امام زفر بن ہذیل
نام ۔آپ کانام زفر ہے جس کے معنی عربی میں بہادر ی اورسخاوت کے آتے ہیں۔
نسب:آپ کا نسب نامہ یہ ہے
ابوالہذیل زفرالعنبری البصری ابن الہذیل بن (زفر بن الہذیل بن )قیس بن سلیم بن مکمل بن قیس بن ذہل بن ذویب بن جذیمہ بن عمروبن حجنور بن العنبر بن جندب بن العنبر بن عمرو بن تمیم بن مر ابن ادبن طابخۃ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معدبن عدنان (وفیات الاعیان3/117)
نسبت::آپ کو بصری حنفی،تمیمی اورعنبری وغیرہ کہاجاتاہے۔
خاندان:امام زفر جیساکہ نسب میں بیان ہوچکاہے اصیل النسب عربی ہیں۔ان کے والد اموی دورحکومت میں بعض حکومتی مناصب پر بھی فائزرہے جیساکہ کتب تاریخ وسیر میں بیان کیاگیاہے . خلیفہ ولید بن عبدالملک کے قتل کے بعد ان کو اصبہان کا گورنر بنایاگیالیکن جلد ہی وہ معزول کردیئے گئے۔اس سے قطع نظرتاریخ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ امام زفر کا گھرانہ ایک خوشحال گھراناتھا جہاں وسائل زندگی کی کوئی کمی نہ تھی ۔ایک واقعہ کتب تاریخ میں امام زفر کے داداجن کا نام بھی زفر ہی ہے کایزید بن مہلب کے ساتھ ذکر کیاجاتاہے جس سے پتہ چلتاہے کہ یہ خاندان دولت وشہرت کے علاوہ خصال خیر سے بھی متصف تھا۔ان کے بھائی بہنوں کے بارے میں امام ابونعیم فرماتے ہیں كَانَ أَبُوْهُ بِأَصْبَهَانَ فِي دَوْلَةِ يَزِيْدَ بنِ الوَلِيْدِ، فَكَانَ لَهُ ثَلاَثَةُ أَوْلاَدٍ: زُفَرُ، وَهَرْثَمَةُ، وَكَوْثَرٌ۔امام زفر کے والد زید بن الولید کے عہد اقتدار مین اصبہان میں تھے۔ان کی اولاد تین تھی زفر،ہرثمہ اورکوثر۔ (سیراعلام النبلاء جلد8/40)بعض تاریخی روایات میں ان کے ایک اوربھائی کا نام ملتاہے صباح بن الھذیل اور وہ بنی تمیم کے صدقات پر مامور تھے ۔
پیدائش:امام زفر کی ولادت110ہجری میں ہوئی اوریہی اکثرمورخین کا قول ہے ۔تاہم علامہ صفدی نے الوافی بالوفیات میں ان کی تاریخ پیدائش 116ہجری بتائی ہے (الوافی بالوفیات 14/135)امام زفر کی پیدائش عراق کے کس شہر میں ہوئی اس بارے میں صحیح طورپر کوئی بات نہیں کہی جاسکتی لیکن اتناقیاس کیاجاتاہے کہ ان کی ولادت کوفہ میں ہوئی ہوگی۔
ابتدائی تعلیم:امام زفر کا تعلق چونکہ ایک خوشحال گھرانے سے تھالہذا ان کو ان مصائب سے دوچار نہیں ہوناپڑا جن سے دوسرے لوگ دوچار ہوتے ہین اورانہیں پوری دلجمعی اوراطمینان قلب کے ساتھ تحصیل علم کا موقعہ ملا۔انہوں نے اولااپنے مقام پر ابتدائی علوم حاصل کئے۔قرآن کریم حفظ کیا۔پھرجب ان کے والد ان کو لے کر اصبہان گئے توانہوں نے وہاں کے محدثین اوردیگر اجلہ علماء سے علم حاصل کیا .
امام زفر کے اساتذہ:اس بات کااعتراف کرناچاہئے کہ امام زفر کے ابتدائی احوال کے تعلق سے بہت کم معلومات دستیاب ہیں اوریہ صرف ان کے ساتھ خاص نہیں بلکہ دیگر اجلہ محدثین کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے کہ ان کے بھی ابتدائی حالات کی واقفیت بہت کم دستیاب ہے۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے کن اساتذہ سے پائی اس تعلق سے کچھ کہہ پانامشکل ہےلیکن کتب وسیر وتراجم میں اسکا ذکر موجود ہے کہ انہوں نے اپنے زمانہ کے جلیل القدر محدثین سے علم حدیث حاصل کیا۔
علم حدیث میں امام زفر کے اساتذہ:علم حدیث کی اہمیت اورعظمت ہرایک جانتاہے۔اس تعلق سے کچھ کہناتحصیل حاصل ہے۔امام زفر جس دور میں تھے وہ دور تدوین حدیث کا دور تھااورمحدثین کرام جزاھم اللہ خیراحدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جمع وتدوین میں مصروف تھے ۔امام زفر نے بھی رواج عام کے مطابق علم حدیث کی تحصیل کی طرف توجہ کی اور اورحافظ ذہبی کے الفاظ میں اس میں اتقان وپختگی حاصل کرلی۔ امام زفر نے جن اساتذہ سے حدیث کی تحصیل کی ان میں سے چند کے نام ذکر کئے جاتے ہیں۔
• اعمش۔امام اعمش کاپورانام سلیمان بن مہران ابومحمد الاسدی الکاہلی ہے ۔یہ تابعی ہیں ۔انہیں حضرت انس کی رویت اوران سے روایت دونوں کا شرف حاصل ہے۔حافظ ذہبی نے ان کو الامام شیخ الاسلام،شیخ المقرئیں والمحدثین کے گراں قدر القاب سے یاد کیاہے۔جب کہ امام یحیی بن قطان ان کے بارے میں کہتے ہیں۔ھوعلامۃ الاسلام وہ اسلام کی علامت ہیں۔(سیراعلام النبلاء)
• اسماعیل بن ابی خالد ،یہ بھی تابعی ہیں اورانہیں پانچ صحابی سے روایت کاشرف حاصل ہے۔حافظ ذہبی کہتے ہیں کہ ان کی ثقاہت پر محدثین کا اتفاق ہے اوران کو کسی بھی تہمت سے نہیں متہم کیاگیاہے۔(سیراعلام النبلاء)
• امام ابوحنیفہ:امام ابوحنیفہ کے تعلق سے کچھ کہنا سورج کوچراغ دکھانے کے مترادف ہے۔بھلے ہی کچھ لوگ آج ان کے علم حدیث کے تعلق سے سوال اٹھائیں لیکن حافظ ذہبی اوردیگر محدثین نے حفاظ حدیث میں ذکر کرکے یہ بتادیاہے کہ ان کا مرتبہ علم حدیث میں کیاہے۔جہاں تک فقہ کی بات ہے تواس میں سلسلے میں چند احمقوں کو چھوڑ کر ان کی فقاہت پر امت کااتفاق بلکہ اجماع ہے یہی وجہ ہے کہ امام شافعی رضی اللہ عنہ کو کہناپراکہ لوگ فقہ میں امام ابوحنیفہ کے محتاج ہیں۔
• محمد بن اسحاق: اسلام میں سیرت ومغازی پرپہلی تصانیف میں ان کی تصنیف بھی شامل ہے ۔بعض لوگ غلطی سے سیرت کی پہلی کتاب ابن ہشام کی جانب منسوب کرتے ہیں لیکن وہ غلط ہے۔اصل کتاب ابن اسحاق کی ہے یہی وجہ ہے کہ ابن ہشام ہرجگہ اپنی کتاب میں کہتے نظرآتے ہیں قال محمد بن اسحاق ۔ان کی توثیق پر محدثین کا اتفاق ہے سوائے اس کے کہ امام مالک سے جوکچھ ان کے حق میں جرح منقول ہے لیکن علماء نے امام مالک کی اس جرح کو معاصرت اورمنافرت پر محمول کیاہے اوراس کا الگ واقعہ ہے جس کی تفصٰل کا یہ موقعہ نہیں ہے۔
• حجاج بن ارطاۃ:فقہ وحدیث دونوں میں ان کا بڑامقام ہے۔خاص طورپر فقہ میں ان کی عظمت شان زیادہ ہے۔ ان کو مفتی کوفہ کا لقب دیاگیاتھا۔
امام زفر کے اساتذہ کرام کا یہ ایک مختصر تعارف تھااس کے علاوہ بھی امام زفر کے اساتذہ میں اوربھی بہت سے نام ہیں لیکن اختصار کی غرض سے یہاں صرف تین چار نام ہی ذکر کئے گئے ہیں۔
ان ناموں میں خاص طورپر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ شروع کے دونام بڑے اورجلیل القدر محدثین کے ہیں۔اس کے بعد دو وہ ہیں جو فقہ میں ممتاز ہیں اوران میں ایک یعنی امام ابوحنیفہ توفقہ میں ان کی عظمت کا پوچھناہی کیا۔
تیسرے ان میں سے مغازی اورسیرت کے امام محمد بن اسحاق ہیں۔ اس سے یہ واضح ہوجاتاہے کہ امام زفر نے طلب علم میں ہر طبقہ سے تحصیل علم کیاہے اورکسی گوشہ کو بھی تشنہ نہیں چھوڑا۔
شاگردان:ایک دور وہ ہوتاہے جب انسان کسی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرتاہے دوسرادوروہ ہوتاہے جب کوئی دوسراانسان اس کے علوم سے خوشہ چینی کرتاہے۔علم سے تعلق اوراشتغال رکھنے والوں کیلئے یہ دونوں مراحل لازمی ہیں۔
امام زفر سے تحصیل علم کرنے والوں کی بھی ایک بڑی فہرست ہے جس کا استیعاب اوراحاطہ اس مختصر موضوع میں ممکن نہیں ہے۔چند نام بطور تبرک ذکر کئے جارہے ہیں۔
• عبداللہ بن مبارک:حضرت عبداللہ بن مبارک کی علوم اسلامیہ میں جلالت قدر اورجلالت شان مسلم ہے۔تفسیر،فقہ حدیث میں وہ امامت کا درجہ رکھتے ہیں تواسی کے ساتھ جہاد کے ساتھ ان کا شغف عشق کے درجے کا تھااوراپنی زندگی کا ایک بڑاحصہ اعلاء کلمۃ اللہ میں گزارا۔حدیث میں ان کے مرتبہ اورمقام کاعالم یہ تھا کہ ان کو امیرالمومنین کے گراں قدر لقب سے نوازاگیاتودوسری جانب اولیاء اللہ اورصلحاء امت کے درمیان بھی ان کابڑامقام ہے۔غرضیکہ ایسی مرنجان مرنج اورگوناگوں اوصاف والی شخصیات صدیوں میں کبھی کبھارجلوہ پذیر ہوتی ہیں۔بہرحال یہ تذکرہ اصلاان کا نہیں لیکن ان کا ذکر آئے توقلم سے کچھ الفاظ بے اختیار نکل ہی پڑتے ہیں ۔
• وکیع بن الجراح:علم حدیث میں ان کا مقام ومرتبہ انتہائی بلند اورعظمت شان کا حامل ہے۔اس سلسلے میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ امام وکیع بن امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے فقہ سے متاثرتھے اوران کے قول پر فتوی دیاکرتے تھے ۔چنانچہ حافظ ذہبی سیراعلام النبلاء میں لکھتے ہیں
علي بن الحسين بن حبان ، عن أبيه ، سمعت ابن معين يقول : ما رأيت أفضل من وكيع ، قيل : ولا ابن المبارك ؟ قال : قد كان ابن المبارك له فضل ، ولكن ما رأيت أفضل من وكيع ، كان يستقبل القبلة ، ويحفظ حديثه ، ويقوم الليل ، ويسرد الصوم ، ويفتي بقول أبي حنيفة رحمه الله، وكان قد سمع منہ كثير .علی بن حسین بن حبان اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں ابن معین سے سناہے وہ فرماتے تھے میں نے وکیع سے زیادہ افضل کسی کونہیں دیکھا کہاگیاکہ ابن مبارک بھی نہیں فرمایاکہ ابن مبارک صاحب فضل ہیں لیکن میں نے وکیع سے زیادہ افضل کسی کو نہیں دیکھا قبلہ رخ ہوتے اورحدیث یاد کرتے اوررات بھر نمازیں پڑھتے اوردن بھر روزہ رکھتے اورامام ابوحنیفہ کے قول پر فتویٰ دیاکرتے تھے اورانہوں نے ان سے بہت زیادہ حدیثیں سنی تھیں
بعض لوگ عمومایہ غلطی کرتے ہیں کہ جب دیکھتے ہیں کہ کسی نے امام ابوحنیفہ سے بعض امورمیں مخالفت کی ہے تو بس سمجھ لیتے ہیں کہ وہ حنفی نہیں یہ غلط طرز فکر ہے۔امام وکیع مقلد نہ تھے بلکہ مجہتد تھے لیکن جیساکہ میں نے کہاکہ مجتہد کے بھی درجات ہیں۔وہ امام ابویوسف اورامام محمد کے درجہ کے مجتہد تھے ۔بعض امور میں انہوں نے امام ابوحنیفہ سے اختلاف کیاہے ۔اس سے انکار نہیں۔صاحبین نے بھی امام ابوحنیفہ سے اختلاف کیاہے اوربعض مقامات پرسخت لہجہ اختیار کیاہے لیکن اس کے باوجود جب ان کو کسی نے یہ نہیں کیاکہ ان امور کی وجہ سے وہ حنفی نہیں رہے تو امام وکیع اوردیگر محدثین جوامام ابوحنیفہ کے طرز سے متاثر تھے ان کے بارے میں کیسے کہاجاسکتاہے کہ بعض مسائل میں امام ابوحنیفہ کی مخالفت کی وجہ سے وہ حنفی نہیں رہے۔
خود امام وکیع سے امام زفر سے تحصیل علم کے بارے یہ الفاظ منقول ہیں۔"الحمدللہ الذی جعلک لناخلفاعن الامام ولکن لایذہب عنی حسرۃ الامام" ۔خداکاشکر ہے کہ اس نے آپ ہمارے لئے امام کا جانشیں بنایا لیکن مجھ سے امام ابوحنیفہ کے تعلق سے حسرت نہیں جاتی ہے۔(یعنی ان کے انتقال کا دکھ اورصدمہ اپنی جگہ باقی ہے)
• سفیان بن عیینہ:علم حدیث میں حضرت سفیان بن عیینہ کی جلالت شان مسلم ہے۔محدثین نے گراں قدر الفاظ میںآپ کی توثیق اورتوصیف کی ہے۔
• محمد بن الحسن:فقہ میں آپ کی عظمت شان مسلم ہے اورامام شافعی کے امام محمد بن الحسن کے بارے میں کلمات خیر مشہور ومعروف ہیں۔
• شقیق بن ابراہیم :مشہور زاہد وعابد ۔انہوں نے امام زفر سے حدیث کے علاوہ فقہ کی بھی تحصیل کی ہے۔ سیراعلام النبلاء میں ان کے حوالہ سے موجود ہے۔
• ابونعیم فضل بن دکین:علم حدیث میں جلیل القدر امام ہیں انہوں نے امام زفر سے حدیث اورفقہ دونوں کی تحصیل کی ہے۔ خود ان کا اپنابیان ہے کہ جب میں حدیث کی سماعت کرکے آتا تو وہ مجھ کوبلاتے اورفرماتے جوحدیثیں تم نے سنی ہیں بیان کرو،میں بیان کرتاتوفرماتے دیکھویہ حدیث ناسخ ہے یہ منسوخ ہے۔اس میں فلاں علت ہے اوریہ قابل عمل ہے۔اس کو بعض روایات میں کہاگیاہے کہ امام زفر ان سے کہتے تھے لائو میں تمہارے لئے احادیث کو چھان دوں۔فضل بن دکین کہتے ہیں کہ لمامات الامام (ابوحنیفۃ )لزمت زفر لانہ کان افقہ اصحابہ واورعہم (سیراعلام النبلاء8/41)
