صحابہ کرام  کی نبی کریم ﷺسے محبت !

اعجازالحسینی

وفقہ اللہ
رکن
اس میں کوئی شک نہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت دوسروں کی نسبت زیادہ تھی ، اس لیے کہ یہ محبت مشاھدے اوردیکھنے کی تھی ، اور دیکھنااور سننا برابر نہیں ، (شنیدہ کے بود مانند دیدہ)
یہاں تک کہ جو حضرات آخر میں اسلام لائے ، وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے فضل و کمال کے معترف تھے ، کیونکہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کمال اورآپ کی نبوت کے دلائل کاخود مشاہدہ کیا تھا ۔ لیکن ان کیلئے قبول حق سے جو چیز رکاوٹ بنی ،وہ حمیتِ جاہلیت اور اپنے باپ دادوں پر فخر کرنا تھا ،لیکن جوں ہی اس حمیت کا پردہ چاک ہوا، وہ ایمان لے آئے ، اور ان کا ایمان بھی عظیم ایمان تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ان کی محبت بھی عظیم تھی ، یہاں تک کہ انہوں نے اپنے مال اور اپنی جانیں آپ پر قربان کر دیں ۔حضرت عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ کا بیان سنیے :

”ما کان احد احبّ الیّ من رسول الله صلی الله علیہ و سلم ۔۔۔“
ترجمہ :”رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے زیاد ہ مجھے کوئی بھی محبو ب نہ تھا “۔
اور ان ہی جیسے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ہیں ، جن کی عقل سلیم نے ان کی راہنمائی کی اور وہ اسلام لے آئے ، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی راہ میں اپنے آپ کو قربان کر دیا ، جن کورسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ” سیف اللہ ،، اللہ کی تلوار کا لقب دیا ۔ یہی وہ خالد ہیں جن کی زبان سے وفات کے وقت یہ الفاظ نکل رہے ہیں :

”حضرت مائة معرکة ، وما فی جسمی موضع إلّا فیہ ضربة بسیف ، أو طعنة برمح ، او رمیة بسہم ، ثم ھا انذا أموت علی فراشی کما یموت البعیر ، فلا نامت أعین الجبناء“․
ترجمہ :”میں سو معرکوں میں شریک رہا ہوں اور میرے جسم میں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں تلوار ،نیزہ یا تیر کے زخم کا نشان نہ ہو ،لیکن اب بستر پر مر رہا ہوں جیسے اونٹ اپنی جگہ مر تا ہے، اللہ کرے بزدلوں کو نیند نہ آئے۔“
عام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حالات مشہور اور تواتر سے ہم تک پہنچے ہیں اور خاص خاص افرادکے حالات بھی صحیح اور ثابت ہیں، اس لیے یہاں ہم ان کے حالات کو نہایت اختصار سے ذکر کرتے ہیں ۔ اور اس کی ابتداء ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حالات سے کرتے ہیں جن کو مکہ مکرمہ میں سخت ترین ایذائیں دی گئیں اور انہوں نے اللہ کے ذکر اور اس کی توحید سے اس کا مقابلہ کیا، حضرت بلال  جن کی زبان سے :” أحد أحد “ کی آواز بلندہوتی ہے ، اور وہ اس شدید ترین عذاب کو ایمان کی حلاوت اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی چاشنی سے ملادیتے ہیں ،اور جس کے بعد حضرت بلال اوران جیسے دوسرے حضرات ۔رضی اللہ عنہم ۔ اس ایذاء اور عذاب کی پرواہ نہ کرتے تھے، چاہے وہ کتناہی سخت ہو ۔
غزوہ بد ر میں صحابہ کرام کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت
اہل بد ر کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اپنی جانوں کا قربان کرنا سب کو معلوم ہے۔
معرکہ بدر کی تیاری کے وقت حضرت سعد بن معاذرضی اللہ عنہ جوانصار کے بڑے سرداروں میں سے تھے ، اور جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سائبان بنانے کا مشورہ دیا، تاکہ آپ اس کے سائے میں بیٹھیں۔انہوں نے فرمایا:
”یارسول اللہ ! مدینہ میں کچھ لوگ ایسے پیچھے رہ گئے ہیں کہ ہم ان کے مقابلہ میں آپ سے زیادہ محبت کرنے والے نہیں ،اگر ان کو معلوم ہوجاتا کہ آپ کو جنگ درپیش ہوگی تو وہ ہرگز آپ کے پیچھے نہ رہتے ، اللہ ان کی وجہ سے آپ کی حفاظت فرمائے گا،وہ آپ کے خیر خواہ ہیں ، آپ کے ساتھ مل کر جہاد کرنے والے ہیں “۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تعریف فرمائی اور ان کے لئے خیر کی دعاء فرمائی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سائبان بنایا گیا ،جس میں آپ نے آرام فرمایا اور سوائے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے کسی کو تلوار اٹھا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چوکیدار ی کی جرأت نہیں ہوئی، پھر جب معرکہ شروع ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دشمنوں کی صفوں میں داخل ہوگئے ، اور زرہ پہنے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کی یہ آیت پڑھ رہے تھے:

