فتح بیت المقدس 16 ھ مطابق 637 ء کے بعد جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ معہ افسران فوج و عمال شہر میں داخل ہوئے اور کئی دن تک قیام کیا تو حضرت بلالؓ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موذن) نے یہ دیکھ کر کہ افسر تو گوشت اور میدہ کی روٹیاں کھاتے ہیں اور عام سپاہیوں کو معمولی کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا، حضرت عمرؓ سے شکایت کی، چونکہ افسران فوج سامنے تھے، آپ نے نگاہ غضب سے ان کی طرف دیکھا۔ انہوں نے عرض کیا جتنی قیمت پر حجاز میں روٹی اور کھجور ملتی ہے، یہاں اسی قیمت پر پرندے کا گوشت اور میدہ ملتا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس معقول جواب پر زیادہ گفت و شنید مناسب نہ سمجھی، لیکن یہ حکم دیدیا کہ ہر سپاہی کو علاوہ تنخواہ اور مال غنیمت کے کھانا بھی پکا پکایا ملا کرے۔
فتح اسکندریہ 21ھ کی خبر لیکر جب ایک قاصد مدینہ آیا تو اس نے اس خیال سے کہ دوپہر کا وقت ہے، امیر المومنین آرام فرما رہے ہوں گے، ذرا دم لینے کیلئے بارگاہ خلافت کے بجائے مسجد نبوی کا رخ کیا۔ اتفاق سے حضرت عمرؓ کی ایک لونڈی بھی وہاں آنکلی۔ باتوں باتوں میں جب معلوم ہوا کہ وہ اسکندریہ سے آیا ہے۔ اس نے اسی وقت جا کے خبر کی اور ساتھ ہی واپس آئی کہ چلو تم کو امیر المومنینؓ بلاتے ہیں۔
حضرت عمرؓ نے فتح کا حال سن کر سجدہ شکر ادا کیا اور جو حاضر تھا مہمان کے آگے رکھا اور کہا تم سیدھے یہاں کیوں نہ چلے آئے۔
قاصد (معاویہ ابن خدیج) نے کہا۔ میں نے خیال کیا کہ یہ آرام کا وقت ہے، شاید آپ سوتے ہوں۔ فرمایا افسوس تمہارا میری نسبت یہ خیال ہے، میں دن کو سوئوں گا تو خلافت کا بار کون سنبھالے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمانوں کے خلیفہ تھے، لیکن اپنے طریق عمل سے انہوں نے متعدد مواقع پر ظاہر کر دیا تھا کہ حکومت کے لحاظ سے ان کی کیا حیثیت ہے اور ان کے کیا اختیارات ہیں۔ ایک موقع پر انہوں نے اسی تعلق سے ایک تقریر کی، جس کے بعض فقرے حسب ذیل ہیں:
’’مجھ کو تمہارے مال (یعنی بیت المال) میں اسی قدر حق تصرف ہے جس قدر یتیم کے مربی کو یتیم کے مال میں۔ اگر میں دولت مند ہوں تو میں کچھ نہ لوں گا اور اگر ضرورت پڑے تو دستور کے مطابق کھانے کیلئے لوں گا، تمہارا حق ہے کہ میرا مواخذہ کرو۔ فتح بیت المقدس کے بعد جب حضرت عمرؓ شہر کے قریب اور حضرت ابو عبیدہؓ اور سرداران فوج استقبال کو نکلے تو دیکھا کہ مسلمانوں کا بادشاہ جن کے نام کے غلغلہ سے روم و شام کانپ رہے تھے، بالکل معمولی لباس پہنے یا پیادہ آرہے ہیں تو ان کو محض اس خیال سے شرم معلوم ہوئی کہ ہمارے بادشاہ کو دیکھ کر عیسائی اپنے دل میںکیا کہیں گے۔ چنانچہ ایک اعلیٰ ترکی گھوڑا اور قیمتی پوشاک حاضر کی گئی۔ آپ نے فرمایا:
’’خدا نے ہم کو جو عزت دی ہے، وہ صرف اسلام کی وجہ سے دی ہے اور وہی عزت ہمارے لئے کافی ہے۔‘‘