جب امام ابوحنیفہ کا انتقال ہوا تومیں نے زفر کی صحبت اختیار کی کیونکہ وہ سب سے زیادہ فقیہہ اورسب سے زیادہ متقی وپرہیزگار تھے۔
شقیق بن ابراہیم کتے ہیں
یہ مشہور عابد زاہد ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے فقہ کاعلم زفر سے حاصل کیاہے۔
وعن شقيق قال اخذت لباس الدون عن سفيان واخذت الخشوع من اسرائيل واخذت العبادۃ من عباد بن كثير والفقہ من زفر(لمحات النظر)
ان کے علاوہ جن دوسروں نے امام زفر سے حدیث وفقہ کی تحصیل کی ہے ان کے اسمائے گرامی مختصرابیان کئے جارہے ہیں۔
حَسَّانُ بنُ إِبْرَاهِيْمَ الكَرْمَانِيُّ، وَأَكْثَمُ بنُ مُحَمَّدٍ - وَالِدُ يَحْيَى بنِ أَكْثَمَ - وَعَبْدُ الوَاحِدِ بنُ زِيَادٍ، وَأَبُو نُعَيْمٍ المُلاَئِيُّ، وَالنُّعْمَانُ بنُ عَبْدِ السَّلاَمِ التَّيْمِيُّ، وَالحَكَمُ بنُ أَيُّوْبَ، وَمَالِكُ بنُ فُدَيْكٍ،محمد بن عبداللہ الانصاری القاضی،شداد بن حکیم ،نعمان بن عبدالسلام،ابوعاصم النبیل الضحاک بن مخلد اوردوسرے لوگ۔
اس بارے میں ایک بات قابل لحاظ ہے اور وہ یہ قضاءوقدر نے ان کو زیادہ مہلت نہ اورامام ابوحنیفہ کے انتقال کے محض آٹھ سال بعد انکاانتقال ہوگیا۔اس وقت ان کی عمر پچاس سے کم تھی۔ جس کے بارے میں حافظ ذہبی کہتے ہیں مات قبل اوان الروایۃ یعنی ان سے دوسرے حدیث کی روایت کریں۔ اس کا مرحلہ مکمل طورپر آنے سے پہلے ہی ان کا انتقال ہوگیا۔
زفر بن الھذیل الکوفی من اصحاب ابی حنیفہ ،یروی عن یحیی بن سعید الانصاری ،روی عنہ شداد بن حکیم البلخی واھل الکوفہ وکان زفر متقناحافظا قلیل الخطاء۔(کتاب الثقات ۶/339)
زفر بن الہذیل کوفی جوامام ابوحنیفہ کے اصحاب میں سے ہیں،یحیی بن سعید الانصاری سے روایت کرتے ہیں اوران سے شداد بن حکیم البلخی اوردیگر اہل کوفہ ۔زفر حدیث میں متقن ،حافظ اورکم غلطیاں کرنے والے ہیں۔
امام نسائی نے بھی ان کو ثقہ قراردیاہے ۔کہتے ہیں ۔
زفربن الھذیل ثقۃ(الرسالۃالمتصلۃ بالضعفاء والمتروکین للنسائی 266)
حسن بن زیاد کہتے ہیں :
کان زفر وداؤد الطائی متواخیین ،فاماداؤد فترک الفقہ واقبل علی العبادۃ وامازفر ،فجمع ھما(سیراعلام النبلاء8/41)
زفر اورحضرت داؤد الطائی (مشہور عابد وزاہد)دونوں نے ایک دوسرے سے بھائی کا رشتہ قائم کیاہواتھا۔داؤد الطائی نے آخر میں فقہ کو چھوڑااورہمہ تن عبادت کی جانب متوجہ ہوگئے۔اورامام زفر نے دونوں کو ایک ساتھ جمع کرلیا)
حافظ ابونعیم الاصبہانی کہتے ہیں :
کنت اعرض الحدیث علی زفر،فیقول :ھذا ناسخ ،ھذا منسوخ،ھذا یوخذ بہ ،ھذا یرفض(المصدرالسابق)
میں امام زفر پر احادیث پیش کیاکرتا تھااور وہ فرماتے تھے یہ ناسخ ہے یہ منسوخ ہے۔یہ قابل عمل ہے اوریہ متروک ہے۔
مشہور محدث امام وکیع کہتے ہیں :کان زفرشدید الورع،حسن القیاس،قلیل الکتابۃ یحفظ مایکتبہ (لمحات النظر7)
امام زفر انتہائی پرہیزگار ،بہترین قیاس کرنے والے،کم لکھنے والے تھے اورجولکھتے تھے اسے یاد رکھتے تھے۔
حافظ ابن عبدالبر کہتے ہیں :
کان زفر ذاعقل ودین وفھم وورع ،وکان ثقۃ فی الحدیث (الجواہرالمضیئۃ 208)
زفر صاحب عقل وفہم اورمتقی وپرہیزگار تھے،اورحدیث میں ثقہ تھے۔
الانتقاء میں وہ کہتے ہیں :
وامازفر بن الھذیل العنبری ثم التمیمی فکان کبیڑا من کباراصحاب ابی حنیفۃ افقھھم ،وکان یقال :انہ کان احسنھم قیاساً۔(الانتقاء 335)
زفر بن ہذیل العنبری امام ابوحنیفہ کے بڑے شاگردوں میں سے تھے،اوران میں سب سے زیادہ فقیہہ تھے اورکہاجاتاہے وہ ان میں (امام ابوحنیفہ کے شاگردوں میں )سب سے بہتر قیاس کرنے والے تھے۔
مشہور شافعی فقیہہ اورمحدث حافظ نووی تہذیب الاسماء واللغات(1/197) میں لکھتے ہیں :
کان جامعابین العلم والعبادۃوکان صاحب حدیث،ثم غلب علیہ الرای۔
(امام زفر)علم اورعبادت کے جامع تھے اورابتداء میں وہ محدث تھے پھر ان پررائے غالب ہوگئی(یعنی فقاہت غالب آگئی)
حافظ ذہبی کہتے ہیں :
الفقیہ المجتہد الربانی العلامہ ۔۔۔۔۔۔۔تقفہ بانی حنیفۃ وھواکبرتلامذتہ وکان ممن جمع بین العلم والعمل وکان یدری الحدیث ویتقنہ (سیراعلام النبلاء8/41)
فقیہ ،ربانی مجتہد،علامہ امام ابوحنیفہ سے فقہ کی تحصیل کی اوروہ ان کے شاگرد میں سب سے بڑے تھے اور ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے علم اورعمل دونوں کو جمع کیاتھا۔اوروہ حدیث کو نہ صرف جانتے تھے بلکہ اس میں پختگی اوراتقان انہیں حاصل تھا۔
حافظ ذہبی میزان الاعتدال (2/71)میں کہتے ہیں :
زفر بن الھذیل العنبری احد الفقہاء والعباد صدوق وثقہ ابن معین وغیرواحد ۔زفربن الہذیل چنندہ فقہاء اورعابدوں میں سے ایک تھے ان کی ابن معین اوردوسروں نے توثیق کی ہے۔
بعینہ یہی لفظ حافظ ابن حجر نے لسان المیزان میں بھی اداکئے ہیں صرف اس فرق کے ساتھ کہ وثقہ ابن معین وغیرواحد کی جگہ وثقہ غیرواحد وابن معین کا لفظ ہے۔(لسان المیزان3/502)
امام زفر کے محدثین کی جماعت سے الگ ہوکر فقہاء کی جماعت اوربطور خاص امام ابوحنیفہ کے دامن فقہ سے وابستہ ہونے کی کیاوجہ ہوئی اس کی تفصیلات ہمیں امام طحاوی علیہ الرحمتہ سے معلوم ہوتی ہیں۔امام طحاوی قریب العہد ہیں اوربطور خاص فقہاء احناف پراٹھارٹی اورسند ہیں لہذا اس بارے میں ان کی بات سب سے زیادہ معتبر اورقابل وثوق ہوگی۔امام طحاوی کہتے ہیں۔
کان سبب انتقال زفر الی ابی حنیفۃ انہ کان من اصحاب الحدیث،فنزلت بہ وباصحابہ مسالۃ فاعیتھم فاتی ابی حنیفۃ فسالہ عنہا،فاجابہ فی ذاک فقال لہ من این قلت ھذا،قال لحدیث کذا وللقیاس من جہۃ کذا،ثم قال لہ ابوحنیفہ :فلوکانت المسالۃ کذا ،ماکان الجواب فیہا،قال فکنت فیہااعیامنی فی الاول،فقال الجواب فیہاکذا من جہۃ کذا ،ثم زادنی مسالۃ اخری واجابنی فیہاوبین وجہہا قال :فرحت الی اصحابی فسالتہم عن المسائل ،فکانو فیہااعمیٰ منی فذکرت لھم الجواب،وبینت لہم العلل ،فقالوا من این لک ھذا؟فقلت من عندابی حنیفۃ فصرت راس الحلقۃ بالثلاث المسائل (اخبار ابوحنیفہ واصحابہ للصمیری113)
یہ واقعہ ابن فضل اللہ العمری نے بھی مسالک الابصار میں امام طحاوی کے طریق سے نقل کیاہے۔جیساکہ شیخ زاہد الکوثری نے ذکر کیاہے۔
امام زفر کے ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی جانب منتقل ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہ اولاًاصحاب حدیث میں سے تھے۔توکوئی مسئلہ پیش آیا جس کے جواب سے وہ اوران کے ساتھی عاجزتھے تو وہ امام ابوحنیفہ کے پاس آئے اوران سے پوچھا۔انہوں نے اس مسئلہ کا جواب دیا۔میں نے عرض کیاکہ آپ نے یہ جواب کہاں سے اخذ کیا۔امام ابوحنیفہ نے جواب دیا کہ حدیث یہ ہے اوراس سے قیاس اس طورپر ہوتاہے۔پھر امام ابوحنیفہ نے پوچھا اگرفلاں صورت حال پیش آتی تو جواب کیاہوتا۔امام زفر کہتے ہیں کہ میں اس بارے میں پہلے سے بھی زیادہ عاجز تھا۔امام ابوحنیفہ نے ہی فرمایا اس میں یہ جواب ہوگا اوراس جواب کی وجہ یہ ہوگی۔پھرامام ابوحنیفہ نے اوربھی چند دوسرے مسائل پوچھے اوران سب مسائل کے جواب اوروان کے وجوہات بتائے ۔پھر میں اپنے ساتھیوں کے پاس واپس آیااوران سے وہ مسائل پوچھے (جوامام ابوحنیفہ نے بتلائے تھے )تووہ مجھ سے بھی زیادہ عاجز تھے ۔پھر میں نے ان کو ان مسائل کے جواب اوران کے وجوہات بتائے۔انہوں نے کہاکہ یہ سب تم نے کہاں سے جانا۔میں نے کہاابوحنیفہ سے۔اس کے بعد محض تین مسائل کی وجہ سے میں اپنی جماعت کا امیر اورسردار ہوگیا۔
امام ابوحنیفہ سے تلمذ:
امام ابوحنیفہ کے دامن تلمذ سے وابستہ ہونے کے بعد انہوں نے پوری جانفشانی کے ساتھ امام ابوحنیفہ کے بحر علم سے اخذ فیض کیا۔امام زفر امام ابوحنیفہ سے کتنے عرصہ تک علم حاصل کیا۔اس بارے میں کچھ روایتیں ملتی ہیں جس کامفاد یہ ہے کہ امام زفر نے تقریباًبیس سال امام ابوحنیفہ سے کے دامن تربیت سے وابستہ رہے۔اوراخذفیض کرتے رہے۔
امام ابوحنیفہ سے تاثر:
امام ابوحنیفہ کے تعلق سے اس دور میں بھی غلط فہمیاں عام تھی اورطرح طرح کی باتیں ہوتی تھیں جن کے بقایاجات آج بھی ہم جرح وتعدیل کی کتابوں میں پڑھتے ہیں اورپڑھ کر عبرت حاصل کرتے ہیں ۔لیکن امام زفر ان خوش قسمت لوگوں میں سے تھے جنہوں نے کسی کے بارے میں سنی سنائی بات پر کوئی رائے قائم کرنے کے بجائے دیکھ کر اورپرکھ کر رائے قائم کرنا بہترسمجھا۔امام ابوحنیفہ سے وابستہ ہونے کے بعد دن بدن امام زفر کا تاثر بڑھتاگیااوریہ تاثر مرورایام کے ساتھ عقیدت مندی اورارادت مندی تک پہنچ گیا۔یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ بسااوقات امام ابوحنیفہ کی جانب سے دفاع کرتے ہیں اورکہتے ہیں۔
"لا تلتفتوا إلى كلام المخالفين، فإنه ما قال إلا من الكتاب أو السنة، أو أقاويل الصحابة، ثم قاس عليها"
اوراس ضمن میں یہ واقعہ قابل ذکر ہے کہ جب شادی کے موقعہ پر انہوں نے اپنی جانب سے خطبہ پیش کرنے کیلئے امام ابوحنیفہ کو چنا تو اس موقع پر ان کے خاندان کے بعض لوگوں نے اعتراض کیااورکہاکہ اس موقع پر جب کہ خاندان کے سربرآورہ اورشرفاء لوگ موجود ہیں تم خطبہ کیلئے امام ابوحنیفہ کاانتخاب کررہے ہو۔ اس موقع پر امام زفر کا جواب عقیدت مندی اورارادت مندی کی ایک نایاب مثال ہے۔انہوں نے معترضین سے کہاکہ اگراس موقع پر میرے والدبھی باحیات ہوتے توبھی امام ابوحنیفہ کو ہی خطبہ دینے کیلئے کہتا۔(اخبارابی حنیفہ واصحابہ للصمیری109)
امام ابوحنیفہ کا اپنے شاگرد کے علم وفضل کااعتراف:
امام زفر تفقہ اوراجتہاد کی صلاحیتوں سے مالامال اوربہرہ ور تھے۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے امام ابوحنیفہ کے حین حیات میں فقہ وتفقہ میں وہ مقام پیداکرلیاکہ امام ابوحنیفہ نے بھی ان کو ائمۃ المسلمین کے گراں قدر خطاب سے نوازا۔ چنانچہ اسی شادی میں امام ابوحنیفہ نے خطبہ میں کہا۔
ھذا زفر بن الہذیل امام من ائمۃ المسلمین وعلم من اعلامھم شرفہ وحسبہ وعلمہ (جواہرالمضیئۃ فی طبقات الحنفیہ للحافظ عبدالقادرالقرشی 2/207)
یہ زفر بن ہذیل مسلمانوں کے امام اوراپنے شرف ،خاندان اورعلم کے لحاظ سے ایک قابل قدر شخصیت ہیں ۔
فقہ حنفی کی خدمت:
امام ابوحنیفہ سے امام زفر کو جوعقیدت اورارادت مندی تھی اسی کا نتیجہ ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے علمی طورپر فقہ حنفی کی نشرواشاعت میں کلیدی رول اداکیا اوروہ بھی ایسے مقام پر جہاں کے لوگ کوفہ اوراہل کوفہ کے شدید نکتہ چیں تھے یعنی بصرہ والے۔اہل کوفہ اوراہل بصرہ کی منافست تاریخ ورجال سے اشتغال رکھنے والوں پر مخفی نہیں ہوگی اس بناء پر جب ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے باوجود اس کے کہ امام ابوحنیفہ کوفہ سے تعلق رکھتے تھے اہل بصرہ کو امام ابوحنیفہ کے تعلق سے رام کرلیاتوامام زفر کی ذہانت وذکاوت اورمعاملہ فہم کے قائل ہوجاتے ہیں۔
حافظ ذہبی نے بھی سیر اعلام النبلاء(8/41) میں کہاہے۔"قلت(الذہبی)ھومن بحورالعلم واذکیاء الوقت"
میں کہتاہوں کہ وہ (امام زفر)علم کے سمندراوروقت کے ذہین ترین لوگوں میں سے ایک تھے۔
امام زفر نے بصرہ میں فقہ حنفی کی نشرواشاعت کی خدمت کس طرح انجام دی۔اس بارے میں مناقب الامام الاعظم للکردری میں جوکچھ مواد موجود ہے اس کااختصار پیش کرتاہوں۔
