’’حسد‘‘ سے بچنے کا نسخہ:

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
’’حسد‘‘ سے بچنے کا نسخہ
اللہ تعالیٰ کی معرفت جس قدر بڑھتی جائے گی اسی قدر دل حسد، کینہ اور بغض سے پاک ہوگا ، چنانچہ شیخ عبد اللہ بن حسین الموجان ؒ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ کی عظمت اور آسمان وزمین اس کی شہنشاہیت میں غور وفکر ہی تمام لذتوں کا خلاصہ ہے، جب یہ بات دل میں بیٹھ جائے گی تو اس کی قدرت و جلال سے دل بھر جائے گا، تو دل میں حسد کے لیے جگہ نہیں بچے گی، اس کی وجہ یہ ہے کہ جس پر حسد کررہا ہے، وہ بھی تو اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہی ہے، یہ خیال دل میں آتے ہی بجائے اس کے کہ وہ اس بندۂ خدا سے حسد کرے، اس سے اور موانست پیدا ہوجائے گی‘‘۔
مزید برآں یہ کہ قدرتِ الٰہی میں غور وفکر میں جو ثمرہ ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے کہ بندہ بچشم خود جنت کے باغات اور اس کی نہروں کا مشاہدہ کرے، کیوں کہ عارف کی جنت ونعمت اللہ تعالیٰ کی معرفت کا حصول ہے(جب معرفت حاصل ہوجائے گی پھر اسے کسی چیز کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی، کیوں کہ معرفت ہمیشہ رہتی ہے)۔ وہ کبھی ختم نہیں ہوتی، اور وہ اپنے علم کی ترقی کے ساتھ اسے ترقی دیتا ہے، یہ ایک ایسا پھل ہے جس کے حصول میں کوئی رکاوٹ نہیں ، یہی وجہ ہے عارفین باہم حاسد نہیں ہوتے، بلکہ وہ تو ایسے ہوتے ہیں جیسے کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : {ونزعنا ما في صدورہم من غِلٍّ إخواناً علٰی سُرُر مّتقٰبلین}۔
ترجمہ:اور نکال دی ہم نے ان کے سینوں سے خفگی ، بھائی ہوگئے تختوں پر بیٹھے آمنے سامنے۔ (سورۃ الحجر:۴۷)
شیخ موجان صاحب آگے فرماتے ہیں : ’’ یہ تو ان کی دنیاوی زندگی کی حالت ہے ، پس کیا گمان کیا جائے گا ان پر آخرت میں کہ جب ان کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان حائل پردہ ہٹ جائے گا اور وہ لوگ اپنے محبوب کا دیدار کرلیں۔
اس وقت تو نہ یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ جنت میں لوگ ایک دوسرے سے کسی نئی بات پر حسد کریں گے، اورنہ یہ کہ جو دنیا میں ایک دوسرے سے حسد کرتے تھے ، تو وہ جنت میں آکر یہاں بھی حسد کریں گے، اس لیے کہ جنت میں نہ تو کوئی تنگ نظری اور کم ظرفی ہوگی اور نہ کوئی مزاحمت۔
اوریہاں تک تو وہی لوگ پہنچ سکتے ہین جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کی ہو اور دنیا میں ایک دوسرے سے مزاحمت نہ کی ہو، معلوم ہوا کہ جنت (علیین) میں جانے والے لوگ نہ تو دنیا میں باہم حسد کرتے ہیں اور نہ جنت میں حسد کریں گے، بلکہ حسد کرنا تو ’’علیین‘‘ (جنت) کی وسعت سے دور اور ’’سجّین‘‘ (دوزخ) کی تنگی کی طرف جانے والے لوگوں کی صفات میں سے ہے، اسی لیے تو شیطان مردود کو اس صفت سے متصف کیا گیا اور حسد کو اس کی صفات میں سے قراردے دیا گیا۔
چنانچہ اس نے حضرت آدم علیہ السلام سے حسد کیا ، اس مرتبہ کے دیئے جانے پر جو آدم علیہ السلام کے ساتھ خاص کیا گیا(یعنی زمین میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ بننا) جب شیطان سے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا کہا گیا تو اس نے تکبر و انکار کیا او رسرکش ونافرمان ہوا‘‘۔
خلاصۂ کلام یہ ہوا کہ حسد اس مقصود کے حاصل کرنے میں کیا جاتا ہے جو سب لوگوں کو نہ دیا گیا ہو(بلکہ بعض کو دیا گیا ہو) یہی وجہ ہے کہ آپ نے لوگوں کو آسمان کی خوب صورتی کی طرف نظر دوڑانے میں باہم حسد کرتے ہوئے نہں دیکھا ہوگا(اس لیے کہ آسمان کی خوبصورتی سب کے لیے ہے) ۔ (تحاسد العلمائ)
 
Top