بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد اللہ رب العالمین والصلوة والسلام علی خاتم النبین صلیٰ اللہ علیہ وسلم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ !الحمد اللہ رب العالمین والصلوة والسلام علی خاتم النبین صلیٰ اللہ علیہ وسلم
محترم قارئین کرام !
مسئلہ علم غیب کے حوالے سے کافی عرصہ مختلف فورم پر مختلف حضرات سے ہماری بات چیت ہوئی ....جس کے بعدہم نے اس بات چیت کا خلاصہ نکال کر ایک مضمون ترتیب دیا اور پھر اپنا یہ مضمون بریلوی حضرات کی ایک بڑی فورم پر شئیر کیا۔
جہاں ہماری مختلف حضرات سے بات چیت چلتی رہی ۔
ہم نے اپنی تمام بات چیت کچھ غلطیوں کے درستگی بمعہ مخالفین کے دلائل اور اُن کے جوابات کے ساتھ ہم یہ نیا تھریڈ ترتیب دے رہے ہیں ۔۔۔۔ جس میں ہم کوشش کریں گے کہ مخالفین کی طرف سے کئے گئے زیادہ سے زیادہ اعتراضات اور سوالات کے مختصرا جوابات کو آسان الفاظ میں ترتیب دیں تاکہ عام قارئین کرام کو مسئلہ سمجھنے میں آسانی رہے ۔
ہم ساتھ یہ بھی واضح کرتے چلیں کہ ہمارے مضمون میں بیشتر تحقیق امام اہلسنت مولانا سرفراز خان صفدر رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب ’’ازالۃ الریب‘‘ سے لیں گئیں ہیں ۔
اور اسی طرح ہم نے احادیث پاک کے متون ، تفاسیر کے حوالاجات اور دیگر حوالاجات کے لئے بھی براہ راست کتب سے مدد نہیں لی بلکہ زیادہ تر اپنے علماء کرام کی کتب سے حوالاجات لئے گئے ہیں (جنہوں نے اپنی کتب میں واضح کیا ہے کہ انہوں نے براہ راست کتب سے حوالاجات لئے ہیں) ۔۔۔۔۔ البتہ کئی مقامات پر ہم نے تحقیق کی غرض سے براہ راست کتب سے بھی مدد لی ہے ۔
لہذا ہمارے مضمون میں پیش کردہ حوالاجات ممکن ہے کہ پرانے ایڈشن ہونے کی وجہ سے مذکورہ صفحات نمبرز پر نئے ایڈشن میں نہ مل پائیں ۔۔۔۔ البتہ کسی ممبر کو کسی اسکین پیج کی ضرورت محسوس ہوگی تو ہم ان شاء اللہ تعالیٰ مطلوبہ حوالہ مہیا کرنے کی پوری کوشش کریں گے ۔
نیز یہ بھی واضح رہے کہ جن مقامات پر ہم نے اپنے علماء کی پیش کردہ تحقیق کو نقل کیا ہے ۔۔۔۔ اُن میں کئی مقامات پر تو ہم نے لفظ بہ لفظ تحقیق پیش کی ہے جبکہ کئی مقامات ایسے بھی ہیں جہاں موقع محل کے اعتبار سے کچھ ردوبدل کے ساتھ اپنے الفاظوں میں بھی تحقیق ترتیب دی ہے۔
لہذا بشری تقاضے کے پیش نظر کسی بھی مقام پر ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی کمی کوتاہی نظر آئے تو اہل علم حضرات سے خصوصی طور پر اور دیگر قارئین کرام سے عمومی طور پر نشادہی کی درخواست ہے تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں ۔جزاک اللہ
اللہ تعالیٰ نے اطلاع علی الغیب ،انبا ءالغیب اور اظہار الغیب کے ذریعہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو جتنے علوم سے نوازا وہ اللہ کی مخلوق میں کسی کو بھی عطاءنہیں،اور فوق کل ذی علم علیم کے مصداق آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ہی ہیں ۔۔۔۔ لیکن اس کے باوجود نہ تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم عالم الغیب ہیں ،نہ تو کلی علم غیب پر مطلع ہیں ۔
قرآن اور حدیث میں متعدد مقامات پر یہ مسئلہ صراحت سے واضح ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو کلی علم غیب نہ تھا ۔
اور ساتھ ہی اس کی تائید میں حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین،حضرات تابعین کرام ،تبع تابعین کرام ،محدثین کرام ،مفسرین کرام ،فقہائے کرام رحمھم اللہ کے واضح اور صاف صاف اقوال بھی موجود ہیں ۔