امام زفر جب بصرہ گئے (ابونعیم فضل بن دکین کے مطابق اپنی بہن کے میراث کے سلسلہ میں گئے تھے)تواہل بصرہ ان سے اتنامانوس ہوئے کہ انہوں نے بضد ہوکر ان کو اپنے ہی پاس روک لیا۔امام زفر عموما عثمان البتی کے مجالس علم میں شریک ہوتے اوروہاں پر مختلف مسائل کےبارے میں باتیں ہوتیں ۔امام زفر مسئلہ کے حق میں دلائل دیتے اورجب لوگ اس کو قبول کرلیتے توان سے پوچھتے کہ تمہیں معلوم ہے کہ اس قول کا قائل کون ہے پھر بتاتے کہ اس قول کے اصل قائل ابوحنیفہ ہیں۔اس طرح انہوں نے دھیرے دھیرے اہل بصرہ کے قلوب کوامام ابوحنیفہ کی جانب مائل کیا۔اوراہل بصرہ جوکبھی کوفیوں اورکوفہ کے ہونے کی وجہ سے امام ابوحنیفہ کانام سننے کے روادار نہیں تھے آہستہ آہستہ ان کے قلوب امام ابوحنیفہ کی جانب مائل ہوگئے اورانہوں نے بھی امام ابوحنیفہ کے فقہی اقوال کو اختیار کرلیا۔(مناقب الامام الاعظم للکردی )
یہ واقعہ حافظ ابن عبدالبر نے بھی الانتقاء فی فضائل الائمۃ الثلاثۃ میں امام زفر کے ترجمہ میں ذکر کیاہے ۔ان کے الفاظ ہیں۔
فلماقدم البصرہ قاضیاً اجتمع الیہ اھل العلم،وجعلوایناظرونہ فی الفقہ یومابعد یوم ،فکان اذارای منھم قبولاواستحسانالمایجی بہ،قال لھم،ھذا قول ابی حنیفہ ،فکانوا یقولون،:ویحسن ابوحنیفۃ ھذا ؟فیقول لھم:نعم واکثر من ھذا،فلم یزل بھم اذارای منھم قبولالمایحتج بہ علیھم ورضابہ وتسلیمالہ،قال لھم:ھذاقول ابی حنیفہ ،فیتعجبون من ذلک،فلم تزل حالہ معھم علی ھذا حتی رجع کثیرمنھم عن بغضہ الی محبتہ والی القول الحسن فیہ،بعد ماکانواعلیہ من القول السیی فیہ۔(الانتقاء فی فضائل الائمۃ الثلاثۃ 335)
شیخ ابوزہرہ نے بھی اس واقعہ کا ذکر اپنی کتاب الامام ابوحنیفہ وآراؤہ الفقھیہ میں کیاہے جس کا اردوترجمہ غلام احمد حریر ی نے "حیات حضرت امام ابوحنیفہ "385)میں کیاہے ۔
زفر بصرہ کے قاضی بنائے گئے توامام ابوحنیفہ نے فرمایا آپ سے پوشیدہ نہیں کہ اہل بصرہ اورہمارے مابین حسد وعداوت پائی جاتی ہے ۔لہذا آپ کا سلامت بچ نکلنادشوار ہے۔جب بصرہ میں قاضی مقرر ہوکر آئے تو اہل جمع ہوکر روزانہ اآپ سے فقہی مسائل میں مناظرہ کیاکرتے تھے ۔جب ان میں قبولیت اورحسن ظن کارجحان دیکھا تو کہنے لگے ۔یہ امام ابوحنیفہ کاقول ہے۔اہل بصرہ متعجب ہوکر پوچھتے ؟کیاابوحنیفہ ایسابھی کہہ سکتے ہیں ۔امام زفر نے جواباًکہاجی ہاں اوراس سے بھی زیادہ ۔اس کے بعد تومعمول ساہوگیاہے کہ جب بھی زفر اہل بصرہ کا رجحان تسلیم وانقیاد دیکھتے توکہہ دیتے کہ یہ ابوحنیفہ کا قول ہے۔ اس سے اہل بصرہ اورمتعجب ہوتے چنانچہ امام زفر کا اہل بصرہ سے یہی رویہ رہا یہاں تک کہ بعض وعداوت چھوڑ کر وہ امام صاحب کے گہرے دوست بن گئے پہلے برابھلاکہتے تھے اوراب ان کی تعریف میں رطب اللسان رہنے لگے۔
ابن عابدین نے امام زفر کو فقہاء یامجتہدین کے سات درجے کرنے کے بعد دوسرے درجہ میں رکھاہے یعنی مجتہد فی المذہب ۔جن کاکام یہ ہے کہ جس مسئلہ میں امام سے کوئی صراحت نہ ہو اس میں اجتہاد کریں۔لیکن اصول یافروع میں وہ امام ابوحنیفہ کی مخالفت نہیں کرسکتے۔ابن عابدین کی اس تقسیم کی بہت سے دیگر فقہاء احناف نے مخالفت کی ہے اوراس کو غلط بتایاہے۔ان کاکہناہے کہ صاحبین اورامام زفر کا مقام ومرتبہ بھی مجتہد مطلق کاہے یعنی اصول اورفروع دونوں میں وہ مجتہد ہیں البتہ انہوں نے چونکہ ہمیشہ اپنی نسبت امام ابوحنیفہ کی اورامام ابوحنیفہ کے مسلک کی نشرواشاعت کی ۔اس لحاظ سے ان کو امام ابوحنیفہ یافقہائے احناف کی جانب منسوب کیاجاتاہے۔ورنہ وہ بھی ویسے ہی مجتہد ہیں جیسے امام ابوحنیفہ امام مالک اورامام شافعی وغیرہ ۔
شیخ ابوزہرہ نے امام ابوحنیفہ پر لکھی گئی کتاب میں اس پر بحث کی ہے اورآخر میں یہی رائے قائم کی ہے کہ وہ مجتہد مطلق منتسب تھے۔یعنی اجتہاد مطلق کی تمام شرائط اوراوصاف ان میں بدرجہ کمال موجود تھا لیکن انہوں نے ہمیشہ امام ابوحنیفہ کے اقوال کی نشرواشاعت اوران کے مسلک کو عام کرنے کی کوشش کی ۔(حیات امام ابوحنیفہ ،تالیف شیخ ابوزہرہ،ترجمہ غلام احمد حریری صفحہ 725)
دوسری طرف شیخ زاہد الکوثری نے بعض مصنفین کی جانب سے امام زفر کو مجتہد مطلق کے بجائے مجتہد فی المذہب میں رکھنے پر سخت اعتراض کیاہے چنانچہ وہ کہتے ہیں۔
بعد ان علم ان زفر مع ابی یوسف کفرسی رھان فی الاجتہاد لایبقی وجہ للالتفات الی قول من ظن ان زفر فی عداد المجتہدین فی المذہب کمااوضحنا ذلک فی غیرموضع ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ومع ذلک کان کلہ لزفر مخالفات فی الاصول والفروع مدونۃ فی کتب القوم فلایکون تادب زفر تجاہ استاذہ ومحافظتہ علی الانتساب الیہ وعرفانہ لجمیلہ علیہ مماینزل مقامہ فی الاجتہاد المطلق علی حدۃ ذہنہ فی قیاس المسائل،وقوۃ ضبطہ للدلاءل واتقانہ للحدیث کمااقر بذلک امثال ابن حبان وورعہ البالغ معروف عند الجمیع رضی اللہ عنہ وعن اساتذتہ واصحابہ اجمعین (لمحات النظر فی سیرۃ الامام زفر ص20-21)
جب یہ معلوم ہوگیاکہ زفر اورابویوسف (رحمہم اللہ)اجتہاد میں اونچے مقام کے حامل ہیں تواب کوئی ضرورت نہیں رہ جاتی کہ ہم ان لوگوں کے قول کی طرف توجہ کریں جنہوں نے امام زفر کو مجتہدین فی المذہب میں شمار کیاہےجیساکہ ہم نے دوسرے مقامات پر بھی واضح کیاہے۔۔۔۔ امام زفر کے اصول اورفروع دونوں میں امام ابوحنیفہ سے اختلافات ہیں جو فقہاء احناف کی کتابوں میں مذکور ہیں۔یہ صحیح ہے کہ امام زفر امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کاانتہائی ادب کرتے تھے،اوران کی جانب نسبت کی حفاظت کرتے تھے اورامام ابوحنیفہ کے اپنے اوپر حسن سلوک کو ہمیشہ یاد رکھتے تھے لیکن اس کی وجہ سے امام زفر کے درجہ کو اجتہاد مطلق سے کم نہیں کیاجاسکتا۔کیونکہ مسائل کے قیاس میں ان کی بلند پروازی،دلائل کا انضباط اورفن حدیث میں اتقان جس کا ابن حبان نے اعتراف کیاہے،اورانتہائی پرہیزگاری وغیرہ ایسے امور ہیں جسے سب جانتے ہیں۔
امام زفر کے قول پر فتویٰ:
امام زفر باوجود اس کے کہ بہت مختصر عمر پائی اورمحض اڑتالیس سال کی عمر میں واصل بحق ہوگئے ۔اس لئے ان سے فرمودہ نقولات ومسائل کی وہ کثرت نہیں ہے جو صاحبین کی ہے اس کے باوجود فقہ حنفی میں17مسائل ایسے ہیں جس میں فتویٰ امام زفر کے قول پر ہے۔جو کہ کتب فقہ وفتاوی میں متفرق طورپر مذکور تھے اس کو سب سے پہلے سید احمد الحموی "الاشباہ والنظائر کے شارح نے ایک جگہ ایک رسالہ میں جمع کیااوراس کا نام رکھا "عقود الدرر فیمایفتی بہ فی المذہب من اقوال زفر "اس رسالہ کی ایک شرح شیخ عبدالغنی النابلسی نے لکھی ہے ۔اس کے بعد علامہ ابن عابدین نے ان کی تلخیص وتحقیق کی۔ یہاں یہ بات یہ بات قابل لحاظ ہے کہ سید احمد حموی کے رسالہ میں سترہ مسائل تھےجس میں ان بقول فتوی امام زفر کے قول پر ہے۔ابن عابدین نے ردالمحتار 3/330)میں اس سترہ میں سے تین کو حذف کیااورآٹھ دیگر مسائل کا اضافہ کیاہے۔ اس طرح کل وہ مسائل جس میں فتویٰ امام زفر کے قول پر ہے وہ بیس ہوجاتے ہیں۔یہی بات شیخ زاہد الکوثری نے بھی لمحات النظر میں لکھی ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔
ولزفر نحو سبع عشرۃ مسالۃ یفتی بھافی المذہب عند نقاد المذہب الف فیہاالسید الحموی شارح الاشباہ والنظائر رسالۃ سماھا"عقود الدرد فیمایفتی بہ فی المذہب من اقوال زفر )وشرحہھا الشیخ عبدالغنی النابلسی ومحصھا ابن عابدین وانفرادات زفر فی المسائل مدونۃ فی منظومۃ النسفی فی الخلاف وشروحوحا ببسط،وقداشار ابوالزید الدبوسی فی تاسیس النظر فی فصل خاص الی مخالفات زفر فی الاصول والفروع کمااشیرالی آرائہ الخاصٰ فی الاصول فی کتب الاصول المبسوطۃ کشامل الاتقانی وبحرالزرکشی وشروح اصول البزدوی خاصۃ(لمحات النظرص21)
قیاس:
امام زفر کی جو سب سے نمایاں خصوصیت کتب تاریخ وتراجم میں ذکر کی گئی وہ ان کی قیاس میں مہارت ہے یہاں تک کہ قیاّس ان کی صفت ثانیہ بن گئی اورلوگ اسی وصف سے ان کو جاننے لگے۔امام ابوحنیفہ بھی اس فن میں ان کے معترف تھے چنانچہ ایک مرتبہ امام ابویوسف اورامام زفر کے درمیان کسی مسئلہ میں امام ابوحنیفہ کی موجودگی میں بحث چھڑ گئ توراوی کہتاہے کہ اگربات حدیث کی ہوتی توامام ابویوسف غالب رہتے اوراگربات قیاس ونظائر کی ہوتی ہے توامام زفر غالب رہتے۔
حدث ابن ابی العوام عن الطحاوی عن ا بی خازم عبدالحمید القاضی انہ سمع بکرالعمی یقول سمعت محمد بن سماعہ یقول عن محمد بن الحسن قال:حضرت زفروابایوسف یتناظران فکان ابویوسف یقہرہ بکثرۃ الروایۃ عنا بی حنیفہ والاخبار فاذاصارالی المقایسۃ قہرہ زفر ۔لمحات النظر10)
اس بات کی تائید اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے جب امام امام مزنی جوامام شافعی کے تلمیذ خاص تھے ان سے فقہائے احناف کے بارے میں سوال کیاتوہرایک کی ممتاز خصوصیت کا ذکر کردیا یہ واقعہ خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں اوروہاں سے شیخ ابوزہرہ نے اپنی کتاب الامام ابوحنیفہ وآراؤہ الفقیہ میں ذکرکیاہے۔ہم اس وقت اس کے اردوترجمہ سے اقتباس دے رہے ہیں جس کے مترجم غلام احمد حریری اورمحشی اورصاحب تعلقیات مولاناعطاء اللہ حنیف بھوجیانی ہیں۔
"مروی ہے کہ ایک شخص امام مزنی کی خدمت میں حاضر ہوا اوراہل عراق کے بارے میں دریافت کرتے ہوئے امام مزنی سے کہا"ابوحنیفہ کے بارے میں آپ کی کیارائے ہے امام مزنی نے کہااہل عراق کے سردار،اس نے پھرپوچھا اورابویوسف کے بارے میں کیاارشاد ہے امام مزنی بولے وہ سب سے زیادہ حدیث کی اتباع کرنے والے ہیں،اس شخص نے پھرکہااورامام ممدو کے بارے میں کیافرماتے ہیں مزنی فرمانے لگے وہ تفریعات مین سب پر فائق ہیں وہ بولااچھاتو زفر کے متعلق فرمائیے امام مزنی بولے وہ قیاس میں سب سے تیز ہیں۔(حیات امام ابوحنیفہ ص 384)
امام ابوحنیفہ رضی اللہ بھی فرمایاکرتے تھے وہ میرے شاگردوں میں قیاس کے معاملہ میں سب سے آگے ہیں۔(الجواہرالمضیئہ 207)
ایک دلچسپ واقعہ:
امام زفر بڑے تیز ذہن کے مالک تھے اوروہ جانتے تھے کہ کسی فقہی مسئلہ کی اصل کیاہے اوروہ مزاج شریعت سے کتنا قریب یاکتنا دور ہے۔اس سلسلے میں ایک واقعہ بڑادلچسپ ہے جو اس دور کی علمی فضاء اورپھرامام زفر کا تینوں فقہائے کرام کی رایوں کے مابین تقابل ظاہر کرتاہے کہ وہ خود بھی کتنے دقیقہ شناس اوراس فن کے شناور تھے۔
جاء رجل الی ابی حنیفۃ فقال:انی شربت البارحۃ نبیذا ولاادری طلقت امراتی ام لا؟قال:امراتک حتی تستیقن انک قد طلقتھا۔ثم جاء الی سفیان الثوری فقال:یااباعبداللہ انی شربت البارحۃ نبیذا ولاادری طلقت امراتی ام لا؟قال:اذھب فراجعھا فان کانت قد طلقتھا لم تضرک المراجعۃ شیئا،ثم اتی شریک بن عبداللہ فقال یااباعبداللہ انی شربت البارحۃ نبیذا ولاادری طلقت امراتی ام لا؟قال اذھب فطلقھا ثم راجعھا،ثم اتی زفربن الھذیل فقال یااباالھذیل انی شربت البارحۃ نبیذا والادری اطلقت امراتی ام لا؟قال ھل سالت غیری قال نعم ابوحنیفۃ ،قال فماقال لک،قال المراۃ مراتک حتی تستیقن انک قد طلقتھا،،قال الصواب ماقال ،فھل سالت غیرہ ،قال :سفیان الثوری فماقال لک،قال اذھب فراجعھا فان کانت قد طلقتھا فقد راجعتھا وان لم تکن طلقتھا لم تضرک المراجعۃ شیئا،قال:مااحسن ھذا ،قال فھل سالت غیرہ؟ قال شریک بن عبداللہ:قال فماقال لک؟قال:اذھب فلطقھا ثم راجعھا قال: فضحک زفر ثم قال :اضرب لک مثلا:رجل مریثعب ماء فاصاب ثوبہ ،قال ابوحنیفہ ثوبک طاہر وصلاتک تامۃ حتی تستیقن امرالماء،وقال لک سفیان :اغسلہ فان یکن نجسا فقد طھر وانی کن نظیفا زادہ نظافۃ ،وقال لک شریک،اذھب فبل علیہ ثم اغسلہ الخ
