گیارھویں اور آخری قسط

m.usman

وفقہ اللہ
رکن
تاریخ سہارنپور​
(آخری اور گیارہویں قسط))
ویسے تو سہارنپور خاص اور پورے دوآبے کی حالت پہلے ہی بہت خراب ہوچکی تھی مگر فروری ۱۸۰۵ئ؁ میں امیر خاں پنڈاری کی چڑھائی نے سہارنپور کی مالی اور زرعی حالت کو اور بھی بگاڑ کے رکھ دیا اس زمانے برطانوی حکومت نے کرنل برن کو ہدایت دی ہوئی تھی کہ وہ حملہ آوروں کو گنگا پار نہ کرے اس نے اس دوران جیند کے سردار بھاگ سنگھ کو سہارنپور کا منتظم اور کیتھل کے بھائی لال سنگھ کو اس کی ماتحتی میں مقرر کردیا اور خود کرنل برن فوج لے کر جیرہیڑہ کے راستے سے میراپور (مظفرنگر) کی طرف کوچ کرگیا یہاں پر مسٹر گھتری اس کا ساتھ بن گیا مارچ ۱۸۰۵ئ؁ میں کرنل برن کے روہیل کھنڈ جانے کے بعد گردت سنگھ کی قیادت میں سکھوں نے کاندھلہ کے اِرد گرد کے گاؤں کو خوب لوٹا اور پورے علاقہ میں دہشت پھیلادی مرہٹہ سردار ہلکر کے اُکسانے پر مارچ ۱۸۰۵ئ؁ کو سکھوں کا کافی بڑا لشکر جمنا کو پار کرکے گوردت سنگھ کا امدادی اور حمایتی بن گیا مسٹر گھتری ان دنوں میرٹھ کے گاؤں افضل گڑھ قلعہ میں تھا اس کے آس پاس اُس وقت الڑھ قسم کے سوپیادہ سپاہی تھے اگر چہ مسٹر گھتری گوردت سنگھ کی فوج کے خلاف کوئی بھی فوجی کارروائی کرنے کی پوزیشن میں نہ تھا مگر پھر بھی اس نے ہمت کا دامن تھام کر گوردت سنگھ کی جاگیر کو اپنے قبضہ میں لے لیا سہارنپور آکر مسٹر گھتری نے لنڈھورہ کے راجہ رام دیال سنگھ اور موضع محل کے محمدی خاں کو ہردوار خاص اور دریائے گنگا کے گھاٹ کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری سونپ دی ۱۷؍مارچ ۱۸۰۵ئ؁ کے دن سکھوں نے تھانہ بھون پر حملہ کیا لیکن وہاں کے قاضی نے سکھوں کو بھگادیا پھر بھی یہ جنوب کے علاقوں میں میرٹھ تک لوٹ مار اور کھڑی فصلوں کو جلاتے رہے۔ ۵؍اپریل ۱۸۰۵ئ؁ کو کرنل برن نے جمناکو عبور کرکے کرنال پر حملہ کردیا اور سکھوں کو کراری مار دے کر ہمیشہ کیلئے ان کے فتنہ پر قابو پالیا۔ اگر چہ غازی الدین ضلع سہارنپور سے برہیا خاندان کے سکھوں کے نکل جانے کی وجہ سے سہارنپور پورے طور سے سکھوں سے صاف ہوگیا تھا مگر پھر بھی اُن سکھوں نے اپنی زمین کے مستقل حق ملکیت کی مانگ کی ۱۸۱۳ئ؁ تک اس ضلع میں تقریباً امن واستحکام قائم رہا لنڈھورہ کے راجہ رام دیال سنگھ کی موت کے بعد اس کی بڑی جاگیر کے بارے میں گوجروں میں جھگڑا اٹھ کھڑا ہوا پیشتر اس کے یہ جھگڑا خطرناک صورت اختیار کرلیتا لیکن خوش قسمتی سے اس کو دبادیا گیا ۱۸۱۴ئ؁ کی گورکھا بغاوت اور لڑائی کا سہارنپور پر کوئی اثر نہیں پڑا باوجودیکہ دہرہ دون کا ضلع سہارنپور سے رابطہ تھا اور یہ رابطہ ۱۸۲۵ئ؁ تک ریگولیشن ۱۸۱۷ئ؁ کے آئین پر رہا۔ ۱۸۲۴ئ؁ میں ایک جھگڑا دومشہور گوجروں نے کھڑا دیا ان میں سے ایک مشہور ڈاکو کلوا تھا جس نے کئی سال سے کمایوں اور گڑھوال میں کافی دہشت پھیلا رکھی تھی دوسرا بجے سنگھ گوجر تھا یہ راجہ رام دیا ل سنگھ لنڈھورہ کا رشتہ دار اور جاگیردار تھا جو روڑکی کے قریب کنجہ گاؤں میں رہتا تھا انہوں نے برطانوی حکومت کے افسران کی لاعلمی میں ایک کافی بڑی فوج کنجہ گاؤں میں جمع کررکھی تھی ضلع کے افسران کو اس منصوبہ کا اس دن علم ہوا جس دن جوالاپور تحصیل سے حکومت کے مسلح سپاہی خزانے کے بکس بھگوان پور لارہے تھے ان گوجروں نے اس مسلح گاردکو قتل کرکے خزانہ کولوٹ لیا مسٹر گرنڈل سہارنپور کے ضلع مجسٹریٹ نے ریاست سرمور کی گورگہا فوج کے ایک مضبوط دستہ کو ساتھ لے کر مسٹر شور جائنٹ مجسٹریٹ کی ہمراہی سارے دن لڑائی جاتی رہی اور باغیوں کو مکمل طور شکست ہوئی اس لڑائی میں باغیوں کا بہت بھاری جانی اور مالی نقصان ہوا دونوں باغی گوجر قتل ہوئے اور ان کے تقریباً دوسو ساتھ قتل ہوئے اور کتنے ہی زخمی ہوگئے بعد میں افسران متعلقہ کو معلوم ہوا کہ باغیوں نے کنجہ میں اکٹھا ہوکر ایک بہت بڑے حملے کا منصوبہ بنایا ہوا تھا اور اس حملے کو کامیاب کرنے کیلئے ضلع کے اندر اور باہر سے اور بہت سے مسلح لوگ آنے والے تھے مگر مذکورہ دونوں گوجر لیڈروں کی موت کے باعث سازش ناکام ہوکر رہ گئی۔
آخری بار ۶؍مئی ۱۸۵۷ئ؁ میں انگریزی حکومت کے خلاف چھاؤنی میرٹھ کے پچاسی مسلمان فوجیوں نے کارتوس کو منہ سے توڑ کر بندوق میں چلانے سے انکار کردیا کیونکہ ہندوستان میں انگریزوں کے مخالفوں نے یہ مشہور کررکھا تھا کہ کارتوس پرسور کی چربی لگی ہوئی ہے انگریز فوجی افسر نے ان پچاسی سپاہیوں کو سخت سزا دے کر قید خانے میں ڈال دیا تھا اس واقعہ سے متاثر ہوکر میرٹھ کی چھاؤنی کے خوددار ہندوستانی سپاہیوں نے کھلم کھلا انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت کرکے کئی ایک انگریز افسران کو قتل کرڈالا۔ لیکن یہ فوجی بغاوت میرٹھ، کانپور، لکھنؤ، دہلی اور وسطی ہند سے آگے نہ بڑھ سکی ملک کے اکثر ممتاز وبااثر ہم وطنوں نے ان بہادر اور جاں باز باغیوں کا ساتھ نہیں دیا اس کے باوجود بھی ان بہادر، غازیوں اور انقلابیوں نے تقریباً ساڑھے چار ماہ تک انگریزی جابر وعیار حکومت کا نہایت بہادری سے مقابلہ کیا۔ انگریزوں نے خاص طور سے مسلمانوں کا قتل عام کیا بوڑھے، بچوں اور عورتوں پر بے پناہ مظالم توڑے گئے کتنے ہی مسلمانوں کی جائدادوں کو تباہ کردیا گیا دوآبے کے دوسرے علاقوں میں انگریزی حکومت کے خلاف گوجروں نے جوفساد کھڑا کیا تھا اس کا مقصد لوٹ مار کرکے دولت اکٹھا کرنا تھا ورنہ گوجر لوگ اپنی حکوتم قائم کرنے کی پوزیشن میں ہرگز نہ تھے دوسری طرف گوجر لوگ مغل بادشاہ یا کسی دوسرے مسلمان کی حکومت کو برداشت کرنے کو تیار نہ تھے ۱۸۵۷ئ؁ میں انگریزوں کی خوش قسمتی نے ملک کے ہم وطنوں کو باغیوں کا ساتھ نہ دینے دیا اس عرصہ میں مسٹر آرسپنیکی (Mr.R.Spankee) سہارنپور کا ضلع مجسٹریٹ تھا مسٹرایچ، ڈی رابرٹن (Mr. H.D. Rebertoan) جائنٹ مجسٹریٹ اور مسٹر جی ڈبلیو کالج (Mr.G.W.Collaage) بطور نائب سہارنپور میں تعینات تھے مسٹر پی، سی ٹرینچ (Mr.P.C.Trench) اور آر، ایم ایڈور ڈسول سروس کے وہ انگریز افسران جن کا تعلق کلکٹر کے دفتر سے تھا سہارنپور ہی میں مقیم تھے ان کے علاقوہ ویماؤنڈڈپو اور محکمہ نہر کے کچھ دوسرے افسران بھی سہارنپور میں مقیم تھے اس وقت یہاں پر ۲۹ویں این، آئی فورس (29th N.G.Force) فوجی کمپنی کا ایک دستہ خزانے کی حفاظت کیا کرتا تھا اور تقریباً سو آدمی موجودہ جیل (قلعہ) کی حفاظت پر لگے ہوئے تھے۔ ۱۲؍مئی ۱۸۵۷ئ؁ کے دن میرٹھ کے سپاہیوں کی بغاوت کی خبر سہارنپور پہنچی محکمہ سراغ رسانی کے ذریعہ اس خبر کو انبالہ پہنچا دیا گیا دوسرے دن انگریز عورتوں اور بچوں کو پہاڑی علاقوں میں محفوظ جگہوں پر بھیج دیا گیا اس کے فوراً بعد دہلی سے مزید بغاوت کی خبر ملی اس بغوت سے متاثر ہوکر گوجروں اور رانگڑھوں نے لاقانونی پیدا کردی ان لوگوں نے سودا گروں اورامیر لوگوں کو لوٹنا شروع کرکے اپنی پرانی چالوں کو زندہ کردیا۔ ۲۱؍مئی کو مسٹر سپنیکی نے جلدی سے چھوٹے چھوٹے فوجی دستے مختلف اطراف میں باغیوں کو سزا دینے کیلئے بھیجے یہ فوجی دستے متواتر تین دن دیہات میں باغیوں کی کھوج کرتے رہے۔ ۲۳؍مئی کو مسٹر رابرٹ سن بیس پہاڑی سپاہیوں کو ہمراہ لے کرموہنڈ (متصل دہرہ دون) کی شاہراہ کے ساتھ ساتھ کوچ کرتا اٹھائیس رہزنوں اور لٹیروں کو رنگے ہاتھوں گرفتار کیا اور ہروڑہ کے زمینداروں کے پہرے میں ان لٹیروں کو سہارنپور بھیج دیا اس کے بعد مسٹر رابرٹ سن نے کھیڑی اور دیگر زمینداروں کی مدد سے موضع گوکل والا پر حملہ کیا اس نے یہاں کے ان زمینداروں کو گرفتار کیا جنہوں نے آس پاس لوٹ مار جیسے متعدد جرم کر رکھے تھے علاقہ کے ویسے عم لوگ حکومت برطانیہ کے وفادار رہے لیکن شہر سہارنپور میں بے چینی کے آثار نظر آرہے تھے۔ ۳۲۶؍مئی کو انبالہ کیپٹن وائلڈ کے زیرقیادت چوتھی گھوڑسوار فوج کا دستہ اور پانچویں این، آئی (5th N.I.) کی دو کمپنیاں پہنچ گئیں۔ ۲۶؍مئی کے دن مسٹر رابرٹ سن ایک چھوٹی سی فوج لے کر دیوبند گیا۔ وہاں کے لوگوں نے گڑبڑ کے پورے عرصہ میں انگریزی حکمرانوں کی کوئی مخالفت نہیں کی تھی اس کے بعد یہ گوجروں کے تین گاؤں بابوپورہ فتح پور اور سانپلہ بقّال گیا یہاں پر اس نے واضح طور پر باغیوں کے فتنوں کا اثر پ۔یا اس نے ان گوجروں کو شکست دے کر ان کے گاؤں کو آگ لگادی۔
اس نے مغربی علاقوں میں پھیلی لاقانونی کو دور کرنے کا ارادہ کیا تھا مگر اس کو معلوم ہوا کہ کاٹھا کے علاقہ میں اس کو روکے اور اس کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کی تیاریاں زور وشور پر چل رہی ہیں چنانچہ اس نے نہایت ہوشمندی سپینکی منگلور گیا وہاں پر مسٹررابرٹ سن اور اس کی فوج بھی اس سے آملی لیکن یہ موضع مانک پور کے امراء سنگھ کو باغیوں کی اڑنت کے سبب گرفتار نہ کرپائے امراؤ سنگھ اس علاقہ میں ایک راجہ کی طرح زمینداروں اور دوسرے لوگوں سے مالگذاری اور دوسرے ٹیکس وصول کررہا تھا اس کے بعد ضلع کے ہندوستانی سپاہیوں کی برہمی، خفگی، ناراضگی اور ان میں پھیلے اشتعال کی وجہ سے انگریزی افسران کو مشکل پش آئی۔ ۲؍ جون کو پانچویں این، آئی فورس کے سپاہیوں نے کپتان گارسٹ (Captangorstin) اور دوسرے انگریز افسران کو گولی مارنے کی کوشش کی مکر یہ لوگ ایسا نہ کرسکے یہ باغی سپاہی اپنے اسلح لے کر بھاک گئے لیکن ۳؍جون کو میجرباگاٹ (MagorBaigat) کی قیادت میں دہرہ دون سے گورکھا فوج کے آجانے سے مزید گڑبڑ پیدا ہونے سے رک گئی اس عرصہ میں ہندوستانی فوج سے انگریزوں کا اعتماد پورے طور سے اٹھ گیا تھا خاص طور سے ۲۹ویں این، آئی، فوج مرادآباد کے باغی ہوجانے کی وجہ سے ایک بار پھر گورکھا فوج کے دستے کو ان گوجروں کو متشر کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی جو خزانہ کو لوٹنے کیلئے یہاں اکٹھے ہورہے تھے ۵؍جون ۱۸۵۷ئ؁کو مسٹر رابرٹ کچھ ڈھیٹ اور اڑیل قسم کے گاؤں کی گوشمالی اور سزا دینے کے بعد روڑکی گیا تقریباً ایک ہفتہ کے دوران کوئی حادثہ پیش نہیں آیا لیکن ۱۶؍جون کو جالندھر کے تین سو باغی جمنا دریا کو پار کرکے پوری اُتری علاقہ میں پھیل گئے اور ہیجان سا پیدا کردیا۔ حکومت برطانیہ نے لفٹنٹ ہائر گاؤں (Boisragon)اور مسٹر ایڈورڈ (Mr. Edwoard) کو ان کو روکنے کیلئے بھیجا۔ اگلے دن ایک اور فوجی دستہ کو اسی غرض سے بھیجا گیا لیکن انگریزی فوج کے یہ دستے مذکورہ باغیوں کو پکڑنے میں ناکام رہے ۲۰؍جون کو نکوڑ پر گوجروں کے حملے کی خبر ملی مسٹر رابرٹ سن تیسعی گورکھا اور چالیس گھوڑسوار پٹیالوی فوج کے سپاہیوں کو ہمراہ لے کر نکوڑ گیا اس نے وہاں تحصیل اور پولیس اسٹیشن کو جلا ہوا اور پورے قصبہ کو برباد اور لٹا ہوا پایا مگر اس لوٹ اور بربادی سے مسلمانوں کے گھرانے محفوظ پائے گئے۔ لٹیروں کا وہاں کوئی نشان نہ تھا یہ علاقہ کی حفاظت کا انتظام کرتا ہوا لٹے ہوئے اور برباد کئے ہوئے ان لاتعداد مرد اور عورتوں کے درمیان سے فتحپور تک گذرا جو لٹیروں کے ظلم وستم اور لوٹ مار کا شکار ہوئے تھے۔ فتحپور گاؤں کو لٹیروں نے جلاکر راکھ کرڈالا تھا لیکن آس پاس کے لوگ ان گوجر لٹیروں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ایک چھوٹے فوجی دستہ کو ان لوگوں کی امداد کیلئے بھیجا اور ان کو وہاں رات گذارنے کی ہدایت دی گئی۔ ۲۲؍جون کو مسٹر بانسراگاؤں اوراس کی گورکھا فوج ان کی امداد کو پہنچ گئی انہوں نے مل کر ان لٹیرے گوجروں کے خلاف فوجی کارروائی کی لٹیرے بھاری نقصان اٹھاکر اور مقابلہ کی تاب نہ لاکر بھاگ کھڑے ہوئے چاروں گاؤں کو آگ لگادی گی اور اگلے دن موضع ساڈھولی اور رندیوا کے خلاف ایسی ہی فوجی کارروائی کی گئی اس کے بعد یہ دستے گوجروں کے مرکز بوڈھاکھیڑا پہنچے اور اس پورے گاؤں کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی اس کے بعد پھر یہ فوج گنگوہ کیلئے روانہ ہوئی اور ۲۶؍جون کو وہاں پر قیام کیا وہاں پر ان فوجی افسران نے کھادر کے رانگھڑوں کی گوشمالی اور سزا دینے کا منصوبہ بنایا وہاں پر موضع امرپور اور مان پور میں رانگھڑوں کی بڑی طاقت کو پایا گیا۔ مسٹر بانسرا گاؤں نے ان پر دو طرف سے حملہ کرکے بیشمار لوگوں کو قتل کرڈالا اور جو بچے وہ بھاگ نکلے آخر موضع کنڈا تک ان لٹیروں کو دھکیل دیا گیا اس فوجی کارروائی کے عمل میں آجانے سے لکھنوتی اور گنگوہ محفوظ ہوگئے یہ با محسوس کی جاتی رہی کہ یہ شورش نکوڑ اور اس کے آس پاس کے مسلمانوں نے پیدا کررکھی تھی گوجروں کا اصل مقصد تو لوٹ مار کرکے دولت اکٹھا کرنا تھا ان کا حکومت کو اکھاڑنے کا کوئی معقول منصوبہ یا پروگرام ہرگز نہ تھا سرساوہ کی حالت بھی نکوڑ کے پڑوسی مواضعات کے لوگوں نے مسلمانوں کو گوجروں کے مخالف پیشکش کی ۲۸؍جون کو انگریزی فوجی دستے رام پور منہاران جہاں پر لٹیروں نے دہشت پیدا کردی تھی کا معائنہ کرکے سہارنپور چلے گئے دوسرا اہم واقعہ ۲۹ویں این،آئی فوج میں پیدا ہوئی شورش کا تھا یہ واقعہ ۸؍جولائی کو مسٹر رابرٹ سن روڑکی کیلئے کوچ کرگیا آپ پہلے ہی پڑھ چکے ہیں کہ میرٹھ سے ۱۳؍مئی کی فوجی بغاوت کی جب روڑکی خبر آئی فوراً ہی روڑکی سے سیبر اور نائنرس (سفرمینا) فوج کے دستوں کو میرٹھ کیلئے روانہ کردیا گیا تھا ان دستوں کو نل بیرڈ سمتھ (Colonel Baird smith) کی تجویز کے مطابق نہر کی نچلی طرف کے راستے سے بھیجا گیا تھا کرنل برڈاس عرصہ میں نہر کے سپرنٹنڈنٹ کے عہدہ پر کام کررہا تھا فوج کی دوکمپنیوں کو مقامی حفاظت کی خاطر روڑکی میں رکھ لیتا تھا اور میرٹھ کے حادثہ کی خبر فوراً ہی دہرہ دون پہنچادی گئی تھی دہرہ دون میں سرمور ریاست کی فوج ڈیرے ڈالے پڑی تھی اور میرٹھ پہنچانے کی خاطر اس فوج کیلئے سواریوں کا انتظام کیا جارہا تھا روڑکی میں اس عرصہ میں یورپین قوم کے دوسو لوگ تھے ان میں کل نوے آدمی اسلحہ اٹھانے کے قابل تھے۔ لہٰذا ان میں بھی صرف تیس آدمی ہی فوجی تربیت یافتہ تھے۔ کرنل بیرڈ نہایت پھرتی سے کنیال ورک شاب کی عمارت کو محفوظ بنانے والے ذرائع کو کام میں لایا اس ورکشاپ کے چاروں طرف گہری اور چوڑی کھائی کھدوا دی گئی اور عمارت کی دیوار پر وہ تین توپیں نصیب کردیں جن کو سکھ فوجوں سے چھین لیا گیا تھا غرض حتی الوسع کنیال ورکشاپ کو بالکل محفوظ بنالیا گیا حالانکہ اسلحے کی اس وقت بہت ہی کمی تھی اورتوپ کیلئے ایک سیربارود بھی میسر نہ تھا ۱۴؍مئی کے دن کالج کی طرف سے ایک قابل توجہ فائر ہوا کالج کے طلباء کا ایک دستہ تیار کرکے پورے قصبہ میں گھمایا گیا کیونکہ مذکورہ حالات میں کسی بھی اشتعال کا ہوجانا متوقع تھا دوسرے دن فوجی ہائی کمانڈ نے کرنل بیرڈ کو روڑکی کی فوج کا کمانڈر مقرر کیا اس نے سیپرس اینڈ مائنرس (Sappers & Minirs) (سفرمینا) کے ہیڈکوارٹر کے ریزرو کوٹہ کی رعایا نے اپنی مخالفت ظاہر کی یہاں کے باشندوں میں اشتعال کا پیدا ہوجانا عین فطرت کے مطابق تھا وقت کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے کرنل بیرڈسمتھ نے لوگوں سے رابطہ قائم کرکے واضح کیا کہ یہ سب تمہاری اور اپنی حفاظت اور گوجر باغیوں کو سزا دینے کی خاطر کیا گیا ہے۔ چنانچہ اس وضاحت کا عوام پراچھا اثر پڑا۔
۱۶؍مئی کو ہندوستان سپاہیوں کو کالج کا چارج دیدیا گیا اور تمام یورپین لوگ کینال ورکشاپ میں چلے گئے کیونکہ کینال ورکشاپ کو مضبوط حفاظتی جگہ تصور کیا گیا۔ ۱۸؍مئی کو کمانڈر انچیف کے بلاوے پرر سیپرس اینڈمائنرس (سفر کینیا) فوج کو دخلی روانہ کردیاگیا لیکن یہ فوج سکندرپورسے آگے بڑھنے بھی نہ پائی تھی کہ بغاوت اور انکو دی گئی سزاؤں کے نتیجہ میں قبضہ کے بہت سے لوگوں میں اشتعال پیدا ہوگیا تھا چنانچہ سکندرپورسے فوجی دستے رات ہی کو واپس روڑکی چلے آئے اور ورکشاپ کی حفاظت کی اس کے بعد انہوں نے گنگا کی طرف مارچ کیا جو فوجی یہاں پر رہ گئے ان کی تعداد معہ ہندوستانی سپاہیوں کے پچاس تھی اس طریقہ سے اصل جھگڑا طے ہوگیا اس حالت میں کرنل برڈ سمٹھ نے روڑکی کے آپس پ۔س کی طرف توجہ دی اس موہنڈ گوجروں نے کچھ نقصان پہونچایا تھا۔ فوجی ٹولیوں کو چاروں طرف روانہ کیا گیا کئی ایک بلکہ باغیوں سے ان ٹولیوں کی مڈبھیڑ ہوئی۔ مسٹر برڈسمٹھ کے اس فوجی عمل سے لوگوں میں جرأت اور اعتماد کی زندگی پیدا ہوگئی اس اطمینان کے پیدا ہو جانے سے جوالاپور اور کنگھل کے پاشندوں نے نہایت ہمت وجرأت سے باغیوں کے ۲۱ اور ۲۶؍ مئی کے حملوں کو ناکام بناکر رکھ دیا اور کنیال کے ہیڈورکس کے ملازموں نے نہایت شاندار بہادری سے ہیڈورکس کی حفاظت کی، اگلے دن کرنل برڈسمتھ ذاتی طور پر ہر دوار گیا یہاں کے لوگوں نے اس کا گرم جوشی سے استقبال کیا اور اس دن اس نے ایک فوجی دستہ کنیال کے نچلی طرف کے راستے سے موضع جولی کو دن کچھ یورپین لوگ بجنور سے روڑکی پہونچے ان لوگوں نے بتلادیا کہ تین انگریز نواب نجیب آباد کے ہاتھ آگئے تھے چنانچہ کپتان رابرٹ سن اور مسٹر میلڈلے کاٹ(mr-medlcott)کے ہمراہ ایک فوجی دستہ کو ان تین انگریزوں کی رہائی کے لئے نجیب آباد روانہ کیا گیا۔