﴿ سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ ویُوَلُّوْنَ الدُّبُر﴾ (القمر :۴۵)
ترجمہ:۔” اب شکست کھائے گا یہ مجمع اور بھاگیں گے پیٹھ پھیر کر۔“
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انتہائی درجہ کی محبت پر یہ غزوئہ بدر شہادت ہے، ایسی محبت جس میں اپنی جان اور ہر قیمتی چیز کی قربانی ہے ، جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اقرار فرمایا ۔
غزوہ ِ رجیع میں صحابہ کرام کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت
مشرکین نے قرّاء صحابہ رضی اللہ عنہم کو بلا کر عہد شکنی کی اور جب مقابلہ ہوا تو بعض کو قتل کردیا اور دو صحابہ ان مشرکین کے امن کے وعدہ سے دھوکا کھا کر ان کی قید میں چلے گئے ۔اور پھر وہ ان کو مکہ مکرمہ لے گئے، تاکہ مکہ کے مشرک ان کو اپنے ان مقتولین کے بدلے میں قتل کریں، جن کو مسلمانوں نے بد ر میں قتل کیا تھا ۔وہ دوحضرات : زیدبن دَثِنَہ اور خبیب بن عدی رضی اللہ عنہما تھے ۔
حضرت خبیب رضی اللہ سے مشرکین نے کہا : کیا تجھے یہ بات پسند ہے کہ تمہاری جگہ محمدہوتے؟ تو انہوں نے جواب میں فرمایا:اللہ عظیم کی قسم! ہرگز نہیں ۔ مجھے تویہ بھی پسند نہیں کہ میری جان کے بدلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤ ں مبارک میں کانٹا چبھ جائے ۔
حضرت زید بن دَثنہ رضی اللہ عنہ سے مشرکین کے سردار ابو سفیان نے قتل کے وقت کہا: اے زید! میں تجھے اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں، بتاؤ! کیا تمہیں یہ بات پسند ہے کہ محمد اس وقت ہمار ے پاس تمہاری جگہ ہوتے اور ان کی گردن مارڈالی جاتی ، اور تم اپنے گھر میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ ہوتے ؟ تو انہوں نے جوا ب دیا : کہ بخدا مجھے تو یہ بھی پسند نہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جہاں بھی اس وقت تشریف فرماہیں ،وہاں ان کے پاؤں مبارک میں کانٹا چبھے اور اس سے ان کو تکلیف ہو، اور میں اپنے گھر میں بیٹھا رہوں ۔
اس پر ابو سفیان نے کہا: میں نے لوگوں میں کسی کو کسی سے اتنی محبت کرتا نہیں دیکھا جتنا کہ محمد کے صحابہ محمد سے محبت کرتے ہیں ۔عام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی محبت پریہ شہادت کافی ہے ۔
غزوہ مصطلق میں صحابہ کرام کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی کہ قبیلہ بنو المصطلق اپنے سردار حارث بن ابوضرار کی قیادت میں آپ سے جنگ کی تیاری کررہا ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبل اس کے کہ وہ حملہ کریں، آپ نے ان پر حملہ کردیا ، اور بے شمار لوگوں کو قیدی بنالیا ، اور ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنالیا،اور ان کی تعداد بھی بہت تھی اور پھر ان کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا ، ان غلاموں میں اس قبیلہ کے سردار حارث بن ابوضرار کی بیٹی جُویریہ بھی تھی، جویریہ نے اپنے مالک سے (جس کے حصہ میں آئی تھی) مکاتبت کردی یعنی اس سے یہ معاہدہ کرلیا تھا کہ اگروہ اتنا مال اسے دے دے گی تووہ اسے آزاد کردے گا۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جویریہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ سے مکاتبت کے سلسلہ میں مدد کی درخواست کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا اس سے بھی بہترصورت پسند کروگی؟ وہ کہنے لگی، یارسو ل اللہ! وہ کیا صورت ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہاری کتابت کا سارا مال ادا کردوں اور تجھ سے نکاح کرلوں ، اس نے کہا ہاں !یارسول اللہ ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : میں نے ایسا کردیا ، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :یہ خبر جب لوگوں تک پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جویرہ بنت حارث بن ابوضرار سے شادی کرلی ہے تو صحابہ کرام  فرمانے لگے :
حضرت جویریہ کا قبیلہ وقوم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سسرال والے بن گئے ہیں ، اور صحابہ کرام نے تمام ان غلاموں کو جن کے وہ مالک بن گئے تھے، آزاد کردیا ،یعنی بغیر کوئی بدلہ لئے ہوئے اللہ کے لئے آزاد کردیا ۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس نکاح سے بنو مصطلق کے ایک سو خاندان آزاد ہوئے اور میں نے اس عورت سے زیادہ اپنی قوم کے لئے برکت والی کوئی عورت نہیں دیکھی ۔
صحابہ کرام  کی رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے کیا خوب محبت ہے ،بنی مصطلق کے سو گھر انے یعنی سو خاندان ، جن کے افراد کی تعداد سات سو بتائی گئی ہے ، جن میں ہر فرد کی قیمت ہمارے آج کے دور میں عمدہ قسم کی گاڑی کے برابر ہے ، ان سب کو صرف اس لئے صحابہ کرام نے آزاد کردیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبیلہ کی ایک خاتون سے شادی کی ہے ، یہ سب ان کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کا نتیجہ تھا ، کیوں کہ وہ قبیلہ والے آپ کے سسر ال بن چکے تھے
 

