دھویں کو عربی میں دخان کہتے ہیں اور حقہ یا سگریٹ وغیرہ کی صورتوںمیں تمباکونوشی یاڈھواں اڑانے کے لئے تدخین کا لفظ اہل عرب استعمال کرتے ہیں،اس کاعمومی رواج دسویں صدی کے اخیرسے ملتا ہے ۔
کسی عالِم سے سوال کیا گیاکہ قرآن کریم نے کیا دھواں اڑانے کے اس عالَمگیر انسانی مرض کی جانب بھی کوئی اشارہ فرمایاہے ؟
عالم نے جواب دیا کہ تفکروتدبرکرنے والوں قرآن کریم مایوس نہیں کرتااوراس کے بعد انہوں نے قرآنی آیت کے یہ تین کلمات تلاوت کئے ’’یوم تأتی السماء ‘‘اس سے اشارہ ہے اس پوری آیت کریمہ کی جانب ’’یوم تأتی السماء بدخان مبین‘‘عالم نے سوال وجواب کو ایک عربی قطعہ کی صورت میں منظوم پیش کرتے ہوئے ایک تاریخی نکتہ کی جانب اشارہ کیا ہے ؎
’’یوم تأتی السماء ‘‘کے ازروئے ابجدکل اعدادایک ہزارہوتے ہیں اورآیت میں آگے لفظ دخان صراحتاًموجودہے ۔
یعنی ’’یوم تأتی السماء بدخان مبین‘‘جس سے بطورلطیفہ ٔعلمی کے یہ اشارہ نکل سکتا ہے کہ دسویں صدی ہجری سے علی الاعلان دھواں اڑانا لوگوں میں عام ہوجائے گا اورتاریخ سے اس اشارہ کو مزید تقویت بایںطورحاصل ہوگئی کہ دھواں اڑانے کے رواج کی عمومی ترقی دسویںصدی ہجری سے معلوم ہوتی ہے۔
ضیاء القرآن
أمن ھو قانت آناء اللیل ساجداً وقائماً یحذرالآخرۃ ویرجوارحمۃ ربہ سورہ زمر ۹
ترجمہ :۔بھلا جو شخص اوقات شب میں سجدہ وقیام کی حالت میں عبادت کررہاہو،آخرت سے ڈررہاہواوراپنے پروردگانر کی رحمت کی امید کرررہا ہو(کیا ایسا شخص اورمشترکہ برابرہوسکتے ہیں،ہرگزنہیں ترجمہ از حضرت حکیم الامت ؒ ۔
ف:۔
آیت قرآنی کے اس حصہ میں پہلی بات تو یہ معلوم ہوئی کہ رات کو اللہ کی عبادت کرنا اس کا خاص عظمت اوراہمیت کا حامل ہے ،اوراس سے نماز تہجدکی فضیلت پربھی روشنی پڑتی ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے امام ترمذی نسائی اورابن ماجہ نے روایت بیان کی ہے کہ آناء اللیل سے مرادرات کا درمیانی حصہ ہے ۔
ایک اورحدیث مبارک میں ہے کہ ’’جنت میں ایسے بالاخانے ہیں جن کا اندرونی حصہ باہر سے اورباہری حصہ اندرسے نظر آتا ہے ،ایک دیہاتی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ ککرے کس کے لئے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ اس شخص کے لئے جو پاکیزہ بات کرے ،کھانا کھلائے اوررات کو اس وقت نماز اداکرے جب لوگ سورہے ہوں۔(ترمذی شریف ابن کثیربحوالہ)
حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جبریل علیہ السلام مجھے رات کی نماز کے بارے میں اتنی تاکید کرتے رہے کہ مجھے یقین ہوگیا کہ میری امت کے اچھے لوگ سوئیں گے نہیں (صاوی ۳۰۷۰)حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ چاہتاہے کہ محشرکے موقف حساب میں اللہ تعالیٰ اس پر آسانی فرمادیں،اس کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس کو رات کی اندھیری میں سجدہ اورقیام کی حالت میں پائے،اس طرح کہ اس کو آخرت کی فکر بھی ہواوررحمت کی امید بھی (معارف القرآن ص۔۵۴۳ ج۔۷)
بہرحال ان سب تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کی عبادت کتنی اہمیت کی چیزہے قرآن پاک میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے کہ اورکسی قدر رات کے حصہ میں سو اس میں تہجد پڑھاکیجئے جو کہ آپ کے لئے زائد چیز ہے (بنی اسرائیل ۷۹ پارہ ۱۵)
