ستاروں کی تاثیرشریعت کی نظر میں
مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ
قدیم عرب ،تمام موسمی تغیر ات ،بارش ،آندھی ،طوفان ،گرمی ،سردی ،وغیرہ وغیرہ ان سب کو’’انوا۱؎ء ‘‘ طرف منسوب کرتے تھے ،علما ء اسلام نے اس نسبت کو جو کفارکے یہاں مروج تھی موجب کفر قرار دیا ہے ،انکی حجت ہے ،کہ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ،اس صبح میں جب کہ ایک موقعہ پر بارش ہوئی فرمایا تھا کہ خدا فرماتا ہے ۔
اصبح من عبادی مومن بی کافر بالکواکب وکافر بی مومن بالکواکب فاما من قال مطرنا بفضل اللہ ورحمتہ فذالک مومن بی کافر بالکواکب وامامن قال مطرنا بنوع کذا وکذا فذلک کافربی ومومن بالکواکب
میرے بعض بندے مجھ پر ایمان لائے اور تاروں کے منکر ہوئے،اور بعض تاروں پر ایمان لائے میرے منکر ہوئے تو جس نے یہ کہا کہ اللہ کے فضل ورحمت سے بارش ہوئی،تو وہ مجھ پر ایمان لایا اور تاروں کا منکر ہوا،اور جس نے کہا کہ فلاں نچھتر نے آج خوب پانی برسایا وہ میرا منکر ہوا،اور تاروں پر ایمان لایا۔
مگر غور کرنے کے بعد یہاں چند صورتیں نکلتی ہیں ۔
(۱)یوں سمجھنا کہ بارش وغیرہ میں موثر بالذات نچھتر وغیرہ ہیں
(۲)یہ موثر تو نہیں ہے بلکہ خدا وند تعالیٰ کی عادت جاریہ ہے کہ پانی ایسے وقت برساتا ہے کہ جب انکازمانہ آجائے ،جس طرح اشاعرہ کہتے ہیں ،کہ جلاتا توخدا وند تعالیٰ ہی ہے ،لیکن عادت الہیہ یوں ہی جاری ہوئی ہے،کہ آگ جب کسی چیز سے ملتی ہے تو وہ حرقتپیدا فرماتا ہے ۔
(۳)یہ کہ باری عزاسمہ نے ان کو اکب ونجوم میں ،تاثیرات وخواص ودیعت فرمادئیے ہیںپھر جب خدا وند تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ اپنا اثر دکھائے تواثر ظاہر ہوتا ہے ،اور جب چاہتا ہے کہ وہ اپنے اثر کومعطل کردیں تواسی وقت بیکار ہوجاتے ہیں۔
تو ظاہر ہے کہ پہلے عقیدہ کا شخص یقینا مشرک ہے،کہ اس نے عرصہ وجود میں ،ایک ایسی ہستی کا اعتراف کیا ،جسکی نظام کائنات پر استقلالی حکومت ہے،وای شرک اشنع من ھذا اور ثانی صورت میں بجنسہ یہی عقیدہ تمام اشاعرہ کا ہر سلسلہ علت ومعلول میں ہے ،کوئی وجہ نہیں کہ اس عقیدہ کی وجہ سے کوئی شخص کافر ہو۔
اور برتقدیر سوال ثالث ،کہنا پڑتا ہے،کہ اسکا قائل بھی یقینا ،اپنی توحید کو محفوظ رکھتا ہے ،خصوصا جبکہ سلف کی ایک جماعت ہر سبب ومسبب میں یہی عقیدہ رکھتی ہے،پھر اگر علویات کی طرف نفس نسبۃ کرنا کفر کے مرادف ہیتوکیوں ،فضلاء کی وہ بڑی جماعت جوعالم تکوین میں اس عقیدہ کو حرزجان بنائے ہوئے ہے ،ابتک فتوی کفر سے بچی ہوئی ہے صوفیہ کا ایک بہت بڑا گروہ ہے،جو تمام کائنات سافلہ کو اجرام علویہ کی تاثیر ات کا نتیجہ مانتی ہے اور اسی وجہ سے ان کو ’’علوی باپ،،ان تمام چیزوں کا قرار دیتے ہیں شیخ اکبر قدس سرہ ارقام فرماتے ہیں ۔
