم میں اپنے برگزیدہ بندوں کے اوصاف وامتیازات خصوصی میں ان کے خیر الامور اوسطھاہونے کے وصف کو امتیازی حیثیت دے کر ارشاد فرمایا کہ والذین اذا انفقوا لم یسرفوا ولم یقترواوکان بین ذٰلک قواماً(اور(اطاعت مالیہ میں ان کا یہ طریقہ ہے کہ) وہ جب خرچ کرتے ہیں اورنہ تنبیہ کرتے ہیں اوران کا خرچ کرنا اس (افراط وتفریط) کے درمیان اعتدال پر ہے )
(۳)قرآن کریم نے خیر الامور اوسطھاکے اصول فطرت کی نشاندہی فرماتے ہوئے بخل کو بھی ناپسندیدہ قراردیااوراسراف کوبھی ارشاد ربانی ہے ولا تجعل یدک مغلولۃ الی عنقک ولا تبسطھا کل البسط (اورنہ تو اپنا ہاتھ گردن سے ہی باندھ لے اورنہ بالکل ہی کھول دے )
(۴)نماز میں قرآن کریم کی تلاوت کو اسی خیر الاموراوسطھاکے دائرہ میں محدود رکھنے کا امرفرماتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ولا تجھر بصلاتک ولا تخافت بھاوابتغ بین ذٰلک سبیلاً (اوراپنی نماز میں نہ تو بہت پکارکرپڑھئے اورنہ بالکل ہی چپکے چپکے پڑھئے اوردونوں کے درمیان ایک طریقہ اختیارکرلیجئے)
 

zakwan

وفقہ اللہ
رکن
مضارب نے عرض کیاکہ ’’من جھل شیئاً عاداہ‘‘(جس شئی سے آدمی ناواقف ہوتا ہے تو اس کا دشمن بن جاتا ہے)اس ضرب المثل کا ناقص قرآن کریم میں کیاہے ؟
علامہ حسن نے فرمایا اس کامآخذ قرآن کریم میں دو آیتیں بنتی ہے ۔
(۱)بل کذبو ابمالم یحیطوا بعلمہٖ (بلکہ ایسی چیز کی تکذیب کرنے لگے (جس کے صحیح وسقیم ہونے)کو اپنے احاطہ علم میں نہ لائے یعنی جس چیز کو سمجھ نہ سکے تو اس کے دشمن ہوگئے اور تکذیب شروع کردی)
(۲)وان لم یھتدوابہ فسیقولون ھذا افک قدیم (اورجب ان لوگوں کو قرآن سے ہدایت نصیب نہ ہوئی تو یہ کہیں گے کہ یہ قدیمی جھوٹ ہے )
یعنی بوجہ قرآن کریم میں غوروفکرنہ کرنے کے اس کی ہدایت کو نہ سمجھ سکے تو ازراہ عناد اسکو جھوٹ قراردیدیا۔
مضارب نے عرض کیا کہ’’ احذر شر من احسنت الیہ ‘‘(اس کے شرسے بچنے کی بطورخاص کوشش کروجس کے ساتھ تم نے حسن سلوک اوراحسان کیا ہے)
جواباً علامہ حسن نے فرمایااس کی اصل بھی قرآن کریم کی اس آیت میں موجود ہے ’’ومانقموامنھم الا ان اغناھم اللہ ورسولہ من فضلہ ‘‘(اوریہ صرف انہوں نے اس بات کا بدلہ دیا ہے کہ ان کواللہ نے اوراس کے رسول نے اپنی مہربانی سے بے نیاز بنادیا )
یعنی اللہ اوراس کے رسول کی عطا وبخشش پر بجائے شکر گزاری کے جب انہوں نے مخالفانہ راہ اختیارکی تو مخالفت کی انتہا کردی کہ دین حق ہی کے منکر ہوگئے ۔
مضارب نے عرض کیا کہ ’’لیس الخبر کالمعائنۃ‘‘(سنی ہوئی بات آنکھو ں دیکھی حقیقت کے برابرنہیں ہوسکتی)اس کاقرآنی مآخذکیاہے؟
علامہ حسن نے جواب دیا کہ ابراہیم علیہ السلام نے حق تعالیٰ سے سوال کیاکہ ’’رب ارنی کیف تحی الموتیٰ‘‘(اے میرے پروردگارمجھے دکھلادیجئے کہ آپ مردوںکوکس کیفیت سے زندہ کریں گے )حق تعالیٰ نے ارشادفرمایا ’’قال اولم تؤمن قال بلیٰ ولکن لیطمئن قلبی‘‘(ارشاد فرمایا کہ کیا تم یقین لائے ،ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا کہ یقین کیوں نہ لاتا لیکن اس غرض سے یہ درخواست کرتا ہو ں تاکہ میرے قلب کو سکون ہوجائے)
لفظ بلیٰ میں اس کا اعتراف ہے کہ آپ کی قدرت کاملہ کی خبر پر میرا ایمان کامل ہے لیکن ’’لیس الخبر کاالمعائنۃ ‘‘کے مطابق مشاہدہ کا درجہ خبر سے بڑھا ہوا ہے اس لئے میں اسے بھی حاصل کرنا چاہتا ہوں۔
مضارب نے عرض کیا کہ مثل مشہور ہے ’’فی الحرکات برکات‘‘(حرکت میں برکت ہے )اس کا قرآنی مآخذارشاد فرمائیے ۔
شیخ حسن نے فرمایا قرآن کریم نے فی الحرکات برکات کی واضح نشاندہی اس آیت کریمہ میں فرمائی ہے ۔’’ومن یھاجر فی سبیل اللہ یجدفی الارض مراغماً کثیراً وسعۃ ‘‘(اورجوشخص اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا تو اس کو روئے زمین پر جانیکی بہت جگہ ملے گی اوربہت گنجائش )
یعنی زمین پر پھیلی ہوئی اللہ کی رحمتیں اوربرکتیں جب ہی حاصل ہوںگی کہ جب اللہ کے لئے تم زمین پر چلو پھروگے گھربیٹھے نہیں یعنی حرکت ہی میںبرکت ہے ۔​
 