ایک شخص امام ابوحنیفہ کے پاس آیا اورکہاکل رات میں نے نبیذ پی اورمیں نہیں جانتاکہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی یانہیں،امام ابوحنیفہ نے کہاوہ تمہاری بیوی ہے جب تک کہ تمہیں طلاق کایقین نہ ہوجائے۔پھر وہ شخص حضرت سفیان ثوری کے پاس آیااورکہااے ابوعبداللہ میں نے کل رات نبیذ پی اورمیں نہیں جانتاکہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی یانیہں۔حضرت سفیان ثوری نے کہااپنی بیوی سے رجوع کرلو اگرتم نے طلاق دی ہے تو وہ اب دوبارہ تمہاری بیوی ہوجائے گی اوراگرتم نے طلاق نہیں دی ہے توتمہارے اس رجوع سے کچھ بگڑنے والابھی نہیں ہے۔پھر وہ شخص شریک بن عبداللہ کے پاس آیااوروہی سوال دوہرایا ،شریک نے کہاکہ اپنی بیوی کو طلاق دے دو اورپھر رجوع کرلو،وہ شخص پھر امام زفر کے پاس آیااوریہی مسئلہ دریافت کیا۔امام زفر نے پوچھاکہ کیاتم نے کسی اورسے بھی یہ مسئلہ پوچھاہے اس نے کہاہاں امام ابوحنیفہ سے ،امام زفر نے پوچھاپھرانہوں نے کیابتایاکہ اس شخص نے امام ابوحنیفہ کی بات دوہرادی،امام زفرنے کہاکہ انہوں نے صحیح بات بتائی،پھر اس شخص سے پوچھاکہ کسی اورسے بھی پوچھاہے اس نے حضرت سفیان ثوری کا نام لیا ۔امام زفر نے پوچھاانہوں نے کیاکہاہے اس نے ان کاجواب بتایاامام زفر نے کہابہت اچھی بات کہی انہوں نے،پھرپوچھاکسی اورسے بھی مسئلہ دریافت کیاہے اس نے کہاہاں شریک بن عبداللہ سے،امام زفر نے پوچھاانہوں نے کیاکہااس نے ان کا قول دوہرایا،شریک بن عبداللہ کاجواب سن کر امام زفر ہنس پڑے اورفرمایا میں تمہیں اس کی ایک مثال بتاتاہوں ایک شخص کہیں سے گزررہاتھا کہ نالہ کاکچھ پانی اس کے کپڑے میں لگ گی(اوریہ معلوم نہیں کہ پانی پاک ہے یاناپاک ) تواس صورت میں امام ابوحنیفہ توکہتے ہیں کہ تمہاراکپڑا پاک ہے اورتمہاری نماز درست ہے جب تک کہ تمہیں یقین نہ ہوجائے کہ پانی ناپاک ہے،حضرت سفیان ثوری کہتے ہیں کہ کپڑے کو دھولو ،اگرپانی ناپاک تھا تو اب کپڑاپاک ہوگیااوراگرپہلے سے پاک تھا تومزید پاک اورصاف ہوگیااورشریک بن عبداللہ کہتے ہیں کہ اس کپڑے پر پیشاب کردو (تاکہ نجاست کا یقین ہوجائے )اورپھر اس کو دھودو۔(لمحات النظر17)
اس واقعہ کونقل کرنے کے بعد ابن خلکان نے وفیات الاعیان لانباء ابناء الزمان میں جو تبصرہ کیاہے مناسب ہوگاکہ اسے بھی نقل کردیا جائے۔ابن خلکان نے یہ واقعہ معافی بن زکریا کی کتاب الجلیس والانیس سے نقل کیاہے۔
قال المعافی :وقد احسن زفر فی فصلہ بین ھولاء الائمۃ الثلاثۃ فیماافتوابہ فی ھذہ المسالۃ وفیماضربہ لسائلہ میں من الامثلۃ فاماقول ابی حنیفہ فہو محض النظر وامرالحق ولایجوز ان یحکم علی امرئی فی زوجتہ بطلاقہا بعد صحۃ زوجیتھا بظن عرض لہ وھوابعد عندذوی الافہام من اضغاث الاحلام،واماقول سفیان الثوری فانہ اشار بالاستظہار والتوثقۃ والاخذ بالحزم والحیطۃ وھذہ طریقۃ اہل الورع وذوی الاستقصاء والمشفقین علی نفوسہم من اھل الدین ،وفتیاابی حنیفۃ فی ھذا عین الحق وجل الفقہ،وای ھاتین المحجتین سلک من نزلت بہ ھذہ النازلۃ وعرضت لہ الحادثۃ فہومصیب محسن علی مابیناہ فیمہامن الفصل بین المنزلتین،واماماافتی بہ شریک فتعجب زفرمنہ واقع فی موضعہ ولاوجہ فی الصحۃ لمااشاربہ وقد اصاب زفر ایضافی الوجہ الذی ضربہ لہ واری شریکاتوھم ان الرجعۃ لاتحقق الامع تحقق الطلاق فامر باستئناف تطلیقۃ لتصح الرجعۃ بعدھا وھذا مختل فاسد(وفیات الاعیان 2/31
[size=large]
حافظ ذہبی کا قول میزان الاعتدال سے گزرچکاہے کہ وہ اپنے دور کے عابد وزاہد لوگوں میں سے تھےاورماسبق میں ہی حسن بن زیاد کا قول گزرچکاہے کہ مشہور عابد وزاہدداؤد الطائی کے ساتھ ان کے برادرانہ مراسم تھے ۔
وہ دنیا سے اوراس کے مال ومتاع سے کتنے دور تھے اس کابخوبی اندازہ ذیل کے حوالہ سے لگایاجاسکتاہے۔
عن بشر بن القاسم سمعت زفر یقول:لااخلف بعد موتی شیئا اخاف علیہ الحساب فلمامات قوم مافی بیتہ فلم یبلغ ثلاثۃ دراھم والمااحتضر قالہ لہ ابویوسف وغیرہ اوصِ،فقال ھذاالمتاع لزوجتی وھذہ الثلاثۃ الآلاف لدراہم لولد اخی،وکان تزوج امراۃ اخیہ بعد وفاتہ واماانافلیس لی علی احد شیء ولالاحد علی شیء وکان زفر شدید العبادۃ والاجتہاد(مفتاح السعادۃ ،مناقب الکردریۃ بحوالہ لمحات النظر)
بشربن قاسم کہتے ہیں کہ میں نے امام زفر کو کہتے سناکہ میں کوئی چیز ایسی نہیں چھوڑوں گا(مال ومتاع وغیرہ)جس کا موت کے بعد حساب کا مجھ کو خوف ہو،چنانچہ ان کے انتقال کے بعد جب ان کے گھر کے اثاثہ کی مالیت لگائی گئی تو وہ محض تین درہم کی تھی اورجب مرض انتقال میں ان سے امام ابویوسف اوردیگر نے عرض کیاکہ کچھ وصیت کردیں(اہل وعیال کیلئے )توفرمایا ،یہ جوکچھ سازوسامان ہے یہ میری بیوی کا ہے اوریہ تین ہزار درہم میرے بھائی کے بیٹے کیلئے ہے۔امام زفر نے چونکہ اپنے بھائی کی بیوہ سے شادی کی تھی (اس لئے اپنے اس بھتیجہ کی کفالت بھی ان کی ذمہ داری تھی)اورجہاں تک میراتعلق ہے تونہ کسی کا حق میرے ذمہ ہے اورنہ میراکسی دوسرے کے ذمہ ۔اورامام زفر عبادت میں بھی دوسرون سے بہت آگے تھے۔
ابراہیم بن سلیمان کہتے ہیں :کنااذاجالسنازفر لم نقدر ان نذکرالدنیابین یدیہ فاذاذکرھا واحد منا قام من المجلس وترکہ وکنانتحدث فیمابینناان الخوف قتلہ (لمحات النظر27)
ابراہیم بن سلیمان کہتے ہیں کہ جب ہم امام زفر کے ساتھ بیٹھتے تھے توہم دنیاکاذکر ان کے سامنے نہیں کرتے تھے اورجہاں کسی نے دنیاکی بات شروع کی وہ مجلس سے اٹھ کر چلے جاتے تھے۔اورہم آپس میں کہتے ہیں کہ ان کو خوف(خدا) نے قتل کرڈالاہے۔
رجوع الی الحق
خوف خدارکھنے والوں کا ایک وصف ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ وہ حق کی جانب رجوع کرتے رہے ہیں ۔اور حق اورصحیح بات جہاں بھی سامنے آگئی خود کواس کے سپرد کردیا اوراس کو اپنی عزت اوراناکامسئلہ نہیں بناتے۔
عقیلی نے اپنی تالیف کتاب الضعفاء میں امام زفر کے حالات میں ایک واقعہ نقل کیاہے ۔اس سے پہلے مناسب ہے کہ حافظ عقیلی کے حالات میں کچھ ذکر کردوں۔وہ اہل الرائی حضرات سے انتہائی متنفر ہیں چنانچہ اہل الرائی حضرات کے ضمن میں جو توثیق منقول ہوتی ہے اس کوبھی عموماذکر نہیں کرتے۔امام زفر کے ہی حالات میں دیکھ لیں۔ایسی باتیں توضرورذکر کردی ہیں جس سے ان کی تنقیص ہو لیکن امام زفر کی جوتوثیق ابونعیم فضل بن دکین اوریحیی بن معین وغیرہ سے منقول ہے اس کو قطعاذکر نہیں کیاجوکہ ان کی کتاب کاایک عیب ہے۔
اسی کے ساتھ وہ جرح میں بہت متشدد ہیں چنانچہ حافظ ذہبی جوایک حد حنابلہ کے طرفدار سمجھے جاتے ہیں ان کوبھی ایک مقام پر کہناہی پڑا۔ہے’عقیلی کیاتمہیں عقل نہیں ہے کہ تم کس کے بارے میں بول رہے ہو،ہم نے تمہارے طریقہ کار کی پیروی صرف اسلئے کی ہے تاکہ ان پر لگائے گئے الزامات کو دفع کرسکیں اوراس کھوٹ کو واضح کریں جو ان کے بارے میں کہاگیاہے۔گویا تم نہیں جانتے کہ ان میں سے ہرایک(علی بن مدینی، اس کے شاگر دمحمد بن اسمعیل بخاری، اوان کے شیخ عبدالرزاق، عثمان بن شیبہ ،ابراہیم بن سعد،عفان ،ابان بن عطار، اسرائیل، ازہرسمان، بھز بن اسد ثابت بنانی جریر بن عبدالحمید)تم سے کئی گنازیادہ ثقہ ہے۔ بلکہ ان ثقات سے بھی کہیں زیادہ ثقہ ہے جن کاذکر تم نے اپنی کتاب میں نہیں کیاہے۔ (میزان الاعتدال3/140)
عقیلی نے کتاب الضعفاء میں امام زفر کے حالات میں ایک واقعہ نقل کیاہے جس کے الفاظ ہیں۔
عن عبدالواحد بن زیاد ،قال قلت لزفر بن الھذیل،عطلتم حدود اللہ کلھا فقال: ماحجتکم ؟فقلتم :ادرؤا الحدود بالشبہات حتی اذاصرتم الی اعظم الحدود قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم "لایقتل مومن بکافر"قلتم:یقتل مومن بکافر،فقبلتم مانھیتم عنہ وترکتم ماامرتم بہ ۔۔ھذا اونحوہ من الکلام(کتاب الضعفاء للعقیلی۔ص457)
عبدالواحد بن زیادہ کہتے ہیں کہ میں نے زفر بن الہذیل سے کہاتم نے اللہ کی تمام حدود معطل وبیکار کردی ہیں۔انہوں نے فرمایاتمہارے پاس اس کی کیادلیل ہے۔(عبدالواح دبن زیادہ نے کہا)تم لوگ کہتے ہو حدود کو شبہات کے ذریعہ دفع کیاجائے اورجب تم سب سے بڑی حد(قتل) کی جانب آئے اوراس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ واضح قول ہے کہ کسی مسلمان کو کسی کافر کے بدلہ میں قتل نہ کیاجائے۔توتم لوگوں نے اس کو قبول کرلیا جسے روکاگیاتھا اورجس کا حکم دیاگیاتھااس کو چھوڑدیاگیایہ اوراسی طرح کی بات عبدالواحد بن زیادہ سے منقول ہے۔
اس کے مقابلہ میں امام طحاوی سے یہ واقعہ منقول ہے اوریہ بھی بعینہ اسی سند کے ساتھ ہے جس سے عقیلی نے روایت کیاہے یعنی ابن مہدی عن عبدالواحد بن زیاد
نام ۔آپ کانام زفر ہے جس کے معنی عربی میں بہادر ی اورسخاوت کے آتے ہیں۔
نسب:آپ کا نسب نامہ یہ ہے
ابوالہذیل زفرالعنبری البصری ابن الہذیل بن (زفر بن الہذیل بن )قیس بن سلیم بن مکمل بن قیس بن ذہل بن ذویب بن جذیمہ بن عمروبن حجنور بن العنبر بن جندب بن العنبر بن عمرو بن تمیم بن مر ابن ادبن طابخۃ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معدبن عدنان (وفیات الاعیان3/117)
نسبت::آپ کو بصری حنفی،تمیمی اورعنبری وغیرہ کہاجاتاہے۔
خاندان:امام زفر جیساکہ نسب میں بیان ہوچکاہے اصیل النسب عربی ہیں۔ان کے والد اموی دورحکومت میں بعض حکومتی مناصب پر بھی فائزرہے جیساکہ کتب تاریخ وسیر میں بیان کیاگیاہے . خلیفہ ولید بن عبدالملک کے قتل کے بعد ان کو اصبہان کا گورنر بنایاگیالیکن جلد ہی وہ معزول کردیئے گئے۔اس سے قطع نظرتاریخ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ امام زفر کا گھرانہ ایک خوشحال گھراناتھا جہاں وسائل زندگی کی کوئی کمی نہ تھی ۔ایک واقعہ کتب تاریخ میں امام زفر کے داداجن کا نام بھی زفر ہی ہے کایزید بن مہلب کے ساتھ ذکر کیاجاتاہے جس سے پتہ چلتاہے کہ یہ خاندان دولت وشہرت کے علاوہ خصال خیر سے بھی متصف تھا۔ان کے بھائی بہنوں کے بارے میں امام ابونعیم فرماتے ہیں كَانَ أَبُوْهُ بِأَصْبَهَانَ فِي دَوْلَةِ يَزِيْدَ بنِ الوَلِيْدِ، فَكَانَ لَهُ ثَلاَثَةُ أَوْلاَدٍ: زُفَرُ، وَهَرْثَمَةُ، وَكَوْثَرٌ۔امام زفر کے والد زید بن الولید کے عہد اقتدار مین اصبہان میں تھے۔ان کی اولاد تین تھی زفر،ہرثمہ اورکوثر۔ (سیراعلام النبلاء جلد8/40)بعض تاریخی روایات میں ان کے ایک اوربھائی کا نام ملتاہے صباح بن الھذیل اور وہ بنی تمیم کے صدقات پر مامور تھے ۔
پیدائش:امام زفر کی ولادت110ہجری میں ہوئی اوریہی اکثرمورخین کا قول ہے ۔تاہم علامہ صفدی نے الوافی بالوفیات میں ان کی تاریخ پیدائش 116ہجری بتائی ہے (الوافی بالوفیات 14/135)امام زفر کی پیدائش عراق کے کس شہر میں ہوئی اس بارے میں صحیح طورپر کوئی بات نہیں کہی جاسکتی لیکن اتناقیاس کیاجاتاہے کہ ان کی ولادت کوفہ میں ہوئی ہوگی۔
ابتدائی تعلیم:امام زفر کا تعلق چونکہ ایک خوشحال گھرانے سے تھالہذا ان کو ان مصائب سے دوچار نہیں ہوناپڑا جن سے دوسرے لوگ دوچار ہوتے ہین اورانہیں پوری دلجمعی اوراطمینان قلب کے ساتھ تحصیل علم کا موقعہ ملا۔انہوں نے اولااپنے مقام پر ابتدائی علوم حاصل کئے۔قرآن کریم حفظ کیا۔پھرجب ان کے والد ان کو لے کر اصبہان گئے توانہوں نے وہاں کے محدثین اوردیگر اجلہ علماء سے علم حاصل کیا .