بان للکواکب السیارات وغیرھا تاثیرافی ہذا العالم الاان الوقوف علی تعین جزئیاتہ ممالایطلع علیہ الاارباب الکشف والارصاد القلبیۃ
تارے ،اور سیاروں وغیرہ کو اس عالم میں باعتبار تاثیر کے دخل ہے لیکن ان کے تمام جز کی تفصیلات پر صرف وہی مطلع ہوسکتے ہیں جو کشف والے ہیں اور دل کی رصد گاہوں میں بیٹھ کر مطالعۂ عالم کرتے ہیں
گر چہ یہ سمجھنا بھی صریح غلطی ہے ،کہ حضرت شیخ قدس سرہ ان چیزوں کو موثر بالذات اور فاعل باختیار مانتے ہیں بلکہ مقصد یہی ہے ،کہ یاتو وہ سر ے سے موثر ہی نہیں ،البتہ بعض اثر ان کے وجود کے مقارن ہوکر خداوندتعالی ٰ سے صادر ہوتے ہیں ،یا ان میں خداوند تعالی ہی نے تاثیر رکھی ہے ،اور وہ اس کے حسب فرمان اپنا عمل ظاہر کرتے ہیں ۔
کیونکہ علماء اسلام ،صوفیاء ملت بعض حکماء ،فلاسفہ ،جنھیں شریعت سے کوئی علاقہ نہیں ،کے خیالات بھی اس باب میں یہی ہیں کہ موثربالذات علاوہ خدا وند تعالی ٰ اور کوئی چیز نہیں ۔ابن سینا کا مشہور تلمیذ بھمنیار تحصیل میں لکھتے ہیں ۔
فان سئلت الحق فلا یصح ان یکون علۃ لوجود الا ماھو بری من کل وجہ من معنی ما بالقوۃ وھذا ہو المبدء الاول لاغیر ۔
اگر اچھی بات پوچھے ہو، تو علت اور سبب بننے کی صلاحیت صرف ایسی چیز میں ہوسکتی ہے جو ذات وصفات کے اعتبارسے مکمل ہو اوروہ خدا وند تعالیٰ کے علاوہ اور کس میں ہے ،ورنہ جس میں کسی جہت سے عدم اور نقص کا شائبہ آیا وہ موثر بننے کی صلاحیت بالکل نہیں رکھتی ۔
اشراقیوں کا استاد اول افلاطن الالٰہی کا مشہور جملہ اسی کی تائید اپنے اندر رکھتا ہے ،مشہور ہے کہ و ہ کہا کرتا تھا ۔
’’دنیا ایک گیند ہے ،زمین اسکا مرکز ہے ،انسان نشانہ ہے آسمان کمان ہیں روز مرہ کے حوادث اس کے تیرہیں ،اور تیر انداز خدا ہے ،پھر بتائو کہ کدھرجائیں گریز کس طرف ہے،،
البتہ ،وہ استعداد،اور مسئلہ جبر واضطرار کیوجہ سے ضرور گمراہ ہوئے ،کہ ان کا خیال ہے ،کہ جب مادہ میں استعداد کامل ہوگئی ۔اور تمام شرائط مجتمع ہوگئے ،تو خدامجبور ہوجاتا ہے کہ حوادث کوپیدا کرے ،اب اس کے وجود ،کو وہ روک نہیں سکتا الغرض ان کے کلام دو حصوں میں منقسم ہوجاتے ہیں ۔
اس قدر بالکل صحیح ہے کہ تمام حوادث ،وکائنات خداہی کے جودوکرم سے حدوث پزیر ہوتے ہیں
جہت فاعلیہ کی اسی طرف راجع ہوتی ہے ،اور یہ بالکل غلط ہے کہ خداوند تعالیٰ ان کے خلق پر مجبور ہے ،یہ بیہودہ ہنریان ہے کہ خدا کو عالم کا فاعل بالاضطرار مانا جائے ۔
