حضرت مولاناعبدالمجیدمہیسروی

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت مولاناعبدالمجیدمہیسروی
اللہ تعالیٰ نے اپنی سرزمین کو بنی نوع انسان سے آبادفرمایاہے،اس انسانی آبادی میں بعض لوگ تو وہ ہیں جودوسروں کی بیساکھیوں پر چلنے کو ہنرسمجھتے ہیں اور بعض لوگ وہ بھی ہیں جو خودکنواں کھودکرپانی پینے کا مزاج رکھتے ہیں،یہ قدرت کااٹل نظام ہے جس میں کوئی ترمیم وتبدیل ناممکن ہے ،جن لوگوں نے اپنے کرداروعمل سے ثابت کردیاکہ وہ روئے زمین پر’’بوجھ‘‘نہیں ہیں ایسے لوگ دنیاسے پردہ کرنے کے باوجودانسانی ذہن ودماغ میں موجودومحفوظ رہتے ہیں،آئے دن ان کے نیک تذکرے کئے جاتے ہیں،ان کے کردارکی بلندیوں اورافکارکی پاکیزگیوں پرباقاعدہ سیمینارمنعقدکئے جاتے ہیں،سوانح حیات لکھی جاتی اورمقالات شائع ہوتے ہیںاوریہ سب کام کسی لالچ اورکسی جبرواکراہ کے بغیرانجام پاتاہے۔
حضرت مولاناعبدالمجیدابن جناب علی بخش (۱)مہیسرویؒ(متوفیٰ ۵؍ذی الحجہ ۱۳۱۸ھ )خداکی ان نیک طینت اور پاک سیرت ہستیوں میں سے تھے جن کو انتقال فرمائے دس بیس سال نہیں پورے چونتیس (۳۴)سال ہوچکے ہیں لیکن اپنے متعلقین اورشاگردوں کے ذہن وزبان پراب بھی مولاناکے علمی وعملی کارنامے،شبانہ روزکی محنتیں،مدرسہ کیلئے جانفشانیاںو قربانیاں،اخلاص وللہیت کے قصے اورسادگی وقناعت کے زبان زدہیں۔
یہ چاند تارے انھیں کی ضیاء کا پرتو ہیں
چمن کے پھول بھی اُن سے ادائیں مانگتے ہیں
حضرت مولاناعبدالمجیدؒسہارنپورشہرکے مضافات کی ایک بستی ’’ مہیسری خورد‘‘میں پیداہوئے، دوسال کی عمر میں والدماجدکاسایۂ عاطفت آپ کے سرسے اٹھ گیااورحضرت مولانابچپن کی نیرنگیوں وگلکاریوں ہی میں یتیمی کے داغ سے دوچارہوگئے ،والدماجدکے انتقال کے بعدآپ کی پرورش اور نگہداشت آپ کے برادراکبر رحمت علی صاحب ؒنے
(۱) مدرسہ کے جملہ کاغذات اور ریکارڈمیں آپ کی ولدیت علی بخش تحریرہے جب کہ حضرت مولاناؒکی ذاتی دستی تحریرات میں اپنے نام کے ساتھ بطورولدیت علی محمدتحریرہے،بظاہراس کی توجیہ یہ کی جاسکتی ہے، چونکہ علی بخش نام رکھناصحیح نہیں ہے اس لئے مولانانے اپنے والدماجدکانام بدل کرعلی محمدرکھ دیاہوگا۔ (ناصرالدین مظاہری)
شروع فرمائی لیکن ان کی زیرسرپرستی ابھی بمشکل دوسال کا عرصہ گزراتھا کہ برادراکبربھی داغ مفارقت دے گئے۔تقریباًچارسال کی عمرمیںآپؒ کی سوتیلی والدہ اپنے ساتھ اپنے مائکہ ابراہیم پورلے گئیں، آپؒ کے والدماجد اچھے خاصے زمیندارتھے لیکن جب مولانااپنی سوتیلی ماں کے ساتھ ابراہیم پور چلے گئے تو یہاں زمینداری کے قانونی معاملہ میں لوگوں نے سرکاری اہلکاروں کے پوچھنے پربتادیاکہ علی بخش کے یہاں کوئی اولادنہیں تھی چنانچہ مولاناکی جو زمین وغیرہ تھی وہ لاوارث قراردیدی گئی اور زمینداروں کے قبضہ میں چلی گئی۔