امام زفر کے اساتذہ:اس بات کااعتراف کرناچاہئے کہ امام زفر کے ابتدائی احوال کے تعلق سے بہت کم معلومات دستیاب ہیں اوریہ صرف ان کے ساتھ خاص نہیں بلکہ دیگر اجلہ محدثین کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے کہ ان کے بھی ابتدائی حالات کی واقفیت بہت کم دستیاب ہے۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے کن اساتذہ سے پائی اس تعلق سے کچھ کہہ پانامشکل ہےلیکن کتب وسیر وتراجم میں اسکا ذکر موجود ہے کہ انہوں نے اپنے زمانہ کے جلیل القدر محدثین سے علم حدیث حاصل کیا۔
علم حدیث میں امام زفر کے اساتذہ:علم حدیث کی اہمیت اورعظمت ہرایک جانتاہے۔اس تعلق سے کچھ کہناتحصیل حاصل ہے۔امام زفر جس دور میں تھے وہ دور تدوین حدیث کا دور تھااورمحدثین کرام جزاھم اللہ خیراحدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جمع وتدوین میں مصروف تھے ۔امام زفر نے بھی رواج عام کے مطابق علم حدیث کی تحصیل کی طرف توجہ کی اور اورحافظ ذہبی کے الفاظ میں اس میں اتقان وپختگی حاصل کرلی۔ امام زفر نے جن اساتذہ سے حدیث کی تحصیل کی ان میں سے چند کے نام ذکر کئے جاتے ہیں۔
• اعمش۔امام اعمش کاپورانام سلیمان بن مہران ابومحمد الاسدی الکاہلی ہے ۔یہ تابعی ہیں ۔انہیں حضرت انس کی رویت اوران سے روایت دونوں کا شرف حاصل ہے۔حافظ ذہبی نے ان کو الامام شیخ الاسلام،شیخ المقرئیں والمحدثین کے گراں قدر القاب سے یاد کیاہے۔جب کہ امام یحیی بن قطان ان کے بارے میں کہتے ہیں۔ھوعلامۃ الاسلام وہ اسلام کی علامت ہیں۔(سیراعلام النبلاء)
• اسماعیل بن ابی خالد ،یہ بھی تابعی ہیں اورانہیں پانچ صحابی سے روایت کاشرف حاصل ہے۔حافظ ذہبی کہتے ہیں کہ ان کی ثقاہت پر محدثین کا اتفاق ہے اوران کو کسی بھی تہمت سے نہیں متہم کیاگیاہے۔(سیراعلام النبلاء)
• امام ابوحنیفہ:امام ابوحنیفہ کے تعلق سے کچھ کہنا سورج کوچراغ دکھانے کے مترادف ہے۔بھلے ہی کچھ لوگ آج ان کے علم حدیث کے تعلق سے سوال اٹھائیں لیکن حافظ ذہبی اوردیگر محدثین نے حفاظ حدیث میں ذکر کرکے یہ بتادیاہے کہ ان کا مرتبہ علم حدیث میں کیاہے۔جہاں تک فقہ کی بات ہے تواس میں سلسلے میں چند احمقوں کو چھوڑ کر ان کی فقاہت پر امت کااتفاق بلکہ اجماع ہے یہی وجہ ہے کہ امام شافعی رضی اللہ عنہ کو کہناپراکہ لوگ فقہ میں امام ابوحنیفہ کے محتاج ہیں۔
• محمد بن اسحاق: اسلام میں سیرت ومغازی پرپہلی تصانیف میں ان کی تصنیف بھی شامل ہے ۔بعض لوگ غلطی سے سیرت کی پہلی کتاب ابن ہشام کی جانب منسوب کرتے ہیں لیکن وہ غلط ہے۔اصل کتاب ابن اسحاق کی ہے یہی وجہ ہے کہ ابن ہشام ہرجگہ اپنی کتاب میں کہتے نظرآتے ہیں قال محمد بن اسحاق ۔ان کی توثیق پر محدثین کا اتفاق ہے سوائے اس کے کہ امام مالک سے جوکچھ ان کے حق میں جرح منقول ہے لیکن علماء نے امام مالک کی اس جرح کو معاصرت اورمنافرت پر محمول کیاہے اوراس کا الگ واقعہ ہے جس کی تفصٰل کا یہ موقعہ نہیں ہے۔
• حجاج بن ارطاۃ:فقہ وحدیث دونوں میں ان کا بڑامقام ہے۔خاص طورپر فقہ میں ان کی عظمت شان زیادہ ہے۔ ان کو مفتی کوفہ کا لقب دیاگیاتھا۔
امام زفر کے اساتذہ کرام کا یہ ایک مختصر تعارف تھااس کے علاوہ بھی امام زفر کے اساتذہ میں اوربھی بہت سے نام ہیں لیکن اختصار کی غرض سے یہاں صرف تین چار نام ہی ذکر کئے گئے ہیں۔
ان ناموں میں خاص طورپر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ شروع کے دونام بڑے اورجلیل القدر محدثین کے ہیں۔اس کے بعد دو وہ ہیں جو فقہ میں ممتاز ہیں اوران میں ایک یعنی امام ابوحنیفہ توفقہ میں ان کی عظمت کا پوچھناہی کیا۔
تیسرے ان میں سے مغازی اورسیرت کے امام محمد بن اسحاق ہیں۔ اس سے یہ واضح ہوجاتاہے کہ امام زفر نے طلب علم میں ہر طبقہ سے تحصیل علم کیاہے اورکسی گوشہ کو بھی تشنہ نہیں چھوڑا۔
شاگردان:ایک دور وہ ہوتاہے جب انسان کسی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرتاہے دوسرادوروہ ہوتاہے جب کوئی دوسراانسان اس کے علوم سے خوشہ چینی کرتاہے۔علم سے تعلق اوراشتغال رکھنے والوں کیلئے یہ دونوں مراحل لازمی ہیں۔
امام زفر سے تحصیل علم کرنے والوں کی بھی ایک بڑی فہرست ہے جس کا استیعاب اوراحاطہ اس مختصر موضوع میں ممکن نہیں ہے۔چند نام بطور تبرک ذکر کئے جارہے ہیں۔
• عبداللہ بن مبارک:حضرت عبداللہ بن مبارک کی علوم اسلامیہ میں جلالت قدر اورجلالت شان مسلم ہے۔تفسیر،فقہ حدیث میں وہ امامت کا درجہ رکھتے ہیں تواسی کے ساتھ جہاد کے ساتھ ان کا شغف عشق کے درجے کا تھااوراپنی زندگی کا ایک بڑاحصہ اعلاء کلمۃ اللہ میں گزارا۔حدیث میں ان کے مرتبہ اورمقام کاعالم یہ تھا کہ ان کو امیرالمومنین کے گراں قدر لقب سے نوازاگیاتودوسری جانب اولیاء اللہ اورصلحاء امت کے درمیان بھی ان کابڑامقام ہے۔غرضیکہ ایسی مرنجان مرنج اورگوناگوں اوصاف والی شخصیات صدیوں میں کبھی کبھارجلوہ پذیر ہوتی ہیں۔بہرحال یہ تذکرہ اصلاان کا نہیں لیکن ان کا ذکر آئے توقلم سے کچھ الفاظ بے اختیار نکل ہی پڑتے ہیں ۔
• وکیع بن الجراح:علم حدیث میں ان کا مقام ومرتبہ انتہائی بلند اورعظمت شان کا حامل ہے۔اس سلسلے میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ امام وکیع بن امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے فقہ سے متاثرتھے اوران کے قول پر فتوی دیاکرتے تھے ۔چنانچہ حافظ ذہبی سیراعلام النبلاء میں لکھتے ہیں
علي بن الحسين بن حبان ، عن أبيه ، سمعت ابن معين يقول : ما رأيت أفضل من وكيع ، قيل : ولا ابن المبارك ؟ قال : قد كان ابن المبارك له فضل ، ولكن ما رأيت أفضل من وكيع ، كان يستقبل القبلة ، ويحفظ حديثه ، ويقوم الليل ، ويسرد الصوم ، ويفتي بقول أبي حنيفة رحمه الله، وكان قد سمع منہ كثير .علی بن حسین بن حبان اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں ابن معین سے سناہے وہ فرماتے تھے میں نے وکیع سے زیادہ افضل کسی کونہیں دیکھا کہاگیاکہ ابن مبارک بھی نہیں فرمایاکہ ابن مبارک صاحب فضل ہیں لیکن میں نے وکیع سے زیادہ افضل کسی کو نہیں دیکھا قبلہ رخ ہوتے اورحدیث یاد کرتے اوررات بھر نمازیں پڑھتے اوردن بھر روزہ رکھتے اورامام ابوحنیفہ کے قول پر فتویٰ دیاکرتے تھے اورانہوں نے ان سے بہت زیادہ حدیثیں سنی تھیں
بعض لوگ عمومایہ غلطی کرتے ہیں کہ جب دیکھتے ہیں کہ کسی نے امام ابوحنیفہ سے بعض امورمیں مخالفت کی ہے تو بس سمجھ لیتے ہیں کہ وہ حنفی نہیں یہ غلط طرز فکر ہے۔امام وکیع مقلد نہ تھے بلکہ مجہتد تھے لیکن جیساکہ میں نے کہاکہ مجتہد کے بھی درجات ہیں۔وہ امام ابویوسف اورامام محمد کے درجہ کے مجتہد تھے ۔بعض امور میں انہوں نے امام ابوحنیفہ سے اختلاف کیاہے ۔اس سے انکار نہیں۔صاحبین نے بھی امام ابوحنیفہ سے اختلاف کیاہے اوربعض مقامات پرسخت لہجہ اختیار کیاہے لیکن اس کے باوجود جب ان کو کسی نے یہ نہیں کیاکہ ان امور کی وجہ سے وہ حنفی نہیں رہے تو امام وکیع اوردیگر محدثین جوامام ابوحنیفہ کے طرز سے متاثر تھے ان کے بارے میں کیسے کہاجاسکتاہے کہ بعض مسائل میں امام ابوحنیفہ کی مخالفت کی وجہ سے وہ حنفی نہیں رہے۔
خود امام وکیع سے امام زفر سے تحصیل علم کے بارے یہ الفاظ منقول ہیں۔"الحمدللہ الذی جعلک لناخلفاعن الامام ولکن لایذہب عنی حسرۃ الامام" ۔خداکاشکر ہے کہ اس نے آپ ہمارے لئے امام کا جانشیں بنایا لیکن مجھ سے امام ابوحنیفہ کے تعلق سے حسرت نہیں جاتی ہے۔(یعنی ان کے انتقال کا دکھ اورصدمہ اپنی جگہ باقی ہے)
• سفیان بن عیینہ:علم حدیث میں حضرت سفیان بن عیینہ کی جلالت شان مسلم ہے۔محدثین نے گراں قدر الفاظ میںآپ کی توثیق اورتوصیف کی ہے۔
• محمد بن الحسن:فقہ میں آپ کی عظمت شان مسلم ہے اورامام شافعی کے امام محمد بن الحسن کے بارے میں کلمات خیر مشہور ومعروف ہیں۔
• شقیق بن ابراہیم :مشہور زاہد وعابد ۔انہوں نے امام زفر سے حدیث کے علاوہ فقہ کی بھی تحصیل کی ہے۔ سیراعلام النبلاء میں ان کے حوالہ سے موجود ہے۔
• ابونعیم فضل بن دکین:علم حدیث میں جلیل القدر امام ہیں انہوں نے امام زفر سے حدیث اورفقہ دونوں کی تحصیل کی ہے۔ خود ان کا اپنابیان ہے کہ جب میں حدیث کی سماعت کرکے آتا تو وہ مجھ کوبلاتے اورفرماتے جوحدیثیں تم نے سنی ہیں بیان کرو،میں بیان کرتاتوفرماتے دیکھویہ حدیث ناسخ ہے یہ منسوخ ہے۔اس میں فلاں علت ہے اوریہ قابل عمل ہے۔اس کو بعض روایات میں کہاگیاہے کہ امام زفر ان سے کہتے تھے لائو میں تمہارے لئے احادیث کو چھان دوں۔فضل بن دکین کہتے ہیں کہ لمامات الامام (ابوحنیفۃ )لزمت زفر لانہ کان افقہ اصحابہ واورعہم (سیراعلام النبلاء8/41)
جب امام ابوحنیفہ کا انتقال ہوا تومیں نے زفر کی صحبت اختیار کی کیونکہ وہ سب سے زیادہ فقیہہ اورسب سے زیادہ متقی وپرہیزگار تھے۔
شقیق بن ابراہیم کتے ہیں
یہ مشہور عابد زاہد ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے فقہ کاعلم زفر سے حاصل کیاہے۔
وعن شقيق قال اخذت لباس الدون عن سفيان واخذت الخشوع من اسرائيل واخذت العبادۃ من عباد بن كثير والفقہ من زفر(لمحات النظر)
ان کے علاوہ جن دوسروں نے امام زفر سے حدیث وفقہ کی تحصیل کی ہے ان کے اسمائے گرامی مختصرابیان کئے جارہے ہیں۔
حَسَّانُ بنُ إِبْرَاهِيْمَ الكَرْمَانِيُّ، وَأَكْثَمُ بنُ مُحَمَّدٍ - وَالِدُ يَحْيَى بنِ أَكْثَمَ - وَعَبْدُ الوَاحِدِ بنُ زِيَادٍ، وَأَبُو نُعَيْمٍ المُلاَئِيُّ، وَالنُّعْمَانُ بنُ عَبْدِ السَّلاَمِ التَّيْمِيُّ، وَالحَكَمُ بنُ أَيُّوْبَ، وَمَالِكُ بنُ فُدَيْكٍ،محمد بن عبداللہ الانصاری القاضی،شداد بن حکیم ،نعمان بن عبدالسلام،ابوعاصم النبیل الضحاک بن مخلد اوردوسرے لوگ۔
اس بارے میں ایک بات قابل لحاظ ہے اور وہ یہ قضاءوقدر نے ان کو زیادہ مہلت نہ اورامام ابوحنیفہ کے انتقال کے محض آٹھ سال بعد انکاانتقال ہوگیا۔اس وقت ان کی عمر پچاس سے کم تھی۔ جس کے بارے میں حافظ ذہبی کہتے ہیں مات قبل اوان الروایۃ یعنی ان سے دوسرے حدیث کی روایت کریں۔ اس کا مرحلہ مکمل طورپر آنے سے پہلے ہی ان کا انتقال ہوگیا۔
امام زفرکے بارے میں محدثین وفقہاء کے اقوال
ابن حبان کہتے ہیں :زفر بن الھذیل الکوفی من اصحاب ابی حنیفہ ،یروی عن یحیی بن سعید الانصاری ،روی عنہ شداد بن حکیم البلخی واھل الکوفہ وکان زفر متقناحافظا قلیل الخطاء۔(کتاب الثقات ۶/339)
زفر بن الہذیل کوفی جوامام ابوحنیفہ کے اصحاب میں سے ہیں،یحیی بن سعید الانصاری سے روایت کرتے ہیں اوران سے شداد بن حکیم البلخی اوردیگر اہل کوفہ ۔زفر حدیث میں متقن ،حافظ اورکم غلطیاں کرنے والے ہیں۔
