چند الفاظ واصطلاحات کی تشریح.(نعت پاک کے حوالے سے)

  • موضوع کا آغاز کرنے والا قاسمی
  • تاریخ آغاز
ق

قاسمی

خوش آمدید
مہمان گرامی
چند الفاظ واصطلاحات کی تشریح​
(نعت پاک کے حوالے سے)​
محمد مصطفی کے واسطے کیا کیا سعادت ہے نبوت ہے،رسالت ہے، قیادت ہے، امانت ہے
محمد ہی کے دم سے افتخار آدمیّت ہے محمد آن ملت، شان ملت، جان ملت ہے
نعت گوئی بال سے باریک اور تلوارسے تیز پل صراط پر سے گزر نے کا نام ہے ۔ جہاں ایک ہلکا لفظ شانِ رسالت ومقام نبوت سے نا واقفیت بلکہ منافقت کی سند بن جاتا ہے ۔وہیں ادنیٰ سی شوخی گستاخان نبوت کی صف میں لا کھڑا کرتی ہے ۔ذرا سی مبالغہ آرائی سے نعت گو کفر وشرک کا مرتکب ہو کر ابدی لعنت کا مستحق قرار پاتا ہے ۔ ذرا یہ شعر ملا حظہ فرمایئے ؂
وہی جو مستوئ عرش تھا خدا ہو کر اتر پڑا ہے مدینے میں مصطفی ہو کر
گویا نعوذباللہ ایک ہی ذات عرش پہ خدااور مدینے میں مصطفیؐ ہے ۔ خدا مصطفی اور مصطفی خدا ہیں۔ یہ نعت نہیں سراسر کفر وشرک ہے اور ایسا کہنے والامردودہے،ایک اور شعر ملاحظہ ہو ؂
وہی ہے اوّل وہی ہے آخر وہی ہے ظاہر وہی ہے باطن اسی کے جلوے اسی سے ملنے اسی سے اس کی طرف گئے تھے
دوسرامصرع شرکیہ ہے
نہ ہم جنت میں جائیں گے نہ ہم دوزخ میں جائیں گے کھڑے دیکھا کریں گے حشر میں صورت محمد کی
شاعر کی پہلوانی سے فرشتے مرعوب ہوکر چھوڑبھی دیں تو بھی جنت میں گئے بغیر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے دیکھیں گے کیا نعوذباللہ شاعر صاحب حضور ﷺ کوبھی اعراف میں رکھنے کا تہیّہ کئے ہوئے ہیں
ایک پنجابی شعر ہے ؂ خدادے پکڑے چھڑالے محمد محمد دے پکڑے چھڑاکوئی نہیں سکدا
یعنی ؂ خداجسکو پکڑے چھڑالے محمد نبی جسکو پکڑے چھڑائے نہ کوئی
حالانکہ ابن ماجہ شریف کی حدیث میں ہے کچھ لوگ( اہل بدعت میں سے)حوض کوثر پر مجھ سے چھڑالئے جائیں گے
تومورا بلما میں توری چیری تومورا راجہ او کملی والے
بھبھوت رمایو ہے تو ری کارن جوگن بناجا اوکملی والے
اس طرز کی نعتیں بھی کہی گئی ہیں مگر طبع سلیم گوارہ نہیں کرتی۔
آستانۂ نبوت کے تعلق سے کہا گیا ہے۔
ادب گاہے ست زیر آسماں از عرش نازک تر
اس کے برعکس بعض لوگ آنحضرت ﷺ کو سید الاّولین والاخرین، اول ،مولائے کل اور شفیع المذنبین وشافع محشر کہنے پر بھی معترض ہوتے ہیں ذیل میں چند اصطلاحات( نعتیہ) کی تشریح عرض کی جاتی ہے۔
نعتیہ شاعری میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اور مختار کل کا استعمال مشکوک سمجھاجاتا ہے۔ خصوصاً مختار کل کا لفظ معیوب سمجھاجاتا ہے۔ احتیاط بہتر ہے مگر،