وقت گزرتاگیا،حالات بدلتے گئے ،مولاناکا بچپن جس کو تعلیم وتربیت میں گزرناچاہئے تھابدقسمتی سے جانوروں کے ساتھ چراگاہوںاورکھیتوں میں بسرہورہاتھا،اللہ غریق رحمت فرمائے آپ کے ایک پڑوسی جناب مولوی اللہ دیاصاحبؒ کو ایک دن مولاناعبدالمجیدؒکی یادآئی اورانھیں دیکھنے کے لئے ابراہیم پورپہنچ گئے، معلوم کرنے پر پتہ چلاکہ جانوروں کوچَرانے کے لئے جنگل گئے ہوئے ہیں ۔پورے دن انتظارکے بعد اس حال میں مولاناعبدالمجیدؒسے ملاقات ہوئی کہ اُن کے ایک ہاتھ میں جانوروں کو ہنکانے کیلئے لاٹھی تھی اور ایک کندھے پر دیہاتی اندازکا ایک کپڑا، اُن کے اس دیہاتی حلیہ اورگنوارپن کے ماحول کو دیکھ کر مولوی اللہ دیاؒ سوچنے لگے کہ یہ بچہ جس کی عمرابھی مکتب کی چہاردیواری میں پڑھنے اورپھلنے کی ہے ،کھیتوں اور چراگاہوں میں ضائع ہورہی ہے، جن ہاتھوں میں قرآن کریم ہوناچاہئے تھا ان ہاتھوں میںجانوروں کو ہنکانے کے لئے لاٹھی موجودہے،وہ کندھے جن پرپوری امت کابوجھ اوربارامانت ہوناچاہئے وہ جانوروں کے لئے چارے اور گھاس لادنے میں مصروف ہیں،مولوی صاحب کو یہ منظردیکھ کر بڑی تکلیف ہوئی،چنانچہ آپ مولاناعبدالمجیدؒ کواپنے ہمراہ گھرلے آئے،پھران کی تعلیم وتربیت کے لئے سہارنپورشہرکی جامع مسجدکلاں کے امام واستاذ حضرت الحاج حافظ قمرالدین صاحبؒ (۱)کے سپردکردیا،حضرت الحاج حافظ قمرالدینؒ نے اپنی اولادکی طرح مولاناکی تعلیم وتربیت
شروع کی اور۱۳۳۰ھ میں الحمدللہ مولانانے ابتدائی دینی تعلیم کے علاوہ ام الکتاب قرآن کریم کاحفظ مکمل کرلیا۔
حفظ کلام اللہ کی تکمیل کے بعدحضرت الحاج حافظ قمرالدینؒکی سعی وکوشش سے مظاہرعلوم میں داخلہ ہوااور پھرآپ نے عالمیت کانصاب پڑھناشروع کیا۔
آپ نے ۱۳۳۱ھ سے ۱۳۳۶ھ تک درجات عربی وفارسی کی تعلیم مکمل کرکے ۱۳۳۷ھ میں مظاہرعلوم سے فراغت حاصل فرمائی۔
آپ نے ؒمحدث کبیرحضرت مولاناخلیل احمدمحدث سہارنپوریؒ اور حضرت مولاناسیدثابت علیؒ پورقاضویؒ جیسی برگزیدہ شخصیات اور اعیان علم وتقویٰ سے حدیث شریف پڑھنے کا شرف حاصل کیا۔
دورۂ حدیث شریف کے خصوصی رفقاء میںحضرت مولاناسیدظریف احمدپورقاضویؒ،حضرت مولاناعبدا لعلی جونپوریؒ،حضرت مولانامظہرالحق سہارنپوریؒاورحضرت مولانامنظورحسن سہارنپوریؒ قابل ذکرہیں۔