پہلے تہجد کی نماز فرض تھی پھر پانچ نمازیں فرض قراردیدی گئیں اوراس کی فرضیت حضورؐ اورآپ کی امت سے ختم کردی گئی ۔
نماز تہجد کے اصل مفہوم میں بعدالنوم (سونے کے بعد)ہونا شرط نہیں ،لیکن عام معمول حضور صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام کا یہی رہا ہے کہ آخررات میں بیدار ہوکر پڑھتے تھے ۔
اس لئے اس کی افضل صورت یہی ہوگی (معارف القرآن ص ۵۰۴ ج۔ ۷)عامت عادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تھی کہ آٹھ رکعت تہجد کی اداکرتے تھے ،لیکن کبھی اس سے کم چارپانچ رکعات پر بھی اکتفافرمایاہے (ایضاً ۵۰۶)
فائدہ :۔
دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ آدمی کو اللہ کی رحمت کا امید وار ہوناچاہیے اورآخرت کا خوف رکھنا چائیے ۔
درحقیقت ایمان ان دونوں چیزوں کے مجموعہ کا نام ہے کہ آدمی اللہ رب العزت سے اورآخرت سے ڈرتابھی رہے اوراس کی رحمت کا امید واربھی ہے کیونکہ صحیح حدیث ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرا بندہ جیسا گمان میرے ساتھ کرے میں اس کے ساتھ ویساہی معاملہ کروں گا ۔اورایک حدیث پاک ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میری رحمت میرے غصہ سے زیادہ ہے ۔
قرآن مقدس میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایاکہ اے نبی ؐ آپ کہدیجئے کہ اے میرے بندو،جنہوں نے (کفروشرک کرے )اپنے اوپر زیادتیاں کی ہیں کہ تم خداکی رحمت سے ناامید مت ہو،بالیقین خداتعالی تمام (گذشتہ )گناہوں کو معاف فرمادے گا ۔واقعی وہ بڑا بخشنے والا بڑی رحمت والاہے (سورہ زمر ۵۳)
حضرت انس ؒ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس گئے ان کی موت کا وقت قریب تھا ۔آپ نے پوچھا کیسا محسوس کررہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ مجھے امیدرحمت بھی ہے اورخوف عذاب بھی تو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ دونوں ایسی حالت میں کسی مؤمن کے دل میں جمع نہیں ہوتیں مگر ضرور اس کو اللہ تعالیٰ وہ چیز عطافرماتے ہیں جس کا وہ امید وار ہے اوراس چیز سے امان عطافرمائے ہیں ،جس سے وہ خوف زدہ ہے ۔
قرآن مقدس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہے کہ آپ (یہ بھی )کہدیجئے کہ اگر (بفرض محال )میں اپنے رب کا کہنا نہ مانوں تو میں ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ رکھتا ہوں (سورہ زمر ۴)
اس آیت کریمہ کامطلب یہ ہے کہ لوگ گناہوں سے پوری طرح اجتناب کریں کیونکہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جلات شان
، پاکیزگی اورمنصب نبوت کے باوجود خوف زدہ رہتے ہیں تواوروں کو بدرجہ ٔ اولی خوف زدہ رہنا چاہیے (جمل ص۔ ۵۹۴ ج۔ ۳ بحوالہ حاوی )
اوریہ امید وخوف صرف اسی کو نہیں رکھنا چاہیے جو بے عمل یا بد عمل ہو بلکہ جو عبادت گذار اورعمل کرنے والا ہواس کو بھی اسی کیفیت کے ساتھ متصف ہوناضروری ہے ۔
علامہ ابن کثیرؒ یحذر الآخرۃ ویرجورحمۃ کے ضمن میں تحریرفرماتے ہیں کہ عبادت اوربندگی کی حالت میں ڈراورامید رکھتے ،اورعبادت کے اندران دونوں باتوں کا ہونا ضروری ہے نیزفرمایاکہ زندگی میں خوف غالب رہے اورخوف کے وقت امید غالب رہے (مختصرابن کثیرج ۳ ص۔ ۲۱۴)
کسی عالِم سے سوال کیا گیاکہ قرآن کریم نے کیا دھواں اڑانے کے اس عالَمگیر انسانی مرض کی جانب بھی کوئی اشارہ فرمایاہے ؟
