حضرت اقدس سید نفیس شاہ الحسینی رحمتہ اللہ علیہ

اعجازالحسینی

وفقہ اللہ
رکن

کشادہ روشن جبین‘ شراب محبت سے مخمور فروزاں آنکھیں‘ نورانی بلند بینی مبارک‘ گھنی بھر پور ریش مبارک‘ وجیہ وشکیل‘ سرخ وسفید گلابی چہرہ‘ مسکرائیں تو دل موہ لیں‘ بات کریں تو پھول جھڑیں ”من راہ ہابہ ومن خالطہ احبہ“ کی سچی تصویر‘ ”اذا رأو ذکر اللہ“ کا اعلیٰ ترین نمونہ‘ میری مراد ان الفاظ سے ہمارے حضرت شیخ المشائخ حضرت اقدس سید نفیس الحسینی رحمہ اللہ ہیں۔ مولا پاک نے ظاہری طور پر جیسے آپ کو اجمل ،اکمل، احسن بنایا تھا‘ ایسے ہی باطنی طور پر کمالات واخلاق رفیعہ نبویہ کا حصہ وافر آپ کو عطا فرمایا تھا جو بلاشبہ سارا مشکوٰة نبوت کے نور سے ماخوذ ومستفاد تھا۔
آپ کے شب وروز‘ جلوت وخلوت‘ نشست وبرخاست‘ بلندی اخلاق وکردار‘ تقویٰ‘ تواضع وانکسار‘ صبر وتحمل قہر ومہر‘ فیاضی‘جود وسخا‘ مہمان نوازی‘ غرض یہ کہ آپ کا سب کچھ سنن وعادات نبویہ علی صاحبہا الصلاة والسلام کا عکس وپر تو تھا۔ آپ بلاشبہ دین کے جاری تمام شعبوں میں مقتدیٰ وپیشوا کی حیثیت رکھتے تھے اور سب کی سرپرستی فرماتے تھے ،لیکن آپ کا اپنا میدان عمل وہ دکان معرفت ومحبت تھی جس سے آپ ساری زندگی سودائے حق شناسی لٹاتے رہے‘ اپنی مجلس وتوجہ کی برکت سے سینکڑوں نہیں، ہزاروں کو سمجھایا بلکہ روشناس کرایا‘ ذائقہ چکھایا کہ علم ومطالعہ اور فکر ونظر کی جو لانیوں کے علاوہ بھی کچھ ایسے لذائذ وحقائق ہیں جن کا تعلق درون خانہٴ دل اور اندر کے جذبہ محبت وعشق سے ہے۔ الفاظ وگردان کی تعریف اور منبر ومحراب کے خطبہ وگونج سے ہٹ کر بھی کچھ ایسے علوم ومعارف ہیں جو ”از دل خیز د،بردل ریزد“ کا مصداق ہیں‘ جو انسانی قلعوں کو مسخر کرتے ہیں‘ فتح کرتے ہیں اور آپ  اس سلسلے میں اپنے وقت کے فاتح اعظم تھے۔ آپ کی مجلس ہمہ اوقات اللہ والوں کے تذکروں سے گرم رہا کرتی تھی‘ جن میں اکابرین علمائے دیوبند اور اہل بیت اطہار کا ذکر خیر غالب رہتا‘ اہل بیت سے لگاؤ اور تعلق والہانہ تھا‘ آپ ان کا تذکرہ بڑے جذباتی انداز میں فرمایا کرتے‘ آپ کو سیدنا حسین  اور سیدنا امام زید بن علی الشہید سے بے پناہ عقیدت ومودت تھی‘ بلکہ یوں کہنا مبالغہ سے خالی ہوگا کہ آپ کی ہرمجلس سیدنا حسنین بن علی ‘سیدنا زید بن علی الشہید‘ حضرت خواجہ گیسودراز‘ حضرت سید احمد شہید‘ حضرت رائے پوری کے تذکروں سے لبریز ہوا کرتی تھی۔حضرت حسین سے آپ کی محبت کا قدرے اندازہ آپ کے مندرجہ ذیل اشعار سے لگایاجاسکتا ہے:
دوشِ نبی کے شاہ سواروں کی بات کر
کون ومکان کے راج دلاروں کی بات کر
جن کے نفس نفس میں تھے قرآن کھلے ہوئے
ان کربلا کے سینہ فگاروں کی بات کر
شہدائے کربلا کو اپنے اشعار میں یوں یاد فرماتے ہیں:
لایا جو خون رنگ دگر کربلا کے بعد
اونچا ہوا حسین کا سر کربلا کے بعد
ٹوٹا یزیدیت کی شب تار کافسوں
آئی حسینیت کی سحر کربلا کے بعد
جوہر کاشعر صفحہ ہستی پر ثبت ہے
پڑھتے ہیں جس کو اہل نظر کربلا کے بعد
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہرکربلا کے بعد
حضرت جی ! اہل بیت کی عظمت ومحبوبیت کے لئے بہت زیادہ حساس تھے اور ان حضرات میں خاطر خواہ تعلق گوارہ نہیں تھا جو حب ِ صحابہ کے خوبصورت عنوان کا سہارا لے کر اہل بیت اطہار پر طعن وتشنیع کے نشتر چلانے سے دریغ نہیں کرتے‘ چنانچہ آپ بڑے درد اور دکھی دل کے ساتھ فرمایا کرتے تھے کہ:
”کیا یہ لوگ اسی لئے پید ا ہوئے ہیں کہ حضور اکو تکلیف پہنچائیں“۔