حضرت مولاناعبدالمجیدؒؒبیضاوی شریف،بخاری شریف،ابوداؤدشریف،نسائی شریف،مسلم شریف، ترمذی شریف، طحاوی شریف ،موطاامام مالک ،موطاامام محمد،ابن ماجہ شریف،توضیح تلویح اورہدایہ اخیرین کل بارہ کتابوں کا امتحان دیکر امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوئے اورقرآن مجید متر جم، مؤطاامام محمدؒ، حسامی، تفسیرالحمد یعنی تحفۃ الاسلام،اتحاف السنیہ،مسامرہ،براہین قاطعہ،نشرالطیب جیسی قیمتی کتابوں کے علاوہ جناب حاجی وجیہ الدینؒ کی طرف سے ایک جیبی گھڑی بھی بطورانعام حاصل فرمائی۔
فراغت کے بعد۱۳۳۸ھ میںآپ نے درجہ فنون میںداخلہ لیااورفقہ حنفی کی مشہورکتابیں درمختار اور سراجی کے علاوہ مسلم الثبوت ،صدرا،میرزاہد،امورعامہ،تصریح،اقلیدس،شمس بازغہ،شرح چغمینی،سبع شداد، حمداللہ اوررسالہ میرزاہدپڑھ کرمتعددکتابیں انعام میں حاصل فرمائیں۔
آپ ؒ نے پنجاب یونیورسٹی سے فارسی میں ایم اے بھی کیا تھا چنانچہ یونیورسٹی کی طرف سے جاری سندبھی آپ کے پاس موجودتھی۔
فراغت کے بعدمظاہرعلوم میں آپ کی لیاقت اورقابلیت کاچرچاتوبہرحال ہوناہی تھا،آپؒاپنی خداداد لیاقت صلاحیت اورکردارعمل کی بدولت اپنے مؤقر اساتذہ کے منظورنظربھی بن گئے ۔
حضرت مولاناسیدعبداللطیف پورقاضویؒ نے حضرات سرپرستان کویہ اطلاع بہم پہونچائی کہ
’’امسال بعض طلبہ فارغ شدہ قابل موجودہیںاگران کوکام میں لگایاجائے تو مناسب ہے جانے کے بعدآنادشوارہے(مولانا)بدرعالم میرٹھی(مولانا)عبدالمجیدمہیسروی(مولانا)لطیف الرحمن کاندھلوی(مولانا) ممتازخان ٹانڈوی(مولانا)اسعداللہ رام پوری(مولانا)حسن احمدسہارنپوری۔
تحصیل دیہات کے لئے(مولانا) عبدالمجیدمناسب ہے۔(مولانا)بدرعالم کومناظرہ اورابتدائی تعلیم میں لیاجائے کیونکہ ابتدائی طلبہ زیادہ ہوگئے ‘‘فقط عبداللطیف
شیخ الاسلام حضرت مولاناسیدعبداللطیفؒ کی اس رائے سے اکابرعلماء مظاہرنے بھی اتفاق کیاچنانچہ اس سال مولانابدرعالم میرٹھیؒ،مولاناعبدالمجیدمہیسرویؒ اور مولانامحمداسعداللہ رام پوریؒکاتقرربمشاہرہ پندرہ روپئے ہوالیکن اول الذکرحضرت مولانابدرعالم میرٹھیؒ نے مزیدتعلیم جاری رکھی اوردیوبندتشریف لے گئے باقی حضرات نے تادم واپسیں اپنی مادرعلمی کے لئے ہمہ نوع قربانیاں انجام دیں۔
حضرت مولاناعبدالمجیدصاحبؒ کبھی کبھی اپنے زمانہ طالب علمی اور بچپن کے حالات سناتے تو سننے والوں پر رقت طاری ہوجاتی،چنانچہ ایک مرتبہ آپ نے فرمایاکہ طالب علمی کے زمانہ میں عموماً فاقہ کی نوبت آجاتی تھی،بھوک لگتی تو کوئی سستی چیز لے کرپیٹ بھرلیتا،شکرقندبہت سستی تھی چنانچہ عموماً دوپیسے کی شکرقندلے لیتاجو کئی دنوں کے لئے کافی ہوجاتی تھی۔