بہر کیف کچھ ہی ہو،اس قدر ضرور ہے کہ حکماء بھی اتنا تو ضروری سمجھتے ہیں کہ تاثیر خاصہ ذات الٰہی ہے ،پھر کس قدر تعجب ہے ان لوگوں بر جو شیخ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ پرہنستے ہیں ۔جبکہ وہ جلانے کو بجائے آگ کی طرف منسوب کرنے کے ،خداکی جانب منسوب کرتے ہیں۔
اس لئے کہ جلانا تاثیر ہے ،اور موثر اس سلسلہ موجودات میں خدا کے علاوہ اور کوئی نہیں ۔پھر آگ کی طرف وہ کیوں کر منسوب ہوسکتی ہے ،اور کواکب ونجوم کی تاثیر ات کو اگر اسی طرح مانا جائے کہ وہ مستقل بالذات نہیں تو کفر کے کوئی معنی نہیں ،ہاں !یہ ایک دوسری بات ہے ،کہ آگ کی طرف حرقۃ کی نسبت تو اس لئے کی جاتی ہے کہ ہم اسے جلاتے ہوئے مشاہدہ کرتے ہیں ۔
اور سیارات وغیرہ کی تاثیر چونکہ محسوس نہیں ،اس لئے خواہ مخواہ اس کی طرف چیز وں کو منسوب کرنا خوش اعتقاد ی کے علاوہ اور کیا ہے ،اسی وجہ سے محققین اسلام ،اس نسبت مجازیہ سے لوگوں کو روکتے ہیں
نہ ہوکہ زمانہ کے بعد ،بوجہ ان کے غیر محسوس ہونے ،اور بہ نسبت زمین ،ہوا،پانی، کے بلند وبرتر ہونے کے ،وہ مستقل خالق وموثر تسلیم کرلئے جائیں ۔
اس بناء پر یہ حکم سد ذرائع و دفع مفاسدکی حکمت پر مبنی ہوگا
وھذا غیرنا درفی الاسلام
مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ
قدیم عرب ،تمام موسمی تغیر ات ،بارش ،آندھی ،طوفان ،گرمی ،سردی ،وغیرہ وغیرہ ان سب کو’’انوا۱؎ء ‘‘ طرف منسوب کرتے تھے ،علما ء اسلام نے اس نسبت کو جو کفارکے یہاں مروج تھی موجب کفر قرار دیا ہے ،انکی حجت ہے ،کہ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ،اس صبح میں جب کہ ایک موقعہ پر بارش ہوئی فرمایا تھا کہ خدا فرماتا ہے ۔
اصبح من عبادی مومن بی کافر بالکواکب وکافر بی مومن بالکواکب فاما من قال مطرنا بفضل اللہ ورحمتہ فذالک مومن بی کافر بالکواکب وامامن قال مطرنا بنوع کذا وکذا فذلک کافربی ومومن بالکواکب
میرے بعض بندے مجھ پر ایمان لائے اور تاروں کے منکر ہوئے،اور بعض تاروں پر ایمان لائے میرے منکر ہوئے تو جس نے یہ کہا کہ اللہ کے فضل ورحمت سے بارش ہوئی،تو وہ مجھ پر ایمان لایا اور تاروں کا منکر ہوا،اور جس نے کہا کہ فلاں نچھتر نے آج خوب پانی برسایا وہ میرا منکر ہوا،اور تاروں پر ایمان لایا۔
مگر غور کرنے کے بعد یہاں چند صورتیں نکلتی ہیں ۔
(۱)یوں سمجھنا کہ بارش وغیرہ میں موثر بالذات نچھتر وغیرہ ہیں