آپ نے ایک کتاب ”ریحان عزت“ تصنیف کرکے شائع فرمائی جس میں ایسے چالیس اولیائے کرام کا تذکرہ ہے جو اہل بیت  اطہار میں سے تھے۔ اسی طرح آپ نے ائمہ سادات کی تاریخ سے متعلق کتاب ”الافادة فی تاریخ الائمہ السادة“ تالیف الامام یحی بن الحسین بن ہارون الحسنی“ کو اپنے مطبع ”دار النفائس“ سے شائع فرمایا۔ آپ نے سیدنا ابو الحسین زید الشہید متوفی: ۱۲۲ھ بن سید علی الاوسط زین العابدین بن سیدنا حسین شہید کربلا سے متعلق کافی تحقیقی کام انجام دیا‘ چنانچہ آپ نے حضرت سیدنا زید بن علی الشہید کی اپنی تالیف مجموع اور حضرت امام موصوف کی ”مسند امام زید“ جمعہ عبد العزیز بن اسحاق البغدادی اور حضرت امام کی حیات ‘ آراء‘ فقہ‘ سے متعلق امام محمد ابو زہرہ کی تصنیف ”الامام زید وعصرہ وآرائہ وفقہہ“ اسی طرح ”الامام زید بن علی  “جو تالیف ہے الشیخ صالح ․․․․ کی اور ”ثورہ زید بن علی“ جو تالیف ہے ناجی حسن کی، ان تمام مذکورہ کتابوں کو جو صرف زر کثیر اور تلاش بسیار کے بعد حاصل ہوئی تھیں، اپنے ادارے دار النفائس سے شائع فرمایا ،اور اس گوہر نایاب (امام موصوف زید بن علی) سے ایک عالم کو روشناس کرایا۔
حضرت جی خود سادات میں سے تھے اور آپ کا سلسلہ نسب ۱۵/پندرہ واسطوں سے سر زمین ہند کی عظیم علمی وروحانی شخصیت قطب الاقطاب خواجہٴ دکن حضرت سید محمد حسینی گیسودراز قدس سرہ سے جاملتا ہے‘ آ پنے ”شمائم گیسودراز کے نام سے ایک کتاب تالیف فرمائی ہے، جس میں اپنا سفرنامہ گلبرگہ (جو مدفن ہے خواجہ گیسودراز کا) اور تذکرہ سادات گیسودراز پنجاب کے علاوہ حضرت خواجہ قدس سرہ کی اولاد واحباب کا تذکرہ نہایت محبت آمیز اور ولولہ انگیزانداز میں فرمایا ہے‘ حضرت خواجہ گیسودراز سے آپ کی عقیدت ومحبت کیسی تھی؟ اس کا اندازہ آپ کے ان اشعار سے لگایا جاسکتا ہے جو آپ نے ۱۹۶۴ء میں تحریر کئے تھے ،جس کا عنوان تھا:
اے رونق بزم چشتیائی
اے مظہر شان کبریائی
اے پر توِ نور مصطفائی
اے پیکر زہد وپارسائی
اے وارث مقر مرتضائی
اے خواجہٴ خواجگان عالم
اے رشک اجودھنی وطائی
ہرنقش تو آداب بادہ
تاحشر منشاندہ روشنائی
یکبار کہ باریاب کردی
ہم بادگر کرم نمائی
شاق است چو بدل نفیسم
اے جان جہاں چراجدائی
حضرت نے پانچویں شعر میں اپنے ایک رویائے صادقہ کی جانب اشارہ فرمایا ہے‘ آپ رقم طراز ہیں کہ حضرت خواجہ گیسودراز قدس سرہ کو خواب میں دیکھاکہ ایک پہاڑ کی جوٹی پر ہیں‘ میں بچہ ہوں‘ حضرت کی انگشت مبارک تھا مے ہوئے چل رہا ہوں۔جذبہ جہاد آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا‘ اعلائے کلمة اللہ کے لئے جان نچھاور کرنے والے آپ کے بڑے منظور نظر اور آنکھوں کے تارے تھے‘ جس کا اظہار آپ کی مجالس میں سید احمد شہید اور شہید ان بالاکوٹ  کے تذکروں سے ہوا کرتا تھا ۔جہاد سے قلبی تعلق ومحبت ہی کا نتیجہ تھا کہ آپ نے اپنی خانقاہ کا نام اپنے وقت کے امام المجاہدین مجاہد اعظم سید احمد شہید کے نام سے موسوم فرمایا تھا‘ جب افغانستان میں جہاد شروع ہوا تو آپ نے عملًا اس میں حصہ لیا اور تاحیات مجاہدین کی سرپرستی وخبرگیری فرماتے رہے۔ شہدائے بالاکوٹ کے حضور کچھ اس طرح آپ عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں:
قبائے نور سے سبح کر،لہو سے باوضو ہوکر
وہ پہنچے بارگاہ حق میں کتنے سرخرو کر
جہاں رنگ وبو سے ماوراء ہے منزل جاناں
وہ گزرے اس جہاں سے بے نیاز رنگ وبو ہوکر
وہ رہباں شب کو ہوتے تھے تو فرساں دن میں رہتے تھے
صحابہ کرام کے چلے نقش قدم پر ہو بہو ہوکر
شہیدوں کے لہو سے ارض بالاکوٹ مشکیں ہے
نسیم صبح آتی ہے ادھر سے مشکبو ہوکر
نفیس ان عاشقان پاک طینت کی حیات وموت
رہے گی نقش دہر اسلامیوں کی آبرو ہوکر
آپ کی مجالس مبارکہ کی یہ اہم خصوصیت تھی کہ نہ کسی کی غیبت کی جاتی نہ عیب جوئی‘ نہ کسی کا تمسخر نہ کسی کی ایذاء رسانی کا تصور ‘ بلکہ اگر غیروں کے اندر بھی کوئی کمال وخوبی ہو اسے آپ بڑے شوق وذوق اور جذبہٴ قدر دانی کے ساتھ سنتے اور سناتے اور یہ فیضان تھا احسن الناس اخلاقا اکی مجالس پر انوار کا۔