حضرت مولانا عبد المجید ؒ اپنا کام خود کرتے تھے ،چھوٹے سے چھوٹا کام کرنے میں انہیں تکلیف اورتکلف نہ ہوتا تھا ،آپ سادگی پسند تھے ،سادہ غذا ،سادہ لباس اورسادہ گفتگو کرتے تھے ،مظاہر علوم میں تدریسی وانتظامی ذمہ داریوں کے باوجود مطبخ سے اپنا کھانا خود لاتے تھے حتی کہ کھانے کے برتن بھی آپ ہی دھلتے تھے ۔
حضرت الحاج حافظ قمرالدینؒ کی مولاناعبدالمجیدؒ نے بہت زیادہ خدمت کی تھی،اخیرعمر میں جب حافظ قمرالدینؒ زیادہ نحیف ونزارہوگئے اور چلناپھرنا،اٹھنابیٹھنادوبھرہوگیاتو حصرت مولاناعبدالمجیدؒ اپنے مشفق ومحسن استاذکواپنی گودمیں اٹھاکرمصلیٰ پر لے جاکربٹھاتے تھے۔آپ نے اپنے استاذ محترم کی بہت ہی دعائیں لیں اور شایداُن بزرگوں کافیضان نظرتھا یا مکتب کی کرامت تھی کہ اللہ تعالیٰ نے مظاہرعلوم جیسی بڑی درسگاہ کا آپ کو بیک وقت استاذ،نائب مہتمم تعلیمات ، ناظم مطبخ اوردارالطلبہ قدیم کانگراں بنادیاتھا ۔فللّٰہ الحمد۔
حضرت مولاناعنایت الٰہی ؒکے ضعف وعوارض کے سبب مدرسہ کا ایک بڑاطبقہ ان کی نیابت اورجانشینی کیلئے فکرمندتھااور سبھی چاہتے تھے کہ حضرتؒ کی حیات ہی میں کوئی لائق فائق شخص نائب بن جائے تاکہ فتنوں کا سدباب ہوسکے(واضح رہے اس سے پہلے تک مدرسہ میں’’ناظم تعلیمات‘‘ اور’’ ناظم مالیات‘‘ کاعہدہ الگ الگ نہیں تھامہتمم ہی سب کی نگرانی کرتاتھامگراب رائے یہ ہوئی کہ یہ دونوں عہدے مستقل قائم کردئے جائیں اوردونوں عہدے داران ناظم صاحب کے دست وبازو بن کر تعلیمی ومالی نظام کو بہترسے بہتربنانے کی کوشش کریں)اس سلسلہ میں شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریامہاجرمدنیؒ سے بھی ارباب حل وعقدنے مشورہ طلب کیا،حضرت شیخؒ نے اس کا تفصیلی جواب تحریری طورپردیااس میں پورے انشراح کے ساتھ حضرت مولانا عبدالمجیدؒکانام نامی بھی ان سطورکے ساتھ پیش فرمایاتھا:
’’(۳)میرے اپنے ناقص خیال میں اس عہدہ کے لئے مولوی عبدالمجیدصاحب مدرس اول فارسی مناسب ہیں جن کا تذکرہ میں زبانی بھی کرچکاہوں،میرے نزدیک یہ صورت مناسب ہے کہ ۲۵روپے تنخواہ کے ساتھ ان کو بلانام اہتمام وغیرہ کے دفترمیں ملازم کیاجاوے اور یہ تقرروقتی ایک سال کے لئے عارضی کیاجائے ،ایک سال تک کام کی جانچ کی جاوے ،اگرکام چلتا نظرآوے اور ان کے قابومیں ہوتو ان کو مہتمم مال قراردیاجائے اورمہتمم تعلیم بدستورمولوی ظریف احمدصاحب کوتجویزکیاجائے‘‘
بہرحال:حضرت خواجہ مجذوبؔ ؒ کے بقول
کامیابی تو کام سے ہوگی
نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
