’’حسد‘‘
حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں: ’’ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمارے ظاہری اعمال میں بعض چیزیں فرض وواجب قراردی ہیں، اور بعض چیزیں گناہ قراردی ہیں، اسی طریقے سے ہمارے باطنی اعمال میں بہت سے اعمال فرض ہیں، اور بہت سے اعمال گناہ اور حرام ہیں، ان سے بچنا اور اجتناب کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے، جتنا ظاہر کے کبیرہ گناہوں سے بچنا ضروری ہے۔
حسد کی لازمی خاصیت یہ ہے کہ یہ حسد انسان کو غیبت ، عیب جوئی ، چغل خوری اور بے شمار گناہوں پر آمادہ کرتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خود حسد کرنے والے کی نیکیاں اس کے نامۂ اعمال میں منتقل ہوجاتی ہیں، اس لیے کہ جب تم اس کی غیبت کروگے اور اس کے لیے بددعا کروگے ، تو تمہاری نیکیاں اس کے نامۂ اعمال میں چلی جائیں گی، جس کا مطلب یہ ہے کہ تم جتنا حسد کررہے ہو، اپنی نیکیوں کے پیکٹ تیار کرکے اس کے پاس بھیج رہے ہو، تو اس کا فائدہ ہورہا ہے، اب اگر ساری عمر حسد کرنے والا حسد کرے گا ، تو وہ اپنی ساری نیکیاں گنوادے گا، اور اس کے نامۂ اعمال میں ڈال دے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’إیاکم والحسد ، فإن الحسد یأکل الحسنات کما تأکل النار الحطب ، أوقال: العشب‘‘۔
ترجمہ:حسد سے بچو، اس لیے کہ یہ حسد انسان کی نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے ، جیسے آگ لکڑی کو یاسوکھی گھاس کو کھاجاتی ہے‘‘۔ (ابوداؤد)
راوی کو شک ہے کہ آپ نے ’’لکڑی‘‘ کا لفظ بیان فرمایا تھا یا ’’سوکھی گھاس‘‘ کا لفظ فرمایا تھا، یعنی جس طرح آگ سوکھی لکڑی کو یا سوکھی گھاس کو لگ جائے تو وہ اس کو بھسم کرڈالتی ہے، ختم کردیتی ہے، اس طرح اگر کسی شخص میں حسد کی بیماری ہو تو وہ اس کی نیکیوں کو کھاجاتی ہے۔
حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں: ’’ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمارے ظاہری اعمال میں بعض چیزیں فرض وواجب قراردی ہیں، اور بعض چیزیں گناہ قراردی ہیں، اسی طریقے سے ہمارے باطنی اعمال میں بہت سے اعمال فرض ہیں، اور بہت سے اعمال گناہ اور حرام ہیں، ان سے بچنا اور اجتناب کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے، جتنا ظاہر کے کبیرہ گناہوں سے بچنا ضروری ہے۔
حسد کی لازمی خاصیت یہ ہے کہ یہ حسد انسان کو غیبت ، عیب جوئی ، چغل خوری اور بے شمار گناہوں پر آمادہ کرتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خود حسد کرنے والے کی نیکیاں اس کے نامۂ اعمال میں منتقل ہوجاتی ہیں، اس لیے کہ جب تم اس کی غیبت کروگے اور اس کے لیے بددعا کروگے ، تو تمہاری نیکیاں اس کے نامۂ اعمال میں چلی جائیں گی، جس کا مطلب یہ ہے کہ تم جتنا حسد کررہے ہو، اپنی نیکیوں کے پیکٹ تیار کرکے اس کے پاس بھیج رہے ہو، تو اس کا فائدہ ہورہا ہے، اب اگر ساری عمر حسد کرنے والا حسد کرے گا ، تو وہ اپنی ساری نیکیاں گنوادے گا، اور اس کے نامۂ اعمال میں ڈال دے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’إیاکم والحسد ، فإن الحسد یأکل الحسنات کما تأکل النار الحطب ، أوقال: العشب‘‘۔
ترجمہ:حسد سے بچو، اس لیے کہ یہ حسد انسان کی نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے ، جیسے آگ لکڑی کو یاسوکھی گھاس کو کھاجاتی ہے‘‘۔ (ابوداؤد)
راوی کو شک ہے کہ آپ نے ’’لکڑی‘‘ کا لفظ بیان فرمایا تھا یا ’’سوکھی گھاس‘‘ کا لفظ فرمایا تھا، یعنی جس طرح آگ سوکھی لکڑی کو یا سوکھی گھاس کو لگ جائے تو وہ اس کو بھسم کرڈالتی ہے، ختم کردیتی ہے، اس طرح اگر کسی شخص میں حسد کی بیماری ہو تو وہ اس کی نیکیوں کو کھاجاتی ہے۔