مجھے یاد ہے ایک مرتبہ بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والے عالم دین کا تذکرہ آپ نے یوں فرمایا کہ لاہورہی میں ایک جگہ مولانا قمر الدین سیالوی تشریف لائے‘ کچھ ساتھی لوگ مجھے بھی وہاں لے گئے‘ میرا ان سے اور ان کا مجھ سے کوئی تعارف نہیں تھا کہ کس مسلک سے تعلق ہے‘ مجلس میں کافی لوگ بیٹھے ہوئے تھے‘ کسی نے ان سے سوال کیا کہ حضرت تحذیر الناس (نامی کتاب) کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ علامہ سیالوی  نے جواباً فرمایا :اس کتاب میں مولانا محمد قاسم نانوتوی جو فرما رہے ہیں ہمارے علماء وہاں تک پہنچے ہی نہیں ،(تحذیر الناس کی جس عبارت کی طرف سیالوی صاحب اشارہ کررہے تھے دوسرے لوگوں نے اس عبارت پر حضرت نانوتوی کی تکفیر کی تھی)دوران گفتگو علامہ سیالوی نے ایک بات اور بھی فرمائی کہ: علامہ محمد انور شاہ کشمیری کا حافظہ سرکاردو عالم ا کا معجزہ ہے ۔ حضرت خاتم المحدثین علامہ محمد انور شاہ کشمیری کے بارے میں حضرت شاہ صاحب کی زبانی ہم نے یہ بھی سنا کہ حضرت کشمیری جب شرق پور تشریف لائے تو اس وقت کے مرد الخلائق حضرت میاں شیر محمد شرقپوری نے حضرت کا بہت زیادہ اکرام فرمایا‘ رخصت کرتے وقت خانقاہ سے باہر راستے تک آئے‘ کسی نے کہا کہ حضرت یہ تو دیوبندی ہیں‘ تو حضرت میاں صاحب نے فرمایا کہ: دار العلوم دیوبند میں چار نوری وجود ہیں، جن میں سے ایک شاہ صاحب (علامہ کشمیری) ہیں۔ یہ واقعہ میاں شیر محمد شرقپوری  کی سوانح میں موجود ہے جو اول اول چھپی تھی‘ حضرت شاہ صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ: شرقپور میں مولانا محمد ابراہیم صاحب جو شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری قدس سرہ کے شاگرد اور حضرت میاں صاحب شرقپوری کے خادم تھے‘ مولانا محمد انور شاہ کشمیری کے جانے کے بعد شام کو میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے تو میاں صاحب نے فرمایا:
”مولوی محمد ابراہیم تسی موجود نئیں سی‘ آج مولانا محمد انور شاہ کشمیری آئے سی، اناں دے دل وچ اللہ دے عشق کا سورج چمکداسی“۔
یہ ہمارے بڑے لوگوں کے حالات ہیں‘ فروعی اور مسلکی اختلافات کے باوجود دوسروں کے کمالات کا اعتراف‘ ان کی قدردانی ہمارے اکابرین کا طرز عمل اور شیوہ رہا ہے‘ بعد کے لوگوں نے‘ چھوٹوں نے اس میں شدت پیدا کی‘ ایک دوسرے سے دور ہوئے‘ فاصلے بڑھے اور ایسا لگتا ہے کہ کبھی قریب تھے ہی نہیں۔ ہمارے اکابرین خصوصا اکابرین دیوبند میں اس سلسلے میں بڑی وسعت تھی اور اس معاملے میں ان کا بڑا حوصلہ تھا‘ سیاسی اختلاف کے باجود ان کی آپس کی محبت قابل رشک تھی‘ چنانچہ حضرت شیخ الہند کو شریف مکہ نے گرفتار کرایا‘ انگریزوں نے مع احباب قید کرکے مالٹا بھیج دیا‘ حضرت تھانوی ‘ حضرت مدنی کا نام لے کر دکھ کا اظہار کررہے تھے، مجلس میں ایک صاحب نے کہا کہ حضرت! مولانا مدنی تو خود گرفتار ہوئے ہیں تو آپ نے بڑے دکھ بھرے انداز میں فرمایا: ہاں! حضرت امام حسین بھی کربلا میں خود گئے تھے۔
سیاسی رجحان سے متعلق شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ اور حضرت مولانا علامہ شبیر احمد عثمانی کے درمیان اختلاف تھا‘ اول الذکر حضرت کا رجحان جمعیة علماء ہند اور دوسرے حضرت کا رجحان مسلم لیگ کی طرف تھا‘ لیکن اللہ‘ اللہ‘ ایک دوسرے کی عظمت کا احساس‘ قدردانی اور آپس میں احترام کا تعلق کیا تھا؟ اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگاسکتے ہیں کہ ایک مرتبہ سہارنپور میں سالانہ دینی عوامی جلسہ تھا‘ علامہ عثمانی نے تقریر فرمائی اور اپنے موقف کی حمایت اور مخالفین کی پر زور تردید فرمائی‘ اس کے بعد دوسری کسی نشست میں حضرت مدنی کا بیان شروع ہوا ،مجمع میں سے کچھ لوگوں نے کہا کہ حضرت عثمانی  نے آپ کے موقف کی تردید کی ہے‘ آپ بھی ان کے بارے میں کچھ فرمائیں تو حضرت مدنی نے فرمایا کہ: میرا اختلاف محمد علی جناح سے ہے‘ حضرت علامہ سے نہیں‘ اس لئے میں ان کے بارے میں ایک حرف بھی نہیں کہوں گا۔ (جاری ہے)

