غزل

تانیہ

وفقہ اللہ
رکن

u3_123.jpg



میرے لیے تو حرفِ دعا ہو گیا وہ شخص
سارے دکھوں کی جیسے دوا ہو گیا وہ شخص


میں آسماں پہ تھا تو زمیں کی کشش تھا وہ
اترا زمیں پر تو ہوا ہو گیا وہ شخص


میں اس کا ہاتھ دیکھ رہا تھا کہ دفعتاّ
سمٹا، سمٹ کے رنگِ حنا ہو گیا وہ شخص


پھرتا ہے لے کے آنکھ کا کشکول در بدر
دل کا بھرم لٹا تو گدا ہوگیا وہ شخص


یوں بھی نہیں کہ پاس ہے میرے وہ ہم نفس
یہ بھی غلط کہ مجھ سے جدا ہوگیا وہ شخص


پڑھتا تھا میں نماز سمجھ کر اسے رشید
پھر یوں ہوا کہ مجھ سے قضا ہوگیا وہ شخص

(رشید قیصرانی)​
 
ق

قاسمی

خوش آمدید
مہمان گرامی
[اسطرح کے کسی جذبہ کے تحت
ایک شاعرہ نے کہاتھا۔

سجدہ کروں یانقشِ قدم چومتی رہوں
دل کعبہ بن گیا ہے تجھے دیکھنے کے بعد]​
 

گلاب خان

وفقہ اللہ
رکن
[size=x-large] زخم کی بات نہ کر زخم تو بھر جاتا ہے تیر لہجے کا کلیجے میں اتر جاتا ہے چھوڑ کے اپنا نگر ، دل تو کدھر جاتا ہے پھول ٹہنی سے بچھڑتا ہے ، بکھر جاتا ہے موج کی موت ہے ساحل کا نظر آ جانا شوق کترا کے کنارے سے گزر جاتا ہے شعبدہ کیسا دکھایا ہے مسیحائی نے سانس چلتی ہے ، بھلے آدمی مر جاتا ہے ایسی باتیں جو اکیلے میں نہ دیوانہ کرے بادشہ وہ بھرے دربار میں کر جاتا ہے آنکھ نہ جھپکوں تو سب ناگ سمجھتے ہیں مجھے اور جھپکوں تو یہ جیون یوں گزر جاتا ہے حسن افزا ہوئی اشکوں کی سنہری برکھا پھول برسات میں جس طرح نکھر جاتا ہے گر نہ لکھوں میں قصیدہ تو ہے تلوار اقرب سر بچا لوں تو میرا ذوقِ ہنر جاتا ہے آشیاں دل کو مرے غم نے سمجھ رکھا ہے روز شام آتا ، رلاتا ہے ، سحر جاتا ہے قیس گر آج ہیں زندہ تو جنوں زندہ باد سوچنے والا تو دو خبروں میں مر جاتا ہے
 
Top