لیکن ان تما م ٹھوس حقائق کے باوجود ایک مخصوص طبقہ کا دعویٰ ہے کہ ”جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کوابتدائے آفرنیش سے الی یوم القیامةاور پھر دخول جنت اور جہنم تک کے کلی علم غیب(یعنی شروع سے لے کر آخر تک ذرے ذرے کا علم) عطا ءکیا گیا“
باالفاظ دیگر ۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ نے جب سے اس کائنات کو پیدا فرمایا اورزمین اور آسمان بنایا اس وقت سے لے کر۔۔۔۔۔ کائنات کے اختتام تک ۔۔۔۔ یعنی جب قیامت آجائے گی اور زمین اور آسمان ختم ہوجائیں گے ۔۔۔۔ اس وقت تک زمین اور آسمان میں جو کچھ ہوچکا ہے اور جو کچھ ہونے والاہے۔۔۔۔ اور جو کچھ زمین اور آسمان میں ہے۔۔۔۔چاہے وہ زمین میں انٹارکٹیکا کا انتہائی برفانی علاقہ ہو(اور انتہائی برفانی علاقے میں موجود کوئی معمولی سا برف کا ذرہ ہویا کوئی مخلوق ہو)۔۔۔۔یا افریقہ کے انتہائی گھنے جنگلات ہوں (اور ان گھنے جنگلات کے کسی بھی کونے میں باریک سے باریک کوئی کیڑا ہو)۔۔۔ ۔۔یا عرب کے وسیع و عریض صحرا ہوں(اور ان صحرا کے کسی کونے میں پڑا معمولی سا ریت کا ذرہ ہویا کوئی مخلوق ہو)۔۔۔۔۔۔ یا دنیا کے ہزاروںمیل پھیلے ہوئے طویل سمندر ہوں(اور ان وسیع اور عریض سمندر کے بیچ پانی کا معمولی سا قطرہ ہو یا بیچ سمندر کوئی بھی مخلوق ہو)۔۔۔۔۔۔یا سمندر کی انتہائی گہرائیاں ہوں(اور ان انتہائی گہرائیوں میں کوئی چھوٹی سی چھوٹی مخلوق ہو)۔۔۔۔۔یا زمین کی انتہائی گہرائیاں ہوں(اور ان گہرائیوں میں موجود ایسی باریک مخلوق ہو جن کو انسانی آنکھ بھی نہ دیکھ سکے )۔۔۔۔۔یا آسمانوں کی ہزاروں سال کی مسافت دور آسمانوں میں جتنی بھی مخلوقات ہیں حتی کہ ذرہ برابر کی بھی کوئی بھی مخلوق ہو۔۔۔۔ان تمام ذرے ذروں کا علم عطاءکیا گیا؟؟؟
ہوسکتا ہے ہماری یہ بات اس مخصوص طبقہ کے بہت سے پیرو کاروں کے لئے بھی حیرت انگیز انکشاف لگے .... لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس مخصوص طبقہ کے اکابرین اپنے دلائل سے یہی کچھ ثابت کرنا چاہتے ہیں... جس کی تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی
آئیے ہم اپنے موضوع کی طرف چلتے ہیں
فریق مخالف بھی بظاہر اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ”عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہے “
لیکن دوسری طرف یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم ابتدائے آفرینش سے لے کر الی یوم القیامتہ اور اس کے بعد دخول جنت اور نار تک کے ذرے ذرے کا علم غیب جانتے ہیں“
یعنی فریق مخالف نے ایک طرف یہ عقیدہ بیان کیا کہ ”غیب کا جاننے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے “دوسری طرف ”نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو بھی غیب کا جاننے والا مانا“
اور اس عقیدے کے مخالفین کے اعتراضات اور اپنے پیرو کاروں کے ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات اور شک و شبہات کو دور کرنے کے لئے کیا کیا جتن کرتے ہیں اس کی مختصر تفصیل حاضر ہے ۔
(1) غیب کا جاننا ثابت کرنے کے لئے قرآن پاک سے غیب کے اثبات میں آیات مبارکہ پیش فرمائیں اور موقف پیش کیا کہ غیب عطا ءکیا گیا۔
(2)غیب جاننے کی نفی کی آیات مبارکہ اور احادیث پاک کے جواب میں یہ دلیل پیش کی کہ مراد ذاتی غیب کی نفی ہے نہ کہ عطائی غیب کی نفی ہے ۔