 
ق

قاسمی

خوش آمدید
مہمان گرامی
جزاک اللہ حسینی بھیا احسن الجزا
 

اعجازالحسینی

وفقہ اللہ
رکن
ایک مرتبہ مولانا محمد شریف جالندھری  مہتمم جامعہ خیر المدارس نے فرمایا کہ:
”دار العلوم دیوبند میں کسی طالب علم نے حضرت علامہ عثمانی کے خلاف زبردست تنقیدی الفاظ لکھ کرکسی دیوار پرچسپاں کردیا‘ جس میں حضرت مدنی کی تائید بھی تھی۔ آجکل کالیڈر ہوتا تو شاباش دیتا۔ حضرت مدنی کو معلوم ہوا تو آپ نے تمام اساتذہ اور طلباء کو دار الحدیث میں جمع فرمایا اور حضرت علامہ عثمانی کے خوب مناقب بیان فرمائے اور فرمایا کہ جس نے یہ حرکت کی ہے وہ علامہ سے معافی مانگے‘ حضرت کو راضی کرے ورنہ میں اس کے لئے تہجد میں بدعا کروں گا“۔ ایک مرتبہ حضرت شاہ صاحب  نے فرمایا کہ: حضرت تھانوی قدس سرہ کہیں تشریف لے جارہے تھے‘ سہارنپور اسٹیشن پر ٹرین رکی‘ اطلاع ملنے پر حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی  بانی تبلیغ اور حضرت اقدس شاہ عبد القادر رائپوری  دونوں حضرات‘ حضرت تھانوی کی زیارت وملاقات کے لئے اسٹیشن پر آئے‘ ایک طرف حضرت رائپوری  بیٹھے‘ دوسری طرف حضرت کاندھلوی بیٹھے‘ حضرت تھانوی نے دیکھ کر فرمایا: کل (روز قیامت) بھی میرا اسی طرح خیال فرمانا۔
ایک مجلس میں ہمارے حضرت شاہ صاحب نے فرمایا کہ: رائپور میں کسی صاحب نے حضرت تھانوی قدس سرہ کے بارے میں کوئی نازیبا لفظ کہہ دیا (واضح رہے کہ حضرت رائپوری  کا رجحان سیاسی معاملات میں حضرت مدنی کی طرف تھااور حضرت تھانوی کا رجحان دوسری طرف) شاید کہنے والے کا خیال ہو کہ حضرت رائپوری خوش ہوں گے‘ حضرت رائپوری کو خبر ہوئی تو آپ نے صرف ایک جملہ کہا پھر کبھی کسی کو جرأت نہ ہوئی‘ وہ جملہ تھا کہ ”حضرت تھانوی میرے شیخ ہیں“حضرت شاہ صاحب کی یہ باتیں حضرت تھانوی قدس سرہ سے بے پناہ عقیدت ومحبت کا پتہ دیتی ہیں۔
اسی طرح حضرت شاہ صاحب حضرت مدنی اور شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری قدس سرہ سے بھی بے انتہاء محبت وعقیدت رکھتے تھے‘ آپ نے دونوں کا تذکرہ اور ان سے اظہار الفت کچھ اس طرح فرمایا ہے:
اہل علم وفضل کے سرتاج ولیوں کے ولی
عارف لاہوری یعنی حضرت احمد علی
ان کی رگ رگ میں تھا فکر دیوبندی موجزن
ان کے خونِ دل سے شاخ حریت پھولی پھلی
کسی نے للکارا فرنگی جبر واستبداد کو
سراٹھانے کی یہاں رسم جنوں کس سے چلی
مجمع اوصاف تھی لاریب ان کی شخصیت
وہ مفسر ومصنف وہ مجاہد وہ ولی
عشق تھا ان کو جو مولانا حسین احمد کے ساتھ
اس کی وجہ خاص تھی عشق نبی کی بے کلی
جانشین ان کے ہیں مولانا عبید اللہ آج
لوگ کہتے ہیں بجاان کو ولی ابن ولی