امام نسائی نے بھی ان کو ثقہ قراردیاہے ۔کہتے ہیں ۔
زفربن الھذیل ثقۃ(الرسالۃالمتصلۃ بالضعفاء والمتروکین للنسائی 266)
حسن بن زیاد کہتے ہیں :
کان زفر وداؤد الطائی متواخیین ،فاماداؤد فترک الفقہ واقبل علی العبادۃ وامازفر ،فجمع ھما(سیراعلام النبلاء8/41)
زفر اورحضرت داؤد الطائی (مشہور عابد وزاہد)دونوں نے ایک دوسرے سے بھائی کا رشتہ قائم کیاہواتھا۔داؤد الطائی نے آخر میں فقہ کو چھوڑااورہمہ تن عبادت کی جانب متوجہ ہوگئے۔اورامام زفر نے دونوں کو ایک ساتھ جمع کرلیا)
حافظ ابونعیم الاصبہانی کہتے ہیں :
کنت اعرض الحدیث علی زفر،فیقول :ھذا ناسخ ،ھذا منسوخ،ھذا یوخذ بہ ،ھذا یرفض(المصدرالسابق)
میں امام زفر پر احادیث پیش کیاکرتا تھااور وہ فرماتے تھے یہ ناسخ ہے یہ منسوخ ہے۔یہ قابل عمل ہے اوریہ متروک ہے۔
مشہور محدث امام وکیع کہتے ہیں :کان زفرشدید الورع،حسن القیاس،قلیل الکتابۃ یحفظ مایکتبہ (لمحات النظر7)
امام زفر انتہائی پرہیزگار ،بہترین قیاس کرنے والے،کم لکھنے والے تھے اورجولکھتے تھے اسے یاد رکھتے تھے۔
حافظ ابن عبدالبر کہتے ہیں :
کان زفر ذاعقل ودین وفھم وورع ،وکان ثقۃ فی الحدیث (الجواہرالمضیئۃ 208)
زفر صاحب عقل وفہم اورمتقی وپرہیزگار تھے،اورحدیث میں ثقہ تھے۔
الانتقاء میں وہ کہتے ہیں :
وامازفر بن الھذیل العنبری ثم التمیمی فکان کبیڑا من کباراصحاب ابی حنیفۃ افقھھم ،وکان یقال :انہ کان احسنھم قیاساً۔(الانتقاء 335)
زفر بن ہذیل العنبری امام ابوحنیفہ کے بڑے شاگردوں میں سے تھے،اوران میں سب سے زیادہ فقیہہ تھے اورکہاجاتاہے وہ ان میں (امام ابوحنیفہ کے شاگردوں میں )سب سے بہتر قیاس کرنے والے تھے۔
مشہور شافعی فقیہہ اورمحدث حافظ نووی تہذیب الاسماء واللغات(1/197) میں لکھتے ہیں :
کان جامعابین العلم والعبادۃوکان صاحب حدیث،ثم غلب علیہ الرای۔
(امام زفر)علم اورعبادت کے جامع تھے اورابتداء میں وہ محدث تھے پھر ان پررائے غالب ہوگئی(یعنی فقاہت غالب آگئی)
حافظ ذہبی کہتے ہیں :
الفقیہ المجتہد الربانی العلامہ ۔۔۔۔۔۔۔تقفہ بانی حنیفۃ وھواکبرتلامذتہ وکان ممن جمع بین العلم والعمل وکان یدری الحدیث ویتقنہ (سیراعلام النبلاء8/41)
فقیہ ،ربانی مجتہد،علامہ امام ابوحنیفہ سے فقہ کی تحصیل کی اوروہ ان کے شاگرد میں سب سے بڑے تھے اور ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے علم اورعمل دونوں کو جمع کیاتھا۔اوروہ حدیث کو نہ صرف جانتے تھے بلکہ اس میں پختگی اوراتقان انہیں حاصل تھا۔
حافظ ذہبی میزان الاعتدال (2/71)میں کہتے ہیں :
زفر بن الھذیل العنبری احد الفقہاء والعباد صدوق وثقہ ابن معین وغیرواحد ۔زفربن الہذیل چنندہ فقہاء اورعابدوں میں سے ایک تھے ان کی ابن معین اوردوسروں نے توثیق کی ہے۔
بعینہ یہی لفظ حافظ ابن حجر نے لسان المیزان میں بھی اداکئے ہیں صرف اس فرق کے ساتھ کہ وثقہ ابن معین وغیرواحد کی جگہ وثقہ غیرواحد وابن معین کا لفظ ہے۔(لسان المیزان3/502)
مام ابوحنیفہ کے دامن فقہ سے وابستہ ہونے کی وجہ:
تقریباتمام مترجمین اورمورخین نے امام زفر کے حالات میں ذکر کیاہے کان صاحب الحدیث ثم غلب علیہ الرای (رای کو فقہ کے معانی میں بھی استعمال کیاجاتاہے اسی لئے ابن قتیبہ نے "المعارف"فقہاءکا تعارف اصحاب الرائی کے نام سے کرایا ہےجس میں امام مالک اوردوسرے فقہاء مثلاامام اوزاعی وغیرہ کوبھی شامل کیاہے۔پھر ہم دیکھئے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں لایکون الرجل فقہیاحتی یکون بصیرافی الرائی اوراس کے علاوہ بے شمار دوسرے اقوال ایسے ہیں جوثابت کرتے ہیں کہ رائی کافقہ کے معنی میں بھی استعمال عام رہاہے اوراہل الرائی اوراصحاب الرائی سے کتب سیروتاریخ میں مراد فقہاء ہیں نہ کہ وہ لوگ جو اپنی رائے کو حدیث پر ترجیح دیتے ہیں اگرکوئی ایساسمجھتاہے تویہ اس کی قلت معرفت وتدبر کا نتیجہ ہے۔امام زفر کے محدثین کی جماعت سے الگ ہوکر فقہاء کی جماعت اوربطور خاص امام ابوحنیفہ کے دامن فقہ سے وابستہ ہونے کی کیاوجہ ہوئی اس کی تفصیلات ہمیں امام طحاوی علیہ الرحمتہ سے معلوم ہوتی ہیں۔امام طحاوی قریب العہد ہیں اوربطور خاص فقہاء احناف پراٹھارٹی اورسند ہیں لہذا اس بارے میں ان کی بات سب سے زیادہ معتبر اورقابل وثوق ہوگی۔امام طحاوی کہتے ہیں۔
کان سبب انتقال زفر الی ابی حنیفۃ انہ کان من اصحاب الحدیث،فنزلت بہ وباصحابہ مسالۃ فاعیتھم فاتی ابی حنیفۃ فسالہ عنہا،فاجابہ فی ذاک فقال لہ من این قلت ھذا،قال لحدیث کذا وللقیاس من جہۃ کذا،ثم قال لہ ابوحنیفہ :فلوکانت المسالۃ کذا ،ماکان الجواب فیہا،قال فکنت فیہااعیامنی فی الاول،فقال الجواب فیہاکذا من جہۃ کذا ،ثم زادنی مسالۃ اخری واجابنی فیہاوبین وجہہا قال :فرحت الی اصحابی فسالتہم عن المسائل ،فکانو فیہااعمیٰ منی فذکرت لھم الجواب،وبینت لہم العلل ،فقالوا من این لک ھذا؟فقلت من عندابی حنیفۃ فصرت راس الحلقۃ بالثلاث المسائل (اخبار ابوحنیفہ واصحابہ للصمیری113)
یہ واقعہ ابن فضل اللہ العمری نے بھی مسالک الابصار میں امام طحاوی کے طریق سے نقل کیاہے۔جیساکہ شیخ زاہد الکوثری نے ذکر کیاہے۔
امام زفر کے ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی جانب منتقل ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہ اولاًاصحاب حدیث میں سے تھے۔توکوئی مسئلہ پیش آیا جس کے جواب سے وہ اوران کے ساتھی عاجزتھے تو وہ امام ابوحنیفہ کے پاس آئے اوران سے پوچھا۔انہوں نے اس مسئلہ کا جواب دیا۔میں نے عرض کیاکہ آپ نے یہ جواب کہاں سے اخذ کیا۔امام ابوحنیفہ نے جواب دیا کہ حدیث یہ ہے اوراس سے قیاس اس طورپر ہوتاہے۔پھر امام ابوحنیفہ نے پوچھا اگرفلاں صورت حال پیش آتی تو جواب کیاہوتا۔امام زفر کہتے ہیں کہ میں اس بارے میں پہلے سے بھی زیادہ عاجز تھا۔امام ابوحنیفہ نے ہی فرمایا اس میں یہ جواب ہوگا اوراس جواب کی وجہ یہ ہوگی۔پھرامام ابوحنیفہ نے اوربھی چند دوسرے مسائل پوچھے اوران سب مسائل کے جواب اوروان کے وجوہات بتائے ۔پھر میں اپنے ساتھیوں کے پاس واپس آیااوران سے وہ مسائل پوچھے (جوامام ابوحنیفہ نے بتلائے تھے )تووہ مجھ سے بھی زیادہ عاجز تھے ۔پھر میں نے ان کو ان مسائل کے جواب اوران کے وجوہات بتائے۔انہوں نے کہاکہ یہ سب تم نے کہاں سے جانا۔میں نے کہاابوحنیفہ سے۔اس کے بعد محض تین مسائل کی وجہ سے میں اپنی جماعت کا امیر اورسردار ہوگیا۔
امام ابوحنیفہ سے تلمذ:
امام ابوحنیفہ کے دامن تلمذ سے وابستہ ہونے کے بعد انہوں نے پوری جانفشانی کے ساتھ امام ابوحنیفہ کے بحر علم سے اخذ فیض کیا۔امام زفر امام ابوحنیفہ سے کتنے عرصہ تک علم حاصل کیا۔اس بارے میں کچھ روایتیں ملتی ہیں جس کامفاد یہ ہے کہ امام زفر نے تقریباًبیس سال امام ابوحنیفہ سے کے دامن تربیت سے وابستہ رہے۔اوراخذفیض کرتے رہے۔
امام ابوحنیفہ سے تاثر:
امام ابوحنیفہ کے تعلق سے اس دور میں بھی غلط فہمیاں عام تھی اورطرح طرح کی باتیں ہوتی تھیں جن کے بقایاجات آج بھی ہم جرح وتعدیل کی کتابوں میں پڑھتے ہیں اورپڑھ کر عبرت حاصل کرتے ہیں ۔لیکن امام زفر ان خوش قسمت لوگوں میں سے تھے جنہوں نے کسی کے بارے میں سنی سنائی بات پر کوئی رائے قائم کرنے کے بجائے دیکھ کر اورپرکھ کر رائے قائم کرنا بہترسمجھا۔امام ابوحنیفہ سے وابستہ ہونے کے بعد دن بدن امام زفر کا تاثر بڑھتاگیااوریہ تاثر مرورایام کے ساتھ عقیدت مندی اورارادت مندی تک پہنچ گیا۔یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ بسااوقات امام ابوحنیفہ کی جانب سے دفاع کرتے ہیں اورکہتے ہیں۔
"لا تلتفتوا إلى كلام المخالفين، فإنه ما قال إلا من الكتاب أو السنة، أو أقاويل الصحابة، ثم قاس عليها"
اوراس ضمن میں یہ واقعہ قابل ذکر ہے کہ جب شادی کے موقعہ پر انہوں نے اپنی جانب سے خطبہ پیش کرنے کیلئے امام ابوحنیفہ کو چنا تو اس موقع پر ان کے خاندان کے بعض لوگوں نے اعتراض کیااورکہاکہ اس موقع پر جب کہ خاندان کے سربرآورہ اورشرفاء لوگ موجود ہیں تم خطبہ کیلئے امام ابوحنیفہ کاانتخاب کررہے ہو۔ اس موقع پر امام زفر کا جواب عقیدت مندی اورارادت مندی کی ایک نایاب مثال ہے۔انہوں نے معترضین سے کہاکہ اگراس موقع پر میرے والدبھی باحیات ہوتے توبھی امام ابوحنیفہ کو ہی خطبہ دینے کیلئے کہتا۔(اخبارابی حنیفہ واصحابہ للصمیری109)
امام ابوحنیفہ کا اپنے شاگرد کے علم وفضل کااعتراف:
امام زفر تفقہ اوراجتہاد کی صلاحیتوں سے مالامال اوربہرہ ور تھے۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے امام ابوحنیفہ کے حین حیات میں فقہ وتفقہ میں وہ مقام پیداکرلیاکہ امام ابوحنیفہ نے بھی ان کو ائمۃ المسلمین کے گراں قدر خطاب سے نوازا۔ چنانچہ اسی شادی میں امام ابوحنیفہ نے خطبہ میں کہا۔
ھذا زفر بن الہذیل امام من ائمۃ المسلمین وعلم من اعلامھم شرفہ وحسبہ وعلمہ (جواہرالمضیئۃ فی طبقات الحنفیہ للحافظ عبدالقادرالقرشی 2/207)
یہ زفر بن ہذیل مسلمانوں کے امام اوراپنے شرف ،خاندان اورعلم کے لحاظ سے ایک قابل قدر شخصیت ہیں ۔
فقہ حنفی کی خدمت:
امام ابوحنیفہ سے امام زفر کو جوعقیدت اورارادت مندی تھی اسی کا نتیجہ ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے علمی طورپر فقہ حنفی کی نشرواشاعت میں کلیدی رول اداکیا اوروہ بھی ایسے مقام پر جہاں کے لوگ کوفہ اوراہل کوفہ کے شدید نکتہ چیں تھے یعنی بصرہ والے۔اہل کوفہ اوراہل بصرہ کی منافست تاریخ ورجال سے اشتغال رکھنے والوں پر مخفی نہیں ہوگی اس بناء پر جب ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے باوجود اس کے کہ امام ابوحنیفہ کوفہ سے تعلق رکھتے تھے اہل بصرہ کو امام ابوحنیفہ کے تعلق سے رام کرلیاتوامام زفر کی ذہانت وذکاوت اورمعاملہ فہم کے قائل ہوجاتے ہیں۔
حافظ ذہبی نے بھی سیر اعلام النبلاء(8/41) میں کہاہے۔"قلت(الذہبی)ھومن بحورالعلم واذکیاء الوقت"
میں کہتاہوں کہ وہ (امام زفر)علم کے سمندراوروقت کے ذہین ترین لوگوں میں سے ایک تھے۔
امام زفر نے بصرہ میں فقہ حنفی کی نشرواشاعت کی خدمت کس طرح انجام دی۔اس بارے میں مناقب الامام الاعظم للکردری میں جوکچھ مواد موجود ہے اس کااختصار پیش کرتاہوں۔