مختار باب افتعال سے بنا ہے قرآن میں اس کے ماضی کاصیغہ وَاخْتَارَ مُوْسیٰ (چن لئے موسیٰؑ نے) اور مضارع کا صیغہ وَرَبُّکَ ےَخْلُقُ مَاےَشَآءُ وَےَخْتَارُ مَاکَانَ لَہُمُ الْخِےَرَۃُ (اور تیرا رب پیدا کرتا ہے جو چاہے اور پسند کرتاہے جس کو چاہے ان کے ہاتھ میں نہیں ہے پسند کرنا۔ سورۂ قصص آیت۶۳) آئے ہیں مختار کے معنی ہیں مصطفی۔ مجتبیٰ یعنی چنا ہوا، پسندیدہ، اختیار کیا ہوا۔ دوسری زبانوں کے بہت سے الفاظ اردو نے اپنالئے، کچھ کو بعینہ تو کچھ کو لفظی تغیر کے بعداور کچھ کو معنوی تغیر کے بعد۔ اردو میں مختار، صاحب اختیار اور مالک کے معنی میں مستعمل ہے اور ہر کس وناکس جہاں تہاں اس کا استعمال کرتا ہے۔
برجیس بیگم کرناٹک کی افسانہ نگار ہیں، ان کے افسانوں میں دینی واخلاقی باتیں ہوتی ہیں۔ قرآن نے مال اور اولاد کو فتنہ بناکر ان کی طرف سے ہمیشہ چوکنّا رہنے اور ہمیشہ ان پر نگاہ رکھنے کی تاکید کی ہے، برجیس نے اسی کو افسانہ میں ڈھالا اور افسانے کا نام بھی’’فتنہ ‘‘ ہی رکھا ہے۔ اس میں ہے بزنس کا مختارکل الخ۔۔۔ (۲)مختار کل بیٹا صادق ہی بنا الخ۔۔۔!طاہر جاوید مغل کے ناول ’’پرواز‘‘ سے دومثالیں ملاحظہ فرمائیے (۱)بلقیس جاگیر کی کرتا دھرتا اور مختار تھی (۲)اور جاگیر کی مختار بیگم جی الخ۔۔۔ماہنامہ ہما مئی ۱۲۱۰ء
ایچ اقبال جو ابن صفی کے طرز پر ناول لکھتے تھے وہ اپنے ناول ’’موت کے منہ میں‘‘ میں لکھتے ہیں ’’محکمۂ خفیہ کا کل مختار نمائندہ الخ۔۔۔صفحہ ۱۷؍
علماء کرام کو طنزاً وتعریضاً کسی کو مختار کل کہتے بارہا راقم نے سنا ہے مختار احمد اور مختار عالم نام مسلمانوں میں رائج ہیں۔ ڈاکٹر مختار احمد انصاری مجاہد آزادی تھے۔ کیا صغیر وکبیر اور کیا امیر وفقیر سب کے اپنے اپنے اختیارات ہوتے ہیں کسی کے اختیارات محدوداور کسی کے لامحدود ہوتے ہیں جولامحدود اختیارات کے مالک ہیں ان کو مختار کل کہنا درست ہے۔
بعض لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ حضورﷺ کو اللہ نے اپنے تمام اختیارات منتقل کردئیے ہیں اور اب ہرکام حکم خداسے نہیں حکم مصطفی سے انجام پذیر ہوتے ہیں، اپنے اس عقیدہ کے اظہار کے لئے وہ ’’مختار کل‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ لیکن قائل کے خلاف مرضی قول کی ترجیح روانہیں تو نعت پاک میں (شعری ضرورتوں اور مجبوریوں کا خیال کئے بغیر) مختار کل کا لفظ دیکھ کر شاعر کے بدعتی وکافر ہونے کا فتویٰ داغا جائیگا یا قائل کے نظریہ اور اس کے مسلک کی رو سے اسکے شعر کی تشریح کی جائیگی، شعراء حسن والوں، بتوں، صنم اور پتھروں کو پوجتے اور نقش قدم کو سجدہ کرتے نظرآتے ہیں(شاعری میں) جبکہ پوجا اور غیراللہ کو سجدہ کرنا کفروحرام ہے، لہٰذا منظوم کتابوں کو جب تک غسل طہارت نہ دیا جائے گھروں میں لانا پڑھنا اورمشاعرے سننا کفر قراردیا جائے۔ پھر تنہا شاعر نہیں سامع وقاری اور اسکی اشاعت میں حصہ لینے والے مدیر، ناشر اور کاتب وکمپوزر کو بھی بپتسمہ دلانا ناگزیر ہوگا، اگر ایسی کل کتابیں قابل ضبطی نہیں تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو لفظی ولغوی معنی میں مختار کل کہنے والے کیوں معتوب ہوں؟
کل کا لفظ دیکھ کر بھی پریشان ہونیکی ضرورت نہیں، کل کے اوپر بھی کل بلکہ کئی کل (اونٹوں کی کَل نہیں) ہوتے ہیں، مشہور اہل حدیث عالم میاں نذیر حسین دہلوی کو شیخ الکل فی الکل کہا جاتا ہے۔
