حضور اکرم ۖام المومنین سیدہ خدیجة الکبریٰ کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ جب لوگوں نے مجھ پر ایمان لانے سے انکار کیا تو وہ مجھ پر ایمان لائیں، جب لوگوں نے مجھے معاش سے محروم کر دیا تو انھوں نے مال سے میری مدد کی۔
مولانا مجیب الرحمن
سیدہ خدیجة الکبریٰ کو عورتوں میں سے سب سے پہلے حضور ۖ پر ایمان لانے اور حضور ۖکی پہلی بیوی ہونے کی سعادت بھی حاصل ہے، عمر میں بڑی ہونے کے باوجود حضورۖ نے آپ سے نکاح فرمایا اور آپ کی زندگی میں حضور ۖ نے کسی دوسری عورت سے نکاح نہیں فرمایا، آپ نے 25 پچیس برس نبی کریمۖ کی رفاقت و خدمت میں بیوی کی حیثیت سے گزارے اور اپنی تمام دولت آپۖ کے قدموں پر نچھاور کر دی۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ، حضرت خدیجة الکبریٰ کے بارے میں فرماتی ہیں کہ حضور اکرمۖ نے ان کو جنت کے ایک ایسے گھر کی خوشخبری سنائی جو تازہ آبدار مراویدیاز برجد (موتی) کا ہو گا جس میں شور ہو گا اور نہ ہی رنج و ملال۔
سیدہ خدیجة الکبریٰ حسنِ سیرت، اعلیٰ اخلاق، بلند کردار، عزت و عصمت اور شرافت و مرتبہ کی وجہ سے مکہ مکرمہ اور اردگرد کے علاقوں میں ''طاہرہ'' کے خوبصورت اور پاکیزہ لقب سے مشہور تھیں، آپ کا سلسلہ نسب ''قصی'' پر پہنچ کر حضورۖ کے خاندان سے مل جاتا ہے۔
حضرت خدیجة الکبریٰ کے والد خویلد کا شمار مکہ کے امیر ترین لوگوں میں ہوتا تھا جو کہ بہت بڑے اور کامیاب تاجر تھے، عام روایت کے مطابق حضرت خدیجة الکبریٰ ''عام الفیل'' سے پندرہ برس قبل مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں تھیں، آپ کی تربیت و پرورش انتہائی نازو نعم میں ہوئی۔
آپ کے اعلیٰ اخلاق، بلند کردار، دولت و شرافت اور عزت کی وجہ سے قریش کے بڑے بڑے سرداروں نے آپ کو کئی بار نکاح کا پیغام بھیجا لیکن آپ نے بڑی حکمت اور خاموشی سے رد کر دیا۔ آپ کے پاس مال و دولت اور سامان تجارت کی کثرت تھی، آپ خود لکھنا پڑھنا جانتی تھیں جس کی وجہ سے اپنے کاروبار اور سامان تجارت کی خود نگرانی کیا کرتی تھیں جس کی وجہ سے آپ کا تجارتی کاروبار شام اور یمن تک پہنچ گیا تھا، آپ کا تجارتی قافلہ سب سے بڑا ہوتا تھا اور آپ اپنا سامانِ تجارت مختلف لوگوں کے ذریعہ شام اور یمن تجارت کی غرض سے بھیجا کرتی تھیں، آپ کے تجارتی قافلوں کی نگرانی آپ کے قابل اعتماد اور معاملہ فہم غلام میسرہ کے سپرد تھی۔ ابن ہشام اور دیگر روایات کے مطابق ایک روز آپ کے غلام میسرہ نے آپ سے حضرت محمد ۖکی امانت و دیانت، شرافت اور عالی نسب کا ذکر کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ اس مرتبہ تجارتی قافلہ کا نگران اور شریک حضرت محمد ۖبن عبد اللہ کو بنا کر بھیجا جائے۔ اس دوران آپۖ دیانت دار تاجر کی حیثیت سے مشہور تھے اور آپۖ صادق اور امین کے لقب سے پکارے جاتے تھے۔ حضرت خدیجة الکبریٰ نے مشورہ مانتے ہوئے میسرہ کو حضورۖسے بات چیت کرنے کیلئے کہا 'حضورۖ نے اپنے چچا اور سرپرست ابو طالب کے مشورہ سے سیدہ خدیجة الکبریٰ کی اس پیشکش کو قبول کرلیا اورحضرت خدیجة الکبریٰ کے غلام میسرہ کے ہمراہ تجارتی قافلہ کو لے کر شام کے سفر پر روانہ ہو گئے۔