امام زفر جب بصرہ گئے (ابونعیم فضل بن دکین کے مطابق اپنی بہن کے میراث کے سلسلہ میں گئے تھے)تواہل بصرہ ان سے اتنامانوس ہوئے کہ انہوں نے بضد ہوکر ان کو اپنے ہی پاس روک لیا۔امام زفر عموما عثمان البتی کے مجالس علم میں شریک ہوتے اوروہاں پر مختلف مسائل کےبارے میں باتیں ہوتیں ۔امام زفر مسئلہ کے حق میں دلائل دیتے اورجب لوگ اس کو قبول کرلیتے توان سے پوچھتے کہ تمہیں معلوم ہے کہ اس قول کا قائل کون ہے پھر بتاتے کہ اس قول کے اصل قائل ابوحنیفہ ہیں۔اس طرح انہوں نے دھیرے دھیرے اہل بصرہ کے قلوب کوامام ابوحنیفہ کی جانب مائل کیا۔اوراہل بصرہ جوکبھی کوفیوں اورکوفہ کے ہونے کی وجہ سے امام ابوحنیفہ کانام سننے کے روادار نہیں تھے آہستہ آہستہ ان کے قلوب امام ابوحنیفہ کی جانب مائل ہوگئے اورانہوں نے بھی امام ابوحنیفہ کے فقہی اقوال کو اختیار کرلیا۔(مناقب الامام الاعظم للکردی )
یہ واقعہ حافظ ابن عبدالبر نے بھی الانتقاء فی فضائل الائمۃ الثلاثۃ میں امام زفر کے ترجمہ میں ذکر کیاہے ۔ان کے الفاظ ہیں۔
فلماقدم البصرہ قاضیاً اجتمع الیہ اھل العلم،وجعلوایناظرونہ فی الفقہ یومابعد یوم ،فکان اذارای منھم قبولاواستحسانالمایجی بہ،قال لھم،ھذا قول ابی حنیفہ ،فکانوا یقولون،:ویحسن ابوحنیفۃ ھذا ؟فیقول لھم:نعم واکثر من ھذا،فلم یزل بھم اذارای منھم قبولالمایحتج بہ علیھم ورضابہ وتسلیمالہ،قال لھم:ھذاقول ابی حنیفہ ،فیتعجبون من ذلک،فلم تزل حالہ معھم علی ھذا حتی رجع کثیرمنھم عن بغضہ الی محبتہ والی القول الحسن فیہ،بعد ماکانواعلیہ من القول السیی فیہ۔(الانتقاء فی فضائل الائمۃ الثلاثۃ 335)
شیخ ابوزہرہ نے بھی اس واقعہ کا ذکر اپنی کتاب الامام ابوحنیفہ وآراؤہ الفقھیہ میں کیاہے جس کا اردوترجمہ غلام احمد حریر ی نے "حیات حضرت امام ابوحنیفہ "385)میں کیاہے ۔
زفر بصرہ کے قاضی بنائے گئے توامام ابوحنیفہ نے فرمایا آپ سے پوشیدہ نہیں کہ اہل بصرہ اورہمارے مابین حسد وعداوت پائی جاتی ہے ۔لہذا آپ کا سلامت بچ نکلنادشوار ہے۔جب بصرہ میں قاضی مقرر ہوکر آئے تو اہل جمع ہوکر روزانہ اآپ سے فقہی مسائل میں مناظرہ کیاکرتے تھے ۔جب ان میں قبولیت اورحسن ظن کارجحان دیکھا تو کہنے لگے ۔یہ امام ابوحنیفہ کاقول ہے۔اہل بصرہ متعجب ہوکر پوچھتے ؟کیاابوحنیفہ ایسابھی کہہ سکتے ہیں ۔امام زفر نے جواباًکہاجی ہاں اوراس سے بھی زیادہ ۔اس کے بعد تومعمول ساہوگیاہے کہ جب بھی زفر اہل بصرہ کا رجحان تسلیم وانقیاد دیکھتے توکہہ دیتے کہ یہ ابوحنیفہ کا قول ہے۔ اس سے اہل بصرہ اورمتعجب ہوتے چنانچہ امام زفر کا اہل بصرہ سے یہی رویہ رہا یہاں تک کہ بعض وعداوت چھوڑ کر وہ امام صاحب کے گہرے دوست بن گئے پہلے برابھلاکہتے تھے اوراب ان کی تعریف میں رطب اللسان رہنے لگے۔
امام زفر کا فقہ میں مقام ومرتبہ
امام زفر کا فقہ میں کیامقام ومرتبہ ہے اوربطور خاص فقہائے احناف میں ان کا درجہ ورتبہ کیاہے ۔اس بارے میں ضرورت ہے کہ ذراتفصیلی طورپر کلام کیاجائے۔ابن عابدین نے امام زفر کو فقہاء یامجتہدین کے سات درجے کرنے کے بعد دوسرے درجہ میں رکھاہے یعنی مجتہد فی المذہب ۔جن کاکام یہ ہے کہ جس مسئلہ میں امام سے کوئی صراحت نہ ہو اس میں اجتہاد کریں۔لیکن اصول یافروع میں وہ امام ابوحنیفہ کی مخالفت نہیں کرسکتے۔ابن عابدین کی اس تقسیم کی بہت سے دیگر فقہاء احناف نے مخالفت کی ہے اوراس کو غلط بتایاہے۔ان کاکہناہے کہ صاحبین اورامام زفر کا مقام ومرتبہ بھی مجتہد مطلق کاہے یعنی اصول اورفروع دونوں میں وہ مجتہد ہیں البتہ انہوں نے چونکہ ہمیشہ اپنی نسبت امام ابوحنیفہ کی اورامام ابوحنیفہ کے مسلک کی نشرواشاعت کی ۔اس لحاظ سے ان کو امام ابوحنیفہ یافقہائے احناف کی جانب منسوب کیاجاتاہے۔ورنہ وہ بھی ویسے ہی مجتہد ہیں جیسے امام ابوحنیفہ امام مالک اورامام شافعی وغیرہ ۔
شیخ ابوزہرہ نے امام ابوحنیفہ پر لکھی گئی کتاب میں اس پر بحث کی ہے اورآخر میں یہی رائے قائم کی ہے کہ وہ مجتہد مطلق منتسب تھے۔یعنی اجتہاد مطلق کی تمام شرائط اوراوصاف ان میں بدرجہ کمال موجود تھا لیکن انہوں نے ہمیشہ امام ابوحنیفہ کے اقوال کی نشرواشاعت اوران کے مسلک کو عام کرنے کی کوشش کی ۔(حیات امام ابوحنیفہ ،تالیف شیخ ابوزہرہ،ترجمہ غلام احمد حریری صفحہ 725)
دوسری طرف شیخ زاہد الکوثری نے بعض مصنفین کی جانب سے امام زفر کو مجتہد مطلق کے بجائے مجتہد فی المذہب میں رکھنے پر سخت اعتراض کیاہے چنانچہ وہ کہتے ہیں۔
بعد ان علم ان زفر مع ابی یوسف کفرسی رھان فی الاجتہاد لایبقی وجہ للالتفات الی قول من ظن ان زفر فی عداد المجتہدین فی المذہب کمااوضحنا ذلک فی غیرموضع ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ومع ذلک کان کلہ لزفر مخالفات فی الاصول والفروع مدونۃ فی کتب القوم فلایکون تادب زفر تجاہ استاذہ ومحافظتہ علی الانتساب الیہ وعرفانہ لجمیلہ علیہ مماینزل مقامہ فی الاجتہاد المطلق علی حدۃ ذہنہ فی قیاس المسائل،وقوۃ ضبطہ للدلاءل واتقانہ للحدیث کمااقر بذلک امثال ابن حبان وورعہ البالغ معروف عند الجمیع رضی اللہ عنہ وعن اساتذتہ واصحابہ اجمعین (لمحات النظر فی سیرۃ الامام زفر ص20-21)
جب یہ معلوم ہوگیاکہ زفر اورابویوسف (رحمہم اللہ)اجتہاد میں اونچے مقام کے حامل ہیں تواب کوئی ضرورت نہیں رہ جاتی کہ ہم ان لوگوں کے قول کی طرف توجہ کریں جنہوں نے امام زفر کو مجتہدین فی المذہب میں شمار کیاہےجیساکہ ہم نے دوسرے مقامات پر بھی واضح کیاہے۔۔۔۔ امام زفر کے اصول اورفروع دونوں میں امام ابوحنیفہ سے اختلافات ہیں جو فقہاء احناف کی کتابوں میں مذکور ہیں۔یہ صحیح ہے کہ امام زفر امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کاانتہائی ادب کرتے تھے،اوران کی جانب نسبت کی حفاظت کرتے تھے اورامام ابوحنیفہ کے اپنے اوپر حسن سلوک کو ہمیشہ یاد رکھتے تھے لیکن اس کی وجہ سے امام زفر کے درجہ کو اجتہاد مطلق سے کم نہیں کیاجاسکتا۔کیونکہ مسائل کے قیاس میں ان کی بلند پروازی،دلائل کا انضباط اورفن حدیث میں اتقان جس کا ابن حبان نے اعتراف کیاہے،اورانتہائی پرہیزگاری وغیرہ ایسے امور ہیں جسے سب جانتے ہیں۔
امام زفر کے قول پر فتویٰ:
امام زفر باوجود اس کے کہ بہت مختصر عمر پائی اورمحض اڑتالیس سال کی عمر میں واصل بحق ہوگئے ۔اس لئے ان سے فرمودہ نقولات ومسائل کی وہ کثرت نہیں ہے جو صاحبین کی ہے اس کے باوجود فقہ حنفی میں17مسائل ایسے ہیں جس میں فتویٰ امام زفر کے قول پر ہے۔جو کہ کتب فقہ وفتاوی میں متفرق طورپر مذکور تھے اس کو سب سے پہلے سید احمد الحموی "الاشباہ والنظائر کے شارح نے ایک جگہ ایک رسالہ میں جمع کیااوراس کا نام رکھا "عقود الدرر فیمایفتی بہ فی المذہب من اقوال زفر "اس رسالہ کی ایک شرح شیخ عبدالغنی النابلسی نے لکھی ہے ۔اس کے بعد علامہ ابن عابدین نے ان کی تلخیص وتحقیق کی۔ یہاں یہ بات یہ بات قابل لحاظ ہے کہ سید احمد حموی کے رسالہ میں سترہ مسائل تھےجس میں ان بقول فتوی امام زفر کے قول پر ہے۔ابن عابدین نے ردالمحتار 3/330)میں اس سترہ میں سے تین کو حذف کیااورآٹھ دیگر مسائل کا اضافہ کیاہے۔ اس طرح کل وہ مسائل جس میں فتویٰ امام زفر کے قول پر ہے وہ بیس ہوجاتے ہیں۔یہی بات شیخ زاہد الکوثری نے بھی لمحات النظر میں لکھی ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔
ولزفر نحو سبع عشرۃ مسالۃ یفتی بھافی المذہب عند نقاد المذہب الف فیہاالسید الحموی شارح الاشباہ والنظائر رسالۃ سماھا"عقود الدرد فیمایفتی بہ فی المذہب من اقوال زفر )وشرحہھا الشیخ عبدالغنی النابلسی ومحصھا ابن عابدین وانفرادات زفر فی المسائل مدونۃ فی منظومۃ النسفی فی الخلاف وشروحوحا ببسط،وقداشار ابوالزید الدبوسی فی تاسیس النظر فی فصل خاص الی مخالفات زفر فی الاصول والفروع کمااشیرالی آرائہ الخاصٰ فی الاصول فی کتب الاصول المبسوطۃ کشامل الاتقانی وبحرالزرکشی وشروح اصول البزدوی خاصۃ(لمحات النظرص21)
قیاس:
امام زفر کی جو سب سے نمایاں خصوصیت کتب تاریخ وتراجم میں ذکر کی گئی وہ ان کی قیاس میں مہارت ہے یہاں تک کہ قیاّس ان کی صفت ثانیہ بن گئی اورلوگ اسی وصف سے ان کو جاننے لگے۔امام ابوحنیفہ بھی اس فن میں ان کے معترف تھے چنانچہ ایک مرتبہ امام ابویوسف اورامام زفر کے درمیان کسی مسئلہ میں امام ابوحنیفہ کی موجودگی میں بحث چھڑ گئ توراوی کہتاہے کہ اگربات حدیث کی ہوتی توامام ابویوسف غالب رہتے اوراگربات قیاس ونظائر کی ہوتی ہے توامام زفر غالب رہتے۔
حدث ابن ابی العوام عن الطحاوی عن ا بی خازم عبدالحمید القاضی انہ سمع بکرالعمی یقول سمعت محمد بن سماعہ یقول عن محمد بن الحسن قال:حضرت زفروابایوسف یتناظران فکان ابویوسف یقہرہ بکثرۃ الروایۃ عنا بی حنیفہ والاخبار فاذاصارالی المقایسۃ قہرہ زفر ۔لمحات النظر10)
اس بات کی تائید اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے جب امام امام مزنی جوامام شافعی کے تلمیذ خاص تھے ان سے فقہائے احناف کے بارے میں سوال کیاتوہرایک کی ممتاز خصوصیت کا ذکر کردیا یہ واقعہ خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں اوروہاں سے شیخ ابوزہرہ نے اپنی کتاب الامام ابوحنیفہ وآراؤہ الفقیہ میں ذکرکیاہے۔ہم اس وقت اس کے اردوترجمہ سے اقتباس دے رہے ہیں جس کے مترجم غلام احمد حریری اورمحشی اورصاحب تعلقیات مولاناعطاء اللہ حنیف بھوجیانی ہیں۔
"مروی ہے کہ ایک شخص امام مزنی کی خدمت میں حاضر ہوا اوراہل عراق کے بارے میں دریافت کرتے ہوئے امام مزنی سے کہا"ابوحنیفہ کے بارے میں آپ کی کیارائے ہے امام مزنی نے کہااہل عراق کے سردار،اس نے پھرپوچھا اورابویوسف کے بارے میں کیاارشاد ہے امام مزنی بولے وہ سب سے زیادہ حدیث کی اتباع کرنے والے ہیں،اس شخص نے پھرکہااورامام ممدو کے بارے میں کیافرماتے ہیں مزنی فرمانے لگے وہ تفریعات مین سب پر فائق ہیں وہ بولااچھاتو زفر کے متعلق فرمائیے امام مزنی بولے وہ قیاس میں سب سے تیز ہیں۔(حیات امام ابوحنیفہ ص 384)
امام ابوحنیفہ رضی اللہ بھی فرمایاکرتے تھے وہ میرے شاگردوں میں قیاس کے معاملہ میں سب سے آگے ہیں۔(الجواہرالمضیئہ 207)
ایک دلچسپ واقعہ:
امام زفر بڑے تیز ذہن کے مالک تھے اوروہ جانتے تھے کہ کسی فقہی مسئلہ کی اصل کیاہے اوروہ مزاج شریعت سے کتنا قریب یاکتنا دور ہے۔اس سلسلے میں ایک واقعہ بڑادلچسپ ہے جو اس دور کی علمی فضاء اورپھرامام زفر کا تینوں فقہائے کرام کی رایوں کے مابین تقابل ظاہر کرتاہے کہ وہ خود بھی کتنے دقیقہ شناس اوراس فن کے شناور تھے۔