پھر جب فریق مخالف کا یہ موقف سامنے آیا کہہ” نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم ابتدائے آفرینش سے الی یوم القیامتہ کے ذرے ذرے کا کلی علم غیب جانتے ہیں“
تو اس موقعہ پر بے شمار سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ۔
سب سے پہلا سوال تو یہ تھا کہ قرآن پاک سے کیا دلیل ہے کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم ذرے ذرے کا کلی علم غیب جانتے ہیں؟
(3)فریق مخالف نے ایک طرف یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ قرآن پاک میں ہر ہر ذرے ذرے کا مفصل بیان موجود ہے اور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کوتدریجاً علم غیب عطا ءفرمایا گیا اور جس وقت قرآن کی آخری آیت نازل ہوئی آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا علم مکمل ہوگیا تھا( اس دلیل سے نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم ذرے ذرے کا کلی علم غیب جانتے ہیں )
اس کے ساتھ ہی فریق مخالف کے سامنے یہ مسئلہ بھی آیا کہ قرآن پاک میں جن مواقع پر” ہر چیز کا روشن بیان “یا”ذرہ ذرہ چیزکا روشن بیان “یا”سب کچھ بیان فرمادیا“یا”ہرخشک اور تر کابیان“ کے ارشادات میں لوح محفوظ کا بھی بیان ہے۔
(4)تو فریق مخالف نے موقف پیش کیا کہ جو کچھ لوح محفوظ میں لکھا ہے وہ سب کچھ قرآن پاک میں موجودہے۔(تاکہ فریق مخالف اپنے موقف کا دفاع کرسکے کہ قرآن پاک میں ہر ہر ذرے کا روشن اور مفصل بیان ہے اور قرآن پاک میں ذرے ذرے کی تفصیل موجود ہے)
(5)کہیں حدیث پاک سے استدلال کی کوشش کی گئی کہ ”ایک ہی خطبہ میں نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ابتدائے آفرینش سے لے کر الی یوم القیامتہ کے ذرے ذرے کا بیان فرمایا“ (اس دلیل سے نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم ذرے ذرے کاکلی علم غیب جانتے ہیں )
(6) کہیں حدیث پاک ”ف تجلیٰ لی کل شئی وعرفت“ سے استدلال کیا گیا کہ زمین اور آسمان کی ہر چیز روشن ہوگئی (اس دلیل سے نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم ذرے ذرے کاکلی علم غیب جانتے ہیں )
(7) کہیں حدیث پاک ”سلونی عما شئتم “سے استدلال کی گیا کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہوا ” جو چاہو پوچھ لو“(اس دلیل سے نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم ذرے ذرے کاکلی علم غیب جانتے ہیں )
اس موضوع پر اگر کوئی دلیل نہ بھی پیش کی جائے اور صرف فریق مخالف کے دلائل کے یہ مختلف مختلف ٹکڑے پیش کئے جائیں کہ فریق مخالف نے کس طرح ”کلی علم غیب جاننے“ کے اپنے موقف کو درست ثابت کرنے کے لئے کتنے جتن کئے ہیں ؟
تو”حق “اور ”باطل “میں تمیز کرنے کے لئے یہی بات کافی ہے کہ زمینوں اور آسمانوں کے ذرے ذرے کا کلی غیب ثابت کرنے کے لئے مختلف مختلف باتوں کو جوڑ جوڑ کر اپنا موقف درست نہیں ثابت کیا جاتا
بلکہ ملاحظہ فرمائیں کہ زمینوں اور آسمانوں کا کلی غیب جاننے کا بیان قرآن پاک میں کتنے مختصر الفاظ ،سادہ ،جامع اور وضاحت والا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(لَهُ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ أَبْصِرْ بِهِ وَأَسْمِعْ الخ الکھف 26 پارہ 15
(ترجمہ:اسی کو معلوم ہیں سب غیب(چھپی باتیں) آسمانوں کی اور زمین کی ،کیا خوب ہے وہ دیکھنے والااور سننے ولا)