حضرت شاہ صاحب کا عشق ‘ سرخیل علمائے دیوبند فقیہ الامت حضرت اقدس مولانا رشید احمد گنگوہی  سے ایک مثالی تھا‘ آپ ان کو خاتم المحدثین شیخ الاسلام والمسلمین‘ سند الاصفیاء الکاملین مجدد العصر جیسے القاب سے یاد فرماتے ہیں۔فرما تے ہیں کہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی قدس سرہ نے حضرت گنگوہی کو تفقہ میں مقام بلند کی بناء پر ابوحنیفہ ٴ عصر کا لقب دیا تھا‘ وہ اپنے عہد میں اسی لقب سے معروف تھے‘ حضرت شاہ صاحب نے ۱۹۷۰ء میں جب ہندوستان کا سفر فرمایا تو اس وقت گنگوہ بھی تشریف لے گئے تھے‘ وہاں حضرت گنگوہی قدس سرہ کے مزار پر جو آپ کی دلی کیفیات تھیں‘ ان کو آپ نے اپنے اشعار میں یوں ذکر فرمایاہے:
ہے یہ کس کی خوابگہ حسین‘ یہ نفیس کس کا مزار ہے
کہ نفس نفس کو جو ہے سکوں تو نظر نظر کو قرار ہے
جو ابوحنیفہ وقت تھا جو کبھی بخاریٴ عصر تھا
جو جنید وشبلی دھر تھا یہ اسی کی خاکِ مزار ہے
وہ کہ تھا مجاہد شاملی صفیں جس نے اُلٹیں فرنگ کی
اسی صف شکن کی یہ گھات ہے اسی شیر کایہ کچھا رہے
کبھی جام پینے یہ آگئے تو سمندروں کو چڑھا گئے
یہ جو آج تک نہیں ہوش ہے‘ مئے عشق ہی کا خمار ہے
میں فدائے عشق رسول ہوں میں نبی کے پاؤں کی دھول ہوں
میرا دل خدا کے حضور میں بہ نیازِ سجدہ گزار ہے
حضرت شاہ صاحب  کو اپنے مرشد خانہ رائپور کے ذرے ذرے سے عشق لامتناہی تھا ‘آپ فرماتے ہیں ۱۹۷۰ء میں خانقاہ عالیہ رائپوری (سہارنپور) میں حاضری کی سعادت حاصل ہوئی‘ قلبی تاثرات نظم کی صورت میں ڈھل گئے (کچھ اشعار نظم کے)
یہ خاکِ رائپور اللہ اکبر
میری دنیا یہیں عقبی یہیں ہے
مجھے ہے ذرہ ذرہ طور اس کا
یہ میرے ناز نین کی سرزمین ہے
سلطان العرفاء حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائپوری نور اللہ مرقدہ حضرت کے شیخ تھے‘ آپ کو ان سے کیسی محبت ہوگی‘ کیسا والہانہ عشق ہوگا‘ کوئی کیا اندازہ کرسکتا ہے۔ حضرت رائپوری قدس سرہ کا ۱۹۶۲ء میں جب لاہور میں وصال ہوا‘ اس وقت آپ نے ان کی یاد میں جو اشعار کہے تھے وہ آپ کی کتاب برگ گل میں” آج قطب الارشاد گذشت“ کے عنوان سے موجود ہیں‘جس کا ہر ہر لفظ عشق میں ڈوبا ہوا فراق محبوب میں سوختہ دل کی فریاد کا ترجمان اور ایک محب صادق کی آہ ویاس کا آئینہ دار ہے‘ مرثیہ کے کچھ اشعار یوں ہیں:
اے غمِ جاناں اے غمِ جانم
دل ہے پرُخوں آنکھیں پرُنم
قطب زمانہ غوث یگانہ
رشک جنید وشبلی وادہم
فانی فی اللہ باقی باللہ
ختم انہیں پر ان کا عالَم
ایسا عارف ایسا مرشد
ڈھونڈھ نہ پائے عالَم عالَم
تجھ سا دیکھا نہ تجھ سا پایا
اُتّر دکھّن پورب پچھم
لاکھوں دلبر لیکن پھر بھی
تیرا عالَم تیرا عالَم
 

زوہا

وفقہ اللہ
رکن
ماشاء اللہ ، جزاک اللہ
بہت اچھی شیئرنگ ہے ، بہت شکریہ اعجازالحسینی جی
 