Islamic Student

وفقہ اللہ
رکن
محبت رسولﷺ کیسے حاصل ہو گی ؟

اے میرے بھائی! اگر تم خواص علماء مربین کی جماعت میں داخل ہونے کا (محبت رسولﷺ حاصل کرنے کا) ارادہ کرو تو اللہ عزجل کی بارگاہ سے ثواب حاصل کرنے کی نیت سے ، طلب حدیث ، سماعِ حدیث اور روایتِ حدیث کو اپنے اوپر لازم کر لو ۔ اس میں(محبت رسولﷺ حاصل کرنے کے لیے) تمہاری نیت ہو

''اپنے رب عزوجل کے دین اور اپنے نبی کی سنت کو پہچاننا ''

نیز اس دین پر تم کوعمل کرنے والا ہونا چاہئے ،اور رسول ﷺ کے فرمودات پر پابندی کرنے والا ہونا چاہئے۔
نصیحت:۔
امام احمد بن ابراہیم الواسطی الحنبلی
 

محمد نوید

وفقہ اللہ
رکن
اس میں کوئی شک نہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت دوسروں کی نسبت زیادہ تھی ، اس لیے کہ یہ محبت مشاھدے اوردیکھنے کی تھی ، اور دیکھنااور سننا برابر نہیں ، (شنیدہ کے بود مانند دیدہ)
یہاں تک کہ جو حضرات آخر میں اسلام لائے ، وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے فضل و کمال کے معترف تھے ، کیونکہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کمال اورآپ کی نبوت کے دلائل کاخود مشاہدہ کیا تھا ۔ لیکن ان کیلئے قبول حق سے جو چیز رکاوٹ بنی ،وہ حمیتِ جاہلیت اور اپنے باپ دادوں پر فخر کرنا تھا ،لیکن جوں ہی اس حمیت کا پردہ چاک ہوا، وہ ایمان لے آئے ، اور ان کا ایمان بھی عظیم ایمان تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ان کی محبت بھی عظیم تھی ، یہاں تک کہ انہوں نے اپنے مال اور اپنی جانیں آپ پر قربان کر دیں ۔حضرت عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ کا بیان سنیے :

”ما کان احد احبّ الیّ من رسول الله صلی الله علیہ و سلم ۔۔۔“
ترجمہ :”رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے زیاد ہ مجھے کوئی بھی محبو ب نہ تھا “۔
اور ان ہی جیسے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ہیں ، جن کی عقل سلیم نے ان کی راہنمائی کی اور وہ اسلام لے آئے ، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی راہ میں اپنے آپ کو قربان کر دیا ، جن کورسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ” سیف اللہ ،، اللہ کی تلوار کا لقب دیا ۔ یہی وہ خالد ہیں جن کی زبان سے وفات کے وقت یہ الفاظ نکل رہے ہیں :

