ڈاکٹرعبدالقدیرکاایک اہم مضمون:

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
[align=justify]تحریر۔ ڈاکٹرعبدالقدیرخان
اس مضمون کے بارے میں اپنی رائے تحریرفرمائیں۔

حضرت شیخ سعدی رضی اللہ عنہہ جن کا اصل نام شرف الدین اور لقب مصلح الدین تھا اور اپنے وقت کے حاکم سعد بن زنگی کی مناسبت سے اپنا تخلص سعدی رکھ لیا تھا ۔ شیراز کے رہنے والے تھے ، آپ کی پیدائش 1333میں ہوئی اور وصال اندازاََ 1435میں ہوا ۔ آپ کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ آپ نے تیس سال کی عمر میں پڑھنا لکھنا سیکھا پھر تیس برس علمی مشاہدہ کے لئے لا تعداد ملکوں کی سیر کی اور ہندوستان ، افغانستان وغیرہ بھی آئے ۔ آپ کا مشہور قول افغانیوں ، کشمیریوں اور کمبوہ کے بارہ میں بیان کرنے سے گریز کرتا ہوں بس” اگر قحط رجا ل سے شروع ہوتا ہے اور کشمیری پر ختم ہو جاتا ہی“۔
شیخ سعدی کا پورا کلام پندو نصائح سے بھرا پڑا ہے اور وہ بھی اشعا رکی شکل میں ۔ آپ نے دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی زندگی میں کامیابی کے طریقے بھی بتلائے ہیں جو ان کی کئی سال کی درویشانہ زندگی سے حاصل ہوئے تھے۔ آپ نے ان کو آسان زبان میں منظوم طور پر پیش کیا تھا جو پڑھنے والے کے دل میں اتر جاتا ہے۔ آپ کا مختصر شعر ہے :
صحبت صالح ترا صالح کند
صحبت طالع ترا طالع کند
یعنی نیک انسان کی صحبت تجھے نیک اور بدکار کی صحبت بد کار بناتی ہے۔ عام زبان میں اس کو یوں بھی کہا گیا ہے کہ خر کو خر کھجائے۔ یہ مسلمہ امر ہے کہ آدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے اور ایک حکمران کی کامیابی و عزت اور ناکامی و ذلت اس کے اپنے مشیروں پر منحصر ہوتی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ اکثر نوجوان بر ی صحبت میں رہ کر نشہ ، جو ا اور چور ی کا عادی ہوجاتا ہے ۔ یہ لعنت عمرو جنس نہیں دیکھتی ، سب ہی اس کے شکار ہو جاتے ہیں۔ بچپن میں اکثر یہ شعر پڑھا کرتے تھے ۔:
بد کی صحبت میں مت بیٹھو اس کا ہے انجام برا
بد نہ بنے تو بد کہائے بد اچھا بدنا م برا
دوستی و محبت کی ضرورت ہر انسان کو اس لئے پیش آتی ہے کہ ایک تو سار ا وقت تنہائی میں گزارنا بہت مشکل ہوتا ہے اور دوسرے انسان لاتعداد موضوعات پر دوسرے سے گفتگو کرنا چاہتا ہے ۔ اس کے علا وہ پرانے زمانہ میں (اور موجودہ دور میں بھی ) راجہ ، بادشاہ ، نواب ا س لئے وزیرو مشیرصلاح کار رکھتے تھے کہ ان کی قابلیت و صلاحیت سے استفادہ کریں ان کا انتخاب حکمران کی ذاتی صلاحیت پر منحصر ہوتا ہے ۔ خوشامد پسند اور کم عقل حکمران خوشامدی اور عقلمند حکمران سمجھدار مشیروں کا انتخاب کیا کرتے تھے۔ بعض عیار و شاطر حکمرانوں نے شاطر و عیار مشیروں کی مدد سے کچھ عر صہ حکومت توکی مگر ان کا انجام ہمیشہ خراب ہی ہوا۔ بکر ماجیت کے نورتن قبل مسیح میں بنائے گئے تھے ۔ اکبر بادشاہ نے بھی اسی طرح نورتن منتخب کئے تھے ۔ سکندر اعظم کا مشیر ارسطو اور چند رگپت موریہ کا چانکیہ جیسا فلسفی تھی۔ شیر شاہ سوری نے ہمایوں کو شکست دے کر مغلیہ حکومت کا خاتمہ کر دیا اور صر ف پانچ سال حکومت کی مگر آج بھی تاریخ اس کے نظام حکومت کی تعریف سے بھری پڑی ہے ۔ اس نے راجہ ٹوڈرمل کو مالیا ت کا مشیر لگایا تھا جس کی اصلاحا ت بے حد مفید ثابت ہوئیں ۔ شیر شاہ کے بعد جب دوبارہ مغلیہ حکومت قائم ہوئی اور اکبر حکمران بنا تو اس نے ٹوڈرمل کو تلاش کروایا اور اپنا وزیر مالیات لگا دیا اور دانشمندی کا ثبوت دیا۔ اس کا دور حکومت مغلیہ حکومت کا سنہری دور مانا جاتا ہے ۔ اورنگزیب نے اپنے دشمن ابو الحسن تانا شاہ والئی گولکنڈہ کے وزیر عبد الرزاق کو اپنے ساتھ ملانا چاہا مگر اس نے غداری اور بے وفائی کرنے سے انکار کر دیا ۔ اورنگزیب نے جب گولکنڈہ فتح کر لیا اور عبدالرازق بطور قیدی پیش ہوا تو اورنگزیب نے اسے عزت واحترام سے بٹھایااور اپنا وزیر بنا لیا۔ اس کی وفاداری اور عقل و فہم کی قدر کی ۔ فارسی کی کہاوت ہے ”قدر گوہر شاہ داندیا بداندجوہری “ یعنی ”موتی کی قدر یا بادشاہ جانتا ہے یا جوہری “اگر عام لوگوں کی زندگی پر دوستوں اور ساتھیوں کے کردار کے اثرات ہوتے ہیں لیکن ان کا اثر اجتماعی طور پر نہیں ہوتا لیکن اصحاب اقتدار اور حکمرانوں پر جو اثرات پڑتے ہیں وہ چند لوگوں پر نہیں پڑتے بلکہ پورے ملک و قوم پر بر سوں ان کے نقوش قائم رہتے ہیں۔ہمارے اپنے ہی ملک کی ماضی قریب کی تاریخ دیکھ لیجئے۔ بھٹو صاحب کو ان کے دو قسم کے مشیروں نے مروا دیا ۔ ایک نے صنعتوں اور تعلیمی اداروں کو قومیانے کا مشورہ دیا اور ملک کے دونوں شعبوں کو تباہ کر دیا اور دوسرے نے سیدھے سادے نظر آنے والے ضیاء الحق کو دوسروں کا حق مار کر آرمی چیف بنوا کر ان کے گلے میں پھانسی کا پھندا لگوا دیا۔ بعد میں بینظیر اور نواز شریف کے مشیروں نے ان کی حکومتوں کا تختہ الٹوا دیا۔ یہی حال غلام اسحق خان صاحب کا ہوا۔ ان کو غلط مشورے دے کر ایسے حالات پیدا کر دیے کہ ان کو استعفیٰ دیناپڑا ۔ تاریخ کو نظر انداز کر کے نواز شریف نے بھی بھٹو کی غلطی دہرائی اور مشرف کو سینئر لوگوں کو نظر انداز کر کے آرمی چیف بنا دیا۔ یہاں بھی مشیروں نے تباہ کن مشور ہ دیا۔ خدا نے جا ن تو بچا دی مگر نو سال کی اِذّیت ،قیدا ور جلاوطنی کا لطف اٹھا لیا۔ مشرف عقل کل بن گیا اور اس نے شوکت عزیز کے مشورے پر عدلیہ پر حملہ کیا اورذلیل و خوار ہوا۔ مشاہد حسین کے صحیح مشورہ کواس نے نظر انداز کیاکہ عدلیہ کو نہ چھیڑو اس طرح اس نے چوہدری شجاعت کی کوششوں اور نہایت مفید مشورہ کو نظر انداز کر کے لال مسجد میں قتل و غارت گر ی کر کے اپنا دامن داغدار بنا یا اور جہنم میں مستقل جگہ حاصل کر لی۔
دیکھئے مشورہ لینا ، سننا، سمجھنا اور اس پر عمل کرنا حاکم وقت کی ذمہ داری ہے۔ اس کی اچھا ئی ، برائی سمجھنے کے لئے دور اندیشی حاکم کا فعل ہے ۔ شیخ سعدی نے ایک منظوم قطعے میں دوست ،قابل اعتبار مشیر کی خوبیاں یوں بیان کی ہیں:
دوست مشمار آں کہ در نعمت زند
لاف یاری و برادر خواندگی
دوست آں باشد کہ گیر د دست دوست
در پریشاں حالی و درماندگی
