علمااورحسد

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
علماء کرام کسی بھی عالم اور مسلک کی تحقیر نہ فرمائیں :
علماء کرام کو چاہیے کہ کسی بھی عالم اور مسلک کی تحقیر نہ فرمائیں، کیوں کہ عالم اور مسلک کی تحقیر میں نفع کم اور نقصان بہت زیاہ ہے، اسی طرح اگر کسی اہل علم پراشکال ہو ، تو وہ اشکال بصورت سوال ہو، یا اگر کسی تحقیق طلب مسئلے میں اختلاف ہو تو بھی وہ اہل علم کے درمیان ہی رہے ۔
عوام کو ہرگز ہرگز اس کا علم نہ ہونے پائے کہ ہمارے عالم صاحب کو فلاں عالم سے اختلاف ہے ۔
علماء کرام اپنی مجالس میں عموماً اور عوام الناس کی مجالس میں خصوصاً علماء کی لغزشوں کے ذکر کرنے سے بہت ہی زیادہ اجتناب اور پرہیز کریں، کسی طرح زبان پر کوئی ایسا حرف نہ لائیں، جس سے سننے والے کو کسی عالم کے درجہ میں کمی کا شعور ہو، اور جب ایک عالم دوسرے عالم کی برائی، عیب جوئی یا غیبت کررہا ہے تو وہ اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مار رہا ہے، کیوں کہ یہ بھی تو اسی لباس میں ملبوس ہے جس میں وہ ملبوس ہے اور پھر اس میں سب سے بڑی جو خرابی ہے وہ یہ ہے کہ عوام الناس کو علماء کی غیبت اور عیب جوئی کرنے کا موقع ملتا ہے ۔
اسی طرح ہر قسم کے تعصب سے چاہے وہ اقوال کے اعتبار سے ہو یا کہنے والوں کے اعتبار سے ہو بہت ہی زیادہ ڈر نا چاہیے اور بہت ہی احتیاط کرنی چاہیے، کیوں کہ تعصب آدمی کو اوپر سے نیچے گرادیا کرتا ہے، یعنی پھر آدمی دین کی مدد، یا اعلاء کلمۃ اللہ کی فکر کرنے کے بجائے مناظر ہ ومباحثہ سے اپنی بات کو اونچا کررہا ہو تا ہے یا جس امام اور بزرگ کی بات وہ صحیح سمجھتا ہے بس اسی کو حرف آخر سمجھ کر دوسروں کو ذلیل کرتا ہے، اس طرح دوسروں کو غیبتیں اور جذبۂ انتقام اس کو کبیرہ گناہوں میں مبتلاء کردیتا ہے، اخلاص (اصلاحِ خلق)اور رضاء الٰہی کا جذبہ ختم ہو کر اس کی جگہ اس میں نفس پرستی آجاتی ہے، اوراپنی بات چاہے کتنی ہی غلط کیوں نہ ہو اس کو درست کرنے کی فکر میں اس کے علم کا اصل نور بھی زائل ہوجاتا ہے اور حقد وکینہ کا دروازہ کھل جاتا اور آخر میں دو فریقوں میں ایسا جھگڑا کرادیتا ہے جو دین ودنیا دونوں کی تباہی کا سبب بنتا ہے ۔
اسی طرح کسی بھی عالم کا عیب عوام کے مجمع میں ذکر نہ کیا جائے، اگر آپ اس عالم میں کوئی کمی پاتے ہیں تو اس کو تنہائی میں بتائیں، اگر بالمشافہ بات کرنے میں کسی قسم کی عار ہو تو تحریراً ان کو مطلع فرمادیں کہ بندہ کی رائے یہ ہے کہ آں جناب اس میں غور فرمالیں۔
ہاں عوام کے سامنے آپ اپنی رائے لانا چاہتے ہیں یا آپ کو خطرہ ہے کہ یہ دین کا ایسا بنیادی اور اہم مسئلہ ہے جس میں اگر لوگوں نے ان کی اتباع کرلی تو ان کے دین کے لیے خطرہ ہے اور آپ اس مقام پر ہیں کہ لوگ آپ کی بات مانتے ہیں تو آپ رد بھی کرنا چاہیں تو اپنے اہل علم ساتھیوں سے مشورہ کرلیں کہ بندہ نے یوں رد لکھنے کا ارادہ کیا ہے یا بیان میں کہنے کا ارادہ ہے ۔
مثال کے طور پر کچھ واقعات نقل کیے جاتے ہیں ان علماء کرام وائمہ عظام رحمہم اللہ تعالی کے جنہوں نے علماء کے آپس کے اختلافات کو اہل علم کے درمیان ہی محدود رکھا، اور اگر اہل علم کو ادب، محبت کی زبان سے خطاب فرماکر اپنی رائے ان پر واضح فرمادی اور پھر بھی مخاطب نے رجوع نہ کیا اور مسئلہ مستحب وغیر مستحب کا بھی نہیں تھا بلکہ اصول وعقائد یا حلال وحرام کا تھا تو بھی اپنی رائے عوام پر واضح فرمادی ۔
