میثاق (اللہ کے بندوںسے اپنی ربوبیت کااقرار)حق ہے
وَاِذْاَخَذَرَبُّکَ مِنْ بَّنِی آدَمَ مِنْ ظُھُوْرِھِمْ ذُرِّیَتَھُمْ وَاَشْھَدَھُمْ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی شَھِدْنَا اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنْ ھٰذَا غَافِلِیْنَ اَوْ تَقُوْلُوْا اِنَّمَا اَشْرَکَ آبَائُ نَا مِنْ قَبْلُ وَکُنَّا ذُرِّیَۃً مِِّنْ بَعْدِھِمْ اَفَتُھْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُوْنَ۔(پارہ ۔۹رکوع ۔۱۲)
اور جب تمہارے پروردگارنے بنی آدم سے یعنی ان کی پیٹھوں سے ان کی اولاد نکالی تو ان سے خود ان کے مقابلے میں اقرارکرالیا یعنی ان سے پوچھاکیامیں تمہارا پروردگار نہیں ہوں وہ کہنے لگے کیوں نہیں ہم گواہ ہیں کہ تو ہمار اپروردگار ہے یہ اقر ار اس لئے کر ایاتھا کہ تم قیامت کے دن کہیں یوں نہ کہنے لگو کہ ہم کو اس کی خبر نہ تھی یایہ نہ کہو کہ شرک تو پہلے ہمارے بڑوں نے کیا تھا او ر ہم تو ان کی اولاد تھی جو ان کے بعد پیدا ہوئے تو کیا وہ کام جو اہل باطل کرتے رہے ہیں اس کے بدلہ تو ہمیں ہلاک کرتا ہے ۔
(ف۱؎)تفسیراحمدی میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت آدم علیہ السلام کی پیٹھ سے اس کی اولاد کو ظاہر کرکے آدم کو دکھلا یا جو چونٹیوں کی شکل میں تھی ان کو عقل دی اورفرمایا کہ اے آدم یہ تیری اولاد ہے پس ان سے اپنی عبادت اوررب ہونے کا اقرار لیتا ہوں سب کو اللہ نے ان کے اوپر گواہ بنایا اورپوچھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہو ں سب نے کہا کیوں نہیں ہم گوا ہ ہیں کہ تو ہی ہمارا رب اورپالنے والاہے یہ اقرا راللہ نے اس لئے لیا تاکہ مخلوق قیامت کے دن اس بات سے اپنی ناواقفیت کا عذر نہ کرنے لگے ۔
(ف۲؎)بعض علماء کی رائے ہے کہ یہ اقرار آدم علیہ السلام کے جنت میں جانے سے پہلے
لیا گیا مکہ اورطائف کے بیچ میں اوربعض نے کہا ہے کہ جنت سے زمین پر اترنے کے بعد لیا گیا اوربعض کی رائے ہے کہ جنت میں لیا گیا ،خلاصہ یہ کہ سب سے میثاق لیا گیا ۔
(ف۳؎)اس اقرار کے بعد جو شخص دنیا میں اس پر باقی رہا اورایمان لا یا وہ ثواب اورجنت کا مستحق ہو گا اورجو کا فر ہو ا اوردنیا میں اس کے خلاف کیا اس پر عذاب ہوگا اوروہ جہنمی ہوگا ۔
(ف۴؎)بعض نے کہا ہے کہ جب اللہ نے ’’الست بربکم ‘‘کہا اورمخلوق سے اقرار لیا تو چارصفیںتھیں،پہلی صف والوں نے زبان اوردل دونوں سے اقرار کیا یہ وہ لوگ تھے جن کی پیدا ئش اورموت سعادت پر ہوئی جیسے حضرت علی اورفاطمہ وغیرہ ۔دوسری صف میںفقط دل سے اقرارکیا وہ لوگ تھے جن کی فقط موت سعادت پر ہوئی جیسے حضرت ابوبکر وعمر وعثمان وغیرہ تیسری صف میں فقط زبان سے اقرار کیا یہ لوگ تھے جن کی پیدائش سعادت پر ہوئی اورموت شقاوت پر جیسے ابلیس اوربلعم باعو ر وغیرہ ۔چوتھی صف والوں نے کچھ اقرار نہیں کیا یہ وہ لوگ تھے جن کی پیدا ئش اورموت دونوں شقاوت پر ہوئیںجیسے فرعون وابوجہل وغیرہ ۔واللہ اعلم۔
(ف۱؎)تفسیراحمدی میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت آدم علیہ السلام کی پیٹھ سے اس کی اولاد کو ظاہر کرکے آدم کو دکھلا یا جو چونٹیوں کی شکل میں تھی ان کو عقل دی اورفرمایا کہ اے آدم یہ تیری اولاد ہے پس ان سے اپنی عبادت اوررب ہونے کا اقرار لیتا ہوں سب کو اللہ نے ان کے اوپر گواہ بنایا اورپوچھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہو ں سب نے کہا کیوں نہیں ہم گوا ہ ہیں کہ تو ہی ہمارا رب اورپالنے والاہے یہ اقرا راللہ نے اس لئے لیا تاکہ مخلوق قیامت کے دن اس بات سے اپنی ناواقفیت کا عذر نہ کرنے لگے ۔
(ف۲؎)بعض علماء کی رائے ہے کہ یہ اقرار آدم علیہ السلام کے جنت میں جانے سے پہلے
لیا گیا مکہ اورطائف کے بیچ میں اوربعض نے کہا ہے کہ جنت سے زمین پر اترنے کے بعد لیا گیا اوربعض کی رائے ہے کہ جنت میں لیا گیا ،خلاصہ یہ کہ سب سے میثاق لیا گیا ۔
(ف۳؎)اس اقرار کے بعد جو شخص دنیا میں اس پر باقی رہا اورایمان لا یا وہ ثواب اورجنت کا مستحق ہو گا اورجو کا فر ہو ا اوردنیا میں اس کے خلاف کیا اس پر عذاب ہوگا اوروہ جہنمی ہوگا ۔
(ف۴؎)بعض نے کہا ہے کہ جب اللہ نے ’’الست بربکم ‘‘کہا اورمخلوق سے اقرار لیا تو چارصفیںتھیں،پہلی صف والوں نے زبان اوردل دونوں سے اقرار کیا یہ وہ لوگ تھے جن کی پیدا ئش اورموت سعادت پر ہوئی جیسے حضرت علی اورفاطمہ وغیرہ ۔دوسری صف میںفقط دل سے اقرارکیا وہ لوگ تھے جن کی فقط موت سعادت پر ہوئی جیسے حضرت ابوبکر وعمر وعثمان وغیرہ تیسری صف میں فقط زبان سے اقرار کیا یہ لوگ تھے جن کی پیدائش سعادت پر ہوئی اورموت شقاوت پر جیسے ابلیس اوربلعم باعو ر وغیرہ ۔چوتھی صف والوں نے کچھ اقرار نہیں کیا یہ وہ لوگ تھے جن کی پیدا ئش اورموت دونوں شقاوت پر ہوئیںجیسے فرعون وابوجہل وغیرہ ۔واللہ اعلم۔
(حضرت مولاناعبدالخالق سہارنپوری کی کتاب قرآنی مسائل سے ماخوذ)