حضرت عمرؓ کے زمانے میں صاحب استطاعت کسی خدمت کے معاوضے میں تنخواہ لینا پسند نہیں کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں اس خیال سے کہ یہ امر تمدن اور اصول انتظام کیخلاف ہے، ذمہ دار افسروں کی بیش قرار تنخواہیں مقرر کیں تاکہ ان کو بد دیانتی یا لوٹ مار کی گنجائش نہ رہے تاہم کسی ایسے خدا کے بندے تھے جنہوں نے محض خدا کی خاطر کسی کا حق الخدمت لینے سے انکار کر دیا اور آخر دم تک اپنا دامن آلودہ نہ ہونے دیا۔
حضرت ابو عبیدہؓ سپہ سالار نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بار بار کے اصرار اور آخر میں ان کی ناراضی کے خوف سے اپنی رضا مندی ظاہر کی، لیکن حکیم بن حزامؓ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بار بار اصرار پر بھی کچھ لینا گوارا نہ کیا۔
آپؓ کے دور میں جو عامل مقرر ہوتا تھا، اس کو ایک فرمان ملتا تھا، جس میں اس کی تقرری و اختیارات کے علاوہ اس کے فرائض کا بھی ذکر ہوتا تھا اور عامل کا فرض تھا کہ اپنے ہیڈ کوارٹر پر تمام لوگوں کو جمع کرکے فرمان سنائے تاکہ لوگ اس کے فرائض سے بھی آگاہ ہو جائیں اور جب وہ اپنے اختیارات کی حد سے آگے قدم رکھے تو اس کو روک دیا جائے۔
ایک خطبہ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عاملوں کو خطاب کر کے کہا:
’’میں نے تم لوگوں کو رعایا پر سخت گیر حاکم بناکر نہیں بھیجا، بلکہ امام بناکر بھیجا ہے تاکہ لوگ تمہاری تقلید کریں۔ تم ان کے حقوق ادا کرو اور ان کو ذلیل نہ کرو اور ان کی بیجا تعریف سے ان کو غلطی میں نہ ڈالو، ان کیلئے اپنے دروازے بند نہ رکھو (حضرت عمر ؓ کا حکم تھا کہ کوئی گورنر یا والی یا دوسرا حاکم اپنے دربان نہ رکھے) ورنہ زبردست کمزوروں کو کھا جائیں گے، اپنے آپ کو کسی بات میں ان سے ترجیح نہ دو کہ یہ ان پر سراسر ظلم ہے۔‘‘
ایک مرتبہ فرمایا:
’’جو لوگ ہمارے قریب ہیں، ان کے معاملات تو ہم خود انجام دیں گے، لیکن جو لوگ دور رہتے ہیں، ان پر اہل قوت اور اہل امانت کو مقرر کرکے بھیجیں گے جو اچھے طریقے پر چلے گا، اس کے ساتھ ہم بھی اچھا سلوک کریں گے اور جو بے انصافی کرے گا ہم اسے سزا دیں گے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس معقول جواب پر زیادہ گفت و شنید مناسب نہ سمجھی، لیکن یہ حکم دیدیا کہ ہر سپاہی کو علاوہ تنخواہ اور مال غنیمت کے کھانا بھی پکا پکایا ملا کرے۔
فتح اسکندریہ 21ھ کی خبر لیکر جب ایک قاصد مدینہ آیا تو اس نے اس خیال سے کہ دوپہر کا وقت ہے، امیر المومنین آرام فرما رہے ہوں گے، ذرا دم لینے کیلئے بارگاہ خلافت کے بجائے مسجد نبوی کا رخ کیا۔ اتفاق سے حضرت عمرؓ کی ایک لونڈی بھی وہاں آنکلی۔ باتوں باتوں میں جب معلوم ہوا کہ وہ اسکندریہ سے آیا ہے۔ اس نے اسی وقت جا کے خبر کی اور ساتھ ہی واپس آئی کہ چلو تم کو امیر المومنینؓ بلاتے ہیں۔
حضرت عمرؓ نے فتح کا حال سن کر سجدہ شکر ادا کیا اور جو حاضر تھا مہمان کے آگے رکھا اور کہا تم سیدھے یہاں کیوں نہ چلے آئے۔
قاصد (معاویہ ابن خدیج) نے کہا۔ میں نے خیال کیا کہ یہ آرام کا وقت ہے، شاید آپ سوتے ہوں۔ فرمایا افسوس تمہارا میری نسبت یہ خیال ہے، میں دن کو سوئوں گا تو خلافت کا بار کون سنبھالے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمانوں کے خلیفہ تھے، لیکن اپنے طریق عمل سے انہوں نے متعدد مواقع پر ظاہر کر دیا تھا کہ حکومت کے لحاظ سے ان کی کیا حیثیت ہے اور ان کے کیا اختیارات ہیں۔ ایک موقع پر انہوں نے اسی تعلق سے ایک تقریر کی، جس کے بعض فقرے حسب ذیل ہیں:
’’مجھ کو تمہارے مال (یعنی بیت المال) میں اسی قدر حق تصرف ہے جس قدر یتیم کے مربی کو یتیم کے مال میں۔ اگر میں دولت مند ہوں تو میں کچھ نہ لوں گا اور اگر ضرورت پڑے تو دستور کے مطابق کھانے کیلئے لوں گا، تمہارا حق ہے کہ میرا مواخذہ کرو۔ فتح بیت المقدس کے بعد جب حضرت عمرؓ شہر کے قریب اور حضرت ابو عبیدہؓ اور سرداران فوج استقبال کو نکلے تو دیکھا کہ مسلمانوں کا بادشاہ جن کے نام کے غلغلہ سے روم و شام کانپ رہے تھے، بالکل معمولی لباس پہنے یا پیادہ آرہے ہیں تو ان کو محض اس خیال سے شرم معلوم ہوئی کہ ہمارے بادشاہ کو دیکھ کر عیسائی اپنے دل میںکیا کہیں گے۔ چنانچہ ایک اعلیٰ ترکی گھوڑا اور قیمتی پوشاک حاضر کی گئی۔ آپ نے فرمایا:
’’خدا نے ہم کو جو عزت دی ہے، وہ صرف اسلام کی وجہ سے دی ہے اور وہی عزت ہمارے لئے کافی ہے۔‘‘
حضرت عمرؓ کے زمانے میں صاحب استطاعت کسی خدمت کے معاوضے میں تنخواہ لینا پسند نہیں کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں اس خیال سے کہ یہ امر تمدن اور اصول انتظام کیخلاف ہے، ذمہ دار افسروں کی بیش قرار تنخواہیں مقرر کیں تاکہ ان کو بد دیانتی یا لوٹ مار کی گنجائش نہ رہے تاہم کسی ایسے خدا کے بندے تھے جنہوں نے محض خدا کی خاطر کسی کا حق الخدمت لینے سے انکار کر دیا اور آخر دم تک اپنا دامن آلودہ نہ ہونے دیا۔
حضرت ابو عبیدہؓ سپہ سالار نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بار بار کے اصرار اور آخر میں ان کی ناراضی کے خوف سے اپنی رضا مندی ظاہر کی، لیکن حکیم بن حزامؓ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بار بار اصرار پر بھی کچھ لینا گوارا نہ کیا۔
آپؓ کے دور میں جو عامل مقرر ہوتا تھا، اس کو ایک فرمان ملتا تھا، جس میں اس کی تقرری و اختیارات کے علاوہ اس کے فرائض کا بھی ذکر ہوتا تھا اور عامل کا فرض تھا کہ اپنے ہیڈ کوارٹر پر تمام لوگوں کو جمع کرکے فرمان سنائے تاکہ لوگ اس کے فرائض سے بھی آگاہ ہو جائیں اور جب وہ اپنے اختیارات کی حد سے آگے قدم رکھے تو اس کو روک دیا جائے۔
ایک خطبہ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عاملوں کو خطاب کر کے کہا:
’’میں نے تم لوگوں کو رعایا پر سخت گیر حاکم بناکر نہیں بھیجا، بلکہ امام بناکر بھیجا ہے تاکہ لوگ تمہاری تقلید کریں۔ تم ان کے حقوق ادا کرو اور ان کو ذلیل نہ کرو اور ان کی بیجا تعریف سے ان کو غلطی میں نہ ڈالو، ان کیلئے اپنے دروازے بند نہ رکھو (حضرت عمر ؓ کا حکم تھا کہ کوئی گورنر یا والی یا دوسرا حاکم اپنے دربان نہ رکھے) ورنہ زبردست کمزوروں کو کھا جائیں گے، اپنے آپ کو کسی بات میں ان سے ترجیح نہ دو کہ یہ ان پر سراسر ظلم ہے۔‘‘
ایک مرتبہ فرمایا:
’’جو لوگ ہمارے قریب ہیں، ان کے معاملات تو ہم خود انجام دیں گے، لیکن جو لوگ دور رہتے ہیں، ان پر اہل قوت اور اہل امانت کو مقرر کرکے بھیجیں گے جو اچھے طریقے پر چلے گا، اس کے ساتھ ہم بھی اچھا سلوک کریں گے اور جو بے انصافی کرے گا ہم اسے سزا دیں گے۔