فنکار پر تنقید کرتے وقت اس وقت کے مسائل اور اسکے مخصوص ماحول اور جغرافیائی وعلاقائی احوال پر نظرکرنا ضروری ہے تاکہ اس کے ادبی، سیاسی، ملی اور سماجی کردار وخدمات یا نظریات کا منصفانہ جائزہ ممکن ہو۔ موسم بہار نے سبزہ اگایا، یہ جملہ کافر کہے تو حقیقت ہے اورکوئی مسلمان عالم دین کہے تو مجاز اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِ قرآن کی آیت ہے اور اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِ خوارج کا نعرہ بھی تھا، کیا اسکی تلاوت گناہ ہے؟
میر کو خدائے سخن اور غالب کو پیغمبر سخن کہا جاتا ہے سید انشاء اللہ انشاء فرماتے ہیں ؂ مصروف رہے موسیٰ وہارون مرے آگے
غالب صاحب تو بہادر شاہ ظفر کی وزارت کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے بھی وجہ افتخار بتاتے ہیں چکنی ڈلی کو ’’حجر الاسود دیوار حرم کیجئے فرض‘‘ کا حکم دیتے ہیں۔امراء کو جہاں دار وجہاں بخش شعراء کہتے آئے ہیں۔
لفظ مختار کل تو خیر اسماء باری میں سے نہیں لیکن جوالفاظ اسماء باری میں سے ہیں وہ بھی سب کے سب ذات باری تعالیٰ کے ساتھ مخصوص نہیں مثلاً اول۔ آخر، ظاہر، باطن، رؤف، ہادی، عزیز، مومن وغیرہ
قرآن میں ہے اِنَّ اللّٰہَ بِالنَّاسِ لَرَؤُفٌ رَحِےْمٌ (سورۂ بقرہ آیت ۱۴۳) بے شک اﷲ رؤف رحیم ہے اور حضورصلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے بھی آیا ہے حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُوْمِنِیْنَ رَؤُفٌ رَّحِیْمٌ (سورۂ توبہ )
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رؤف ورحیم ہیں قرآن میں ہے وَہُوَالْغَفُوْرُالْوَدُوْدُ (سورہ بروج آیت ۱۴) لیکن حدیث میں ہے تَزَوَّجُوالْوَدُوْدَ الْوَلُوْدَ۔ یہاں’’ودود‘‘ کے معنیٰ ہیں محبت کرنے والی عورت۔ خطبۂ نکاح میں عموماً یہ حدیث پڑھی جاتی ہے۔ اسی طرح قرآن میں اللہ کو علی (وَہُوَالْعَلِیُّ الْعَظِےْم۔آےۃ الکرسی) کہا گیا ہے اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی اور داماد حضرت علیؓ کا نام بھی یہی ہے۔ بنا بریں کوئی یہ نہ کہے کہ یا علی کہنا گناہ ہے اور عبد العلی نام رکھنا حرام ہے۔ خیال رہے کہ مشہور بین الاقوامی شخصیت و سابق کلید بردارخانۂ کعبہ جن کو لوگ علی میاں بھی کہتے ہیں کا اسم گرامی عبد العلی ہے نوراللہ مرقدہٗ۔اسی طرح مُرْتَضیٰ حضورﷺ کو کہا جاتا ہے اور حضرت علی کو بھی، اب اگر کسی کے شعر میں حضور کو مرتضی کہا گیا ہو تو شاعر کو گستاخ نبوت اور توہین رسالت کا مجرم نہ کہا جائے گا، اور حضرت علی کی منقبت میں مرتضیٰ کا لفظ دیکھ کر یہ نہیں کہا جائے گا کہ شاعر نے حضرت علی کو حضورﷺ کے برابر کردیا اور شرک فی الرسالۃ کا مجرم ہوا وغیرہ۔ شانِ کریمی اللہ ہی کو سزاوار ہے۔ اقبالؒ کہتے ہیں:
