وترایک ،تین اورپانچ رکعتیں

ناصرشاہین

وفقہ اللہ
رکن
imagehost
 

بے باک

وفقہ اللہ
رکن
طاق نماز جسے " وتر " بھی کہتے ہیں اس بارے اجماعِ امت یوں ہے ،

...............................
’جب سے میں نے ہوش سنبھالا تو ہم نے لوگوں کو تین وتر پڑھتے ہوئے ہی دیکھا ہے۔اور سعودی عرب میں مقیم ہوں اور 37 سال سے مسجد نبوی ،المدینہ المنورہ اور بیت اللہ ،المکہ المکرمہ میں تین ہی وتر پڑھاتے دیکھا ہے اور خود بھی پڑھے ہیں ، ‘‘

طریقہ

نمازِ عشاء کے فرض، سنتیں اور نوافل ادا کرنے کے بعد تین رکعت وتر واجب ادا کریں۔ نماز وتر کی نیت بھی عام نمازوں کی طرح ہے۔ وتر پڑھنے کا طریقہ تھوڑے سے فرق کے ساتھ وہی ہے جو نماز مغرب کا ہے۔ یعنی دو رکعت پر تشہد کے لیے بیٹھیں، اس کے بعد تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہو جائیں، اور اس میں سورہ فاتحہ پڑھیں اور سورۃ ملانے کے بعد اَﷲُ اَکْبَر کہہ کر دونوں ہاتھوں کو کانوں کی لَو تک اٹھا کر پھر باندھ لیں اور عورت اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھا کر سینے پر رکھے، اس کے بعد دعائے قنوت پڑھیں جو ان کلمات پر مشتمل ہے :

اَللّٰہمَّ إِنَّا نَسْتَعِيْنُکَ وَنَسْتَغْفِرُکَ، وَنُؤْمِنُ بِکَ وَنَتَوَکَلُّ عَلَيْکَ، وَنُثْنِی عَلَيْکَ الْخَيْرَ، وَنَشْکُرُکَ وَلَا نَکْفُرُکَ، وَنَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ يَفْجُرُکَ. اَللّٰہمَّ اِيَّاکَ نَعْبُدُ وَلَکَ نُصَلِّی وَنَسْجُدُ وَاِلَيْکَ نَسْعٰی وَنَحْفِدُ، وَنَرْجُوْا رَحْمَتَکَ، وَنَخْشٰی عَذَابَکَ اِنَّ عَذَابَکَ بِالْکُفَّارِ مُلْحِقٌ.

’’اے اﷲ! ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں اور تجھ سے بخشش چاہتے ہیں، تجھ پر ایمان لاتے ہیں اور تجھ پر بھروسہ کرتے ہیں، ہم تیری اچھی تعریف کرتے ہیں، تیرا شکر کرتے ہیں اور تیری ناشکری نہیں کرتے، اور جو تیری نافرمانی کرے اُس سے مکمل طور پر علیحدگی اختیار کرتے ہیں۔ اے اﷲ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، اور تیرے لیے ہی نماز پڑھتے، تجھے ہی سجدہ کرتے ہیں، تیری ہی طرف دوڑتے اور حاضری دیتے ہیں، ہم تیری رحمت کے امید وار ہیں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ بے شک تیرا عذاب کافروں کو پہنچنے والا ہے۔‘‘


ناصر شاھین صاحب نے جو حوالہ جات دیے ان کو کچھ جگہ دیکھا ہے ، البتہ کچھ حوالہ جات یہ بھی دیکھیے ، اور ہم نے امت مسلمہ کو اسی پر جمع دیکھا ہے ، اسے اجماعِ امت کہتے ہیں ،
""
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں متفق علیہ حدیث ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ وتر کی تین رکعات ہیں۔ ابو سلمہ بن عبد الرحمان روایت کرتے ہیں :

أَنَّہ أَخْبَرَهُ أَنَّہ سَأَلَ عَائِشَۃ رضی اﷲ عنہا : کَيْفَ کَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اﷲِ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ : مَا کَانَ رَسُولُ اﷲِ صلی اللہ عليه وآلہ وسلم يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَی إِحْدَی عَشْرَةَ رَکْعَۃ، يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِہنَّ وَطُولِہنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِہنَّ وَطُولِہنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا.