عالم نے جواب دیا کہ تفکروتدبرکرنے والوں قرآن کریم مایوس نہیں کرتااوراس کے بعد انہوں نے قرآنی آیت کے یہ تین کلمات تلاوت کئے ’’یوم تأتی السماء ‘‘اس سے اشارہ ہے اس پوری آیت کریمہ کی جانب ’’یوم تأتی السماء بدخان مبین‘‘عالم نے سوال وجواب کو ایک عربی قطعہ کی صورت میں منظوم پیش کرتے ہوئے ایک تاریخی نکتہ کی جانب اشارہ کیا ہے ؎
یاخلیلی عن الدخان اجنبی
ھل لہ فی کتابناایماء
قلت مافرط الکتاب بشیئٍ
ثم ارخت ُ ’’یوم تأتی السماء ‘‘
(اے میرے دوست مجھے بتلاؤکہ ہماری کتاب قرآن کریم نے دھواں اڑانے کے انسانی مرض کی جانب بھی کوئی اشارہ کیا ہے ؟تو میں نے کہاکہ اس کتاب مقدس نے چھوڑاکسی بات کو نہیںاورپھر قرآنی الفاظ ’’یوم تأتی السماء ‘‘ سے میں نے اس کی تاریخ کی جانب اشارہ کیا)ھل لہ فی کتابناایماء
قلت مافرط الکتاب بشیئٍ
ثم ارخت ُ ’’یوم تأتی السماء ‘‘
’’یوم تأتی السماء ‘‘کے ازروئے ابجدکل اعدادایک ہزارہوتے ہیں اورآیت میں آگے لفظ دخان صراحتاًموجودہے ۔
یعنی ’’یوم تأتی السماء بدخان مبین‘‘جس سے بطورلطیفہ ٔعلمی کے یہ اشارہ نکل سکتا ہے کہ دسویں صدی ہجری سے علی الاعلان دھواں اڑانا لوگوں میں عام ہوجائے گا اورتاریخ سے اس اشارہ کو مزید تقویت بایںطورحاصل ہوگئی کہ دھواں اڑانے کے رواج کی عمومی ترقی دسویںصدی ہجری سے معلوم ہوتی ہے۔
ضیاء القرآن
أمن ھو قانت آناء اللیل ساجداً وقائماً یحذرالآخرۃ ویرجوارحمۃ ربہ سورہ زمر ۹
ترجمہ :۔بھلا جو شخص اوقات شب میں سجدہ وقیام کی حالت میں عبادت کررہاہو،آخرت سے ڈررہاہواوراپنے پروردگانر کی رحمت کی امید کرررہا ہو(کیا ایسا شخص اورمشترکہ برابرہوسکتے ہیں،ہرگزنہیں ترجمہ از حضرت حکیم الامت ؒ ۔
ف:۔
آیت قرآنی کے اس حصہ میں پہلی بات تو یہ معلوم ہوئی کہ رات کو اللہ کی عبادت کرنا اس کا خاص عظمت اوراہمیت کا حامل ہے ،اوراس سے نماز تہجدکی فضیلت پربھی روشنی پڑتی ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے امام ترمذی نسائی اورابن ماجہ نے روایت بیان کی ہے کہ آناء اللیل سے مرادرات کا درمیانی حصہ ہے ۔
ایک اورحدیث مبارک میں ہے کہ ’’جنت میں ایسے بالاخانے ہیں جن کا اندرونی حصہ باہر سے اورباہری حصہ اندرسے نظر آتا ہے ،ایک دیہاتی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ ککرے کس کے لئے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ اس شخص کے لئے جو پاکیزہ بات کرے ،کھانا کھلائے اوررات کو اس وقت نماز اداکرے جب لوگ سورہے ہوں۔(ترمذی شریف ابن کثیربحوالہ)
حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جبریل علیہ السلام مجھے رات کی نماز کے بارے میں اتنی تاکید کرتے رہے کہ مجھے یقین ہوگیا کہ میری امت کے اچھے لوگ سوئیں گے نہیں (صاوی ۳۰۷۰)حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ چاہتاہے کہ محشرکے موقف حساب میں اللہ تعالیٰ اس پر آسانی فرمادیں،اس کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس کو رات کی اندھیری میں سجدہ اورقیام کی حالت میں پائے،اس طرح کہ اس کو آخرت کی فکر بھی ہواوررحمت کی امید بھی (معارف القرآن ص۔۵۴۳ ج۔۷)
بہرحال ان سب تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کی عبادت کتنی اہمیت کی چیزہے قرآن پاک میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے کہ اورکسی قدر رات کے حصہ میں سو اس میں تہجد پڑھاکیجئے جو کہ آپ کے لئے زائد چیز ہے (بنی اسرائیل ۷۹ پارہ ۱۵)