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لئے قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے
قرآن کریم میں بھی ہے بِرَبِّکَ الْکَرِےْمِ۔لیکن قرآن ہی میں’’ عرش کریم‘‘ و’’قرآن کریم‘‘ بھی ہے، اگر قرآن حضرت جبرئیل علیہ السلام کو رسول کریم کہتا ہے تو رسولؐ رحیم روحی فداہ کو کریم کیوں نہ کہیں؟ اردو میں تو جس تس کو کرم فرمائے من اور کرم کیجئے وغیرہ کہدیتے ہیں۔
کوئی صاحب ہیں جنہیں حضور کو سید الاولین والاخرین کہنے پر اعتراض ہے جیسا کہ میرے ایک شاعر دوست محترمی ریاض احمد خمارنے مجھے بتایا، اعتراض اگر لفظ سید پر ہے تو عرض ہے ؂
فَمُحَمَّدُنَا ہُوَ سَےِّدُنَا فَالْعِزُّ لَنَا لِاِ جَابَتِہٖ
عربی کا شعر ہے اور فارسی میں مولانا جامیؒ کا مصرعہ ملاحظہ ہو مصرعہ سیدی می روم چہ فرمائی۔
استاذ محترم حضرت مولانا عطاء الرحمن صاحب عطاؔ مفتاحی فرماتے ہیں
؂ سید المرسلیں رحمت العالمیں کتنے پیارے لقب ہیں نبیؐ کے لئے
کسی جگہ حضرت سعدؓ لائے گئے، وہ بیمار تھے، حضورﷺ نے موجود افراد کو حکم دیاء’’ قُوْمُوْالِسَےِّدِکُمْ‘‘ اپنے سید (سردار) کو سنبھالنے کیلئے کھڑے ہوجاؤ۔ سید عربی لفظ ہے اور اہل عرب جسے تسے سید کہتے ہیں اور ہندوپاک میں حضور ﷺ کے اہل خاندان کو سید کہتے ہیں، لہٰذا سید پر اعتراض کا محل نہیں،جہنمی لوگوں کا قول قرآن نے نقل کیا ہے اِنَّا اَطَعْنَا سَادَتَنَا سادۃ سید کی جمع ہے مرد ان کے سردار ہیں۔
اگر اعتراض سید الاولین والاخرین پر ہے تو جواب یہ ہے ۔
اردو میں( بلا اضافت) اولین سب سے اول اور اول ترین کے معنی میں بولا جاتا ہے یہی حال فارسی کا ہے جبکہ عربی میں اولین لفظ اول کی جمع ہے اولین اور اولون ہم معنی الفاظ ہیں اسی طرح آخرین آخر کی جمع ہے اُخَر ۔آخَر ۔ اور اُخْریٰ قریب المعنی الفاظ ہیں ۔
قرآن میں لفظ اوّل سات بار ۔اولیٰ آٹھ بار ۔ اور اولین یا اولون (دونوں لفظ اول کی جمع ہیں ) ،چودہ بار تقریباًآئے ہیں ۔اور ان سے مراد آباؤواجداد، پچھلی امتیں ،پیدائش (اَلْخَلْقِ الْاَوَّلِ )،موت (مَوْتَتُنَاالْاُوْلٰی)اورصحابۂ کرام (اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ) اور نیک وبد ، معززومعذب لوگ ہیں ۔امراول ۔قول اول عربی فارسی اور اردو تمام زبانوں میں مستعمل ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ قرآن میں اللہ کو ھُوَالْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ (سورہ حدید آیت ۳) کہا گیا ہے تو کیا پیغمبر ﷺبھی اللہ کی طرح اول ہیں یا اللہ کے بھی ’’نعوذباللہ‘‘ سردار ہیں ۔
جواب : نہیں !آپ کی ولادت وبعثت سے قبل انبیاء سے ایک میثاق (وعدہ)لیا گیا کہ نبی آخر الزماں آئیں تو سب انبیاء ان پر ایمان لائیں اور ان کی نصر ت و حمایت فرمائیں ،انبیاء کا اقرار (قَالُوْااَقْرَرْنَا)قرآن (سورہ آل عمران آیت۸۱)میں موجودہے ۔گویا جن کا ظہور آپ سے اول ہوا آپ ﷺ ان کے بھی سردار ہیں ۔یہی معنی ہیں سیدالاولین ،، کے اور آپ کی نبوت آخری اور قیامت تک کیلئے ہے اس لئے آپ قیامت تک کے لوگوں کے سردار بھی ہیں ،یہی معنی سید الآ خرین کے ہیں دونوں کو ملا کر سید الاّولین والآخرین کہا جاتا ہے ۔