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں علامہ جلال الدین محلی(المتوفی 864ھ)اور علامہ ابو السعود محمد بن محمد العمادی(المتوفی 982ھ)اورعلامہ نسفی اور علامہ خازن لکھتے ہیں:(ترجمہ:اسی کو معلوم ہیں سب غیب(چھپی باتیں) آسمانوں کی اور زمین کی ،کیا خوب ہے وہ دیکھنے والااور سننے ولا)
”یعنی اللہ تعالیٰ پر آسمان و زمین کے باشندوں کے حالات سے کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے ،اور بس وہ تنہا ان کو جاننے ولا ہے“
(تفسیرجلالین ص 184)(ابو السعود ج 6 ص 58)(تفسیر مدارک ج 3 ص 9 )(تفسیرخازن ج 6 ص 169)اور جب فریق مخالف کے سامنے سب سے اہم سوال سامنے آیا۔۔۔۔جس سے فریق مخالف کے پیروکاروں کو بھی سوچنے پر مجبور کیا کہ کہیں ہم غلطی پر تو نہیں ؟
یعنی فریق مخالف اور اس کے پیروکار بھی تسلیم کرتے ہیں کہ زمین اور آسمانوں کے ذرے ذرے غیب صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور صرف اللہ تعالیٰ ہی عالم الغیب ہے اور فریق مخالف نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی ذرے ذرے غیب کا علم ثابت کرتا ہے ۔تو یہ علم الٰہی کی برابری ہے؟
ملاحظہ فرمائیں کہ فریق مخالف نے کس طرح اپنے پیروکاروں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ؟
(8)فریق مخالف نے دلیل پیش کی کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے علم کو علم الہٰی سے کوئی نسبت نہیں۔کلی علم غیب کا مطلب یہ نہیں کہ جو اللہ تعالیٰ کا علم ہے وہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو سب حاصل ہے ۔بلکہ مخلوقات اور لوح محفوظ کے کل علوم حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہیں ،اور اللہ تعالیٰ کاعلم لوح محفوظ پر منحصر نہیں ہے بلکہ کروڑوں الوح بھی اللہ تعالیٰ کے علوم غیر متناہیہ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔“
یعنی ایک طرف نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب (عملی اعتبار سے۔۔۔۔۔جبکہ لفظی اطلاق کو یہ حضرات بھی درست نہیں سمجھتے) بھی ثابت کیا گیا اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے علوم لامتناہیہ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے موقف کا دفاع بھی کرنے کی کوشش کی گئی کہ فریق مخالف اللہ تعالیٰ کے کل علوم نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے لئے ثابت نہیں کرتے اس لئے نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے لئے ذرے ذرے کاکلی علم غیب ثابت کرنے سے برابری نہیں ۔
(9)اوراسی طرح فریق مخالف نے اللہ تعالیٰ کے علوم لامتناہیہ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے پیروکاروں کے سامنے یہ موقف پیش کیا کہ ہم بھی صرف اللہ تعالیٰ کو عالم الغیب مانتے ہیں“
(10)اور فریق مخالف نے اپنے پیروکاروں کے ذہنوں سے ہر طرح کے شکوک و شبہات دور کرنے کے لئے اور اپنے پیروکاروں کو اپنے پیش کئے ہوئے موقف پربالکل مطمئن کرکے اوراپنے دلائل پرمخالفین کی وضاحتوں پر کسی بھی قسم کے غور و فکریا سوچنے سمجھنے سے دور رکھنے کے لئے سب سے زبردست مغالطہ یہ پیش کیا کہ ”یہ امت شرک نہیں کرسکتی“(یعنی اب تم لوگ ہمارے پیش کئے گئے تمام( اختلافی) عقیدوں پر آنکھیں بند کر کے ایمان لا سکتے ہو)
یہ ایسا حربہ ہے کہ جس سے فریق مخالف کے پیروکار آنکھیں بند کر کے اپنے علماءکی طرف سے پیش کیا ہوا ہر عقیدہ من و عن قبول کرلیتے ہیں ۔
