’’حسد ‘‘کے اسباب
شیخ عبد اللہ بن حسین الموجان اپنی کتاب ’’تحاسد العلمائ‘‘ میں حسد کے اسباب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :
’’ جب بیماری کا پتہ چلتا ہے تو اس کا علاج آسان ہوتا ہے، جب سبب کا پتہ چلتا ہے تو تریاق سے اس کا مداوا ممکن ہوتا ہے، علماء کے باہم حسد کے کئ اسباب ہیں جن میں اہم یہ ہیں:
(۱) تنافُس الأقران :…… عم عصروں میں فخر ومسابقت ،
(۲) والہوی والغرض وحبّ الدنیا :… نفسانی خواہش، خود غرضی اور دنیا کی محبت،
(۳) والاختلاف المذہبي الفقہي:… مسلک ومشرب کا اختلاف،
(۴) والاختلاف في العقائد:…عقیدے کا اختلاف ۔ (تحاسد العلمائ)
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مد ظلہ فرماتے ہیں:
’’حسد کی بنیاد ہے حبِ دنیا اور حبِ جاہ، یعنی دنیا کی محبت اور جاہ کی محبت ، اس لیے حسد کا علاج یہ ہے کہ آدمی اپنے دل سے دنیا اور جاہ کی محبت نکالنے کی فکر کرے، اس لیے کہ تمام بیماریوں کی جڑ دنیا کی محبت ہے، اور اس دنیا کی محبت کو دل سے نکالنے کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی یہ سوچے کہ یہ دنیا کتنے دن کی ہے، کسی بھی وقت آنکھ بند ہوجائے گی، انسان کے لیے نجات کا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔
دنیا کی لذتیں ، دنیا کی نعمتیں، اس کی دولتیں ، اس کی شہرت ، اس کی عزت ، اور اس کی ناپائیداری پر انسان غور کرے، اور یہ سوچے کہ کسی بھی وقت آنکھ بند ہوجائے گی تو سارا قصہ ختم ہوجائے گا، اس کے بعد پھر انسان کے لیے نجات کا کوئی راستہ نہیں ہوگا‘‘۔ (اصلاحی خطبات)
شیخ عبد اللہ بن حسین الموجان ؒ فرماتے ہیں: ’’ جب لوگ کسی جگہ ، بازار، مدرسہ یا کسی مسجد کے پڑوس میں ایک ساتھ رہتے ہوں ، او رمختلف اغراض لیے ایک ساتھ کام کرتے ہوں تو پھر یہ لوگ آپس میں ضد، نفرت اور بغض کرنے لگتے ہیں کہ عالم، عالم کے ساتھ حسد کرتا ہے، نہ کہ عابد کے ساتھ، اور عابد ،عابد کے ساتھ حسد کرتا ہے ، نہ کہ عالم کے ساتھ، او رتاجر، تاجر کے ساتھ حسد کرتا ہے، بلکہ موچی ، موچی کے ساتھ حسد کرتا ہے، او رکپڑا فروش کے ساتھ حسد نہیں کرتا۔
(معلوم ہوا کہ) ان کے باہمی حسد کرنے کی وجہ ایک جیسے پیشہ اختیار کرنے کے سوا او رکوئی نہیں ہے، اسی لیے (ہر) آدمی دوسرے لوگوں کی بہ نسبت اپنے سگے بھائی اور چچازاد بھائی سے زیادہ حسد کرتا ہے، اور عورت اپنی ساس، نند اور جیٹھانی کے بہ نسبت اپنی سوکن سے زیادہ حسد کرتی ہے، موچی کے کپڑا فروش کے ساتھ حسد نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں کا کام اور رخ الگ الگ ہے ، تو یہ دونوں ایک دوسرے کے کام میں مداخلت کرکے نہیں لڑتے۔
جب کہ اس کے بر خلاف ایک صاحبِ دولت کپڑا فروش کے کام میں دوسرا کپڑا فروش مداخلت کرکے رکاوٹ ڈالتا ہے، اسی وجہ سے غیر تربیت یافتہ علماء بھی باہم حسد کرتے ہیں کہ عالم چاہتا ہے اس کا ایک علمی مقام ہو جس میں اس کے ساتھ کوئی بحث نہ کرسکے ، اس کے علاوہ کسی اور سے کوئی بات نقل نہ کی جائے ، اور نہ اس کے سوا کسی اور سے فتویٰ لیا جائے، لوگوں کا رجوع اسی کی طرف ہو، جب (یہ دیکھتا ہے کہ ) لوگ کسی اور عالم کے ساتھ بیٹھے ہیں ، اس طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اس سے فتویٰ لیتے ہیں ، تو یہ اس کے لیے جھگڑا اور حسد کا سبب بنتا ہے(کہ اس سے فتوے کیوں پوچھے جارہے ہیں) اور پھر یہیں سے علماء آپس میں حسد کرنے لگتے ہیں ‘‘۔ (تحاسد العلمائ)