آدمی اپنے کام اورحسن کارکردگی ہی سے پہچاناجاتاہے حضرت مولاناعبدالمجیدصاحبؒ جواب تک مدرس اول درجہ فارسی تھے ان کی تنخواہ میں دوروپے کا اضافہ کرکے ۱۳۵۰ھ میںشعبۂ تعلیمات کانائب مہتمم مقررکیاگیا ۔ (آپ نے ۱۳۳۹ھ میں چندماہ کتب خانہ میں بھی خدمت انجام دی تھی)
مدرسہ مظاہرعلوم کے دفترتعلیمات کی نگرانی اورذمہ داری کے علاوہ آپ کومطبخ کانظام بھی دیکھناپڑتاتھا، اندازہ کیاجاسکتاہے کہ مظاہرعلوم جیسے عظیم ادارہ میں دفترتعلیمات کی کیاحیثیت اورکیاپوزیشن ہوسکتی ہے،کسی کا کھاناجاری کرناتو کسی کابندکرنا،اساتذہ کی نگرانی،امتحانات ماہانہ،سہ ماہی ، ششماہی اور سالانہ کا انتظام،پرچوں کی جانچ پڑتال،نمبرات کی چھان بین،سندات کااجرائ،ماہانہ وظائف ،لحاف گدوں کی تقسیم وغیرہ اس قدرکام کی بھرمارکے باوجود حضرت مولاناعموماً یکہ وتنہاپورے کام کو انجام دے کرمطبخ تشریف لے جاتے ،وہاں کاکام بھی کچھ آسان نہیں ہے ،کتناآٹاپکے گا،کتنی دال پکے گی،گوشت کتناہوگا،گوشت میں کون سی سبزی ملائی جائے گی،تیل کی مقدار کتنی ہوگی، ہلدی، مرچ،ادرک،نمک،اجوائن ،لہسن،پیاز،الائچی وغیرہ کی مقدارمقررکرکے روزآنہ کی مقدارکارجسٹروں میں اندراج کرنا،کھانے کی تقسیم ،ٹکٹوں کی ترتیب تمام کام مولاناعبدالمجیدؒبحسن وخوبی انجام دیتے تھے۔
یہی نہیں آپ نے مدرسہ میں تدریسی سلسلہ بھی جاری رکھا اور دوایک گھنٹے بھی پڑھائے چنانچہ مشہور ومعروف عالم دین حضرت مولانامفتی عبدالقدوس رومی مدظلہ نے اپنے دورطالب علمی میں آپ سے باضابطہ ’’نورالایضاح ‘‘نامی کتاب پڑھی تھی۔
اس کے علاوہ سردیوں کے موسم میں دوپہراورگرمیوں کے موسم میں عصرکے بعدحضرت مولانا عبدالمجیدؒ دارالطلبہ قدیم کے صحن میں واقع چبوترہ پر چارپائی بچھاکربیٹھ جاتے اور فارسی وعربی کے طلبہ آآکر آپ سے اپنی کتابیں اوراسباق حل کرتے ،اس طرح گویاآپ نے صفۂ نبوی کی یادتازہ کردی تھی ، آپ کے فیض یافتگان کی ایک لمبی فہرست تیارہوسکتی ہے۔
۱۱؍ذی قعدہ ۱۳۷۷ھ میں حضرت مولاناعبدالمجیدصاحبؒ مدرسہ کے مالی استحکام کے سلسلہ میں چندماہ کے لئے لائلپور(پاکستان) تشریف لے گئے ان کی غیبوبت میں حضرت مولاناانعام الرحمن تھانویؒ کو ان کی نیابت اہتمام کے فرائض سپردکئے گئے۔