حدیث پاک میں ہے اَنَا سَیِّدُ وُلْدِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَاَوَّلُ مَنْ یَّنْشَقُّ عَنْہُ الْقَبَرُوَاَوَّلُ مَنْ شَافَعَ وَاَوَّلُ مُشَفَّعٍ (رواہ مسلم مشکوٰۃ حدیث ۵۴۹۴)
میں روز قیامت اولا د آدم کا سردار ہوں اور سب سے اول میری شفاعت قبول ہوگی ۔ اولاد آدم کا لفظ عام ہے ، حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک کے لوگوں کو شامل ہے ، کیا انبیاء کرام اور کیا ان کی امتیں ؟ حضور ﷺ سب کے سیدو سردار ہیں ،لہٰذا آپ کے لئے سید الاولین وسیدالاخرین لقب زیبا ہیں اور مستحسن وباعث ثواب بھی ۔ انکار کے لئے بہت ساری سادگی کے باوجود توہین رسالت کی جرأت درکار ہوگی۔ آنحضرت ﷺ کو اول کہنا بھی حدیث کی روسے درست ہے ۔اقبال نے کیا خوب کہا ہے
نگاہ عشق ومستی میں وہی اول وہی آخر وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسیں وہی طہٰ
اوپرآپ نے دیکھا کہ اللہ کو قرآن آخر کہتا ہے اور علامہ اقبال حضور ہادی ؐ عالم ﷺ کو آخر کہتے ہیں ۔غیراللہ کو آخر کہنا بھی قرآن ہی سے ثابت ہے ۔یوم آخر ،دار آخر اور اجر آخر کے علاوہ آخر (خ کے زیر کے ساتھ ) اور اس کی جمع آخرین کم از کم ۱۰ بار آئے ہیں قرآن میں ۔ اور لفظ اول ہی کی طرح انبیاء اور ان کی امتوں کے علاوہ معتوب ومعذب افراداشخاص کیلئے استعمال ہوئے ہیں۔ سب کچھ ختم ہوجائے گا مگر خداباقی رہے گا اس لئے وہ آخر ہے اور سب ابنیاء ورسل آئے اور چلے گئے۔ آنحضرت ﷺ سب رسولوں کے بعد اخیر میں آئے، شریعتیں سب ختم ہوگئیں لیکن شریعت محمدی باقی ہے اس لئے آپ آخر ہیں۔۔۔
ساقئ کوثر صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر کہنا بھی درست ہے اور نورکہنا بھی، خود حدیث میں ہے میں اولاد آدم کا سردار ہوں ، تمام اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ صرف نوع انسان ہی میں سے نبی ہوسکتا ہے (شرح عقاید نسفی۔ فتاویٰ عالمگیری جلد۱، صفحہ ۳۶۳) احسن الفتاویٰ میں ہے الغرض حضور اکرم ﷺ نور بھی ہیں اور بشر بھی، آپ کی بشریت کا انکار نصوص قرآنیہ کے خلاف اور آپکی توہین کو مستلزم ہونے کی وجہ سے کفر ہے صفحہ ۵۶، جلد۱، بشر مسجود ہے اور نوری مخلوق سے بشر کو سجدہ کرایا گیا ہے آپؐ کی بشریت کا انکارکرنا گویا ’’مسجود ملائک‘‘ کے اعلیٰ مرتبہ سے نعوذباللہ آپکو اتار کر نوریوں کی صف میں لاکھڑا کرنا ہے۔
قرآن میں قمر کو (آیت ۵سورہ یونس) ہدایت کو(آیت ۱۴۴ سورہ انعام) ایمان کو(آیت ۸ سورہ تحریم)نور کہا گیا ہے۔ہمارے آقاﷺ دعا فرماتے تھے ’’ اے اللہ مجھے نور بنادے۔نماز نور ہے(مسلم شریف) نورالدین۔ نورالاسلام اور نوراللہ نام رکھنا مسلمانوں کا عام دستور ہے۔ ہردینی مقتدا نور ہے(احسن الفتاویٰ جلد۱، صفحہ ۵۶) حضورﷺ کو نور کہنا بھی درست ہے۔ آپ بیک وقت نور بھی ہیں اور بشر بھی، نوروبشر کو دوخانوں میں بانٹ کر ایک کی نفی اور دوسرے کا اثبات غلط ہے صفحہ۳۶، اختلاف امت اور صراط مستقیم۔ نورفطرت۔نور صبح ۔نور جان ۔نورسرمدی۔ نورصفات۔نورخیش۔نورذات حق۔فیض نور ذات۔ صحاب نور۔ نور جیب موسئ عمران کی ترکیبیں اقبال نے استعمال کی ہیں۔