دو ماہ بعد جب تجارتی قافلہ واپس آیا تو حضرت خدیجة الکبریٰ کے غلام میسرہ نے شام کے تجارتی قافلہ اور سفر کے حالات و واقعات بیان کرتے ہوئے حضور ۖ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ میں کافی عرصہ سے آپ کی خدمت میں ہوں اس دوران ہر طرح کے لوگوں کے ساتھ میرا واسطہ پڑا لیکن محمدۖ بن عبد اللہ کی رفاقت میں جو کچھ میں نے دیکھا وہ عجیب تر ہے، میں نے محمدۖ بن عبد اللہ کو مشکلات میں بلند حوصلہ، مصائب میں پرسکون، ہجوم میں باوقار اور خرید و فروخت میں انتہائی ذہین و فہیم اور دور اندیش دیکھا ہے، وہ بردبار اور متحمل مزاج نوجوان ہیں ان کی خاموشی میں وقار اور گفتگو میں دلکشی ہے، ان کے منہ سے کوئی فضول بات نہیں نکلتی، لوگ اگر ان کو صادق و امین کہتے ہیں تو وہ اس حقیقت کا برملا اعتراف کرتے ہیں' ان کے موتی جیسے دانتوں سے نور کی شعاعیں نکلتی ہیں، ان کی سوچ بہت وسیع اور کردار میں تنہا و یکتا' وہ لاکھوں میں ایک اوراپنی مثال آپ ہیں آپ تجارت ان کے سپرد کر دیں بس کاروبار چمک اٹھے گا۔ دوسرے روز حضورۖ نے شام کے تجارتی سفر کا حساب کتاب پیش کیا، اس دفعہ حضرت خدیجة الکبرٰی کو توقع سے بڑھ کر نفع ہوا تھا۔
کاروبار تجارت میں حضور ۖکی دیانت و امانت اور آپ ۖ کی سچائی نے حضرت سیدہ خدیجة الکبرٰی کو بہت متاثر کیا۔ حضرت سیدہ خدیجة الکبرٰی نے اپنی عزیز ترین سہیلی نفیسہ کے ذریعہ حضورۖکو نکاح کا پیغام بھیجا، حضور ۖ نے اپنے چچا اور سرپرست ابو طالب کی اجازت و رضا مندی کے بعد نکاح کے اس پیغام کو قبول کیا۔
مقررہ تاریخ پر آپ ۖکے چچا ابو طالب نے ملت ابراہیمی کے مطابق آپ ۖ کا نکاح پڑھایا۔ نکاح کے وقت حضور ۖ کی عمر مبارک 25 پچیس برس اور حضرت سیدہ خدیجة الکبرٰی کی عمر 40 چالیس برس تھی، ابن سعد نے مہر کی رقم پانچ سو درہم بتائی ہے جبکہ ابن ہشام نے بیس اونٹنیوں کا ذکر کیا ہے۔ دعوت ولیمہ میں گوشت اور روٹی کا انتظام تھا۔
جب حضور ۖکی عمر مبارک 39 برس سے زائد ہو گئی تو حضورۖ مکہ مکرمہ سے اڑھائی میل دور غار حرا میں عبادت کے لئے تشریف لے جاتے' ابن ہشام کی ایک روایت کے مطابق حضرت سیدہ خدیجة الکبرٰی بھی کبھی کبھی آپۖ کے ساتھ وہاں عبادت کے لئے جایا کرتی تھیں۔
غار حرا میں آپۖ پر وحی کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور آپۖ نبوت و رسالت کے اعلیٰ منصب پر فائز ہو جاتے ہیں اور دعوت و تبلیغ کا سلسلہ شروع فرماتے ہیں۔ دوسری طرف کفار نے حضور ۖ اور آپ ۖپر ایمان لانے والے صحابہ کرام کو مختلف انداز میں ستانا اور تکلیفیں دینے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ شعب ابی طالب میں تین سال کا عرصہ مسلمانوں نے انتہائی دکھ، تکلیفوں، اذیتوں اور مصیبتوں میں گزارا۔ ان قیامت خیز لمحات اور آزمائش کی گھڑیوں میں ام المومنین سیدہ خدیجة الکبرٰی نے بھی بڑے صبرواستقامت کا مظاہرہ کیا اور ہر ممکن حضور ۖ کی خدمت اور آرام کا خیال کیا۔ تفکرات کے ہجوم کی وجہ سے ام المومنین سیدہ خدیجة الکبرٰی کی طبیعت خراب رہنے لگی۔ حضور ۖ کے چچا ابو طالب کی وفات کے چند روز بعد ہی آپۖ پر سب سے پہلے ایمان لانے والی خاتون اور رفیقہ حیات سیدہ خدیجہ 25 پچیس برس گزارنے کے بعد 10 رمضان المبارک کو 65 برس کی عمر میں وفات پا گئیں۔ حضوراکرمۖ نے خود قبر میں اُتر کر سیدہ خدیجة الکبرٰی کو دفن فرمایا اور ہمیشہ ان کو یاد کر کے آبدیدہ ہو جایا کرتے تھے۔ آپ ۖچچا ابو طالب کی وفات کے بعد رفیقہ حیات سیدہ خدیجة الکبرٰی کی جدائی کے باعث غمگین رہنے لگے حضور اکرمۖ نے اس سال کو ''عام الحزن (غم کا سال) قرار دیا