ایس ایم ایس خوبیاں ۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔خر ابیاں

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
ایس ایم ایس
خوبیاں ۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔خر ابیاں
حضرت مولانامحمد ولی رازی
موبائل فون اپنی ذات میں ایک بہت ہی بڑی سہولت اورنعمت ہے ، دوتین انچ کی ایک چھوٹی سی دنیامیں مختلف مشینوں کا مجموعہ آپ کی جیب میں پڑا ہوا ہے ،پہلے یہ سب مشینیں الگ الگ بڑے سائز میں اور بہت مہنگی ملا کرتی تھی ،اس ڈھائی تین انچ کے ٹکڑے میں کیا ہے ؟ اس کا مختصر سا جائزہ لیجئے۔
۱ ۔ سب سے پہلے تویہ فون ہے ،صرف ایک ٹیلی فون حاصل کرنے کے لئے کسی زمانہ میں سالہاسال دفتروں کے چکر لگانے پڑتے تھے ۔
۲ ۔ یہ فون کارڈ لیس ہے اس میں تاروں کا کوئی جھنجھٹ نہیں ہے ۔
۳ ۔ یہ فون ایل سی ڈی ہے کہ فون کرنے والے کا نمبر اورنام اسکرین پر آجاتا ہے ۔پہلے ایل سی ڈی فون لینے کے لئے الگ سے کوشش کرنی پڑتی تھی ۔
۴ ۔ یہ ایک مکمل ٹیپ ریکارڈ بھی ہے ،ٹیپ ریکارڈ بہت مہنگے ملتے تھے ۔
۵ ۔ یہ مکمل ریڈیوبھی ہے ۔آپ پہلے سے الگ سے ریڈیو اور ٹرانزسٹرخریدتے تھے اب یہ آپ کی جیب میں ہے ۔
۶ ۔ یہ ایک اعلیٰ درجہ کا کیمرہ بھی ہے جو پہلے ہزاروں روپے میں ملتا تھا اور اس کے ساتھ زوم لینس ،ٹیلی لینس اور وائر انگل لینس الگ نہایت بھاری قیمت پر ملتے تھے ۔
۷ ۔ یہ ایک اعلیٰ درجہ کا ویڈیو کیمرہ بھی ہے جو پہلے بھاری قیمت پر فراہم ہوسکتا تھا ۔
۸ ۔ یہ مکمل وی سی پی اور وی سی آر بھی ہے ۔
۹ ۔ یہ ایک ڈیجیٹل آرگنائزر بھی ہے اس میں آپ اپنی یادداشتیں اور اپنے دوستوں سے کئے ہوئے وعدے ،پروگراموں اور خصوصی میٹنگوں کی تاریخیں اور اوقات محفوظ کرسکتے ہیں ۔
۱۰ ۔ یہ ایک الارم بھی ہے جس میں آپ ایک دن میں مختلف اوقا ت کے لئے کئی الارم سیٹ کرسکتے ہیں یہ مقررہ وقت پر خود بخود آن ہوجاتا ہے ۔
۱۱ ۔ یہ ایک مکمل میڈیا پلیئر بھی ہے جس کے شائقین اپنا شوق پورا کرتے ہیں ۔
۱۲ ۔ اس میں ایک انوکھی مشین ایسی ہے جو پہلے صرف ڈاکخانوں میں ہوا کرتی تھی اور عام آدمی کو میسر نہیں تھی ۔وہ پہلے ٹیلی گراف بھیجے جاسکتے تھے ۔اب ہر شخص دنیامیں کسی شخص کو بھی کسی مقام پر بھی ٹیلی گرام بھیج کر دو تین سیکنڈمیں جواب حاصل کرسکتا ہے اور میر یپج کی اس تحریر کا اصل مقصد اسی کے استعمال پر کچھ عرض کرنا ہے ، اس ٹیلی گرام کا نیا نام ایس ایم ایس ہے (یعنی شارٹ میسج سروس )
۱۳ ۔ یہ ڈھائی تین انچ کا ٹکڑا اب ایک مستقل کمپیوٹر بھی ہے آپ اس کے ذریعے انٹر نیٹ پر اپنی پسندیدہ ویب سائٹ دیکھ سکتے ہیں ،میل وصول کرسکتے اور بھیج سکتے ہیں اور کمپیوٹرکی دوسری بے شمار سہولتیں حاصل کرسکتے ہیں ۔
۱۴۔ یہ معمولی سی تبدیلی کرکے مکمل کلر ٹیلی ویزن میں بھی تبدیل ہوسکتا ہے اوراس پر آپ تمام چینل آسانی سے دیکھ سکتے ہیں ۔
