مشائخ کا معمولات کا اہتمام
[align=justify]میں نے اپنے جملہ اکابر کو اپنے معمو لات کا بہت ہی پابند دیکھا، اشرف السوانح صفحہ ۲۷ میں حضرت تھانوی کا ایک ارشاد لکھاہے کہ انضباط اوقات جبھی ہو سکتا ہے جب اخلاق ومروت سے مغلوب نہ ہو اورہر کام کو اپنے وقت پر کرے اور تو اورحضرت مولانا محمود الحسن صاحب دیوبندیؒ جو حضرت والا کے استاذ تھے ۔ایک بار مہمان ہوئے حضرت والا نے راحت کے سب ضروری انتظام کر کے جب تصنیف کا وقت آیا تو باادب عرض کیا حضرت میں اس وقت کچھ لکھا کر تا ہوں ۔ اگر حضرت اجازت دیں توکچھ دیر لکھ کر بعد کو حاضر ہو جاؤں ۔ فر ما یا ضرور لکھو میری وجہ سے اپنا حرج نہ کرو گو اس روز حضرت والا کا دل لکھنے میں لگا نہیں لیکن ناغہ نہ ہو نے دیا تاکہ بے برکتی نہ ہو۔ تھوڑا سا لکھ کر پھر حاضر خدمت ہوگئے ۔ اس سیاہ کارکے ساتھ بھی اس سلسلہ کا اہم ایک واقعہ پیش آیا ۔ یاد نہیں کہ آپ بیتی میں کہیں گزر چکا یانہیں ۔ اس سیہ کار کی عادت بری عادتوں میں سے یہ بھی رہی کہ صبح کی تالیف کے وقت میں حضرت اقدس مدنی، حضرت رائے پوری اور چچا جان کے علاوہ کسی بھی بڑے یا چھوٹے عزیز و اجنبی کا آنا بہت ہی گراں ہو تا تھا ۔ ان تین کے علاوہ کسی کے لئے وقت ضائع نہیں کر تا تھا ۔البتہ یہ تین حضرات ا س قاعدہ سے مستثنیٰ تھے اور ان کی تشریف آوری پر تالیف کا کام مجھ سے نہیں ہو تا تھا۔ مگر حضرت مدنی کا قیام تو زائد سے زائد ڈیڑھ گھنٹہ کا رہتا تھااور چچا جا ن نور اللہ مر قدہ میرے اس وقت میں زنانہ میں یادوسرے احباب سے ملنے تشریف لے جاتے البتہ حضرت اقدس رائے پوری کا سالم دن رہتا ۔ میں ایک مر بتہ حسب معمول چائے کے بعد حضرت رائے پوری کی خدمت میں بہت ہی ذوق و شوق سے بیٹھا ہوا تھا۔ تقریبا تین گھنٹہ کے بعد سر میں ایسا زور سے درد ہوا اور چکر آیا کہ بیٹھنا مشکل ہوگیا ۔ میں ایک دم حضرت نور اللہ مرقدہ سے یہ عرض کر کے کہ حضرت ابھی حاضر ہورہا ہوں اٹھا ۔ حضرت کو یقینا کشف ہو ا۔ میرے اس طرح فوری اٹھنے سے فکر ہوا دریافت فر مایا کہ کہاں جارہے ہو ۔ میں عرض کر کے چلا گیا، حضرت ابھی حاضر ہو تا ہوں ۔ میں اس وقت تو فوری طور پر چلا گیا، اوپر دارالتالیف میں گیا قلم کاغذ ہاتھ میں لیا اور کچھ لکھنا شروع کیا ۔ چند ہی منٹ میںو ہ در د وغیرہ سب جاتا رہا ، ذار بھی اثر نہ رہا ۔ میں اٹھ کر چلا آیا ۔ واپسی پر پھر حضرت نے باصرار پو چھا ۔ اول تو میں نے ٹالنا چاہا مگر حضرت کے بار بار اصرارپر میں نے پوری بات عرض کر دی ۔ حضرت نور اللہ مرقدہ نے فر ما یا کہ اسی واسطے تو بار بار پوچھ رہاہوں میری وجہ سے حر ج نہ کیا کرو، معمولات کے چھوٹنے سے بسا اوقات جسمانی مرض ہوا کر تا ہے یہ سبھی کو پیش آتا ہے ۔ اسی لئے اکابر معمولات کی پا بندی کا اہتمام کر تے ہیں ۔ میں نے اپنے اکابر کو بھی نظم اوقات اور معمولات کی پابندی کا بہت ہی پابند پا یا ۔ میرے والد صاحب کا تو خاص معمول تھا کہ اپنے مخصوص شاگردوں سے سب سے پہلے کام جو لیتے وہ نظام الاوقات ان سے ہی بنواکر اس میں مطالعہ ، کھانا ، سبق سب آ جاوے اس کو ملا حظہ فر ما کر اگر اصلاح کی کوئی ضرورت سمجھتے تو اصلاح فر ماکر اس کے حوالہ فر ماد یتے اور پھر اس پر پابندی کی تاکید فر ما تے اور نگرانی بھی فر ماتے تھے۔ میں نے اپنے حضرت مرشدی کے معمولات کو تو ۳۵ ھ کی ابتداء سے ۴۵ ھ کی انتہا تک خوب د یکھا ۔ گر می سردی کسی موسم میں بھی ان میں تغیر نہ ہو تا تھا۔ اعلیٰ حضرت گنگوہی قدس سرہ کا جہاں تک زمانہ یاد ہے اس میں بھی کوئی تخلف نہ پایا ۔ حضرت حکیم الامت کا ملفوظ حسن العزیز جلد اول ملفوظ ۴۹۵ میں لکھا ہے کہ مولانا محمد قاسم صاحب کے پاس تو کوئی بیٹھا ہوا ہو تو اشراق اور چاشت بھی قضا کر د یتے تھے، حضرت گنگوہی کی اور شان تھی، کوئی بیٹھا ہوجب وقت اشراق اور چاشت کا آیا وضو کرکے وہیں نماز پڑھنے کھڑے ہو گئے، یہ بھی نہیں کہ کچھ کہہ کر اٹھیں کہ میں نماز پڑھ لوں یااٹھنے کی ا جازت لیں ۔ جہاں کھانے کا وقت آ یا لکڑی لی چل دیئے ۔ چاہے کوئی نواب ہی کا بچہ بیٹھا ہو، وہاں یہ شا ن تھی جیسے بادشاہوں کی شان ، ایک تو بات ہی کم کر تے تھے اور اگر کچھ مختصر سی بات کہی تو جلدی سے ختم کر کے تسبیح لے کر اس میں مشغول ہو گئے کسی نے کوئی بات پوچھی تو جواب دے دیا اور اگر نہ پوچھی تو گھنٹوں بیٹھارہا انہیں کچھ مطلب نہیں۔ مولانا محمد قاسم صاحب کے پاس جب تک کوئی بیٹھا رہتا برابر بولتے رہتے ع ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است ۔(جاری)
[align=justify]میں نے اپنے جملہ اکابر کو اپنے معمو لات کا بہت ہی پابند دیکھا، اشرف السوانح صفحہ ۲۷ میں حضرت تھانوی کا ایک ارشاد لکھاہے کہ انضباط اوقات جبھی ہو سکتا ہے جب اخلاق ومروت سے مغلوب نہ ہو اورہر کام کو اپنے وقت پر کرے اور تو اورحضرت مولانا محمود الحسن صاحب دیوبندیؒ جو حضرت والا کے استاذ تھے ۔ایک بار مہمان ہوئے حضرت والا نے راحت کے سب ضروری انتظام کر کے جب تصنیف کا وقت آیا تو باادب عرض کیا حضرت میں اس وقت کچھ لکھا کر تا ہوں ۔ اگر حضرت اجازت دیں توکچھ دیر لکھ کر بعد کو حاضر ہو جاؤں ۔ فر ما یا ضرور لکھو میری وجہ سے اپنا حرج نہ کرو گو اس روز حضرت والا کا دل لکھنے میں لگا نہیں لیکن ناغہ نہ ہو نے دیا تاکہ بے برکتی نہ ہو۔ تھوڑا سا لکھ کر پھر حاضر خدمت ہوگئے ۔ اس سیاہ کارکے ساتھ بھی اس سلسلہ کا اہم ایک واقعہ پیش آیا ۔ یاد نہیں کہ آپ بیتی میں کہیں گزر چکا یانہیں ۔ اس سیہ کار کی عادت بری عادتوں میں سے یہ بھی رہی کہ صبح کی تالیف کے وقت میں حضرت اقدس مدنی، حضرت رائے پوری اور چچا جان کے علاوہ کسی بھی بڑے یا چھوٹے عزیز و اجنبی کا آنا بہت ہی گراں ہو تا تھا ۔ ان تین کے علاوہ کسی کے لئے وقت ضائع نہیں کر تا تھا ۔البتہ یہ تین حضرات ا س قاعدہ سے مستثنیٰ تھے اور ان کی تشریف آوری پر تالیف کا کام مجھ سے نہیں ہو تا تھا۔ مگر حضرت مدنی کا قیام تو زائد سے زائد ڈیڑھ گھنٹہ کا رہتا تھااور چچا جا ن نور اللہ مر قدہ میرے اس وقت میں زنانہ میں یادوسرے احباب سے ملنے تشریف لے جاتے البتہ حضرت اقدس رائے پوری کا سالم دن رہتا ۔ میں ایک مر بتہ حسب معمول چائے کے بعد حضرت رائے پوری کی خدمت میں بہت ہی ذوق و شوق سے بیٹھا ہوا تھا۔ تقریبا تین گھنٹہ کے بعد سر میں ایسا زور سے درد ہوا اور چکر آیا کہ بیٹھنا مشکل ہوگیا ۔ میں ایک دم حضرت نور اللہ مرقدہ سے یہ عرض کر کے کہ حضرت ابھی حاضر ہورہا ہوں اٹھا ۔ حضرت کو یقینا کشف ہو ا۔ میرے اس طرح فوری اٹھنے سے فکر ہوا دریافت فر مایا کہ کہاں جارہے ہو ۔ میں عرض کر کے چلا گیا، حضرت ابھی حاضر ہو تا ہوں ۔ میں اس وقت تو فوری طور پر چلا گیا، اوپر دارالتالیف میں گیا قلم کاغذ ہاتھ میں لیا اور کچھ لکھنا شروع کیا ۔ چند ہی منٹ میںو ہ در د وغیرہ سب جاتا رہا ، ذار بھی اثر نہ رہا ۔ میں اٹھ کر چلا آیا ۔ واپسی پر پھر حضرت نے باصرار پو چھا ۔ اول تو میں نے ٹالنا چاہا مگر حضرت کے بار بار اصرارپر میں نے پوری بات عرض کر دی ۔ حضرت نور اللہ مرقدہ نے فر ما یا کہ اسی واسطے تو بار بار پوچھ رہاہوں میری وجہ سے حر ج نہ کیا کرو، معمولات کے چھوٹنے سے بسا اوقات جسمانی مرض ہوا کر تا ہے یہ سبھی کو پیش آتا ہے ۔ اسی لئے اکابر معمولات کی پا بندی کا اہتمام کر تے ہیں ۔ میں نے اپنے اکابر کو بھی نظم اوقات اور معمولات کی پابندی کا بہت ہی پابند پا یا ۔ میرے والد صاحب کا تو خاص معمول تھا کہ اپنے مخصوص شاگردوں سے سب سے پہلے کام جو لیتے وہ نظام الاوقات ان سے ہی بنواکر اس میں مطالعہ ، کھانا ، سبق سب آ جاوے اس کو ملا حظہ فر ما کر اگر اصلاح کی کوئی ضرورت سمجھتے تو اصلاح فر ماکر اس کے حوالہ فر ماد یتے اور پھر اس پر پابندی کی تاکید فر ما تے اور نگرانی بھی فر ماتے تھے۔ میں نے اپنے حضرت مرشدی کے معمولات کو تو ۳۵ ھ کی ابتداء سے ۴۵ ھ کی انتہا تک خوب د یکھا ۔ گر می سردی کسی موسم میں بھی ان میں تغیر نہ ہو تا تھا۔ اعلیٰ حضرت گنگوہی قدس سرہ کا جہاں تک زمانہ یاد ہے اس میں بھی کوئی تخلف نہ پایا ۔ حضرت حکیم الامت کا ملفوظ حسن العزیز جلد اول ملفوظ ۴۹۵ میں لکھا ہے کہ مولانا محمد قاسم صاحب کے پاس تو کوئی بیٹھا ہوا ہو تو اشراق اور چاشت بھی قضا کر د یتے تھے، حضرت گنگوہی کی اور شان تھی، کوئی بیٹھا ہوجب وقت اشراق اور چاشت کا آیا وضو کرکے وہیں نماز پڑھنے کھڑے ہو گئے، یہ بھی نہیں کہ کچھ کہہ کر اٹھیں کہ میں نماز پڑھ لوں یااٹھنے کی ا جازت لیں ۔ جہاں کھانے کا وقت آ یا لکڑی لی چل دیئے ۔ چاہے کوئی نواب ہی کا بچہ بیٹھا ہو، وہاں یہ شا ن تھی جیسے بادشاہوں کی شان ، ایک تو بات ہی کم کر تے تھے اور اگر کچھ مختصر سی بات کہی تو جلدی سے ختم کر کے تسبیح لے کر اس میں مشغول ہو گئے کسی نے کوئی بات پوچھی تو جواب دے دیا اور اگر نہ پوچھی تو گھنٹوں بیٹھارہا انہیں کچھ مطلب نہیں۔ مولانا محمد قاسم صاحب کے پاس جب تک کوئی بیٹھا رہتا برابر بولتے رہتے ع ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است ۔(جاری)