یعنی ”اس کو دوست مت سمجھو جو خوشحالی میں دوستی جتا کر اچھی اچھی باتیں بناتا ہے دوست وہ ہوتا ہے جو پریشان حالی اور مصیبت میں دوست کا ہاتھ تھام لیتا ہے ۔ “ حقیقت یہ ہے کہ اچھے مشورے کو نہ ماناجائے تو وہ بھی انتہائی نقصان دہ ہے جیسے غلط مشوروں کو مان کر اس پر عمل کر نا ۔ بینظیر بھٹو کو غلط مشورے دینے والوں نے گاڑی سے سر نکال کرہاتھ ہلانے کو کہا اور وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ جس طرح صحیح مشورہ پرعمل کر نا رائے لینے والے کی ذمہ داری ہے اسی طرح مشورہ دینے والوں پر اخلاقی قانونی اور مذہبی ذمہ داری ہے کہ وہ مہلک اور ایذا رسانی کے مشورے نہ دیں ، روز حساب وہ بھی جوابدہ ہوں گے ۔ فارسی میں نصیحت کی گئی ہے کہ اگر کوئی انسان کسی کے مشورے کو مانتا ہے تو یہ بہت افسو س کی اور غلط بات ہو گی کہ مشورہ دینے والا نیک مشورہ نہ دے۔مذہبی اعتبار سے بھی امر بلالمعروف ونہی عن المنکر کا حکم ہے یعنی اچھی بات کے لئے تر غیب اور بری بات سے روکنا چاہئے ۔ مولانا رومی نے فرمایا ہے :
تاتوانی دور شو اَزیاربد
یار بد بدتر بُود ازماربد
یعنی جہاں تک ہو سکے برے دوست (مشیر )سے دور رہ کیونکہ بر ا دوست (مشیر) بر ے سانپ سے بھی بد تر ہوتا ہے۔ اس طرح ہم سب کا فرض ہے کہ اگر کوئی برائی یا خطرہ دیکھیں تو فوراََ دوسروں کواس سے آگاہ کر دیں۔
چوں مے بینی نابینا و چاہ است
اگر خاموش باشی گناہ است
یعنی جب تو دیکھے کہ کوئی نابینا کنواں نہیں دیکھ سکتا اور اس کی جانب جا رہا ہے اگر تو خاموش رہے تو یہ گناہ ہے۔ ہمارے ملک میں اس وقت عجب چوں چوں کا مربہ ہے یعنی حکمران طبقہ اندھوں کی طرح کنوئیں کی طرف روانہ ہے اور خود غرض مشیر اور دوست ان کو کنوؤں میں جنت کے باغات دکھا رہے ہیں اور بے چارے ہمدرد وطن پرست صحافی تجزیہ نگار دن رات ان کو ان کی غلطیوں کی طرف توجہ دلا رہے ہیں مگر صاحب کیا مجال کہ کان پر جوں رینگے ۔ ہم سب روز دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح عدالت عالیہ کے احکامات کی دھجیاں اُڑائی جا رہی ہیں اور یہ انہی زہریلے سانپوں سے بد تر مشیروں کے مشورے پر حکمران عمل کر رہے ہیں۔ ابھی کل ہی کی تو بات ہے نیب کے پر اسیکیوٹر جنرنل کو عدالت عالیہ نے برخاست کر دیا اور وہ جا کر دفتر میں بیٹھ کر ان احکامات کا مذاق اُڑاتا رہا۔ وزیر اعظم نے نہایت ہوشیاری سے حکم جاری کر دیا کہ عرفان قادر کی سہولتیں واپس لے لی جائیں۔ کیا ان میں اتنی عقل و فہم نہیں ہے کہ وہ بابر اعوان کو حکم دیتے یا رحمان ملک کو حکم دیتے کہ عرفان قادر کا دفتر سیل کر دو اور دفتر میں نہ گھسنے دو مگر اداکاری اور عیاری بھی تو کچھ چیز ہوتی ہے۔اس ڈرامہ میں صدر ، وزیر اعظم ، بابر اعوان کے شامل ہونے کی عام افواہیں ہیں۔
اگر حکمران طبقہ سمجھنے کی کوشش کرے (جو مجھے ناممکن ہی نظر آتا ہے ) تو قومی اور ملکی مفادات کو اپنے مفادات پر ترجیح دیں۔ خود غرض، چاپلوس ساتھیوں سے جان چھڑائیں اور خلق خدا کی بہتری کے قوانین اور عدلیہ کااحترام کریں اور خلق خدا کی نیک نیتی سے خدمت کریں اور اللہ تعالیٰ کے عتا ب سے ڈریں اور اس کے رحم کی التجا کریں۔ اگر انہوں نے وطیرہ نہ بد لا تو اپنے وعدے کے مطابق اللہ تعالیٰ ان کو ذلیل و خوار کر کے نکال دے گااور ان کی جگہ دوسروں کو بٹھا دے گا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 
Top