اور کبھی یہ سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے کہ عمل کرنا یہ نہ کرنا ہمارا اپنا اختیار ہے چلو کبھی دیگر علماءکرام کا موقف بھی سن لیا جائے ۔
اور یہ بھی نہیں سوچتے کہ کبھی کبھی کسی واقعہ کا %99.99 ہوجانے کے یقین کے باوجود اس یقین کے بر خلاف واقعہ رونما ہوجاتا ہے یا ہو سکتا ہے۔
یاد رکھیے دنیا کے کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والا وہ چاہے بت پرست ہو ۔۔۔یایہود ہو۔۔۔ یا نصاریٰ ہو ۔۔۔۔یا قادیانی ہو ۔۔۔۔منکر حدیث ہو ۔ ۔۔۔۔۔ دنیا کا ہر مذہب والا اپنے آپ کو سیدھی راہ پر ہی سمجھتا ہے ۔۔۔۔۔اور باقی سب کو گمراہ سمجھتا ہے ۔۔۔۔اور دنیا کا ہر مذہب والے کا پاس اپنے مذہب کو سچا ثابت کر نے کے لئے بے شمار دلائل اور جوازبھی ہوتے ہیں ۔۔۔۔ جن سے ایک طرف وہ اپنے پیرو کاروں کو مطمئن کرتے ہیں ۔۔۔۔ تو دوسری طرف اپنے مخالفین کی طرف سے پیش کئے گئے اعتراضات اور دلائل کے جوابات دینے کی کوشش بھی کرتے ہیں ۔۔۔۔لیکن کیوں کہ جھوٹ مٹنے کے لئے ہی ہے اس لئے جب حق سامنے آتا ہے تو آخر کار ایک موقعہ ایسا بھی آتا ہے کہ جہاں دنیا کے ہر باطل مذہب والے کو لاجواب ہونا پڑتا ہی ہے ۔۔۔۔ جس کے بعددنیا کے ہر باطل مذہب والے کو اپنے اپنے نام نہاد عقائد کے تحفظ اور بقاءکے لئے بالآخر ”ضد اور ہٹ دھرمی“ کا سہارا لینا ہی پڑتا ہے ۔۔۔۔جس کا یقینا کوئی علاج اور جواب نہیں ہوتا ۔۔۔۔اور ایسے مواقعہ پر۔۔۔۔اورضد اور ہٹ دھرمی پر اتر آنے والوں کے لئے ہزاروں دلائل بھی ناکافی ہوتے ہیں ۔
اس چھوٹی سی تمہید باندھنے کا مقصد صرف چند باتوں کی طرف توجہ دلانا ہے کہ ایک تویہ کہ محض کسی کا صراط مستقیم پر ہونے کے دعوے کرنا حق پر ہونے کی دلیل نہیں ۔۔۔۔دوسری بات یہ کہ اپنے مخالفین کے اعتراضات اور دلائل کے محض زبانی کلامی جوابات دے دینا بھی حق پر ہونے کی دلیل نہیں ۔۔۔۔۔بلکہ غیر جانبدارہو کر فریقین کے دلائل میں سے وزنی اور ٹھوس دلائل کا تعین کر کے ہی حق اور باطل کی پہچان کی جاسکتی ہے ۔۔۔۔ساتھ اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی دعا کرنا چاہیے ۔۔۔۔کیوں کہ ہدایت دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے ۔
عمل کرنا یا نہ کرنا یہ سب کا اپنا اپنا اختیار ہے ۔کوئی کسی کو کسی بات پر مجبور نہیں کرسکتا ۔لیکن اپنے مخالفین کی بات ضرور سن لینی چاہیے ۔ہوسکتا ہے کہ کوئی اچھی بات آپ کے علم میں آجائے۔یا ہوسکتا ہے کہ مخالف کی بات سن کر آپ مخالف کی کوئی غلط فہمی دور فرمادیں۔
ہم اپنی بات شروع کرنے سے پہلے جو ہمارے موقف سے اختلاف رکھتے ہیں ان تمام حضرات سے ایک درخواست کرنا چاہیں گے کہ ہماری وضاحتوں میں ہماری غلطیوں کی نشاندہی فرمائیں تاکہ ہم اپنی اصلاح کر لیں ۔لیکن اگر ہماری وضاحتوں میں سچائی مل جائے اور آپ کا ضمیر گواہی دے کہ ہماری پیش کی ہوئی وضاحتیں درست ہیں تو ”حق “قبول کرنے میں ذرہ برابر بھی ہچکچاہٹ نہ کیجیے گا۔ یاد رکھیے کہ کامیابی اپنے موقف کی جیت میں نہیں بلکہ کامیابی تو اللہ تعالیٰ اور نبی پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے احکامات میں ہے۔ دعا فرمایے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت عطاءفرمائے ۔آمین
ان شاء اللہ اگلی پوسٹوں میں ہم ترتیب وار فریق مخالف کے دلائل کی مختصر وضاحتیں بھی پیش کرنے کی کوشش کریں گے
آپ تمام بھائیوں سے دعاوں کی خصوصی درخواست ہے
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے آمین