شیخ عبد اللہ بن حسین الموجان کتاب ’’ تحاسد العلماء ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ جن لوگوں نے اہل علم کی تحقیر کی ، اور عوام کے درمیان اپنے اختلافات کو کھل کر سامنے لائے اور جس کا منشاء حقد وحسد، وتعصب مع البغض تھا یہ حقیقت میں علماء نہیں تھے جس طرح بعض اہل علم پر بعض لوگوں نے برے القابات سے رد لکھا ہے ‘‘ چناں چہ شیخ نے اس کی افسوس ناک تفصیل لکھ کر فرمایا : ’’ اگر یہ حضرات علماء کے منہج پر کام کرتے تو جن اہل علم سے ان کو اختلاف تھا ان کو اپنا موقف بتانے کے بعد اس پر دلائل پیش کرتے، ان کے نظریے کے خلاف دلائل سے سمجھاتے، اور نرم ومیٹھی زبان استعمال فرماتے تو وہ ضرور سوچنے پر مجبور ہوجاتے، جیسے کہ حجاز مقدس اور بلاد عربیہ کے عالم اورمفتی مملکت نے کیسے پیارے اور میٹھے انداز سے اپنے نظریہ کے مخالف شیخ البانی پر رد لکھا ہے ، فرمایا :
’’ أخونا العلامۃ الألبانی أخطأ فی ہذہ المسألۃ بدلیل کذا وکذا ‘‘
ترجمہ: ’’ ہمارے بھائی علامہ البانی سے اس مسئلہ میں فلاں فلاں دلیل کی وجہ سے غلطی واقع ہوگئی ‘‘ ۔
ایک اور جگہ فرماتے ہیں: ’’ لعل أخانا الشیخ الألبانی أن یراجع المسألۃ ‘‘ ۔
ترجمہ: ہمارے بھائی شیخ البانی سے درخواست ہے کہ وہ اس مسئلہ پر دو بارہ نظر فرمالیں (تو مہر بانی ہوگی ) ۔
ائمہ کرام کی جماعت کو اس واقعہ سے سبق لینا چاہیے کہ اہل علم کو اگر مجبوراً کسی اہل علم پر رد کرنا ہو تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہرگز ہرگز عوام کے سامنے نہ ہو، اور آپس میں بھی جب اکٹھے ہوں تو حسد وکبر اور تعصب اور بغض کے جراثیم اس میں شامل نہ ہں، ورنہ نیکی برباد گناہ لازم کا مصداق ہوجائے گا۔
اکابرِ علماء کرام جن سے اللہ تعالی نے کام لیا ان کی تاریخ اٹھاکر دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ وہ حضرات اپنے مخالف کی بھی تحقیر نہیں فرماتے تھے، تحقیر وتصغیر تو بہت دور کی بات ہے ، ان کا ادب واحترام، اکرام واعزاز کے الفاظ سے ان کو یاد فرماتے تھے ۔
شیخ عبد الوہاب نجدی رحمہ اللہ تعالی کی شروع میں بعض رسمی اہل علم نے بہت زیادہ مخالفت کی، لیکن شیخ ہمیشہ ان کے ساتھ نرمی ومہربانی ، خیر خواہی سے پیش آتے رہے ۔
عبد اللہ بن محمد بن عبد اللطیف نے جو ’’ احسائ‘‘ کے علماء میں سے تھے شیخ عبد الوہاب نجدی رحمہ اللہ تعالی کے خلاف ایک رسالہ لکھا تھا جس کا نام تھا ’’سیف الجہاد لمدعی الاجتہاد‘‘ لیکن شیخ نے اس کا جواب کس قدر نرمی سے دیا ،فرماتے ہیں:
فإن أحبک وقد دعوت لک فی صلاتی، وأتمنی من قبل ہذہ المکاتیب أن یہدیک اللہ لدینہ القیم، وما أحسنک لو تکون فی آخر ہذا الزمان فاروقاً لدین اللّٰہ۔
ترجمہ: میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں اور آپ کے لیے نمازوں کے بعد دعا کرتا ہوں، اور میری تمنا ہے کہ آپ غور سے میری دعوت کا مطالعہ فرمائیں تاکہ اللہ تعالی آپ کی سیدھے راستہ کی طرف رہنمائی فرمائے ، کتنا ہی اچھا ہوتا کہ آپ اس زمانے کے فاروق بن جائیں اللہ تعالی کے دین کے لیے آپ کے ذریعہ صحیح دین جو بدعت وشرک سے پاک ہو امت تک پہنچ جائے ۔ (تحفۃ الائمۃ: ص ۱۴۱؍۱۴۵)
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
ماشآء اللہ۔ حسبِ حال عمدہ مضمون پیش کرنے پر جزاک اللہ خیرا۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق نصیب فرمائے
چھوٹے شہروں اور بستیوں میں ایسے واقعات بے شمار دیکھنےمیں آ رہے ہیں کہ جو باتیں عوام سے کہنی چاہیے ایک خطیب کو، وہ آٹے میں نمک کے برابر اور جن باتوں کی وجہ سے جھگڑے، فسادات اور حقارت و عدم اتفاقی پیدا ہوتی ہے اُن باتوں کو جوشیلے انداز میں زیادہ بیان کر دیا جاتا ہے اور تقریر کا سارا زور اُسی پر صرف ہوتا ہے۔افسوس! ہم نفع کم اور نقصان زیادہ کا سودا دِل و جان سے قبول کر لیتے ہیں۔ عوامی سطح پر جو تعصبات و فسادات ہو رہے ہیں ، ایک سبب بڑا یہ بھی ہے۔ اکابرین کی طرف سے کئی مرتبہ ہدایات آتی ہیں کہ عوامی سطح پر ایسی باتوں کو مت بیان کیجیے، مگر کیا کریں خطیب حضرات کو اپنی تقریر ایسی باتوں کے بغیر بے جان معلوم ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔
 
Top