وحی کی شکلیں:
وَمَاکَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَحْیاً اَوْمِنْ وَّرَائِ حِجَابٍ اَوْیُرْسِلَ رَسُوْلاً فَیُوحِیَ بِاِذْنِہٖ مَا یَشَائُ۔اِنَّہٗ عَلِیٌّ حَکِیْمٌ ۔(پارہ ۔۲۵رکوع ۔۶)
اورکسی آدمی کے لئے ممکن نہیں کہ خدا اس سے بات کرے مگر الہام کے ذریعے سے یا پردہ کے پیچھے سے یا کوئی فرشتہ بھیج دے تو وہ خدا کے حکم سے جو خدا چاہے اِلقاکرے بے شک وہ عالی مرتبہ اورحکمت والا ہے ۔
(ف۱؎)روایت میں ہے کہ یہود حضرت محمد ﷺسے کہا کرتے تھے کہ اگر تم سچے نبی ہو توحضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح اللہ سے بلاواسطہ کلام کیوں نہیں کرتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ،امام زاہد نے نقل کیا ہے کہ یہو د کہتے تھے کہ اللہ ہم سے کیوں نہیں کہہ دیتا کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں اس پر یہ آیت ناز ل ہوئی کہ خدا ہر آدمی سے باتیں نہیں کرتا مگر اپنے خالص بندوں سے تین صورتوں کے ساتھ (۱)وحی کے ذریعہ اس سے مراد وہ بات ہے جو چپکے سے پیغمبر کو بتلادی جائے اورجلد سمجھ میں آجائے خواہ وہ روبروہو جیسے باری تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺسے شب معراج میں کلام فرمایا خواہ پردہ کے پیچھے سے ہو جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کوہ طورپرکلام فرمایا۔اس آیت میں پہلے معنیٰ مرادہیں یا وحی سے الہام مراد ہو جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلا م کوتھا (۲)یا یہ کہ پردہ کے پیچھے سے غیبی آواز ہو جیسے حضر ت محمد ﷺکے لئے شب معراج میں ہواکہ آپ کے اوراللہ کے درمیان سونے اورموتی کے جن کی مسافت ستر برس کی تھی (۳)بذریعہ حضرت جبرئیل علیہ السلام پیغام بھیجا جائے ۔
(ف؎۲)فخرالاسلام کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ وحی کی دوقسمیںہیں (۱)ظاہر (۲)باطن ۔وحی ظاہر وہ کہلاتی ہے جو فرشتہ کی زبان سے یا اس کے اشارہ سے یا الہام سے ثابت ہو اوروحی باطن وہ کہلاتی ہے جو اجتہاد سے حاصل ہو ،وحی کی تفصیل میں خواب (وحی منامی )اورہاتف (غیبی آواز)اورمشافہہ کا ذکر نہیں فرمایا گیا چونکہ خواب الہام میں داخل ہے اورہاتف اورمشافہہ اس دارودنیامیں نہیں ہوتا۔
(ف۱؎)روایت میں ہے کہ یہود حضرت محمد ﷺسے کہا کرتے تھے کہ اگر تم سچے نبی ہو توحضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح اللہ سے بلاواسطہ کلام کیوں نہیں کرتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ،امام زاہد نے نقل کیا ہے کہ یہو د کہتے تھے کہ اللہ ہم سے کیوں نہیں کہہ دیتا کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں اس پر یہ آیت ناز ل ہوئی کہ خدا ہر آدمی سے باتیں نہیں کرتا مگر اپنے خالص بندوں سے تین صورتوں کے ساتھ (۱)وحی کے ذریعہ اس سے مراد وہ بات ہے جو چپکے سے پیغمبر کو بتلادی جائے اورجلد سمجھ میں آجائے خواہ وہ روبروہو جیسے باری تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺسے شب معراج میں کلام فرمایا خواہ پردہ کے پیچھے سے ہو جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کوہ طورپرکلام فرمایا۔اس آیت میں پہلے معنیٰ مرادہیں یا وحی سے الہام مراد ہو جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلا م کوتھا (۲)یا یہ کہ پردہ کے پیچھے سے غیبی آواز ہو جیسے حضر ت محمد ﷺکے لئے شب معراج میں ہواکہ آپ کے اوراللہ کے درمیان سونے اورموتی کے جن کی مسافت ستر برس کی تھی (۳)بذریعہ حضرت جبرئیل علیہ السلام پیغام بھیجا جائے ۔
(ف؎۲)فخرالاسلام کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ وحی کی دوقسمیںہیں (۱)ظاہر (۲)باطن ۔وحی ظاہر وہ کہلاتی ہے جو فرشتہ کی زبان سے یا اس کے اشارہ سے یا الہام سے ثابت ہو اوروحی باطن وہ کہلاتی ہے جو اجتہاد سے حاصل ہو ،وحی کی تفصیل میں خواب (وحی منامی )اورہاتف (غیبی آواز)اورمشافہہ کا ذکر نہیں فرمایا گیا چونکہ خواب الہام میں داخل ہے اورہاتف اورمشافہہ اس دارودنیامیں نہیں ہوتا۔