”حضرت مائة معرکة ، وما فی جسمی موضع إلّا فیہ ضربة بسیف ، أو طعنة برمح ، او رمیة بسہم ، ثم ھا انذا أموت علی فراشی کما یموت البعیر ، فلا نامت أعین الجبناء“․
ترجمہ :”میں سو معرکوں میں شریک رہا ہوں اور میرے جسم میں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں تلوار ،نیزہ یا تیر کے زخم کا نشان نہ ہو ،لیکن اب بستر پر مر رہا ہوں جیسے اونٹ اپنی جگہ مر تا ہے، اللہ کرے بزدلوں کو نیند نہ آئے۔“
عام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حالات مشہور اور تواتر سے ہم تک پہنچے ہیں اور خاص خاص افرادکے حالات بھی صحیح اور ثابت ہیں، اس لیے یہاں ہم ان کے حالات کو نہایت اختصار سے ذکر کرتے ہیں ۔ اور اس کی ابتداء ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حالات سے کرتے ہیں جن کو مکہ مکرمہ میں سخت ترین ایذائیں دی گئیں اور انہوں نے اللہ کے ذکر اور اس کی توحید سے اس کا مقابلہ کیا، حضرت بلال  جن کی زبان سے :” أحد أحد “ کی آواز بلندہوتی ہے ، اور وہ اس شدید ترین عذاب کو ایمان کی حلاوت اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی چاشنی سے ملادیتے ہیں ،اور جس کے بعد حضرت بلال اوران جیسے دوسرے حضرات ۔رضی اللہ عنہم ۔ اس ایذاء اور عذاب کی پرواہ نہ کرتے تھے، چاہے وہ کتناہی سخت ہو ۔
غزوہ بد ر میں صحابہ کرام کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت
اہل بد ر کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اپنی جانوں کا قربان کرنا سب کو معلوم ہے۔
معرکہ بدر کی تیاری کے وقت حضرت سعد بن معاذرضی اللہ عنہ جوانصار کے بڑے سرداروں میں سے تھے ، اور جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سائبان بنانے کا مشورہ دیا، تاکہ آپ اس کے سائے میں بیٹھیں۔انہوں نے فرمایا:
”یارسول اللہ ! مدینہ میں کچھ لوگ ایسے پیچھے رہ گئے ہیں کہ ہم ان کے مقابلہ میں آپ سے زیادہ محبت کرنے والے نہیں ،اگر ان کو معلوم ہوجاتا کہ آپ کو جنگ درپیش ہوگی تو وہ ہرگز آپ کے پیچھے نہ رہتے ، اللہ ان کی وجہ سے آپ کی حفاظت فرمائے گا،وہ آپ کے خیر خواہ ہیں ، آپ کے ساتھ مل کر جہاد کرنے والے ہیں “۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تعریف فرمائی اور ان کے لئے خیر کی دعاء فرمائی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سائبان بنایا گیا ،جس میں آپ نے آرام فرمایا اور سوائے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے کسی کو تلوار اٹھا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چوکیدار ی کی جرأت نہیں ہوئی، پھر جب معرکہ شروع ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دشمنوں کی صفوں میں داخل ہوگئے ، اور زرہ پہنے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کی یہ آیت پڑھ رہے تھے:

﴿ سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ ویُوَلُّوْنَ الدُّبُر﴾ (القمر :۴۵)
ترجمہ:۔” اب شکست کھائے گا یہ مجمع اور بھاگیں گے پیٹھ پھیر کر۔“
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انتہائی درجہ کی محبت پر یہ غزوئہ بدر شہادت ہے، ایسی محبت جس میں اپنی جان اور ہر قیمتی چیز کی قربانی ہے ، جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اقرار فرمایا ۔
غزوہ ِ رجیع میں صحابہ کرام کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت
مشرکین نے قرّاء صحابہ رضی اللہ عنہم کو بلا کر عہد شکنی کی اور جب مقابلہ ہوا تو بعض کو قتل کردیا اور دو صحابہ ان مشرکین کے امن کے وعدہ سے دھوکا کھا کر ان کی قید میں چلے گئے ۔اور پھر وہ ان کو مکہ مکرمہ لے گئے، تاکہ مکہ کے مشرک ان کو اپنے ان مقتولین کے بدلے میں قتل کریں، جن کو مسلمانوں نے بد ر میں قتل کیا تھا ۔وہ دوحضرات : زیدبن دَثِنَہ اور خبیب بن عدی رضی اللہ عنہما تھے ۔
حضرت خبیب رضی اللہ سے مشرکین نے کہا : کیا تجھے یہ بات پسند ہے کہ تمہاری جگہ محمدہوتے؟ تو انہوں نے جواب میں فرمایا:اللہ عظیم کی قسم! ہرگز نہیں ۔ مجھے تویہ بھی پسند نہیں کہ میری جان کے بدلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤ ں مبارک میں کانٹا چبھ جائے ۔
حضرت زید بن دَثنہ رضی اللہ عنہ سے مشرکین کے سردار ابو سفیان نے قتل کے وقت کہا: اے زید! میں تجھے اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں، بتاؤ! کیا تمہیں یہ بات پسند ہے کہ محمد اس وقت ہمار ے پاس تمہاری جگہ ہوتے اور ان کی گردن مارڈالی جاتی ، اور تم اپنے گھر میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ ہوتے ؟ تو انہوں نے جوا ب دیا : کہ بخدا مجھے تو یہ بھی پسند نہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جہاں بھی اس وقت تشریف فرماہیں ،وہاں ان کے پاؤں مبارک میں کانٹا چبھے اور اس سے ان کو تکلیف ہو، اور میں اپنے گھر میں بیٹھا رہوں ۔
اس پر ابو سفیان نے کہا: میں نے لوگوں میں کسی کو کسی سے اتنی محبت کرتا نہیں دیکھا جتنا کہ محمد کے صحابہ محمد سے محبت کرتے ہیں ۔عام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی محبت پریہ شہادت کافی ہے ۔
غزوہ مصطلق میں صحابہ کرام کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی کہ قبیلہ بنو المصطلق اپنے سردار حارث بن ابوضرار کی قیادت میں آپ سے جنگ کی تیاری کررہا ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبل اس کے کہ وہ حملہ کریں، آپ نے ان پر حملہ کردیا ، اور بے شمار لوگوں کو قیدی بنالیا ، اور ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنالیا،اور ان کی تعداد بھی بہت تھی اور پھر ان کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا ، ان غلاموں میں اس قبیلہ کے سردار حارث بن ابوضرار کی بیٹی جُویریہ بھی تھی، جویریہ نے اپنے مالک سے (جس کے حصہ میں آئی تھی) مکاتبت کردی یعنی اس سے یہ معاہدہ کرلیا تھا کہ اگروہ اتنا مال اسے دے دے گی تووہ اسے آزاد کردے گا۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جویریہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ سے مکاتبت کے سلسلہ میں مدد کی درخواست کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا اس سے بھی بہترصورت پسند کروگی؟ وہ کہنے لگی، یارسو ل اللہ! وہ کیا صورت ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہاری کتابت کا سارا مال ادا کردوں اور تجھ سے نکاح کرلوں ، اس نے کہا ہاں !یارسول اللہ ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : میں نے ایسا کردیا ، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :یہ خبر جب لوگوں تک پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جویرہ بنت حارث بن ابوضرار سے شادی کرلی ہے تو صحابہ کرام  فرمانے لگے :
حضرت جویریہ کا قبیلہ وقوم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سسرال والے بن گئے ہیں ، اور صحابہ کرام نے تمام ان غلاموں کو جن کے وہ مالک بن گئے تھے، آزاد کردیا ،یعنی بغیر کوئی بدلہ لئے ہوئے اللہ کے لئے آزاد کردیا ۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس نکاح سے بنو مصطلق کے ایک سو خاندان آزاد ہوئے اور میں نے اس عورت سے زیادہ اپنی قوم کے لئے برکت والی کوئی عورت نہیں دیکھی ۔
صحابہ کرام  کی رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے کیا خوب محبت ہے ،بنی مصطلق کے سو گھر انے یعنی سو خاندان ، جن کے افراد کی تعداد سات سو بتائی گئی ہے ، جن میں ہر فرد کی قیمت ہمارے آج کے دور میں عمدہ قسم کی گاڑی کے برابر ہے ، ان سب کو صرف اس لئے صحابہ کرام نے آزاد کردیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبیلہ کی ایک خاتون سے شادی کی ہے ، یہ سب ان کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کا نتیجہ تھا ، کیوں کہ وہ قبیلہ والے آپ کے سسر ال بن چکے تھے
جزاک اللہ تبارک و تعالی
 
Top