(۲)یہ موثر تو نہیں ہے بلکہ خدا وند تعالیٰ کی عادت جاریہ ہے کہ پانی ایسے وقت برساتا ہے کہ جب انکازمانہ آجائے ،جس طرح اشاعرہ کہتے ہیں ،کہ جلاتا توخدا وند تعالیٰ ہی ہے ،لیکن عادت الہیہ یوں ہی جاری ہوئی ہے،کہ آگ جب کسی چیز سے ملتی ہے تو وہ حرقتپیدا فرماتا ہے ۔
(۳)یہ کہ باری عزاسمہ نے ان کو اکب ونجوم میں ،تاثیرات وخواص ودیعت فرمادئیے ہیںپھر جب خدا وند تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ اپنا اثر دکھائے تواثر ظاہر ہوتا ہے ،اور جب چاہتا ہے کہ وہ اپنے اثر کومعطل کردیں تواسی وقت بیکار ہوجاتے ہیں۔
تو ظاہر ہے کہ پہلے عقیدہ کا شخص یقینا مشرک ہے،کہ اس نے عرصہ وجود میں ،ایک ایسی ہستی کا اعتراف کیا ،جسکی نظام کائنات پر استقلالی حکومت ہے،وای شرک اشنع من ھذا اور ثانی صورت میں بجنسہ یہی عقیدہ تمام اشاعرہ کا ہر سلسلہ علت ومعلول میں ہے ،کوئی وجہ نہیں کہ اس عقیدہ کی وجہ سے کوئی شخص کافر ہو۔
اور برتقدیر سوال ثالث ،کہنا پڑتا ہے،کہ اسکا قائل بھی یقینا ،اپنی توحید کو محفوظ رکھتا ہے ،خصوصا جبکہ سلف کی ایک جماعت ہر سبب ومسبب میں یہی عقیدہ رکھتی ہے،پھر اگر علویات کی طرف نفس نسبۃ کرنا کفر کے مرادف ہیتوکیوں ،فضلاء کی وہ بڑی جماعت جوعالم تکوین میں اس عقیدہ کو حرزجان بنائے ہوئے ہے ،ابتک فتوی کفر سے بچی ہوئی ہے صوفیہ کا ایک بہت بڑا گروہ ہے،جو تمام کائنات سافلہ کو اجرام علویہ کی تاثیر ات کا نتیجہ مانتی ہے اور اسی وجہ سے ان کو ’’علوی باپ،،ان تمام چیزوں کا قرار دیتے ہیں شیخ اکبر قدس سرہ ارقام فرماتے ہیں ۔
بان للکواکب السیارات وغیرھا تاثیرافی ہذا العالم الاان الوقوف علی تعین جزئیاتہ ممالایطلع علیہ الاارباب الکشف والارصاد القلبیۃ
تارے ،اور سیاروں وغیرہ کو اس عالم میں باعتبار تاثیر کے دخل ہے لیکن ان کے تمام جز کی تفصیلات پر صرف وہی مطلع ہوسکتے ہیں جو کشف والے ہیں اور دل کی رصد گاہوں میں بیٹھ کر مطالعۂ عالم کرتے ہیں
گر چہ یہ سمجھنا بھی صریح غلطی ہے ،کہ حضرت شیخ قدس سرہ ان چیزوں کو موثر بالذات اور فاعل باختیار مانتے ہیں بلکہ مقصد یہی ہے ،کہ یاتو وہ سر ے سے موثر ہی نہیں ،البتہ بعض اثر ان کے وجود کے مقارن ہوکر خداوندتعالی ٰ سے صادر ہوتے ہیں ،یا ان میں خداوند تعالی ہی نے تاثیر رکھی ہے ،اور وہ اس کے حسب فرمان اپنا عمل ظاہر کرتے ہیں ۔
کیونکہ علماء اسلام ،صوفیاء ملت بعض حکماء ،فلاسفہ ،جنھیں شریعت سے کوئی علاقہ نہیں ،کے خیالات بھی اس باب میں یہی ہیں کہ موثربالذات علاوہ خدا وند تعالی ٰ اور کوئی چیز نہیں ۔ابن سینا کا مشہور تلمیذ بھمنیار تحصیل میں لکھتے ہیں ۔