۱۵؍جون کو یہ فوجی دستہ گنگا کو ہردوار کے راستے پار کر کے نجیب آباد پہونچا اور کامیابی سے اپنے مشن کو پورا کیا نواب نجیب آباد نے ان کے لئے سواریاں بھی مہیا کردیں بسیرڈسمتھ اس دوران بندوقوں اور توپوں کی دھلائی کراتا رہا اپنی فوجی اور حفاظتی طاقت کو برابر بڑھاتا رہا کرنل بیرڈسمتھ کچھ وقت بچاکر ایک گزٹ جس کا نام روڑکی گیریزن تھا بھی لکھا رہا اس نے نہایت دوستانہ طریقہ سے روڑکی تحصیل کے محصلات سے مال گذاری اور دوسرے ٹیکس وصول کئے گویہ وصولی فوجی سپاہیوں کے زیراثر کی گئی اسی لئے کوئی مالی نقصان نہ ہوسکا۔
۲۲؍جون کو ایک فوجی دستہ نے منگلور قصبہ کی طرف مارچ کیا یہاں مسلح گوجر کافی تعداد میں قصبہ کو لوٹنے اور برباد کرنے کی خاطر اکٹھے ہوگئے تھے۔
۲۶؍ جون کو کرنل بیرڈسمتھ کو دہلی بلالیا گیا۔ اس نے نہایت جلدی سے پانیرس(preonrs)کو اس کا سپہ سالار مقرر کردیا اسی عرصہ میں گنگا کے علاقوں میں بنجاروں نے گڑبڑ پیدا کردی مسٹر رابرٹس (mr-robertran) سہارنپورکو چھوڑ کر روڑکی آیا۔ اور کپتان میگگن (coptianmaclagan) اور اس کی چھوٹی سی فوج کو لیکر جوالاپور کی طرف بڑھا۔
۱۵؍جولائی کو موضع رانی مزرعہ کے مقام پرجاکر اس نے متعدد گاؤں کو لوٹا جلایا اور برباد کیا ہوا دیکھا بان گنگا ندی میں باڑھ (سیلاب) آجانے کی وجہ سے اس کو دوسری طرف جاکر بنجاروں پرحملہ کرنے کو پکڑلیا اور کچھ دیر ہوگئی ۱۷؍جولائی کو نہایت کامیابی کے ساتھ موضع فاتھو کے مقام پر سیکڑوں بنجاروں کو پکڑ لیا اور کچھ بنجارے گنگا کے ٹاپو میں بھاگ جانے میں کامیاب ہوگئے۔ ۱۹؍جولائی کو مسٹر رابرٹ سن اور مسٹرمسکلیگن معہ اپنے فوجی دستوں کے روڑکی لوٹ آئے اور پھریہاں سے اپنی فوج لیکر دیوبند گئے کیونکہ مظفرنگر اور پور قاضی کے گرد ونواح کے گوجرورں نے دوبارہ دیوبند پر حملہ کردیا تھا۔
۲۲؍جولائی کے دن یہ قصبہ دیوبند میں پہنچے اور انہوں نے تقریباً قصبے ایک حصہ کو برباد ہوا پایا انہیں لئے متعدد دیہات میں فسادیوں کو سزائیں دیں۔ لیکن ان کو سزا کا یہ سلسلہ رد کر دنیا پڑا اس دوران ان کو سہارنپور پہنچنے کا حکم موصول ہوگیا تھا کیونکہ کاٹھ کے علاقہ کے گوجروں پونڈیروں اور رانگھڑوں کے متوقع حملے سے شہر سہارنپور کا بچاؤ کرنا ضروری ہوگیا تھا قلعہ (موجودہ جیل) کے محافظ ہندوستانی سپاہیوں کو غیر مسلح کرکے گورکھا سپاہیوں کو تعینات کردیا گیا۔ میرٹھ سے دوتوپوں اور لنڈھورہ (روڑکی) سے چالیس یورپین فوجیوں کے سہارنپور پہنچنے پر فسادیوں اور باغیوں کو ماربھگایا گیا کوتوالی سہارنپور کا کسی بدانتظامی اور شک کی بناء پر نکوڑ کیلئے تبادلہ کردیا گیا اسی کو پھر شہر انبالہ کیلئے حکم ملا اس کے مسلح پہریدار سپاہیوں نے موضع ساڈھولی کے نزدیک گوجروں کو ماربھگاکر اس علاقہ میں پھیلی بغاوت فتنہ وفساد پر قابو حاصل کرلیا تھا اس کے بعد اس کے تبادلے کے حکم کو متعلقہ افسران نے واپس لے لیا اور مسٹر لووی (Mr. Lowe) کے اسسٹنٹ کلکٹر کو دیوبند اور مسٹر مالویلی (Mr. Maluille) کو روڑکی بھیجا گیا تاکہ وہاں سے مالگذاری اور دوسرے ٹیکسوں کو وصول کیا جائے اس عرصہ میں یہاں کی انگریزی حکومت کی فوجی طاقت میں پنجاب سے کچھ غیر تربیت گھوڑسواروں کے آجانے سے اضافہ ہوگیا تھا اب یہاں سے کچہ فوج کو مظفرنگر کے علاقہ تھانہ بھون پر حملے کرنے میں حصہ دار بنانا ممکن ہوگیا تھا اس حملے میں مسٹرلووی سخت زخمی ہوگیا تھا۔ ابھی لاقانونی کو روکنے کیلئے بہت کچھ کرنا باقی تھا ہندوستانی سپاہیوں کو غیرمسلح کردینے سے فسادیوں کے حوصلے پست ہوگئے تھے افسران کیلئے لاقانونی کو دور کرنے میں آسانی ہوگئی تھی اب صرف بجنور کے پٹھانوں کی طاقت کا خطرہ درپیش تھا کیونکہ گنگاپار کے علاقوں پر کوئی فوجی کارروائی نہیں کی جاسکی تھی۔
جنوری ۱۸۵۸ئ؁ میں نجیب آباد کے پٹھانوں کی ایک فوج نے ہردوار پر حملہ کردیا لیکن مایاپور پر متعینہ انگریزی ملازموں نے نہایت بہادری اور حوصلہ مندی سے پٹھانوں کے اس حملہ کو روک دیا اور نہر کے ہیڈورکس کو نقصان پہنچنے سے بچالیا۔ اس کے دودن بعد مسٹربانسرا گاؤں (Mr. Baisragan) روڑکی سے ایک سو فوجی سپاہیوں کو ہمراہ لے کر مایاپور پہنچا وہاں جاکر اس نے کنکھل سے تین میل نیچے کی طرف باغیوں کی بہت بڑی تعداد کو ڈیرے ڈالے پایا یہ باغی گنگاپار اکھٹے ہورہے تھے۔ باغیوں نے جلدی سے کنکھل کے قریب سے گنگا کو عبور کرلیا۔
مسٹر بانسراگاؤں قصبہ جوالاپور مین ان کے مقابلے کیلئے تیار تھا اس نے باغیوں کے جوالاپور پہنچنے سے پہلے ہی ان پر حملہ کردیا اور جلد ہی ان کو دور تک جنوب کی طرف بھگادیا مسٹربانسراگاؤں نے نہر گنگ کا پورا پانی ندی میں چھوڑ کر باغیوں کی راہ فراری میں رُکاوٹ پیدا کردی اور اپنے گھوڑسوار فوجیوں کو باغیوں کا پیچھا کرنے پر دوڑادیا۔ اسی طرح سے سینکڑوں باغی اس نالے میں ڈوب کر مرگئے اس مزید بغاوت سے ضلع کو کچھ چین کا سانس مل گیا یہ کامیابی نجیب آباد کے نواب کی مرہون منت تھی ضلع سہارنپور کے حکام نے کئی ایک فوجی دستوں کو اسی مہینہ میں ضلع کے متعدد علاقوں سے روڑکی میں پہنچنے کا حکم دیا۔ تاکہ یہاں سے فوجوں کو روہیل کھنڈ کی انگریزی فوج کی امداد کیلئے روانہ کیا جائے روڑکی میں اکٹھی ہوئی اس فوج نے اپریل کے مہینہ میں برگیڈیر جونس (Brigades Janes) کی قیادت میں روڑکی سے کوچ کیا۔ اور ۱۷؍اپریل کے دن گنگا دریا تو ہردوار کے گھاٹ سے پار کیا انگریزی حکومت نے ضلع میں عذر سے متعلقہ بغاوت فتنہ اور فساد ختم کرنے کے بعد اپنے وفاداروں اور ملک وملت کے غداروں کو خطابات نقد روپیہ اور زمینیں انعام انعام میں دیں اس ضلع کی غدر کے دوران یہ خصوصیت رہی کہ ضلع افسران میں سے کسی ایک کی بھی جان نہ گئی اور نہ ہی ان فوجیوں کو کوئی جانی نقصان پہنچا جو انبالہ اور لنڈھورہ سے ضلع میں پھیلے فسادات اور بغاوتوں کو کچلنے کیلئے آئے یہاں کے عام لوگوں کا وہ برتاؤ جو آس پاس کے عوام نے انگریزی افسران کے ساتھ روا رکھا حکومت برطانیہ کے افسران کا نہایت مددگار ثابت ہوا کیونکہ رانگھڑوں، پنڈیروں اور خاص طور سے گوجروں کے سوا کسی بھی برادری نے اس بغاوت میں حصہ نہیں لیا تھا دوسری قابل غور بات اس ضلع میں یہ بھی ہوئی کہ زمینوں کے بندوبست (چک بندی) کرنے کا کام جاری رہا اور سرکار کے اس کام میں کوئی رُکاوٹ پیدا نہیں ہوئی مگر سہارنپور میں ہزاروں باغیوں اور ان کے ہمدردوں کو شارع عام پرپھانسی کے تختوں پر لٹکایا گیا اور بہت سے مسلمانوں کی جائدادیں بحق سرکار ضبط کرلی گئیں اور کتنے ہی لوگوں کو قید کردیا گیا۔
ضلع میں خطابات نقد اور زمینوں کے انعامات پانے والوں کی تعداد بہت ہی زیادہ تھی خصوصی طور سے لنڈھورہ کے راجہ کے چچا پردھان صاحب سنگھ کو راؤ کا خطاب دیا گیا اور اس کو دو گاؤں بلا مال گذاری ادا کئے انعام میں دئیے گئے اسی طرح سے موضع ہروڑہ کے راجپوت عثمان خاں دیوبند کے کرامت حسین، غلام حیدر، تحصیلدار سہارنپور، فضل الرحمن قاضی سہارنپور کو انعام میں دی گی ان سرکاری ملازمین کو جنہوں نے اپنی ڈیوٹی کے وقت نہرگنگ کے ہیڈورکس کو باغیوں کے حملہ کے نقصان سے بچایا تھا نقد روپیہ انعام میں تقسیم کیا اور ان کے عہدے بڑھائے گئے۔ کتنے ہی سرکاری اور غیرسرکاری لوگوں کو ستائشی سندات دی گئیں اور ان ستائشی سندوں میں ان کی وفاداری کی تعریف کی گئی اس غدر کے بعد ضلع سہارنپور میں انگریزی حکومت کے خلاف کوئی اہم واقعہ نہیں ہوا۔ ۱۸۹۳ئ؁ ہندوستان کی تاریخ کا وہ منحوس سال ہے جس میں کہ ہندوستان کے بدنصیب باشندوں کو پہلی مرتبہ فرقہ وارانہ فسادات کی تباہکاریوں سے واسطہ پڑا مسلمان عام طور سے عملاً کانگریس سے الگ ہوگئے تھے اور اپنی الگ راہ قائم کرلی تھی ہندوستانی مسلمان اس ملک میں ہزاروں سال سے باوجود کئی ایک اختلافات کے رہتے آرہے تھے اور کبھی بھی فرقہ وارنہ فساد نہ ہوا تھا یہ فساد ۱۸۹۳ئ؁ میں اعظم گڑھ (یو،پی) اور دوسرے مقامات پر گائے کی قربانی کے نام پر ہوا تھا اور اس کا محرک انگریز تھا۔
۱۹۱۳ئ؁ میں یورپ کی بلقانی ریاستوں نے ٹرکی پر حملہ کرکے اس کو یورپین مقبوضات میں شامل کرنے کا پلان بنایا اور عرب سرزمین سے اکھاڑ پھینکنے کا منصوبہ بنایا تھا انگریز ترکی کے خلاف بلقانی ریاستوں کی مدد کررہے تھے اِدھر کانپور میں ایک مسجد کے سلسلہ میں ہندوستانی مسلمانوں پر انگریزی حکومت نے گولیاں برسائیں۔ اِدھر تقسیم بنگال کے واقعات نے ہندی مسلمانوں میں انگریزوں کے تئیں نفرت پیدا کردی تھی ۱۹۱۶ئ؁ میں یورپین حکومتوں نے ترکی حکومت کو بالکل اس کے مقبوضات سے نکال باہر کردیا تھا مولانا محمد علی جوہر اور ان کے بھائی شوکت علی نے انگریزی حکومت کے اس رویہ کے خلاف اپنی تقاریر کے ذریعہ ہندی مسلمانوں میں جوش پیدا کیا اور انگریزی حکومت نے مولانا محمد علی جوہر کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا اس طرح مسلمانوں کے جوش میں اور بھی اضافہ ہوا۔ اکتوبر ۱۹۱۷ئ؁ کے انقلاب روس نے دنیا کی اہم قوموں کی رہنمائی کرنے میں اہم رول ادا کیا تھا۔
اہم قومیں اپنی آزادی تحریکوں کو جنم دے رہی تھیں۔ اس نتیجہ میں ہندوستان کے مسلمان خاص طور سے انگریزی حکومت کو اکھاڑ پھینکنے میں پیش پیش نظر آرہے تھے ویسے ہندوفرقہ بھی مہاتما گاندھی کی قیادت میں انگریزی حکومت کے خلاف آزادی حاصل کرنے میں سرگرم عمل تھا۔
چونکہ ترکی حکومت کو انگریزی اور دوسری یورپین قوموں نے عرب ممالک سے نکال دیا تھا اور عرب کی سرزمین پر چھوٹی چھوٹی متعدد حکومتیں کردی گئی تھیں اس زمانے میں مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا ظفر علی خاں، مولانا حسرت موہانی، مولانا محمد علی جوہرؔ، مولانا محمودالحسن اور مولانا حسین احمد مدنی اور ملک کے کئی دوسرے مسلمان رہنماؤں کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دینے کی وجہ سے ہندوستان کے مسلمانوں میں انگریزی حکومت کے خلاف اتنا جوش پیدا ہوا کہ نوجوان اور بوڑھے سرپر کفن باندھے ہوئے نظر آرہے تھے ایسی حالت میں سہارنپور کے مسلمان کس طرح ملک کے دوسرے مسلمانوں سے الگ رہتے اور مسلمانوں سے پیچھے رہ سکتے تھے۔ ۱۹۵۰ئ؁ سے ۱۹۱۹ئ؁ تک کے درمیانی عرصہ میں ہندوستان میں فرقہ وارانہ اتحاد پورے عروج پر تھا سبھی فرقے انگریزی حکومت کی غلامی سے چھٹکارا حاصل کرنے کی فکر میں تھے مگر انگریزی حکومت کی ریشہ دوانیوں سے اس فرقہ وارانہ اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی خاطر مسجد، مندر، گاجے تاجے، ہندی اور گاؤ کشی جیسے تنگ نظری کے عامل واقعات پیش آئے یا کرائے گئے جولائی ۱۹۱۹ئ؁ میں مولانا محمد علی جوہرؔ نے خلافت کمیٹی بنائی ۱۹۲۰ئ؁ کے دوران شہر سہارنپور میں خلافت کمیٹی کی شاخ قائم کی گئی اس شاخ کے صدر مولانا خلیل الرحمن مقرر ہوئے۔ ۱۹۲۱ئ؁ کے دوران دیہات وقصبات میں مسلمانوں کی امداد وحمایت حاصل کرنے کیلئے خلاف کمیٹی نے جلسے کئے اور جلوس نکالے مسلمانوں نے حسب استطاعت چندہ دیا اور بہت سی عورتوں نے اپنا زیور اور کپڑا بھی خلافت کمیٹی کو بطور امداد دیا خلافت کمیٹی کے ممبران مولانا محمودالحسن، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا منظور لبنی، بھائی محمد یٰسین جوتہ فروش، حکیم عیسیٰ اور مولانا عبدالحمید خاں صاحب تھے۔ انگریزی حکومت نے خلافت میں سہارنپور کی مجلس عاملہ کے تقریباً سبھی ممبران کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا اور ان مجاہدوں کو طرح طرح کی تکالیف دی گئیں مولانا عبدالحمید خاں ممبر خلافت کمیٹی نے جیل کے افسران کے برتاؤ کے خلاف بھوک ہڑتال کی تھی مہاتما گاندھی نے اسی زمانے عدم تعاون پر امن طریقہ سے چلانے کی تحریک شروع کی اور مسلمان بھی انگریز دشمنی میں اس تحریک میں داخل ہوگئے۔ بہت سے مسلمانوں نے تو یہاں تک عملی سرگرمی دکھائی کہ انگریزی حکومت کی نوکریاں چھوڑدیں ان کا بائیکاٹ کیا اور بدیشی مال کو جلا ڈالا۔ اس زمانے میں مہاتما گاندھی نے بھی خلافت کمیٹی کی تحریک کی تھی اسی وجہ سے سہارنپور کے کانگریسی ورکر بھی خلافت کمیٹی کی طرف سے منعقدہ جلسوں اور میٹنگوں میں شریک ہوتے رہے اس دور میں بابواجیب پرشاد جین، شری للتا پرشاد، رتن لال وید، بابو میلا رام ایڈووکیٹ اور بابوجھمّن لال وغیرہ کانگریسی ورکر تھے عدم تعاون تحریک سے متاثر ہوکر بابومیلا رام اور بابو جھمّن لال نے وکالت چھوڑدی تھی ۱۹۳۲ئ؁ میں بابو جھمّن لال کو انگریزی حکومت نے گرفتار کرکے جیل میں بند کردیا تھا صوبہ کانگریس کمیٹی نے بابو میلا رام کو صوبہ عدالت کا عہدہ دیا ۱۹۲۶ئ؁ میں کانگریس تحریک کو آگے بڑھانے کیلئے بابو میلا رام ایڈوکیٹ بابو جھمّن لال ایڈووکیٹ مولوی منظور النبی، محمد احمد کاظمی ایڈووکیٹ، بابو بدری داس ایڈوکیٹ، ٹھاکر پھول سنگھ، دین دیال شاستری، للتا پرشاد، حکیم پنالال، رتن لال وید اور چاند مل صرّاف وغیرہ اپنے دوسرے متعدد ساتھیوں کے ساتھ سرگرمی سے کام کرتے رہے ۱۹۲۸ئ؁ میں اترپردیش صوبہ کانگریس کمیٹی کے صدر پنڈت جواہر لال نہرو سہارنپور آئے ان کی میٹنگ میں صرف چالیس آدمی اکٹھے ہوئے ۱۹۲۹ئ؁ مین مہاتما گاندھی سہارنپور آئے یہاں مدیش بھگتوں اور انگریز مخالف لوگوں نے مہاتما گاندھی کا پُرجوش استقبال کیا اور جلسے میں شریک ہوئے تھے اجیت پرشادجین مہاتما گاندھی کے استقبال کے لئے بنائی کمیٹی کے صدر چنے گئے تھے شہرکے عوام نے مہاتماگاندھی کو دس ہزار روپیہ کی تھیلی پیش کی اس سال گانگریس نے اپنے لاہور میں منعقدہ اجلاس میں ہندوستان کی مکمل آزادی کو اپنا نصب العین قرار دیا اور ۲۶؍جنوری ۱۹۲۹ئ؁ کا دن ہندوستان کے لئے مکمل آزادی حاصل کرنے کے عہد کا دن منانے کا مقرر کیا گیا۔چنانچہ بابواجیت پرشاد جین نے ۲۶؍جنوری کے دن جلسہ کرنے اور جلوس نکال کر عہدنامہ کے دن کے طورپر منانے کی انتھک جدوجہد کی جین صاحب کی جدوجہد سے اتنا بڑا جلوس نکلا جس کی مثال سہارنپور کی تاریخ میں نہیں ملتی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے اس جلوس میں سارے شہر کے لوگ ہی آگئے ہوں مسلمان محلوں میں جگہ جگہ اس جلوس کا نہایت گرم جوشی سے خیر مقدم کیاگیا سب نے ہندوستان کو انگریزی حکومت سے مکمل آزاد کرانے کی قسم کھائی اس کے بعد بابواجیت پرشاد جین کو گرفتار کرکے زیر دفعہ ۱۲۴-الف ڈیڑھ سال کی سزادی گئی اور سزا کاٹنے کے لئے بابوجی کو ہر دوئی کی جیل میں بھیج دیا گیا مارچ۱۹۳۱ئ؁ میں گاندھی ارون سمجھوتہ کے نتیجہ میں ان کو رہا کردیا گیا۔
کاش ۱۹۱۹ئ؁ اور ۱۹۲۲ئ؁ کے درمیانی عرصہ میں ہمارے دوسرے ہموطن بھی انگریزوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو ہندوستان کی گردن سے انگریز کی غلامی کا جوا اسی وقت اتر گیا ہوتا گو ہندوستان مہاتماگاندھی کی قیامت میں آزادی حاصل کرنے کی طرف برابر آگے بڑھتے رہے اپریل ۱۹۳۰ئ؁ ستیہ گرہ کی جو تحریک مہاتماگاندھی نے چلائی ضلع سہارنپور کی اس تحریک میں ٹھاکر پھول سنگھ بابواجیت پرشاد جین، پنڈت پورن چندر، دین دیال شاستری، مہنت جگن ناتھ وغیرہ نے نمک بناکر سیتہ گرہ کیا روزانہ ایک آدمی نمک کے قانون کے خلاف سیتہ گرہ کرکے گرفتار دیتا برتھا پہلے روز ٹھاکر پھول سنگھ نے پاؤں دھوئی ندی کے کنارے پر لال داس کے باڑے کے نزدیک پانی سے نمک بناکر نمک قانون کے خلاف سیتہ گرہ کیا تھا ٹھاکر پھول سنگھ نے نمک تیار کرکے جس کی مقدار شاید ایک ماشہ بھی نہ تھی اس نمک کو پبلک میں نیلام کیا تھا اور پبلک کے کسی آدمی نے بطور عقیدت اس نمک کو ایک ہزار ایک سو ایک روپیہ میں خریداتھا اس نیلامی کے وقت ہی گھبیرسنگھ کو توال شہر اور اپنے نائب سب انسپکٹر بندے حسن لاٹھیوں اور نبدوقوں سے مسلح پولس کی جمعیت لیکر موقع پر پہنچا اور ٹھاکرپھول سنگھ کو زبردستی اٹھاکر پولس کے ٹرک میں ڈال دیا وہاں کھڑے لوگوں نے مہاتماگاندھی، مولانا آزاد اور دھینگا مشتی سے ٹھاکر پھول سنگھ کی ایک پسلی پر اسی سخت ضرب آئی تھی جو کہ مرتے دم تک انکو درد پہنچاتی رہی۔