ذرا سوچئے اگر آپ تیس چالیس سال پہلے یہ تمام مشیینیں اپنے کمرے میں جمع کرتے تو کتنی رقم خرچ ہوتی اور آپ کے کمرے میں آپ کے لئے کتنی جگہ بچتی ؟آج یہ ساری مشینیں آپ کی جیب میں سگریٹ کے پیکٹ میں بھی کم جگہ پر موجود ہیں ، اس اعتبار سے دیکھئے تو یہ ڈھائی تین انچ کا ٹکڑا بے شمار سہولتوں کا خوبصورت پیکیج ہے اور بڑی نعمت ہے ۔بشرطیکہ اس نعمت کو نعمت سمجھ کر ہی صحیح مقاصد کے لئے استعمال میں لایا جائے ۔
ایس ایم ایس کی اچھائیاں
موبائل فون کی کمپنیوں نے آج کل اپنے کاروباری مقاصد کے لئے ’’SMS‘‘کے مختلف پیکیج نکالے ہوئے ہیں ان میں سے معمولی سیرقم کے عوض سو سے لے کر ایک ہزار پیغامات بغیر کسی اور معاوضے کے بھیجے جاسکتے ہیں ۔اس سہولت کی وجہ سے نوجوان نسل میں خصوصاً ایس ایم ایس ایک وبا کی صورت اختیار کرگئے ہیں ، جس کودیکھ وہ ایس ایم ایس بھیج رہا ہے اور وصول کررہا ہے اور اس میں اس حد تک انہماک بڑھ گیا ہے کہ نہ نمازوں کے اوقات کی پروانہ کھانے پینے کی ۔ طلبہ کے امتحانات ہورہے ہیں وہ امتحان کے لئے تیار یمیں اتنا وقت صرف نہیں کرتے جتنا SMSٹائپ کرنے اور وصول کرنے میں لگادیتے ہیں اب یہ وبا صرف بچوں تک محدود نہیں ہے ۔بڑے بھی اس سہولت سے اپنے مزاج کے مطابق فائدہ اٹھارے ہیں ۔
یہ پیغامات مختلف قسم کے ہیں جو سیاسی ،معاشرتی ،لطیفہ گوئی ،ادبی ،مذہبی اور ثقافتی وعریانی پر مشتمل ہوتے ہیں ۔بعض اقوال بڑے حکیمانہ ،دانش مندانہ اور خوبصورت ہوتے ہیں ۔ ابھی کسی نے مجھے ایک پیغام بھیجا : ’’ اپنے رب کو یہ مت بتائے کہ تمہاری پریشانی کتنی بڑی ہے ۔اپنی پریشانی کو یہ بتاؤ کہ تمہارا رب کتنا بڑا ہے ؟ ‘‘ اب یہ مقولہ کتنا حکیمانہ اوراس پر عمل کیاجائے تو آدمی مصیبتوں سے راحت میں آجائے ۔
لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اگر نیکی بھی کرنا چاہتے ہیں تو شیطان بڑی چالاکی سے اس نیکی کو گناہ بنادیتا ہے ۔مثلاً اگر آپ اسی مقولے سے پہلے یہ لکھ دیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ جھوٹی نسبت اسی مقولے کو جہنم کی کنجی بنادے گا ۔حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بہت واضح ہے ’’ جس کسی نے ارادتاً مجھ پر (کوئی )جھوٹ باندھا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے ‘‘۔
آج کل SMSجو اس وقت کا سب سے بڑا پیغام رسانی کا ذریعہ ہے اس پر لوگ کچھ دینی اور اخلاقی اقوال کہیں سے لے کر اس کی نسبت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کردیتے ہیں ۔(معاذ اللہ )ہمارے یہاں دینی اور اخلاقی تربیت کے فقدان کی وجہ سے اس سنگین اور عظیم گناہ کا احساس تک نہیں ہے ۔اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی ایسے اقوال کو بے سوچے سمجھے دوسروں کو فارورڈکردیتے ہیں ۔