اعجازالحسینی

وفقہ اللہ
رکن
)

امام الانقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھی  سے حضرت شاہ صاحب کو بڑی عقیدت تھی‘ حضرت سندھی کا آبائی گاؤں چیانوالی ضلع سیالکوٹ تھا‘ حضرت شاہ صاحب نے حضرت سندھی سے عقیدت ومحبت کا اظہار بڑے عجیب طریقے سے فرمایا کہ حضرت سندھی کا جو آبائی گھر تھا اس کو خرید کر باقاعدہ مسجد وخانقاہ بنا دیا‘ جس کی تفصیل نامور خطیب مولانا عبد الکریم ندیم صاحب سے کچھ یوں ہے‘ مولانا فرماتے ہیں کہ: خانقاہ سید احمد شہید لاہور ظہر اور عصر کے درمیان حاضر ہوا‘ حضرت سے ملاقات ہوئی‘ بھائی رضوان (حضرت شاہ صاحب کے خادم خاص)پاس تھے‘ حضرت نے فرمایا: چیانوالی سیالکوٹ میں ایک قصبہ ہے جو حضرت مولانا عبید اللہ سندھی کی جائے پیدائش ہے‘ میری ایک عرصے سے یہ خواہش تھی کہ اس جگہ کو خرید لیا جائے۔ ساتھیوں نے کوشش کی‘ الحمد للہ وہ مکان خرید لیا‘ پھرحضرت نے پوچھا: کیا پروگرام ہے؟ عرض کیا : گھر جارہا ہوں‘ فرمایا: دین پور شریف جانا ہوتا ہے‘ میں نے عرض کیا : ہرجمعہ حاضری دیتا ہوں‘ پھر فرمایا: حضرت سندھی کی قبر پر حاضر ہوکر فاتحہ پڑھیں اور میرا سلام عرض کرکے درخواست کریں کہ حضرت آپ کے مکان کو خرید لیا ہے‘ دعا فرمائیں اللہ تعالیٰ وہاں مسجد اور مدرسہ بنوادیں اور حضرت میاں مسعود صاحب کو بھی میرا سلام عرض کرنا۔میں حسب فرمائش دین پور حاضرہوا‘ حضرت میاں صاحب سے سلام عرض کیا اور سارا قصہ سنایا ‘ مسکرائے اور فرمایا: جاؤ فاتحہ بھی پڑھو اور پیغام بھی پہچادو‘ میں قبر مبارک سے واپس حضرت میاں صاحب کے پاس حاضر ہوا تو فرمایا کہ: حضرت گنگوہی سے کسی نے پوچھا تھا کہ قبر والوں سے فیض حاصل ہوسکتا ہے؟ تو حضرت گنگوہی نے ارشاد فرمایا: ”طالب کی استعداد کے مطابق“ دو ماہ بعد پھر لاہور خانقاہ سید احمد شہید دوبارہ حاضر ی ہوئی تو بڑی بشاشت سے حضرت شاہ صاحب نے فرمایا: مولانا! حضرت سندھی کی دعا ایسی قبول ہوئی ہے کہ مسجد بھی بن گئی ہے اور مدرسہ بھی بن گیا‘ نیز فرمایا: آپ کا دین پور شریف سے تعلق ہے آپ پر حق بنتا ہے کہ حضرت سندھی کے اس مرکز میں آپ جائیں‘ وہاں کے لئے تاریخ کا تعین بھی کریں‘ اشتہار بھی چھپوائیں‘ وہاں جلسہ کرکے آئیں‘ اس کی تعمیل کی گئی‘ اشتہار اور پمفلٹ جو حضرت سندھی کے حالات پر مشتمل قاری جمیل الرحمن صاحب ابن حضرت مولانا محمد اسحاق قادری نے حضرت شاہ صاحب کی خدمت میں پیش کئے‘ جلسہ کے موقع پر یہ پمفلٹ تقسیم کیا گیا۔ پھر میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا تو فرمایا: آپ وہاں جاتے رہا کریں‘ سالانہ تاریخ متعین نہ کریں کہ تاریخ متعین کرنا ہمارے بزرگوں کا طریق نہیں‘ چنانچہ میں وہاں جاتا ہوں اور جلسہ کرکے آتا ہوں۔حضرت سندھی ہمارے اکابر علمائے دیوبند کے صف اول کے رجال اللہ میں سے تھے‘ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی قدس سرہ کے بڑے معتمد اور خصوصی معاون کاروں میں سے تھے‘ سیاسی فہم وبصیرت کے اعتبار سے اللہ پاک نے ان کو ایک خاص اور ممتاز مقام عطا فرمایا تھا‘ ان کی بعض باتیں جو اس وقت مختلف فیہ تھیں‘ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بالکل برحق اور دور اندیشی پر مبنی اور سچ ثابت ہوئیں‘ مثلاً:ہمارے دیگر اکابر جن میں شیخ العرب والعجم مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ جیسے اصحاب بھی شامل ہیں ان حضرات نے فتویٰ دیا تھا کہ انگریز کی فوج میں بھرتی ہونا حرام ہے‘ اس سلسلے میں حضرت مدنی کا حالقدینا ہال کراچی میں انگریز جج کے سامنے مدلل تقریر کرنا‘ جج کا پھانسی کے لئے دھمکی دینا اور حضرت مدنی کا بغل سے کفن نکال کر اعلان کرنا کہ حسین احمد دیوبندسے کفن لے کر آیا ہے‘ یہ واقعہ بہت مشہور ہے‘ ایسے وقت میں حضرت سندھی فرماتے تھے کہ انگریز کی فوج میں ضرور جاؤ ! میری نگاہیں مستقبل کا نقشہ کچھ اس طرح دیکھتی ہیں کہ آئندہ اس خطے میں فوجی حکومتیں ہوں گی‘ تمہارے افراد فوج میں ہوں گے تو آگے آئیں گے‘ کام دیں گے‘ وقت نے ثابت کردیا کہ ان کی دور اندیشی صحیح تھی‘ پاکستان ‘ بنگلہ دیش‘ افغانستان میں فوجی حکومتیں بنیں‘ علماء اور دیندار طبقوں کو سب سے زیادہ ان فوجی آمروں کے دور میں آزمائشوں سے گذرنا پڑا اور آج تک یہی سلسلہ چل رہا ہے۔
