مضارب ابن ابراہیم نے حسن بن مفضل سے عرض کیا کہ آپ کا یہ امتیازبذات خود ایک ضرب المثل بن چکاہے کہ آپ عربی اورعجمی ضرب الامثال کی اصل اپنی خدادادذہانت وذکاوت سے کتاب اللہ سے نکال لیتے ہیں ،کیا آپ اس مشہور عوام وخواص عربی ضرب المثل کے کسی مآخذکی قرآن کریم سے نشاندہی فرمائیں گے ’’خیرالامور اوسطھا‘‘(تمام چیزوں میں درمیانہ درجہ بہتر ہوتا ہے )حسن ابن مفضل نے جواباً برجستہ فرمایاکہ اس ضرب المثل کے چار مآخذ قرآن کریم میں موجود ہیںجویہ ہیں ۔
(۱)قوم موسیٰ علیہ السلام کو جب ایک مقتول کے قاتل کا پتہ معلوم کرنے کے لئے ایک بچھڑا ذبح کرکے اس کاگوشت مقتول کے بدن سے لگانے کا حکم دیا گیا تاکہ وہ باذن خداوندی زندہ ہوکر اپنے قاتل کا مکمل پتہ بتائے تو قوم ِموسی علیہ السلام نے ابتداء اً تو اس غیر مقید حکم کی تعمیل سے گریزکرتے ہوئے بچھڑے کے اوصاف متعین کرنے کا سوال کیا تو جواباً حق تعالیٰ نے اس خیر الامور اوسطھاکی جانب رہنمائی فرماتے ہوئے ارشاد فرمایاکہ بچھڑا ایسا معتدل ہوکہ لافارض ولابکر عوان بین ذٰلک (نہ بالکل بوڑھا ہونہ بہت بچاہو(بلکہ) دونوں عمروں کے وسط میں)
(۱)قوم موسیٰ علیہ السلام کو جب ایک مقتول کے قاتل کا پتہ معلوم کرنے کے لئے ایک بچھڑا ذبح کرکے اس کاگوشت مقتول کے بدن سے لگانے کا حکم دیا گیا تاکہ وہ باذن خداوندی زندہ ہوکر اپنے قاتل کا مکمل پتہ بتائے تو قوم ِموسی علیہ السلام نے ابتداء اً تو اس غیر مقید حکم کی تعمیل سے گریزکرتے ہوئے بچھڑے کے اوصاف متعین کرنے کا سوال کیا تو جواباً حق تعالیٰ نے اس خیر الامور اوسطھاکی جانب رہنمائی فرماتے ہوئے ارشاد فرمایاکہ بچھڑا ایسا معتدل ہوکہ لافارض ولابکر عوان بین ذٰلک (نہ بالکل بوڑھا ہونہ بہت بچاہو(بلکہ) دونوں عمروں کے وسط میں)