شیخ عبد اللہ بن حسین الموجان اپنی کتاب ’’تحاسد العلمائ‘‘ میں حسد کے اسباب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :
’’ جب بیماری کا پتہ چلتا ہے تو اس کا علاج آسان ہوتا ہے، جب سبب کا پتہ چلتا ہے تو تریاق سے اس کا مداوا ممکن ہوتا ہے، علماء کے باہم حسد کے کئ اسباب ہیں جن میں اہم یہ ہیں:
(۱) تنافُس الأقران :…… عم عصروں میں فخر ومسابقت ،
(۲) والہوی والغرض وحبّ الدنیا :… نفسانی خواہش، خود غرضی اور دنیا کی محبت،
(۳) والاختلاف المذہبي الفقہي:… مسلک ومشرب کا اختلاف،
(۴) والاختلاف في العقائد:…عقیدے کا اختلاف ۔ (تحاسد العلمائ)
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مد ظلہ فرماتے ہیں:
’’حسد کی بنیاد ہے حبِ دنیا اور حبِ جاہ، یعنی دنیا کی محبت اور جاہ کی محبت ، اس لیے حسد کا علاج یہ ہے کہ آدمی اپنے دل سے دنیا اور جاہ کی محبت نکالنے کی فکر کرے، اس لیے کہ تمام بیماریوں کی جڑ دنیا کی محبت ہے، اور اس دنیا کی محبت کو دل سے نکالنے کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی یہ سوچے کہ یہ دنیا کتنے دن کی ہے، کسی بھی وقت آنکھ بند ہوجائے گی، انسان کے لیے نجات کا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔
دنیا کی لذتیں ، دنیا کی نعمتیں، اس کی دولتیں ، اس کی شہرت ، اس کی عزت ، اور اس کی ناپائیداری پر انسان غور کرے، اور یہ سوچے کہ کسی بھی وقت آنکھ بند ہوجائے گی تو سارا قصہ ختم ہوجائے گا، اس کے بعد پھر انسان کے لیے نجات کا کوئی راستہ نہیں ہوگا‘‘۔ (اصلاحی خطبات)
شیخ عبد اللہ بن حسین الموجان ؒ فرماتے ہیں: ’’ جب لوگ کسی جگہ ، بازار، مدرسہ یا کسی مسجد کے پڑوس میں ایک ساتھ رہتے ہوں ، او رمختلف اغراض لیے ایک ساتھ کام کرتے ہوں تو پھر یہ لوگ آپس میں ضد، نفرت اور بغض کرنے لگتے ہیں کہ عالم، عالم کے ساتھ حسد کرتا ہے، نہ کہ عابد کے ساتھ، اور عابد ،عابد کے ساتھ حسد کرتا ہے ، نہ کہ عالم کے ساتھ، او رتاجر، تاجر کے ساتھ حسد کرتا ہے، بلکہ موچی ، موچی کے ساتھ حسد کرتا ہے، او رکپڑا فروش کے ساتھ حسد نہیں کرتا۔
(معلوم ہوا کہ) ان کے باہمی حسد کرنے کی وجہ ایک جیسے پیشہ اختیار کرنے کے سوا او رکوئی نہیں ہے، اسی لیے (ہر) آدمی دوسرے لوگوں کی بہ نسبت اپنے سگے بھائی اور چچازاد بھائی سے زیادہ حسد کرتا ہے، اور عورت اپنی ساس، نند اور جیٹھانی کے بہ نسبت اپنی سوکن سے زیادہ حسد کرتی ہے، موچی کے کپڑا فروش کے ساتھ حسد نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں کا کام اور رخ الگ الگ ہے ، تو یہ دونوں ایک دوسرے کے کام میں مداخلت کرکے نہیں لڑتے۔
جب کہ اس کے بر خلاف ایک صاحبِ دولت کپڑا فروش کے کام میں دوسرا کپڑا فروش مداخلت کرکے رکاوٹ ڈالتا ہے، اسی وجہ سے غیر تربیت یافتہ علماء بھی باہم حسد کرتے ہیں کہ عالم چاہتا ہے اس کا ایک علمی مقام ہو جس میں اس کے ساتھ کوئی بحث نہ کرسکے ، اس کے علاوہ کسی اور سے کوئی بات نقل نہ کی جائے ، اور نہ اس کے سوا کسی اور سے فتویٰ لیا جائے، لوگوں کا رجوع اسی کی طرف ہو، جب (یہ دیکھتا ہے کہ ) لوگ کسی اور عالم کے ساتھ بیٹھے ہیں ، اس طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اس سے فتویٰ لیتے ہیں ، تو یہ اس کے لیے جھگڑا اور حسد کا سبب بنتا ہے(کہ اس سے فتوے کیوں پوچھے جارہے ہیں) اور پھر یہیں سے علماء آپس میں حسد کرنے لگتے ہیں ‘‘۔ (تحاسد العلمائ)