۱۹۳۰ئ؁ کے دوران آلہ آباد میں علامہ اقبال کی زیر صدارت مسلم لیگ کا اجلاس ہوا اس اجلاس میں علامہ نے اپنے صدارتی خطبہ میں ہندوستان کے مسلمان کے لئے ایک علیحدہ مملکت کے قیام کا تصور پیش کیا اور مسلمان پڑھے لکھے نوجوانوں سے قیام پاکستان کے منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کی اپیل کی گئی راجوپور (دیوبند) کے شیخ ضیاء الحق ،بہٹ کے شاہ نظر حسن، گنگوہ کے قاضی مسعود احمد وغیرہ نے مسلم لیگ کی شاخ سہارنپور میں قائم کی ۱۹۲۲ئ؁ کے دوران ہندومسلم اتحاد کا وہ زریں دور انگریزی حکومت کی عیارانہ سازشوں کا شکار ہوگیا وہی ہندوستان جو ایک دوسرے سے گلے مل رہے تھے ایک دوسرے کی گردن کاٹتے اور جان ومال کے دشمن بن گئے اس کے نتیجے میں ۱۹۲۳ئ؁ کے دوران سہارنپور میں بھی تعزیہ کے معمولی سے جھگڑے نے اتنی بھیانک صورت اختیار کرلی کہ کچھ غنڈوں نے کئی ایک دکانیں لوٹ لیں اور قتل بھی ہوئے۔ انگریزی حکومت کے افسران نے اس فرقہ وارانہ فساد میں ان امن پسند قانون کو بھی پھنسالیا جو اس میں کسی طرح بھی شریک کارنہ تھے اسی زمانے میں موضع کٹارپور (ہردوار) مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا۔ اگست ۱۹۲۸ئ؁ میں نہرو رپورٹ کو عام مسلمانوں خصوصاً علی برادران مولانا شوکت علی ومولانا محمدعلی جوہر اور ان کے ہم خیال سیاسی حضرات نے مسترد کردیا تھا کیونکہ اس رپورٹ میں مسلمانوں کا کوئی اہم مطالبہ منظور نہیں کیا گیا تھا اور نہایت چالاکی سے ٹال دیا گیا تھا چنانچہ نہرورپورٹ کی مخالفت میں سہارنپور شہر اور دوسرے قصبات میں متعدد جلسے منعقد ہوئے نہرورپورٹ کو سکھ لیگ پہلے ہی مسترد کرچکی تھی غیربرہمن اور اچھوت بھی اس کے مخالف تھے مسلمان رہبروں کی مؤثر تعداد کانگریس سے تعلق ہوگئی۔ اگست ۱۹۲۳ئ؁ میں انگلستان کے وزیراعظم مسٹر ریمسرنے میکڈانلڈ نے کمیونل ایوارڈ کے تحت کردیں اور علیحدہ علیحدہ طریقہ نیابت قائم کردیا انگریزی حکومت نے مذکورہ کمیونل ایوارڈ کے تحت ملک کی سب سے ہندوؤں سے اچھوتوں کی علیحدگی سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے نتائج کو دھیان میں رکھتے ہوئے مرن برت رکھا۔ پونہ پیکٹ کے ذریعہ اچھوتوں کے راضی ہو جانے پرانگریزی حکومت نے اس قانون نیابت میں ترمیم کرکے اچھوتوں کو بھی ہندومسلم کرلیا۔
۱۹۳۲ئ؁ کی ڈیڑھ سالہ خشک سالی کی وجہ سے سہارنپور کے عام کسانوں کی ساری فصلیں تباہ ہوگئی تھیں اور کسانوں میں تال گذاری اور آبپاشی جیسے ٹیکسوں کو ادا کرنے کی استطاعت نہیں تھی۔ گورنمنٹ برطانیہ نے کسانوں کی اس تباہ حالی کی طرف بالکل توجہ نہ دی اور مال گذاری کی جبریہ وصولی جاری رکھی چنانچہ مہاتماگاندھی نے عدم ادائیگی محصول تحریک شروع کی ضلع سہارنپور کی تحصیل نکوڑ میں اس تحریک کا انچارج چودھری منگت سنگھ ایڈوکیٹ اور تحصیل سہارنپور میں اس تحریک کی قیادت ٹھاکر پھول سنگھ کررہے تھے تحصیل نکوڑ کے موضع رندپور ساڈھولی اور ساپنلا بقال اور نڈھ۔ کھڑہ گوجر کے کاشتکاروں نے مال گذاری اور آبپاشی ٹیکس دینے سے انکار کردیا سرکاری افسران نے مسلح پولس سے ان کاشتکاروں کی منقولہ جائدادیں نیلام کرکے محصولات وصول کئے آس پاس کے عام لوگوں نے سرکار کا ساتھ نہیں دیا انگریزی حکومت کے علاقہ مجسٹریٹوں نے ٹوڈی بچوں (اپنے غلاموں اور حواریوں) کے ذریعہ ان منقولہ جائداد کو خریدوایا اس دوران کے کررہاہوں اس عدم ادائیگی محصولات کی تحریک کے پیش آجانے سے تحصیل نکوڑ کے حاکم علاقہ عبدالمجید خاں نے چودھری ظفر احمد بڈھا کھیڑہ (گاڑہ) کے توسل سے گاٹھیڑہ (گاڑہ) کے امیر احمد اور گھانہ کھنڈی کے محمد یامین وحبیب حسن کے ذریعہ مذکورہ کاشتکاروں کے بیل خریدوائے جس دن ان بیلوں کو خرید کے اپنے مواضعات میں لے گئے اسی دن رات کو بہت بڑی تعداد میں کریسی واکران کے دیہات میں پہنچ گئے اور جن مکانوں میں یہ بیل بندھے ہوئے تھے ان کے دروازوں پر لیٹ گئے ان گورنمنٹ پرستوں کے ملازموں نے بیلوں کو کانگریسی ورکروں کے اوپر سے گذار کرلے جانے سے انکار کردیا پہلے تو زمیندار خریداروں نے ڈانٹ اور دھمکی دیکر سیتہ گروہوں کو مرعوب کرنا چاہا مگریہ وطن پرست انگریز مخالف کب ڈانے والے تھے گاؤں کے دوسرے زمینداروں کے معافی مانگ لی اور آئندہ اپنے ہم وطن کے خلاف ایسی حرکت نہ کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے رسمی طور پر کچھ نقد جرمانہ بھی دیا ان کی اس کارروائی سے علاقہ کے بہت سے لوگوں میں وطن پرستی کا جذبہ پیدا ہوا راقم الحروف پہلے ہی سے جلوسوں میں شریک ہوتا تھا اس عرصہ میں وطن پرستوں کا ہم خیال تھا یہ زمانہ میری کمسنی اور طالب علمی کا تھا اور باپ کی بے شعوری اور اپنی کمسنی کی وجہ سے میں ان وطن پرستوں کی بروقت آزادانہ طورپر کوئی امداد نہیں کرسکا اپنی کوتاہی پر میں اپنے آخری سانس تک افسوس محسوس کرتا رہوںگا ان سیتہ گروہوں میں سے بابواجیت پرشاد جین ، ٹھاکر پھول سنگھ، چودھری منگت سنگھ اور مہنت جگن ناتھ شامل تھے اور ان سے متعارف ہونے کا یہ میرا پہلا موقع تھا۔ ۱۹۳۵ئ؁ میں حکومت برطانیہ نے ہندوستان کے حالات کا جائزہ لیکر قانون نیابت میں ترمیم کے ذریعہ پورے ملک میں ۱۹۳۷ئ؁ کے دوران چناؤ کرائے اس چناؤ کے نتیجہ میں ضلع سہارنپور سے بابواجیت پرشاد جین، چودھری منگت سنگھ ٹھاکر پھول سنگھ، بہاری لا (ہریجن) اورشیخ ضیاء الحق راجوپوری عبدالمجید انصاری منتخب ہوئے یہ چناؤ فرقہ وانہ حق نیابت کے اصول پر ہوا تھا پہلے تو ہندو اکثریت والے صوبوں میں کانگریس پارٹی نے حکومت بنانے سے انکار کردیا تھا مگر بعد میں مہاتماگاندھی کے مشورہ پر کانگریس نے اترپردیش میں پنڈت کو بند بلبھ پنت کی قیادت میں کانگریسی وزارت کا قیام عمل میں آیا۔ یکم ستمبر ۱۹۳۹ئ؁تیسری جنگ عظیم چھڑ گئی۔ کانگریس پارٹی نے برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا کہ غیر مشروط طریقہ سے ہندوستان کو آزاد کردیاجائے مگر برطانوی حکومت نے یہ مطالبہ مسترد کردیا کانگریس پارٹی کی ہائی کمان نے اپنے ممبران کو وزارتوں سے مستعفی ہو جانے کی ہدایت کی، آخرکار سب کانگریسی وزارتوں سے مستعفی ہوگئے ۱۹۴۲ئ؁ کے دن کانگریس پارٹی نے’’ ہندوستان چھوڑو‘‘ تحریک کے دوران کچھ لوگ تشدد پر آئے اور اس تشدد کے نتیجہ میں شاہدرہ سہارنپور لائٹ ریلوے اسٹیشن منانی کو آگ لگادی ایک جگہوں پر ٹیلی فون کے تاروں کو بھی کاٹ دیا گیا اور کئی ایک سرکاری عمارتوں کو آپ لگانے کی کوشش کی گئی اگرچہ مذکورہ نقصانات نہایت ہی معمولی قسم کے تھے مگر عوام میں پیدا ہوئے جوش نے سرکاری افسران کو بے چین بناکر رکھ دیا تھا۔ ۱۶؍مئی ۱۹۴۶ئ؁ کے دن برطانوی وزارتی مشن نے نئے نیابتی قانون اور اصلاحات کے ذریعہ تمام ہندوستان میں چناؤ کرائے ضلع سہارنپور سے اس چناؤ میں محمود علی خاں، اجیت سنگھ، ٹھاکر پھول سنگھ، گردھاری لا( ہریجن) مہنت جگن ناتھ داس، مولانا زاہدحسن، عبدالحمید انصاری اور منفعت علی ایڈوکیٹ منتخب ہوئے تھے اس زمانہ میں صوبہ اترپردیش میں پنڈت گو بند بلبھ پنت کی قیادت میں کانگریس وزارت قائم ہوئی اور مرکز میں پنڈت جواہر لال نہرو کی رہنمائی میں کانگریسی وزارت ختم ہوگئی تھی اگرچہ بعد میں مرکز کی وزارت میں مسلم لیگ بھی شامل ہوگئی تھی مگر دن بدن مسلم لیگ اور کانگریسی اور مقتدرلیڈروں میں رسہ کشی بڑھتی گئی مارچ ۱۹۴۷ئ؁ میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہندوستان کا وائسرائے ہوکر آیا اس وائسرائے نے مسلم لیگی اور کانگرسیوں میں پیدا ہوئی کشمکش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ ہندوستان کو پارہ پارہ اور ٹکڑے ٹکڑے کرکے دو آزاد مملکتوں کے قیام کا ۳؍جون ۱۹۴۷ئ؁ کو آل انڈیا پر اعلان کردیا مسلم لیگ کے صدر مسٹر محمدعلی جناح اور کانگریس کے مقتدر بااثر رہنما اور ہندوستان کی بھی حکومت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے بھی اس ناقص پلان کو قبول کرلیا اگر پنڈت جواہر لال نہرو اعلان کو قبول نہ کرنے اور کچھ عرصہ تک خواہش حکمرانی کو ٹال دیتے تو شاید بھارت ۱۶؍ مئی ۱۹۴۷ئ؁ کے وزارتی مشن کا مجوزہ جدید دستور ہی ملک کی سالمیت کا ضامن ہو جاتا مسٹر جناح اور پنڈت جواہر لال نہرو نے نہایت جلد بازی سے متحدہ بھارت کی بجائے تقسیم شدہ ملک کے سربراہ بن جانے کی خواہش برطانوی حکومت نے ۱۷؍اگست ۱۹۴۷ئ؁ کو ہندوستان کے دوٹکڑے کردئیے۔ آسام پنجاب اور بنگال بھی تقسیم ہوگئے اورمسٹر جناح کو کمزور اور بیمار پاکستان کی مملکت نصیب کے قیام کے نتیجہ میں پاکستان کا پہلے گورنر جنرل مسٹر جناح ہی مقرر ہوئے اور مملکت کی گورنر جنرل ماؤنٹ بٹن ہی بنارہا۔
وجہ سے ان نو آزاد دو ملکوں کے کئی لاکھ بے گناہ انسانوں کا قتل ہوا اس عالم میں سہارنپور اس لوگ سے کیسے محفوظ رہ سکتا تھا۔ ۱۹۹۳ئ؁ کے دوران انگریزی حکومت نے ہندوستان کو کونسلوں ڈسٹرکٹ بورڈ اور میونسپلٹیوں کا کھلونا عطاکیا تھا چنانچہ اس ہندوستان کے باشندے فرقہ وارانہ منحوس آگ کی لپٹ میں آگئے تھے اور پوری آزادی کے ساتھ دو متعدد فرقہ کے لوگوں نے ایک دوسرے کا خون بہانا شروع کردیا تھا دلوں اور دھرموں کو خلسانے والی آگ پورے ملک میں پھیل گئی تھی ایسا ہی ہندوستان اور پاکستان کی نوآزاد مملکتوں کے بن جانے اور فرقہ وانہ فساد کے پھوٹ پڑ جانے کی وجہ سے اقلیتوں کا اعتماد حکومت وقت پر سے اٹھ گیا تھا اس کے نتیجہ میں یہ تبادلہ آبادی کا ایک سیلاب ہندوستان سے پاکستان کو اور پاکستان سے ہندوستان کئی ماہ تک منتقل ہوتا رہا اسی دوران پاکستان سے غیر مسلموں کے سہارنپور آجانے اور ان کے بیان کردہ لٹنے اور قتل کے حادثات سن کر ان کے ہم مذہب اشتعال میں آگئے اور سہارنپو ر میں اکادکا قتل اور لوٹ مار کے واقعات شروع ہوگئے۔اس اشتعال کے نتیجہ میں کئی سو مسلمان قتل ہوگئے اور ہزاروں گھروں کو لوٹ کر جلادیا گیا اس ضلع میں اس فرقہ وارانہ آگ نے جوالاپور (ہردوار) اور اس کے آس پاس کے مسلمانوں کو ہرممکن طریقہ سے برباد کیا اس علاقہ میں دوتین ہزار مسلمان قتل ہوئے اور پورے جوالاپور قصبے کے مسلمانوں کے گھروں کو لوٹا گیا بوڑھے، بچوں اور عورتوں کو بھی نہ بخشا گیا سہارنپور شہر دوسرے قصبوں میں سرکاری طور پر مسلمانوں کے لئے پناہ گزیں کیمپ قائم کردئیے گئے اور خواہشمند مسلمانوں کو ٹرین کے ذریعہ پاکستان پہنچا دیا جاتارہا اس عرصہ میں راقم الحروف محلہ خان عالم پورہ میں ایک کرایہ کے مکان میں قیام پذیر تھا رات کے وقت مکان پر کسی رفیوجی نے ایک پٹاخہ مارا اس پٹاخہ کے پھٹ جانے کی آواز سے پورے محلہ کے مسلمانوں میں گھبراہٹ اور بے چینی پھیل گئی میں بھی پاکستان جانے کے پختہ ارادے سے ریلوے اسٹیشن پر پہنچا کسی وجہ سے وہ پاکستان نہ جاسکی اور ہم لوگ گورنمنٹ کی قائم کردہ مسلم پناہ گاہ (مسلم کیمپ) میں چلے گئے یہ اس جگہ قائم کی گئی تھی جس جگہ پر آج گورنمنٹ روڈویز کی ورکشاپ ہے۔ پاکستان جانے کیلئے دن متواتر رہنا پڑا تھا۔ ۱۹؍ستمبر ۱۹۴۷ئ؁ کے دن بابواجیت پرشاد جین کو والد صاحب (بڈھاکھیڑہ) کی زبانی مرے پاکستان جانے کے ارادہ کا علم ہوا جین صاحب فوراً ہی کار سے آئے اور مری بیوی دونوں بچوں کو کار میں بٹھا کر اپنے مکان میں لے آئے میں اس وقت گھنٹہ دوائی لینے گیا تھا کیمپ میں واپس جانے پر پہریدار فوجی سپاہی نے مجھ کو بتلایا کہ ایک تمہاری بیوی بچوں کو کارپر بٹھا کر اپنی کوٹھی پر لے گئے ہیں چنانچہ میں انبالہ روڈ پر واقع مکان پر گیا، اور وہاں اپنی بیوی اور بچوں کو پایا جین صاحب کی ہدایت اور نصیحت کو خیر باد کہہ دیا اور آج میں مرحوم جین صاحب کا ممنون ہوں​
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
لگتاہے کتاب اچانک ختم ہوگئی ہے؟غورفرمائیں ایساتونہیں کہ کچھ اقساط متروک ہوگئی ہوں؟اگرایساہواتوغیرمقلدین بہت گالیاں دیں گے۔
 
Top