جاء رجل الی ابی حنیفۃ فقال:انی شربت البارحۃ نبیذا ولاادری طلقت امراتی ام لا؟قال:امراتک حتی تستیقن انک قد طلقتھا۔ثم جاء الی سفیان الثوری فقال:یااباعبداللہ انی شربت البارحۃ نبیذا ولاادری طلقت امراتی ام لا؟قال:اذھب فراجعھا فان کانت قد طلقتھا لم تضرک المراجعۃ شیئا،ثم اتی شریک بن عبداللہ فقال یااباعبداللہ انی شربت البارحۃ نبیذا ولاادری طلقت امراتی ام لا؟قال اذھب فطلقھا ثم راجعھا،ثم اتی زفربن الھذیل فقال یااباالھذیل انی شربت البارحۃ نبیذا والادری اطلقت امراتی ام لا؟قال ھل سالت غیری قال نعم ابوحنیفۃ ،قال فماقال لک،قال المراۃ مراتک حتی تستیقن انک قد طلقتھا،،قال الصواب ماقال ،فھل سالت غیرہ ،قال :سفیان الثوری فماقال لک،قال اذھب فراجعھا فان کانت قد طلقتھا فقد راجعتھا وان لم تکن طلقتھا لم تضرک المراجعۃ شیئا،قال:مااحسن ھذا ،قال فھل سالت غیرہ؟ قال شریک بن عبداللہ:قال فماقال لک؟قال:اذھب فلطقھا ثم راجعھا قال: فضحک زفر ثم قال :اضرب لک مثلا:رجل مریثعب ماء فاصاب ثوبہ ،قال ابوحنیفہ ثوبک طاہر وصلاتک تامۃ حتی تستیقن امرالماء،وقال لک سفیان :اغسلہ فان یکن نجسا فقد طھر وانی کن نظیفا زادہ نظافۃ ،وقال لک شریک،اذھب فبل علیہ ثم اغسلہ الخ
ایک شخص امام ابوحنیفہ کے پاس آیا اورکہاکل رات میں نے نبیذ پی اورمیں نہیں جانتاکہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی یانہیں،امام ابوحنیفہ نے کہاوہ تمہاری بیوی ہے جب تک کہ تمہیں طلاق کایقین نہ ہوجائے۔پھر وہ شخص حضرت سفیان ثوری کے پاس آیااورکہااے ابوعبداللہ میں نے کل رات نبیذ پی اورمیں نہیں جانتاکہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی یانیہں۔حضرت سفیان ثوری نے کہااپنی بیوی سے رجوع کرلو اگرتم نے طلاق دی ہے تو وہ اب دوبارہ تمہاری بیوی ہوجائے گی اوراگرتم نے طلاق نہیں دی ہے توتمہارے اس رجوع سے کچھ بگڑنے والابھی نہیں ہے۔پھر وہ شخص شریک بن عبداللہ کے پاس آیااوروہی سوال دوہرایا ،شریک نے کہاکہ اپنی بیوی کو طلاق دے دو اورپھر رجوع کرلو،وہ شخص پھر امام زفر کے پاس آیااوریہی مسئلہ دریافت کیا۔امام زفر نے پوچھاکہ کیاتم نے کسی اورسے بھی یہ مسئلہ پوچھاہے اس نے کہاہاں امام ابوحنیفہ سے ،امام زفر نے پوچھاپھرانہوں نے کیابتایاکہ اس شخص نے امام ابوحنیفہ کی بات دوہرادی،امام زفرنے کہاکہ انہوں نے صحیح بات بتائی،پھر اس شخص سے پوچھاکہ کسی اورسے بھی پوچھاہے اس نے حضرت سفیان ثوری کا نام لیا ۔امام زفر نے پوچھاانہوں نے کیاکہاہے اس نے ان کاجواب بتایاامام زفر نے کہابہت اچھی بات کہی انہوں نے،پھرپوچھاکسی اورسے بھی مسئلہ دریافت کیاہے اس نے کہاہاں شریک بن عبداللہ سے،امام زفر نے پوچھاانہوں نے کیاکہااس نے ان کا قول دوہرایا،شریک بن عبداللہ کاجواب سن کر امام زفر ہنس پڑے اورفرمایا میں تمہیں اس کی ایک مثال بتاتاہوں ایک شخص کہیں سے گزررہاتھا کہ نالہ کاکچھ پانی اس کے کپڑے میں لگ گی(اوریہ معلوم نہیں کہ پانی پاک ہے یاناپاک ) تواس صورت میں امام ابوحنیفہ توکہتے ہیں کہ تمہاراکپڑا پاک ہے اورتمہاری نماز درست ہے جب تک کہ تمہیں یقین نہ ہوجائے کہ پانی ناپاک ہے،حضرت سفیان ثوری کہتے ہیں کہ کپڑے کو دھولو ،اگرپانی ناپاک تھا تو اب کپڑاپاک ہوگیااوراگرپہلے سے پاک تھا تومزید پاک اورصاف ہوگیااورشریک بن عبداللہ کہتے ہیں کہ اس کپڑے پر پیشاب کردو (تاکہ نجاست کا یقین ہوجائے )اورپھر اس کو دھودو۔(لمحات النظر17)
اس واقعہ کونقل کرنے کے بعد ابن خلکان نے وفیات الاعیان لانباء ابناء الزمان میں جو تبصرہ کیاہے مناسب ہوگاکہ اسے بھی نقل کردیا جائے۔ابن خلکان نے یہ واقعہ معافی بن زکریا کی کتاب الجلیس والانیس سے نقل کیاہے۔
قال المعافی :وقد احسن زفر فی فصلہ بین ھولاء الائمۃ الثلاثۃ فیماافتوابہ فی ھذہ المسالۃ وفیماضربہ لسائلہ میں من الامثلۃ فاماقول ابی حنیفہ فہو محض النظر وامرالحق ولایجوز ان یحکم علی امرئی فی زوجتہ بطلاقہا بعد صحۃ زوجیتھا بظن عرض لہ وھوابعد عندذوی الافہام من اضغاث الاحلام،واماقول سفیان الثوری فانہ اشار بالاستظہار والتوثقۃ والاخذ بالحزم والحیطۃ وھذہ طریقۃ اہل الورع وذوی الاستقصاء والمشفقین علی نفوسہم من اھل الدین ،وفتیاابی حنیفۃ فی ھذا عین الحق وجل الفقہ،وای ھاتین المحجتین سلک من نزلت بہ ھذہ النازلۃ وعرضت لہ الحادثۃ فہومصیب محسن علی مابیناہ فیمہامن الفصل بین المنزلتین،واماماافتی بہ شریک فتعجب زفرمنہ واقع فی موضعہ ولاوجہ فی الصحۃ لمااشاربہ وقد اصاب زفر ایضافی الوجہ الذی ضربہ لہ واری شریکاتوھم ان الرجعۃ لاتحقق الامع تحقق الطلاق فامر باستئناف تطلیقۃ لتصح الرجعۃ بعدھا وھذا مختل فاسد(وفیات الاعیان 2/31
[size=large]
امام زفر کا زہد وورع
کچھ اقوال ماسبق میں گزرچکے ہیں جس میں ان کے مترجمین اس بات پر متفق نظرآتے ہیں کان جامعابین العلم والعبادۃ کہ وہ علم اورعلم کاثمرہ یعنی عمل دونوں کے جامع تھے۔انہوں نے علم اورعمل میں سے کسی کوبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔امام زفر کے حالات میں جیساکہ ابن عبدالبر وغیرہ کے حوالہ سے گزرچکاہے اوردیگر مترجمین نے لکھاکہ وہ بصرہ کے قاضی تھے۔شیخ زاہد الکوثری نے لمحات النظر فی سیرۃ الامام زفر میں اس کی تردید کی ہے اورکہاہے کہ یہ مترجمین کا وہم ہے ۔قضاء کی ذمہ داری سے وہ ہمیشہ بچتے رہے۔اورجب ایک مرتبہ خلیفہ نے ان سے قضاء کی ذمہ داری قبول کرنے کیلئے کہابھی تووہ روپوش ہوگئے ۔دوسری مرتبہ جب خلیفہ نے اصرار کیاتوپھر یہی طرزعمل دوہرایا۔حافظ ذہبی کا قول میزان الاعتدال سے گزرچکاہے کہ وہ اپنے دور کے عابد وزاہد لوگوں میں سے تھےاورماسبق میں ہی حسن بن زیاد کا قول گزرچکاہے کہ مشہور عابد وزاہدداؤد الطائی کے ساتھ ان کے برادرانہ مراسم تھے ۔
وہ دنیا سے اوراس کے مال ومتاع سے کتنے دور تھے اس کابخوبی اندازہ ذیل کے حوالہ سے لگایاجاسکتاہے۔
عن بشر بن القاسم سمعت زفر یقول:لااخلف بعد موتی شیئا اخاف علیہ الحساب فلمامات قوم مافی بیتہ فلم یبلغ ثلاثۃ دراھم والمااحتضر قالہ لہ ابویوسف وغیرہ اوصِ،فقال ھذاالمتاع لزوجتی وھذہ الثلاثۃ الآلاف لدراہم لولد اخی،وکان تزوج امراۃ اخیہ بعد وفاتہ واماانافلیس لی علی احد شیء ولالاحد علی شیء وکان زفر شدید العبادۃ والاجتہاد(مفتاح السعادۃ ،مناقب الکردریۃ بحوالہ لمحات النظر)
بشربن قاسم کہتے ہیں کہ میں نے امام زفر کو کہتے سناکہ میں کوئی چیز ایسی نہیں چھوڑوں گا(مال ومتاع وغیرہ)جس کا موت کے بعد حساب کا مجھ کو خوف ہو،چنانچہ ان کے انتقال کے بعد جب ان کے گھر کے اثاثہ کی مالیت لگائی گئی تو وہ محض تین درہم کی تھی اورجب مرض انتقال میں ان سے امام ابویوسف اوردیگر نے عرض کیاکہ کچھ وصیت کردیں(اہل وعیال کیلئے )توفرمایا ،یہ جوکچھ سازوسامان ہے یہ میری بیوی کا ہے اوریہ تین ہزار درہم میرے بھائی کے بیٹے کیلئے ہے۔امام زفر نے چونکہ اپنے بھائی کی بیوہ سے شادی کی تھی (اس لئے اپنے اس بھتیجہ کی کفالت بھی ان کی ذمہ داری تھی)اورجہاں تک میراتعلق ہے تونہ کسی کا حق میرے ذمہ ہے اورنہ میراکسی دوسرے کے ذمہ ۔اورامام زفر عبادت میں بھی دوسرون سے بہت آگے تھے۔
ابراہیم بن سلیمان کہتے ہیں :کنااذاجالسنازفر لم نقدر ان نذکرالدنیابین یدیہ فاذاذکرھا واحد منا قام من المجلس وترکہ وکنانتحدث فیمابینناان الخوف قتلہ (لمحات النظر27)
ابراہیم بن سلیمان کہتے ہیں کہ جب ہم امام زفر کے ساتھ بیٹھتے تھے توہم دنیاکاذکر ان کے سامنے نہیں کرتے تھے اورجہاں کسی نے دنیاکی بات شروع کی وہ مجلس سے اٹھ کر چلے جاتے تھے۔اورہم آپس میں کہتے ہیں کہ ان کو خوف(خدا) نے قتل کرڈالاہے۔
رجوع الی الحق
خوف خدارکھنے والوں کا ایک وصف ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ وہ حق کی جانب رجوع کرتے رہے ہیں ۔اور حق اورصحیح بات جہاں بھی سامنے آگئی خود کواس کے سپرد کردیا اوراس کو اپنی عزت اوراناکامسئلہ نہیں بناتے۔
عقیلی نے اپنی تالیف کتاب الضعفاء میں امام زفر کے حالات میں ایک واقعہ نقل کیاہے ۔اس سے پہلے مناسب ہے کہ حافظ عقیلی کے حالات میں کچھ ذکر کردوں۔وہ اہل الرائی حضرات سے انتہائی متنفر ہیں چنانچہ اہل الرائی حضرات کے ضمن میں جو توثیق منقول ہوتی ہے اس کوبھی عموماذکر نہیں کرتے۔امام زفر کے ہی حالات میں دیکھ لیں۔ایسی باتیں توضرورذکر کردی ہیں جس سے ان کی تنقیص ہو لیکن امام زفر کی جوتوثیق ابونعیم فضل بن دکین اوریحیی بن معین وغیرہ سے منقول ہے اس کو قطعاذکر نہیں کیاجوکہ ان کی کتاب کاایک عیب ہے۔
اسی کے ساتھ وہ جرح میں بہت متشدد ہیں چنانچہ حافظ ذہبی جوایک حد حنابلہ کے طرفدار سمجھے جاتے ہیں ان کوبھی ایک مقام پر کہناہی پڑا۔ہے’عقیلی کیاتمہیں عقل نہیں ہے کہ تم کس کے بارے میں بول رہے ہو،ہم نے تمہارے طریقہ کار کی پیروی صرف اسلئے کی ہے تاکہ ان پر لگائے گئے الزامات کو دفع کرسکیں اوراس کھوٹ کو واضح کریں جو ان کے بارے میں کہاگیاہے۔گویا تم نہیں جانتے کہ ان میں سے ہرایک(علی بن مدینی، اس کے شاگر دمحمد بن اسمعیل بخاری، اوان کے شیخ عبدالرزاق، عثمان بن شیبہ ،ابراہیم بن سعد،عفان ،ابان بن عطار، اسرائیل، ازہرسمان، بھز بن اسد ثابت بنانی جریر بن عبدالحمید)تم سے کئی گنازیادہ ثقہ ہے۔ بلکہ ان ثقات سے بھی کہیں زیادہ ثقہ ہے جن کاذکر تم نے اپنی کتاب میں نہیں کیاہے۔ (میزان الاعتدال3/140)
عقیلی نے کتاب الضعفاء میں امام زفر کے حالات میں ایک واقعہ نقل کیاہے جس کے الفاظ ہیں۔
عن عبدالواحد بن زیاد ،قال قلت لزفر بن الھذیل،عطلتم حدود اللہ کلھا فقال: ماحجتکم ؟فقلتم :ادرؤا الحدود بالشبہات حتی اذاصرتم الی اعظم الحدود قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم "لایقتل مومن بکافر"قلتم:یقتل مومن بکافر،فقبلتم مانھیتم عنہ وترکتم ماامرتم بہ ۔۔ھذا اونحوہ من الکلام(کتاب الضعفاء للعقیلی۔ص457)
عبدالواحد بن زیادہ کہتے ہیں کہ میں نے زفر بن الہذیل سے کہاتم نے اللہ کی تمام حدود معطل وبیکار کردی ہیں۔انہوں نے فرمایاتمہارے پاس اس کی کیادلیل ہے۔(عبدالواح دبن زیادہ نے کہا)تم لوگ کہتے ہو حدود کو شبہات کے ذریعہ دفع کیاجائے اورجب تم سب سے بڑی حد(قتل) کی جانب آئے اوراس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ واضح قول ہے کہ کسی مسلمان کو کسی کافر کے بدلہ میں قتل نہ کیاجائے۔توتم لوگوں نے اس کو قبول کرلیا جسے روکاگیاتھا اورجس کا حکم دیاگیاتھااس کو چھوڑدیاگیایہ اوراسی طرح کی بات عبدالواحد بن زیادہ سے منقول ہے۔
اس کے مقابلہ میں امام طحاوی سے یہ واقعہ منقول ہے اوریہ بھی بعینہ اسی سند کے ساتھ ہے جس سے عقیلی نے روایت کیاہے یعنی ابن مہدی عن عبدالواحد بن زیاد