اکابرمظاہراپنے تسلف وتخلف اور اقداروروایات کے معاملہ میں شروع ہی سے ممتازونمایاں رہے ہیں ، قرآن وسنت اور اکابرکے رہنماخطوط ونقوش سے سرموانحراف ان حضرات سے ناممکن ہے،پاکستان کے اس سفر میں حضرت مولاناعبدالمجیدؒ کومولاناابوالاعلیٰ مودودیؒ صاحب سے بھی ملناطے تھا،ابھی مولاناعبدالمجیدؒ مولانامودودیؒ صاحب کے پاس پہنچے بھی نہیں تھے لیکن ان کی آمدسے پہلے ان کے استقبال کی تیاریاں چل رہی تھیں، مودودی صاحبؒ کے ایک خادم بلکہ میرمنشی (اور مودودی جماعت کے سابق خدمت گار)حکیم شمس الحسن صدیقیؒ نے مولاناابوالاعلیٰ مودودی صاحبؒ کی میزپر ایک پیپرویٹ رکھا ہوادیکھا اس پر حکیم صاحبؒ نے مودودی صاحبؒ سے کیاکہااور مودودی صاحبؒ نے اس پر کس تاثرکا اظہارکیا؟اس کی پوری تفصیل مشہورومعروف عالم دین حضرت مولانامفتی عبدالقدوس رومی مدظلہ کی کتاب ’’مودودیت بے نقاب‘‘کے صفحہ ۲۲پرحکیم صاحب ہی کی زبانی پڑھتے چلیں:
’’ایک مرتبہ مودودی صاحب کے دفتر پہنچاتو انہوں نے بتایاکہ مدرسہ مظاہرعلوم سہارنپورکے نائب ناظم جواس وقت آموں کی دعوت کے سلسلہ میں چودھری نیازعلی صاحب کے مکان پر نہرپار مہمان تھے،مودودی صاحب سے ملنے آرہے ہیں اور وہ ان کے منتظرہیں،میری نگاہ مودودی صاحب کے پیپرویٹ پر پڑی جس کے نیچے کسی یورپین کی تصویر چپکی ہوئی تھی کہ ایک ریت کا ٹیلہ ہے اوروہ اس پر چڑھتاہوا دکھایاگیاہے میں نے مودودی صاحب سے کہا کہ آپ کے دفتر میں اس تصویر کا وجودقابل اعتراض تو نہ ہوگا؟مودودی صاحب نے فرمایا کہ ہاں واقعی آپ نے اچھا کیاکہ اس طرف توجہ دلائی ،یہ لوگ بہت تنگ خیال ہوتے ہیں،اس تصویرکو جلدی ان کے پہنچنے سے پہلے کھرچ دیجئے‘‘ (مودودیت بے نقاب ص ۲۲)
اس واقعہ سے اکابرعلمائے مظاہرعلوم کاتقویٰ اورتدین تو واضح اور روشن ہے ہی خود مولانامودودی کی آزادخیالی اوردین وشریعت کے جادہ سے انحراف بھی مترشح ہے۔
آپ کے ایک جواں سال فرزندحضرت مولاناعبدالوحیدؒجو فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ کے درسی ساتھی تھے اور انہوں نے پوری تعلیم یہیں مظاہرعلوم میں حاصل کرکے فراغت حاصل کی تھی ،فراغت کے ۲۲؍ربیع الاول ۱۳۵۶ھ مطابق ۲؍جون ۱۹۳۷ء چہارشنبہ کے دن سنت نبوی کے مطابق رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے لیکن ان کی عمرنے وفانہ کی اورحضرت مولاناعبدالمجیدؒکو اپنے بڑھاپے میں یہ سب سے بڑاغم جھیلنامقدرتھاافسوس کہ دوچھوٹی بچیوں اوراہلیہ کے علاوہ بوڑھے والدین کوچھوڑکر۲۲؍صفر۱۳۷۰ھ کو ۲۶؍سال کی عمرمیںراہئی ملک عدم ہوئے۔
جوان سال اولادکے انتقال پرملال کادرداور اس کی کسک ان ہی لوگوں کو ہوسکتی ہے جو اس جانکاہ حادثہ سے گزرے ہوں ۔
یہ مت پوچھ کہ کیا بچتا ہے، کیا کیا ٹوٹ جاتا ہے
کسی پر سے کسی کا جب بھروسہ ٹوٹ جاتا ہے
کوئی اس دردکو اک باپ سے بہتر نہ سمجھے گا
جواں بیٹاگزرجائے توکاندھا ٹوٹ جاتا ہے
