رمضانی حافظ:

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
رمضانی حافظ:
رمضانی حافظ: قرآن کریم ام الکتاب ہے،اللہ کاکلام ہے،عام کتابوں کی طرح ایک ہی وقت میں نازل نہیں ہوابلکہ ۲۳؍سال کے لمبے عرصے اوروقفہ میں نازل ہوا،اس کی تلاوت کے آداب اورالفاظ ومخارج کی رعایت پرمستقل کتابیں تصنیف کی گئیں ،خودقرآن کریم میں ترتیلاًپڑھنے کاحکم موجودہے،علماء نے حدراًپڑھنے کے بھی اصول وضوابط تحریرفرمائے ہیں،نہایت عجلت میں قرآن پڑھناکہ الفاظ ومخارج کی رعایت ختم ہوجائے،قرآنی آیات وحروف سامعین کے پلے ہی نہ پڑیں،سکون وسکتہ،وقفہ واظہاراورادغام وغیرہ بالائے طاق رکھ کرروانی کے ساتھ پڑھتے چلے جاناممدوح نہیں ہے،کلام اللہ شریف کی تلاوت کوبوجھ اورذمہ داری سے سبکدوشی تصورکرکے نہ پڑھاجائے اسی طرح عوام کی رعایت میں تلاوت قرآن کی رعایت نہ رکھناشرعی جرم ہے ،جلدبازی میں بارہاایساہوتاہے کہ دماغ میں کچھ ہوتاہے اورزبان سے ادا کچھ ہوتا ہے، انسان پڑھناکچھ چاہتاہے اورنکلتاکچھ اورہے،سامع صاحب بتاناچاہتے ہیں ،لقمہ دیناچاہتے ہیں مگرامام صاحب کی روانی وجولانی اوررفتارطوفانی کے آگے سامع صاحب خاموشی ہی میںعافیت تصورکرلیتے ہیں ،پتہ یہ چلاکہ وہی قرآن جس کاپڑھنااورسنناعبادت اورسعادت تھامگرایسی حالت میں اس کاپڑھنااورسننادنیوی اوراخروی نقصان کا ذریعہ بن گیا،اسی لئے فرمایاگیارب قاری القرآن والقرآن تلعنہ،بہت سے قرآن کے پڑھنے والے ایسے ہوتے ہیں کہ وہ قرآن کی تلاوت کررہے ہوتے ہیں لیکن خودقرآن اُن کے اوپرلعنت بھیج رہاہوتاہے۔
اسی طرح اس ماہ مبارک میں ایک اورچیزدیکھنے میں بکثرت آرہی ہے کہ حفاظ کرام پورے سال نہ توقرآن کی تلاوت کرتے ہیں،نہ ہی قرآن یادکرے ہیں،نہ تونمازوں کااہتمام ہوتاہے نہ ہی اس کے اجراء کی فکرہوتی ہے لیکن رمضان کامہینہ جیسے ہی قریب آتاہے حفاظ کرام تلاوت میں خصوصی دلچسپی کامظاہرہ کرنے لگتے ہیں،داڑھی جوپورے سال عموماًغائب رہتی ہے مگررمضان کے قریب آتے ہی چہروں پر داڑھیاں ساون کے موسم کی طرح اُگنے لگتی ہیں،تراویح میں قرآن سنانے کیلئے اپنے علاقوں کوچھوڑکرمحض چندسکوں اورروپوں کی خاطردوردرازکے سفرکئے جاتے ہیں،باقاعدہ معاہدے ہوتے ہیں،رقم کامعاملہ پکاکیاجاتاہے اورجہاں کہیں زیادہ وظیفہ ملنے کی امیدیاتوقع ہوتی ہے وہیں تراویح پڑھائی جاتی ہے۔شریعت میں اس کی بھی ممانعت ہے اورہمارے اکابرنے اس سلسلہ میں بھی مستقل کتابیں لکھ کرعوام وخواص کوسیدھی راہ دکھائی ہے۔
معاشرہ میں ایک اورخرابی یہ پیداہوگئی ہے کہ تراویح میں امام تلاوت میں مصروف رہتاہے لیکن صفوں میں مقتدی حضرات خواہ مخواہ بیٹھ کرتکان اتارتے اورگفتگوکرتے رہتے ہیں یہ فعل سراسرناجائزہے،امام کی اقتدامیں پوری نمازکی ادائیگی ضروری ہے اس کے بغیرتراویح کاثواب نہیں مل سکتا۔
رمضانی عبادت گزار:ایک مرض عوام میں عموماپایاجاتاہے کہ پورے سال نہ تومسجدمیں آتے ہیں نہ ہی نمازپرھتے ہیں لیکن رمضان کے آتے ہی کسی کہنہ عابدوزاہدکے مانندپابندی کے ساتھ نمازیں اداکرتے ہیں،قرآن کریم جوپورے سال تلاوت سے محروم رکھاگیالیکن رمضان کے آتے ہی تلاوت شروع کردی جاتی ہے ،شرعی نقطۂ نظریہ ہے کہ نمازیں کبھی بھی معاف نہیں ہیںاورنہ ہی تلاوت کے لئے کوئی مہینہ مخصوص ہے۔اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ان ہی اعمال وافعال کوبہترین قراردیاہے جن پرمدوامت اورہمیشگی ہو۔خیرالعمل مادیم علیہ
رمضانی مسافر:رمضان المبارک جوعبادت اورریاضت کاموسم بہارہے لیکن ایک طبقہ ایسابھی ہے جواس مہینے میں چاہتے ہوئے بھی عبادت سے مجبورہے وہ طبقہ ہے دینی مدارس کے سفراء کا،ہندوستان میں عام لوگ چونکہ رمضان ہی میں چندہ دیتے ہیں اس لئے ان حضرات کوبھی مجبوراًرمضان میں رخت سفر باندھنا پڑتاہے،نہ توتراویح صحیح ڈھنگ سے اداہوپاتی ہے نہ ہی فرض نمازیں صحیح وقت پر،نہ توتلاوت کلام اللہ کاموقع ملتاہے اورنہ ہی سکون سے افطاروسحرکی توفیق مل پاتی ہے۔
میرے خیال میں حضرات اہل خیراگررمضان سے قبل یابعدمیںچندہ دینے کی کوئی ترتیب بنالیں تویہ طبقہ بھی بسہولت عبادت وریاضت کرسکتاہے،اللہ تعالیٰ نیت کودیکھتاہے اوراگریہ نیت کرلی جائے تاکہ سفراء مدارس بھی صحیح ڈھنگ سے عبادت کرسکیں توان شاء اللہ ثواب رمضان والاہی ملے گا۔اللہ ہمیں فہم صالح عطافرمائے۔
٭٭٭​
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
یرے خیال میں حضرات اہل خیراگررمضان سے قبل یابعدمیںچندہ دینے کی کوئی ترتیب بنالیں تویہ طبقہ بھی بسہولت عبادت وریاضت کرسکتاہے،اللہ تعالیٰ نیت کودیکھتاہے اوراگریہ نیت کرلی جائے تاکہ سفراء مدارس بھی صحیح ڈھنگ سے عبادت کرسکیں توان شاء اللہ ثواب رمضان والاہی ملے گا۔اللہ ہمیں فہم صالح عطافرمائے۔
 
Top