حضرت سندھیبڑے چوٹی کے عالم دین ‘ صاحب بصیرت اور روحانی شخصیت تھے‘ آپ نے اپنے وقت کے دو بڑے صاحب ِ کمال حاملین نسبت اللہ والوں یعنی تاج الاولیاء حضرت مولانا تاج محمود امروٹی اور حضرت خلیفہ غلام محمد دین پوری قدس سرہما سے روحانی تربیت حاصل کی تھی اور درجہ کمال تک پہنچے‘ بعض لوگوں نے بلکہ ناسمجھ دوستوں نے حضرت سندھی کی جانب کچھ ایسی باتیں منسوب کیں جن سے بعض حضرات کو اختلاف ہوا‘ میرے خیال میں ان باتوں کی نسبت حضرت سندھی کی جانب صحیح نہیں‘ حضرت سندھی کے افکار وخیالات کے صحیح وارثین وترجمان حضرات مراکز پاکستان میں دوہی ہیں: ۱- مرکز شیخ التفسیرحضرت لاہوری قدس سرہ شیر انوالہ گیٹ لاہور۔ ۲- مرکز حضرت دین پوری قدس سرہ‘ دین پور شریف خانپور ان دونوں مراکز میں ہم نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں سنی جن سے ان حضرات کے خیالات کی تائید ہوتی ہو‘ جنہیں بعض حضرات نے حضرت سندھی کی طرف منسوب کرکے بیان کی ہیں اور یہ بات بھی تحقیقی اور ثابت ہے کہ اس وقت حضرت سندھی کی جانب منسوب جتنی بھی مطبوعات وکتب مارکیٹ میں موجود ہیں‘ ان میں سے کوئی بھی حضرت کے اپنے ہاتھوں کی تصنیف کردہ نہیں ہے‘ کچھ تقاریر میں درسی نوٹ اور منقول ملفوظات ہیں جن میں اصل سے زیادہ ناقلین کے ذہنی رجحانات کا دخل ہے۔
ہمارے حضرت سیدنا امام الہدیٰ مولانا عبید اللہ انور قدس سرہ حضرت سندھی کے آخری شاگردوں میں سے تھے‘ ہم نے اپنے حضرت سے کبھی ایسی کوئی بات نہیں سنی‘ اس معاملہ کی مثال بالکل ویسی ہی ہے جیسے امام التفسیر مرجع الاولیاء والاصفیاء حضرت مولانا حسین علی صاحب  واں پھچراں والے کی جانب ان کے بعض شاگردوں نے حیاة النبی ا سے متعلق بعض ایسی غلط باتیں منسوب کر دیں جن کا تعلق حضرت مولانا حسین علی سے کبھی بھی نہ تھا اور یہ بات بندہ اس وجہ سے کہہ رہا ہے کہ میرے مرشد اول سید العارفین حضرت مولانا محمد عبد اللہ بہلوی قدس سرہ (جو حضرت مولانا حسین علی کے خاص شاگردوں میں سے تھے‘ حضرت سے انہوں نے تفسیر پڑھی تھی اور ان کی طرف سے باقاعدہ مجاز بیعت بھی تھے) سے میں نے بارہا سنا کہ ہم نے حیاة النبی ا سے متعلق کبھی بھی اپنے استاذ وشیخ سے ایسی بات نہیں سنی (جو اپنے اکابرین علمائے دیوبند سے ہٹی ہوئی ہو)۔
ہمارے حضرت سید نفیس الحسینی اس مسئلہ میں بہت واضح موقف رکھتے تھے‘ آپ کے وصال سے چند ماہ پیشتر کی بات ہے‘ ایک مجلس میں آپ کے خاندان سے تعلق رکھنے والے کچھ مخصوص علماء موجود تھے‘ بندہ بھی حاضر تھا‘ آپ نے المہند علی المفند کو بنیاد بناکر حیات النبی ا کے مسئلہ پر تقریباً دو گھنٹہ مصلحانہ ومربیانہ گفتگو فرمائی‘ حضرت شاہ صاحب کی یہ عجیب خصوصیت دیکھی کہ جس موضوع پر حضرت سے بات ہوتی آپ کے پاس اس کے متعلق بہت وافر معلومات ہوتیں اور ہم مدرسوں میں پڑھنے پڑھانے والے آپ کی علمی باتوں پر حیران وششدر رہ جاتے۔
ہمارے حضرت سید نفیس الحسینی ساری زندگی اہل بیت  سے محبت کرتے رہے‘ اکابر علمائے دیوبند کی مدح وثناء کے گیت گنگناتے رہے‘ اپنے شیخ ومرشد کے اوصاف وکمالات اور ان کے ساتھ بیتے ہوئے ایام وواردات سناتے رہے‘ یہ شیفتگی‘ یہ وارفتگی‘ یہ والہانہ پن‘ بلاشبہ نتیجہ تھا مرکز محبت الٰہی ومحبوب مقبولان بارگاہ الٰہی بلکہ محبوب کل کائنات حضرت محمد ا سے سچے اور سچے عشق کا‘ کیونکہ واسطوں سے تعلق ومحبت اصل مرجع اور مرکز کی محبت سے ہوا کرتی ہے اور یہ بھی اظہار عشق کا اک انداز ہے کہ محب صادق معشوق کے متعلقین منسوبین بلکہ اس کے شہر‘ گلیوں‘ راستوں‘ گذرگاہوں سے تعلق کے گن گاتا ہے اور کبھی دل کا راز زباں پر آجائے تو پکار اٹھتا ہے:

امر علی الدیار دیار لیلیٰ
اقبل ذا الجدار وذا الجدارا
وما حب الدیار شغفن قلبی
ولکن حب من سکن الدیارا
آیئے چند اشعار نعتیہ حضرت شاہ صاحب کے پڑھتے ہیں:
نفیس آں جانِ جاناں را سلامے
ز دردِ عشق او دل ریش دارم
مہ جبیں لاکھ سہی شہزہ آفاق مگر
ان کے حلقے میں ہے تو مُہرِ تمام اے ساقی
نازنیں ایک سے اک بڑھ کے جہاں میں آئے
ہے تری ذات مگر مسک ختام اے ساقی
کاش میرے محبوب کی دھرتی مجھ پر نفیس یہ شفقت کرتی
اپنے اندر مجھ کو سموتی
صلی اللہ علیہ وسلم
حضور نبی کریم اکا ادب کتنا تھا‘ اس سلسلے میں ایک واقعہ ذکر کرکے مضمون ختم کرتاہوں۔ ہمارے دوستوں میں سے ایک ساتھی حضرت کے پاس گئے‘ مجلس میں ایک صاحب نے اپنا نام لکھنے کی فرمائش کی (حضرت  اپنے وقت کے سب سے بڑے خطاط تھے‘ آپ کے شہ پارے خطاطی کے پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں) حضرت نے خادم سے کہا اس گلاس میں دوسرا پانی لے آؤ‘ خادم لے آیا‘ آپ نے پانی دوات میں ڈالا اور آپ نے موصوف کا نام لکھ دیا جس میں لفظ محمد بھی تھا ساتھی نے عرض کیا کہ حضرت گلاس میں پانی تو پہلے بھی تھا آپ نے اسے گروا کر دوسراپانی منگوایا اس کی کیا وجہ ہے؟ تو حضرت  نے فرمایا کہ: میں نے کبھی بھی حضور ا کا نام جھوٹے پانی سے نہیں لکھا‘ یہ تھا ادب‘ یہ تھی عظمت‘ اللہ ک ہمیں بھی اس ادب‘ عظمت اور محبت کا کچھ حصہ نصیب فرمادیں‘ آمین۔
آہ! کہ وہ جو ساری زندگی اپنے بڑوں کی عظمت ومحبت کے ترانے گاتا رہا‘ اپنی صراحی دل سے تشنہ گاہوں کو تشنہ محبت ومعرفت کا جام پلاتا رہا‘ جس نے راہ ورسم محبت حقیقی کو دوام بخشا‘ جس نے مردہ دلوں کو زندگی عطا کی‘ جو بلاشبہ آئینہ تھا اپنے سلف واکابرین کا‘ جو اکیلا تنہا وارث تھا پہلوں کے طرز‘ طریقے‘ انداز واداؤں کا‘ رخصت ہوا ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
آئے عُشّاق گئے وعدہ فردا دے کر
اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخِ زیبا لے کر
جان ہی دے دی جگرنے آج کوئے یار میں
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آہی گیا
اللہ پاک ہمیں بھی ان کی طرح جینا مرنا سکھادیں اور ان ہی جیسے لوگوں کے ساتھ حشر ونشر فرمادیں‘ آمین۔

ماخذ
 

احمداسد

وفقہ اللہ
رکن
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ حضرت رحمہ اللہ کے روحانی فیوضات وبرکات سے ہمیں بھی حظ وافر نصیب فرمائے . آمین
 
Top