1. بخاری، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب قيام النبی صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم بالليل فی رمضان وغيره، 1 : 385، رقم : 1096
2. مسلم، الصحيح، کتاب صلاة المسافرين وقصرہا، باب صلاة الليل وعدد رکعات النبی صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ، 1 : 509، رقم : 738

’’انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے پوچھا کہ رمضان المبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کیسی ہوتی تھی؟ انہوں نے فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھا کرتے تھے۔ چار رکعتیں پڑھتے تو ان کو ادا کرنے کی خوبصورتی اور لمبائی کے متعلق کچھ نہ پوچھو۔ پھر چار رکعتیں پڑھتے تو ان کو ادا کرنے کی خوبصورتی اور لمبائی کے متعلق کچھ نہ پوچھو۔ پھر تین رکعتیں پڑھتے۔‘‘

اِس حدیث میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے یہ نہیں فرمایا کہ پہلے چار رکعت پڑھتے، اس کے بعد پھر چار رکعت پڑھتے اور پھر اس کے بعد دو پڑھتے اور پھر ایک (وتر) پڑھتے۔ یہ بلافصل تین رکعت وتر کی سب سے قوی دلیل ہے۔

نام وَر تابعی اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے حضرت قاسم بن محمد حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنھما سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَی مَثْنَی، فَإِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَنْصَرِفَ فَارْکَعْ رَکْعَةً تُوتِرُ لَکَ مَا صَلَّيْتَ.

’’رات کی نماز کی دو دو رکعتیں ہیں۔ جب تم فارغ ہونا چاہو تو ایک رکعت اور پڑھ لو۔ یہ تمہاری پڑھی ہوئی نماز کو وتر بنا دے گی۔‘‘

اِس کے بعد سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے حضرت قاسم بن محمد رضی اللہ عنہ اپنا قول یوں بیان کرتے ہیں :

وَرَأَيْنَا أُنَاسًا مُنْذُ أَدْرَکْنَا يُوتِرُونَ بِثَلَاثٍ.

بخاری، الصحيح، کتاب الوتر، باب ما جاء فی الوتر، 1 : 337، رقم : 948
...........................................
سوال نمبر ُُُُُ 1: نماز وتر واجب ہے یا سنت؟
جواب : وتر واجب ہے، احادیث میں اس کے پڑھنے کی بڑی تاکید آئی ۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’وتر حق ہے، جو وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں‘‘ اسے تین بار فرمایا ، اور وتر کی نماز قضا ہو گئی تو قضا پڑھنی واجب ہے اگرچہ کتنا ہی زمانہ ہو گیا ہو ، قصداً قضا کی ہو یا بھولے سے قضا ہو گئی اور بلا عذر وتر نہ پڑھنا سخت گناہ ہے۔
سوال نمبر ُُُُُ 2: نماز وتر کی کتنی رکعتیں ہیں اور کس طرح پڑھی جاتی ہیں؟
جواب :نماز وتر تین رکعت ہے اور اس میں قعدئہ اولیٰ واجب ہے۔ یونہی ہر رکعت میں بعد فاتحہ سورت ملانا واجب ہے۔ پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ قعدہ اولیٰ میں صرف التحیات پڑھ کر کھڑا ہو، نہ درود پڑھے نہ سلام پھیرے اور تیسری رکعت میں قرات سے فارغ ہو کر رکوع سے پہلے کانوں تک ہاتھ اٹھا کر اللہ اکبر کہے جیسے تکبیر تحریمہ میں کرتے ہیں، پھر ہاتھ باندھ لے ور دعا قنوت آہستہ پڑھے، اس میں امام مقتدی اور منفرد سب کا حکم یکساں ہے اور دعائے قنوت کا پڑھنا واجب ہے۔
سوال نمبر ُُُُُ 3: جسے دعائے قنوت یاد نہ ہو وہ کیا کرے؟
جواب :جسے دعائے قنو ت یاد نہ ہو یا نہ پڑ ھ سکے وہ یہ پڑھے:
الھم ربنا اٰتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الاٰخرۃ حسنۃ وقنا عذ اب النار ط یا تین مرتبہ ا لھم اغفرلی کہہ لے ورنہ جس کو یہ بھی نہ آئے وہ تین بار یا رب کہہ لے۔
یہ دعا بھی پڑھی جا سکتی ہے ،
اَللّٰہُمَ اھْدِنِیْ فِیْمَنْ ہَدَیْتَ وَعَافِنِیْ فِیْمَنَ عَافَیْتَ وَتَوَلَّنِیْ فِیْمَنْ تَوَلَّیْتَ وَبَارِکْ لِیْ فِیْمَا اَعْطَیْتَ وَقِنِیْ شَرَّ مَا قَضَیْتَ اِنَّکَ تَقْضِی وَلَا یُقْضٰی عَلَیْکَ وَ اِنَّہُ لَا یَذِّلُ مَنْ وَاَلَیْتَ وَلَا یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَیْتَ۔
 
ق

قاسمی

خوش آمدید
مہمان گرامی
محترم!
بے باک صاحب نے جو کچھ رقم فرمایا ہے بے شک اجماع امت یہی ہے۔
 

سرحدی

وفقہ اللہ
رکن
ماشاء اللہ بہت قیمتی گفتگو ہوئی ہے، ناصر شاہین بھائی نے ایک رُخ دیا اور اس پر سیر حاصل بحث ہوئی، بہت زبردست معلوماتی مضمون ہے۔
 

تانیہ

وفقہ اللہ
رکن
جزاک اللہ بہت مفید اور معلوماتی باتیں پڑھنے کو ملیں اور ہمارے علم میں اضافہ ہوا
 
Top