حضرت مولاناعبدالسبحان کسانوی

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت مولاناعبدالسبحان کسانوی

حضرت مولانا عبدالسبحان کسانویؒجدید دور میں قدیم آدمی ،ترقی پذیر زمانے میں پرانی وضع اور پرانے فکر کے فردفرید ،چکاچوند کے اس دورمیں لا ئق دید اورقابل شنید شخص تھے ،عابد وزاہد،صابر وقانع ، گوشہ نشین بھی ، متقی وامین بھی ،سادگی ونفاست میں ممتاز تھے ۔
آپ نے حفظ کلام اللہ کے بعد درس نظامی کے مطابق تعلیم حاصل کی ،مظاہرعلوم سہارنپور کے بزرگ اساتذہ سے شروع ہی سے خصوصی لگاؤاورمناسبت تھی ،اسی لئے دین کی خدمت ان ہی کے زیر سایہ انجام دینے کی خواہش تھی اوراس خواہش کی تکمیل کے لئے کی گئی کوشش میںکامیاب بھی ہوئے ، چنانچہ مدرس دوم فارسی کے عہدہ پر۱۸؍شوال المکرم ۱۳۶۳ھ م ۵؍اکتوبر ۱۹۴۴ء بروز جمعرات مظاہرعلوم میں تقرر ہوگیا،مدرسہ خلیلہ جو ’’راؤبلڈنگ ‘‘کے نام سے موسوم ہے ،وہاں زیر تعلیم طلبہ کودرس دینا شروع کیا ان گنت طلبہ نے آپ سے اکتساب فیض کیا ،فارسی کتابوںکی تدریس کے علاوہ حساب ،اردو اور املاوغیرہ کے اسباق بھی آپ سے متعلق تھے،نہایت خلوص اورسادگی کے ساتھ مفوضہ امور کی انجام دہی میں مشغول رہے۔
آپ کے تلامذہ کی تعدادحد واحصاسے باہر ہے جن میں سے بعض طلبہ کو قابل رشک دینی خدمات کا موقع ملا ،حضرت مولانا اطہرحسین صاحب ؒنے بھی حضرت مولانا عبد السبحان کسانوی ؒسے اردو ،حساب اوراملا وغیرہ کی مشق کی تھی اسی لئے حضرت شیخ الادب ؒ ہمیشہ مولانا موصوف کا ادب واحترام کرتے تھے۔
حضرت مولانا اطہر حسین صاحب ؒ نے خودفرمایا:کہ
’’میرے پڑھنے کے زمانے کا قصہ ہے ،مولانا عبد السبحان کسانویؒجومیرے املا ء حساب کے استاذاور حضرت مولانا محمدالیاس صاحبؒ بانی تبلیغ کے ساتھیوں میں سے تھے ،حضرت مولاناتھانویؒسے بیعت وارادت کا تعلق رکھتے تھے ،اپنی عمر کے آخری دور میں مظاہر علوم کے مدرس فارسی مقرر ہوئے اورایک عرصہ تک تعلیمی خدمت انجام دی ،تعلیمی اوقات کے علاوہ اکثر تلاوت قرآن پاک میں مشغول رہتے ،رات کوسوتے ہوئے بھی کئی کئی پارے بہ آوازبلند پڑھتے تھے،انتہائی متواضع اور منکسرالمزاج تھے، ایک دن مجھ سے فرمانے لگے مجھے شاطبیہ کہلاؤمیں نے عرض کیا حضرت یہ کتاب تو بہت مشکل ہے پوری پڑھی بھی نہیں اور آپ تو میرے استاذ ہیں یہ کیا فرمارہے ہیں؟یہ کیسے ہوسکتاہے!اس پر مولانا نے سکو ت فرمالیا ۔
اخیر عمرمیںدیار حبیب کا شوق قلب میںموجزن ہوا،تیاری مکمل نہ تھی ،اس لئے مظفر نگرکے وقف میں جو اس وقت حجاج کرام کے تعاون کیلئے تھا درخواست گزاری لیکن وہ نا منظور ہوگئی ،میں نے کہا حضرت اب کیاہوگا؟فرمایا:اللہ تعالیٰ کوئی دوسرا نظم کریگاچنانچہ ایک دوروز کے بعد ایک صاحب حج بدل کے لئے حضرت مفتی مظفرحسین ؒصاحب مدظلہ کی خدمت میں ایک آدمی کی تلاش کے لئے حاضرہوئے انہوں نے آپ کی طرف راہنما ئی کی اس طرح آپ کے حج کا سامان مکمل ہوگیا ،حج کے لئے روانہ ہونے میں چند ہی روز باقی تھے کہ آپ سے ملاقات ہوئی میں نے سلام عرض کیااور کہا کہ حضرت آپ حج کو جارہے ہیں،میری درخواست یہ ہے کہ آپ واپس تشریف نہ لائیںتوہنس کر فرمایاکہ ارادہ تو یہی ہے ویسے جو اللہ کو منظور ہوگا ،چنانچہ وہ وقت آیا کہ آپ حج کیلئے روانہ ہوگئے اور پھر حج کے بعدآپ اپنے مولائے حقیقی سے جاملے،رحمہ اللّٰہ رحمۃًواسعۃً (بزم اطہر ص۵۲و۵۳)
مظاہر علوم سہارنپورکی سالانہ روداد میں حضرت مولانا عبدالسبحان کسانویؒکی رحلت پر درج ذیل الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیاگیا ہے۔
’’۱۸؍ذی الحجہ۱۳۸۱ھ مطابق۲۳؍مئی ۱۹۶۲ء چہارشنبہ کومولانا عبدالسبحان صاحب مدرس شاخ مدرسہ مظاہرعلوم سہارنپوربیت اللہ تشریف لے گئے تھے وہیں انتقال فرماگئیاناللّٰہ واناالیہ راجعون ۔
مولانا قدیم وضع کے بڑے نیک اورصالح افرادمیں سے تھے بزرگوں کو دیکھنے والے ،دینی شعائر کے بڑے پابند اورتقویٰ وطہارت کی زندگی رکھنے والے تھے اس سے قبل بھی حج کرچکے تھے لیکن اس مرتبہ کے حج کے احوال بالکل اس نوع کے تھے جیسے ان کواپنے دامن میںمستقل پناہ دینے کے لئے بلایا گیا ہو۔
ساری زندگی جس متقیانہ طریقہ پر بسر ہوئی اس کے پیش نظر ارض کعبہ میں ان کی موت بھی کس قدر قابل رشک ہے۔’’رحمہ اللّٰہ رحمۃً واسعۃً‘‘ ( رودادمدرسہ۱۳۸۱ھ مطابق۱۹۶۲ء ص۱۸)
مولانا عبد السبحان صاحب ؒنے تقریباً۱۸؍سال تک مظاہر علوم کی خدمت کی ،آپ کاتقررمدرس دوم فارسی میں ہوا تھا جو چند سالوں کے بعد استاد اردو سے بدل دیا گیا تھا،لیکن مولانا دلجمعی اورمحنت سے اپنے کام میں مصروف رہے نہ شکوہ وشکایت اور نہ ہی درخواست وعرض داشت ،خاموشی اورسکون کے ساتھ کام کرتے رہے ، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔
 
Last edited by a moderator:
Top