پہلے تہجد کی نماز فرض تھی پھر پانچ نمازیں فرض قراردیدی گئیں اوراس کی فرضیت حضورؐ اورآپ کی امت سے ختم کردی گئی ۔
نماز تہجد کے اصل مفہوم میں بعدالنوم (سونے کے بعد)ہونا شرط نہیں ،لیکن عام معمول حضور صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام کا یہی رہا ہے کہ آخررات میں بیدار ہوکر پڑھتے تھے ۔
اس لئے اس کی افضل صورت یہی ہوگی (معارف القرآن ص ۵۰۴ ج۔ ۷)عامت عادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تھی کہ آٹھ رکعت تہجد کی اداکرتے تھے ،لیکن کبھی اس سے کم چارپانچ رکعات پر بھی اکتفافرمایاہے (ایضاً ۵۰۶)
فائدہ :۔
دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ آدمی کو اللہ کی رحمت کا امید وار ہوناچاہیے اورآخرت کا خوف رکھنا چائیے ۔
درحقیقت ایمان ان دونوں چیزوں کے مجموعہ کا نام ہے کہ آدمی اللہ رب العزت سے اورآخرت سے ڈرتابھی رہے اوراس کی رحمت کا امید واربھی ہے کیونکہ صحیح حدیث ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرا بندہ جیسا گمان میرے ساتھ کرے میں اس کے ساتھ ویساہی معاملہ کروں گا ۔اورایک حدیث پاک ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میری رحمت میرے غصہ سے زیادہ ہے ۔
قرآن مقدس میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایاکہ اے نبی ؐ آپ کہدیجئے کہ اے میرے بندو،جنہوں نے (کفروشرک کرے )اپنے اوپر زیادتیاں کی ہیں کہ تم خداکی رحمت سے ناامید مت ہو،بالیقین خداتعالی تمام (گذشتہ )گناہوں کو معاف فرمادے گا ۔واقعی وہ بڑا بخشنے والا بڑی رحمت والاہے (سورہ زمر ۵۳)
حضرت انس ؒ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس گئے ان کی موت کا وقت قریب تھا ۔آپ نے پوچھا کیسا محسوس کررہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ مجھے امیدرحمت بھی ہے اورخوف عذاب بھی تو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ دونوں ایسی حالت میں کسی مؤمن کے دل میں جمع نہیں ہوتیں مگر ضرور اس کو اللہ تعالیٰ وہ چیز عطافرماتے ہیں جس کا وہ امید وار ہے اوراس چیز سے امان عطافرمائے ہیں ،جس سے وہ خوف زدہ ہے ۔
قرآن مقدس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہے کہ آپ (یہ بھی )کہدیجئے کہ اگر (بفرض محال )میں اپنے رب کا کہنا نہ مانوں تو میں ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ رکھتا ہوں (سورہ زمر ۴)
اس آیت کریمہ کامطلب یہ ہے کہ لوگ گناہوں سے پوری طرح اجتناب کریں کیونکہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جلات شان
، پاکیزگی اورمنصب نبوت کے باوجود خوف زدہ رہتے ہیں تواوروں کو بدرجہ ٔ اولی خوف زدہ رہنا چاہیے (جمل ص۔ ۵۹۴ ج۔ ۳ بحوالہ حاوی )
اوریہ امید وخوف صرف اسی کو نہیں رکھنا چاہیے جو بے عمل یا بد عمل ہو بلکہ جو عبادت گذار اورعمل کرنے والا ہواس کو بھی اسی کیفیت کے ساتھ متصف ہوناضروری ہے ۔
علامہ ابن کثیرؒ یحذر الآخرۃ ویرجورحمۃ کے ضمن میں تحریرفرماتے ہیں کہ عبادت اوربندگی کی حالت میں ڈراورامید رکھتے ،اورعبادت کے اندران دونوں باتوں کا ہونا ضروری ہے نیزفرمایاکہ زندگی میں خوف غالب رہے اورخوف کے وقت امید غالب رہے (مختصرابن کثیرج ۳ ص۔ ۲۱۴)