zakwan

وفقہ اللہ
رکن
مضارب نے سوال کیا کہ ’’کماتدین تدان‘‘(جیساکروگے ویسا پاؤگے)کہ قرآنی اصل کیاہے؟
شیخ حسن نے فرمایا اس بارے قرآنی رہنمائی یہ ہے کہ ’’من یعمل سوء ً یجزی بہٖ‘‘(جو کوئی برا کام کرے گا اس کو اس کے عوض میں سزادی جائے گی )
یعنی دنیامیں بدعملی پر اچھے بدلے کی توقع فضول ہے بلکہ جیسے اعمال اس دنیا میں کروگے ویسی ہی سزا اس عالَم میں مرتب ہوگی۔
مضارب نے عرض کیا کہ ایک مثل ہے ’’حین تقلی تدری‘‘(جب تم کسی چیزسے نفرت کرنے لگتے ہوتو تمہیں اس میں برائیاں ہی برائیاں ہی آنے لگتی ہے )
شیخ حسن نے فرمایااس مثل کی قرآنی اصل اس آیت میں موجودہے ’’وسوف یعلمون حین یرون العذاب من اضل سبیلاً‘‘(اورمرنے کے بعد جلدی ہی ان کو معلوم ہوجائے گاجب عذاب کا معائنہ کریںگے کہ کون شخص گمراہ تھا)
یعنی دنیا میں تم نے دین بر حق سے اپنے دلوںمی نفرت پیا۔داکرلی تو اس کی ہرچیزتمہیں بری نظرآنے لگی ۔لیکن ج اس کی بتلائی ہوئی حقیقتیںسامنے آئیںگی تو اس وقت ان کے اقرارپر مجبورہوں گے ۔لیکن اس وقت کا اقرارکارآمد نہیں ہوگا۔
مضارب نے عرض کیا کہ ’’لایلدغ المؤمن من جحرِ مرتین‘‘(مومن ایک سوراخ سے دو مرتبہ ڈسانہیں جاتا)اس محاورہ کا قرآنی مآخذکیا ہے ؟
شیخ حسن نے فرمایا،اس کا قرآنی مآخذآیت ذیل ویں موجودہے ۔’’ھل اٰمنکم علیہ الا کما امنتکم علی اخیہ من قبل‘‘(بس رہنے دو میں اس کے بارے میں بھی تم ویساہی اعتبارکرتاہوںجیساکہ اس سے پہلے اس کے بھائی (یوسف)کے بارے میں تمہارااعتبارکرچکاہوں)
یعنی یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوںسے فرمایاکہ یوسف کے بارہ میں ایک بارمیں تم پر بھروسہ کرکے اس کانتیجہ دیکھ چکا ہوں اب دوسرے بیٹے بن یامین کے بارے تمہارااعتبارکیسے کرسکتاہوں۔
مضارب نے عرض کیاکہ ’’من اعان ظالماً سلط علیہ‘‘(جو کسی ظالم کی مددکرتا ہے تو وہی ظالم اس پرمسلط کردیاجاتاہے )کی قرآنی اصل ارشادفرمائیے۔
شیخ حسن نے فرمایااس کی اصل اس آیت میں ہے ’’کتب علیہ انہ من تولاہ فانہ یضلہ ویھدیہ الی عذاب السعیر‘‘(جس کی نسبت (خداکے یہاں)یہ بات لکھی جاچکی ہے کہ جو شخص اس سے (یعنی شیطان سے )تعلق رکھے گا (یعنی اس کا اتباع کریگا)تو اس کاکام ہی یہ ہے کہ وہ اس کو (راہ حق)سے بے راہ کردے گا ۔اور اس کو عذاب دوزخ کا راستہ دکھائے گا ۔
یعنی اللہ سے بے راہی اختیارکرنے والاظالم ہے جو اس ظالم کی (شیطان )اطاعت کرے گا تو نتیجۃً وہ اس کو بھی بے راہی پر لگاکربد انجام بنادے گا۔​
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
مضارب نے عرض کیاکہ ’’من اعان ظالماً سلط علیہ‘‘(جو کسی ظالم کی مددکرتا ہے تو وہی ظالم اس پرمسلط کردیاجاتاہے )کی قرآنی اصل ارشادفرمائیے۔
شیخ حسن نے فرمایااس کی اصل اس آیت میں ہے ’’کتب علیہ انہ من تولاہ فانہ یضلہ ویھدیہ الی عذاب السعیر‘‘(جس کی نسبت (خداکے یہاں)یہ بات لکھی جاچکی ہے کہ جو شخص اس سے (یعنی شیطان سے )تعلق رکھے گا (یعنی اس کا اتباع کریگا)تو اس کاکام ہی یہ ہے کہ وہ اس کو (راہ حق)سے بے راہ کردے گا ۔اور اس کو عذاب دوزخ کا راستہ دکھائے گا ۔
یعنی اللہ سے بے راہی اختیارکرنے والاظالم ہے جو اس ظالم کی (شیطان )اطاعت کرے گا تو نتیجۃً وہ اس کو بھی بے راہی پر لگاکربد انجام بنادے گا۔
جزاک اللہ
 
Top