اللہ تعالیٰ ایسے حادثات اور صدمات سے محفوظ فرمائے ،حضرت مولانا اس حادثہ سے بالکل ٹوٹ سے گئے تھے،پیرانہ سالی میں بڑھاپے کی لاٹھی کا چھن جانااور پوری ثابت قدمی کے ساتھ ان آفات وآلام ،مصائب وحوادث میں الجھ کراللہ کی رضاوخوشنودی میں مست رہنایقیناًاللہ والوں ہی کا کام ہے۔
سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت مولاناکو خصوصی لگاؤبلکہ عشق تھا،چنانچہ آپ کی بیاص خاص سے مختصرلفظوں میں بطورنمونہ صرف دوواقعات کا ذکرناگزیرسمجھتاہوں۔
آپؒ نے اپنے بیٹے مولاناعبدالوحیدکی جب شادی کی اور جیساکہ عام طورشادیوں میں مختلف بدعات ورسومات کی وباچل پڑی ہے اور اس وبامیں عام مسلمانوں کے علاوہ ہماراوہ طبقہ جو اپنے آپ کو پڑھالکھا اور دیندار تصورکرتاہے وہ بھی ان خرافات میں دھنساہوانظرآتاہے،اللہ تعالیٰ غریق رحمت فرمائے حضرت مولاناعبدالمجیدؒ کو کہ آپ نے ہرقسم کی بدعات سے اجتناب کیاحتیٰ کہ مغربی یوپی جہاں ’’نیوتہ‘‘کابہت زیادہ چلن ہے ،مولانانے اس شادی میں نیوتہ نہ لے کرایک مثال قائم فرمادی۔
اسی طرح ۱۵؍رجب ۱۳۶۸ھ شنبہ کے دن اپنی ایک بیٹی کاعقدمسنون کیاتو یہاں بھی سنت نبوی کا پوراپاس ولحاظ رکھا گیاچنانچہ حضرت مولاناہی کے الفاظ آپ بھی بڑھتے چلیں جو ان کی بیاض خاص سے حاصل کئے گئے ہیں۔
’’اس شادی میں بھی الحمدللہ کو ئی رسم قبیح ادانہیں کی گئی ،بذریعہ خط اطلاع کردی گئی تھی کہ چارآدمی آجائیں اور نکاح کرکے لے جاویں،کوئی رسم’’ بَری وغیرہ‘‘کی ادانہ کریں چنانچہ ایساہی ہوا‘‘
بڑھاپابھی اللہ تعالیٰ نے عجیب چیز بنائی ہے ،اس عمرمیں بیماریاں ’’خانۂ خالی رادیومی گیرد‘‘کی طرح پروانہ وار بلکہ جاں نثارہوتی ہیں بلکہ ہربیماری مریض پر گویااپناحق جتانے لگتی ہے اوریہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ گویااب یہ شخص میری ملکیت ہے ،حضرت مولاناعبدالمجیدؒ بھی مختلف امراض واسقام میں گرفتارہوگئے،حتیٰ کہ فالج نے بھی حملہ کردیا،بائیں ہاتھ میں رعشہ بھی پیداہوگیا،ان مسلسل امراض وعوارض کے باعث گویاآپ معذور ہوگئے،طویل بیماری پانے کے باوجود(اخیرکے چندماہ چھوڑ کر) تاحیات اپناکام بحسن وخوبی انجام دیتے رہے، ماتحت افرادکی نگرانی وسرپرستی بھی فرماتے رہے ۔
مظاہرعلوم کے تعلیمی ریکارڈاورمطبخ کے محافظ خانہ میں اگر تحقیق کی جائے تو حضرت مولاناکے نیک مشورے،اہم ترین کارنامے اوربلندپایہ فکروعمل کے اس قدرقیمتی نمونے مل سکتے ہیں کہ ایک صاحب قلم مورخ حضرت مولاناکی سوانحی زندگی میں رنگ آمیزی کرکے حضرت مولاناکی شخصیت کو آنے والی نسلوں کے لئے زندہ وجاویدبناسکتاہے۔