فان سئلت الحق فلا یصح ان یکون علۃ لوجود الا ماھو بری من کل وجہ من معنی ما بالقوۃ وھذا ہو المبدء الاول لاغیر ۔
اگر اچھی بات پوچھے ہو، تو علت اور سبب بننے کی صلاحیت صرف ایسی چیز میں ہوسکتی ہے جو ذات وصفات کے اعتبارسے مکمل ہو اوروہ خدا وند تعالیٰ کے علاوہ اور کس میں ہے ،ورنہ جس میں کسی جہت سے عدم اور نقص کا شائبہ آیا وہ موثر بننے کی صلاحیت بالکل نہیں رکھتی ۔
اشراقیوں کا استاد اول افلاطن الالٰہی کا مشہور جملہ اسی کی تائید اپنے اندر رکھتا ہے ،مشہور ہے کہ و ہ کہا کرتا تھا ۔
’’دنیا ایک گیند ہے ،زمین اسکا مرکز ہے ،انسان نشانہ ہے آسمان کمان ہیں روز مرہ کے حوادث اس کے تیرہیں ،اور تیر انداز خدا ہے ،پھر بتائو کہ کدھرجائیں گریز کس طرف ہے،،
البتہ ،وہ استعداد،اور مسئلہ جبر واضطرار کیوجہ سے ضرور گمراہ ہوئے ،کہ ان کا خیال ہے ،کہ جب مادہ میں استعداد کامل ہوگئی ۔اور تمام شرائط مجتمع ہوگئے ،تو خدامجبور ہوجاتا ہے کہ حوادث کوپیدا کرے ،اب اس کے وجود ،کو وہ روک نہیں سکتا الغرض ان کے کلام دو حصوں میں منقسم ہوجاتے ہیں ۔
اس قدر بالکل صحیح ہے کہ تمام حوادث ،وکائنات خداہی کے جودوکرم سے حدوث پزیر ہوتے ہیں
جہت فاعلیہ کی اسی طرف راجع ہوتی ہے ،اور یہ بالکل غلط ہے کہ خداوند تعالیٰ ان کے خلق پر مجبور ہے ،یہ بیہودہ ہنریان ہے کہ خدا کو عالم کا فاعل بالاضطرار مانا جائے ۔
بہر کیف کچھ ہی ہو،اس قدر ضرور ہے کہ حکماء بھی اتنا تو ضروری سمجھتے ہیں کہ تاثیر خاصہ ذات الٰہی ہے ،پھر کس قدر تعجب ہے ان لوگوں بر جو شیخ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ پرہنستے ہیں ۔جبکہ وہ جلانے کو بجائے آگ کی طرف منسوب کرنے کے ،خداکی جانب منسوب کرتے ہیں۔
اس لئے کہ جلانا تاثیر ہے ،اور موثر اس سلسلہ موجودات میں خدا کے علاوہ اور کوئی نہیں ۔پھر آگ کی طرف وہ کیوں کر منسوب ہوسکتی ہے ،اور کواکب ونجوم کی تاثیر ات کو اگر اسی طرح مانا جائے کہ وہ مستقل بالذات نہیں تو کفر کے کوئی معنی نہیں ،ہاں !یہ ایک دوسری بات ہے ،کہ آگ کی طرف حرقۃ کی نسبت تو اس لئے کی جاتی ہے کہ ہم اسے جلاتے ہوئے مشاہدہ کرتے ہیں ۔
اور سیارات وغیرہ کی تاثیر چونکہ محسوس نہیں ،اس لئے خواہ مخواہ اس کی طرف چیز وں کو منسوب کرنا خوش اعتقاد ی کے علاوہ اور کیا ہے ،اسی وجہ سے محققین اسلام ،اس نسبت مجازیہ سے لوگوں کو روکتے ہیں
نہ ہوکہ زمانہ کے بعد ،بوجہ ان کے غیر محسوس ہونے ،اور بہ نسبت زمین ،ہوا،پانی، کے بلند وبرتر ہونے کے ،وہ مستقل خالق وموثر تسلیم کرلئے جائیں ۔
اس بناء پر یہ حکم سد ذرائع و دفع مفاسدکی حکمت پر مبنی ہوگا
وھذا غیرنا درفی الاسلام