میرامعمول تو یہ ہے کہ اگر کوئی قول بہت اچھا ہوتا ہے اور اس کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا خلفائے راشدین میں سے کسی کی ہوتی ہے تو میں اس میں تبدیلی کردیتا ہوں کہ وہ نسبت ختم کرکے یہ جملہ لکھ دیتا ہوں ’’کسی بزرگ کا قول ہے ‘ ‘ اور پھر اس قول کو اگر ضروری سمجھتا ہوں تو آگے بڑھادیتا ہوں ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کسی حدیث کو کسی حدیث کو بیان کرتے وقت لزرہ براندام ہوجایا کرتے تھے بعض حضرات تو دوسرے صحابہ کی طرف ٹال دیا کرتے تھے کہ وہ حدیث بیا ن کردیں ۔اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عادت تھی کہ اگر چہ حدیث کو خودسناہوتا اور حدیث کے الفاظ یاد بھی ہوتے تو اکثر آخرمیں یہ اضافہ کردیتے تھے ۔’’ یا جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘‘ ۔
آج کل لوگ SMSکے ذریعے دین کی تبلیغ کے لئے مختلف اقوال کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ یا دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منسوب کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم دین کی تبلیغ کررہے ہیں ان کی نیت غلط نہیں ہوتی لیکن چونکہ وہ ان نقصانات سے واقف نہیں ہیں اسلئے بے دھڑک یہ گناہ کرتے رہتے ہیں ۔
ایک اور طریقہ چل نکلا ہے کہ کوئی بھی مذہبی مقولہ لے کر اس کے آخرمیں لکھ دیا جاتا ہے کہ اس پیغام کو جو شخص دس مزید لوگوں کو بھیجے گا اس کے لئے عظیم انعامات کا وعدہ کیا جاتا ہے اور دعویٰ کیاجاتا ہے کہ جو شخص یہ پیغام اتنے لوگوں کو نہیں بھیجے گا اس پر مصیبت آئے گی اور تباہی وبربادی سے ڈرایا جاتا ہے ، کوئی ان سے پوچھے کہ ان انعامات کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے کس سے کیا اور کس کے ذریعہ سے کیا اور مصیبت وبربادی یہ وعیدیں اللہ تعالیٰ نے کس کے ذریعہ سے دی ؟ ایسے پیغامات میں بھی یہ رویہ ہونا چاہیے کہ وہ قول اگر اچھا ہے اور قرآن وسنت کے مزا ج سے متصادم نہیں ہے تو صرف قول محفوظ کرلیا جائے اور وعدے اور وعید کو حذف کردیا جائے ورنہ ایسے پیغام کو مٹادیا جائے ۔
بعض لوگوں کا دعویٰ ہے کہ آج کل SMSپیغام رسانی کا سب سے بڑا اختیار یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس کا اخبار SMSسے زیادہ پڑھاجاسکتا ہے ۔اس لئے چاہیے کہ اس میڈیا کو لوگوں کی اخلاقی اوردینی تربیت کیلئے استعمال کیا جائے اور خاص طورپر اس سنگین گناہ سے بچنے کی تلقین کی جائے کہ بغیر تحقیق اور سند کے کسی قول کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت دینے والا اپنے لئے جہنم میں اپنی جگہ بک کرارہا ہے ۔اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس گناہ سے اپنی پناہ میں لے لے ۔
اپنی اس تحریر کو SMSسے وصول ہونے والی اس دعا پر ختم کرتا ہوں جو میرے ایک عزیز نے کل ہی مجھے مجھے بھیجا ہے اور یہ ایک حدیث کا ترجمہ ہے ’ ’ یا اللہ ! میں تجھ سے مانگتا ہوں ایسی معافی جس کے بعد گناہ نہ ہو ۔ایسی ہدایت جس کے بعد گمراہی نہ ہو ۔ایسی رضا جس کے بعد ناراضی نہ ہو۔ ایسی رحمت جس کے بعد عذاب نہ ۔ ایسی کامیابی جس کے بعد ناکامی نہ ہو ۔ایسی عزت جس کے بعد ذلت نہ ہو ۔آمین
 
Top