شیخ الاسلام حضرت مولاناعبداللطیف پورقاضوی’’ؒ معجون فلاسفہ‘‘ کا ڈبہ ہدیۃً پیش فرمایاکرتے ،اسی طرح حضرت شیخ الحدیث مولانامحمدزکریامہاجرمدنیؒ اپنے اس عزیزتلمیذپرخصوصی عنایات ونوازشات فرماتے رہتے تھے ،اسی طرح یہ حقیقت شایدبہت ہی کم لوگوں کو معلوم ہوگی کہ حضرت مولاناعبدالمجیدؒ کاآخری لباس جو ان کوبطورکفن پہنایاگیاوہ لباس بھی قطب الاقطاب حضرت اقدس مولانامحمدزکریا مہاجر مدنیؒ نے فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ کی معرفت مولاناکے پسماندگان کے پا س بھیجاتھا۔حضرت شیخ الحدیث مولانامحمدز۔کریامہاجرمدنیؒ نے حضرت مولانا عبدالمجیدؒ کے انتقال پرملال پر اپنے گہرے کرب وقلق کا اظہاربایں الفاظ فرمایاہے۔
’’۲۱؍شعبان ۱۳۹۶ھ مطابق ۱۹؍اگست ۱۹۷۶ء کومولاناعبدالمجیدصاحب نائب ناظم تعلیمات مظاہرعلوم جوعرصہ سے بہت بیمار تھے اورتقریباً معذورسے تھے ،اول مدرس فارسی کئی سال رہے پھر نائب ناظم تعلیمات رہے، بہت نیک آدمی تھے اپنے گاؤں مہیسری میں ۶بجے صبح کوانتقال فرمایا،اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے اپنے جوار رحمت میں جگہ مرحمت فرمائے،بڑی خوبیوں کے مالک تھے ،جناب الحاج حافظ قمرالدین صاحب نوراللہ مرقدہ کے اپنی طالب علمی کے زمانہ میں خادم خاص رہے تھے۔ع خدابخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میںفارسی کے بہت اچھے مدرس تھے ،قاری مظفرصاحب ان کی تجہیزوتکفین کیلئے تشریف لے گئے‘‘ (آپ بیتی ۲/ ۱۴۱۶)
مظاہرعلوم سہارنپورمیں جیسے ہی آپ کی رحلت کی اطلاع پہنچی تو شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریا مہاجرمدنیؒ نے حصرت مولاناعبدالمالک مظاہری سہارنپوریؒ اور فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ کوتجہیز وتکفین کیلئے گاؤں مہیسری خوردبھیجااور حضرت مفتی مظفرحسینؒ کی اقتدامیں نمازجنازہ اداکی گئی۔
مظاہرعلوم کی سالانہ رودادمیں آپ کے سانحۂ ارتحال کی ان الفاظ میں ہمدردان ومعاونین مدرسہ کو اطلاع دی گئی:
’’۲۱؍شعبان ۱۳۹۶ھ مطابق۱۹؍اگست ۱۹۷۶ء یوم پنجشنبہ کوبوقت صبح جناب مولاناعبدالمجیدصاحب ساکن مہیسری خوردنائب مہتمم تعلیمات مظاہرعلوم کانتقال ہوا،مولانامرحوم نے اپنی تمام زندگی مدرسہ ہذاکے کام، خدمت اورمالی اعانت کے فراہم کرنے میں پوری فرمائی،اللہ ان کو جنت الفردوس عطافرمائے۔ ‘‘ (روداد مدرسہ ۱۳۹۶ھ ص ۵۱)
مولائے مجیداپنے بندہ عبدالمجیدؒکی بخشش فرماکراپنے حبیبﷺ کا قرب خا ص عطافرمائے ۔آمین
 
Last edited by a moderator:
Top