سایہ از تقبیل خاکش عین نور
یعنی اس (وشوامترا) کی خاک کو چوم کر سایہ بھی نور بنتا تھا۔
گر نیابی صحبت مرد خبیر
یہ مصرعہ اقبال کا ہے اور خبیر اﷲ تعالیٰ کو کہا جاتا ہے ۔
من غلام آں کہ برخود قاہر است
حالانکہ قاہر بھی اﷲ کے ناموں میں سے ہے
جن کی طبیعتوں میں وحشت ہے وہ حضورﷺکو مولااور مولائے کل کہنے سے چڑجاتے ہیں بلکہ بعض تو مولانا کہنا بھی حرام فرماتے ہیں۔ کیونکہ قرآن میں ہے اَنْتَ مَوْلاَنَا (سوۂ البقرہ آیت ۲۸۶)(اے ہمارے رب) آپ ہمارے کارساز ہیں، ایک موقع پر کفار کے جواب میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا’’اَللّٰہُ مَوْلاَنَا وَلاَ مَوْلاَلَکُمْ‘‘ اللہ ہمارے کارساز ہیں تمہارا کوئی کارساز نہیں۔
مولااور ولی، ولاےۃ سے مشتق ہیں۔ دوست، مددگار اور آقا اسکے معنی ہیں، جو شخص غلام کا مالک ہوتاہے وہ اس کا مولاکہلاتا ہے، احتراماً علماء اور بزرگوں کو مولانا کہاجاتا ہے۔ حضورﷺ کی حدیث ہے مَنْ لاَّ مَوْلاَہُ فَعَلِیٌّ مَوْلاَہُ۔ جس کا کوئی معین ومددگار نہ ہو حضرت علی اس کے مولا (یعنی مددگار) ہیں، غلام کے آقا کو تو قرآن میں بھی مولاکہا گیا ہے۔ ہُوَ کَلٌّ عَلیٰ مَوْلاَہُ (سورہ نحل آیت ۷۶)ترجمہ اور وہ اپنے مالک پر ایک وبال جان ہے۔ اللہ کو مولا کہنا ایسا ہی ہے جیسا اردو میں مالک یا میاں کہنا۔ عورتیں اپنے شوہروں کو مالک اور میاں کہتی ہیں اور ملازمین اپنے آقاؤں کو۔ کبھی کبھار ایسے فتاوے بھی سننے میں آتے رہے ہیں کہ ’’اللہ میاں کہنا کفر ہے‘‘ کیونکہ میاں شوہر یامالک کو کہا جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ مولااللہ کیلئے اور غیر اللہ کے لئے بولا جاتا ہے اور قرآن سے ثابت ہے لفظ کل کی مختصر تشریح پیچھے گزری۔ آپ یہ سمجھ لیجئے، کل اشیاء مملوکہ، کل افراد خانہ، کل اصحاب، کل امت مسلمہ، کل انسان، کل عالم، سب میں کل ہے لیکن معنیٰ کے اعتبار سے کوئی بڑا کوئی اس سے بڑا اور کوئی اس بڑے سے بھی بڑا (کل) ہے۔ اقبال کو دنیا علامہ کہتی ہے وہ یونہی نہیں، اقبال کا علم اتنا سطحی نہیں جتنا ان کے معترضین کا ہے۔ ان کا یہ شعر بالکل درست ہے: ؂
وہ دانائے سُبل، ختم رسل، مولائے کل جس نے غبار راہ کو بخشا فروغ وادئ سینا
مشکل کشا۔ یہ لفظ حضورﷺ کیلئے شعراء اگرچہ عموماً استعمال نہیں کرتے لیکن مسلمان شعراء اس کو اپنی شاعری میں برتنا پسند کرتے ہیں اور حضرت علی کو’’ مشکل کشا‘‘ عموماً کہتے ہیں شعراء بھی اور عوام بھی حالانکہ مشکل کشا یا حل المشکلات اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات ہے۔بنا بریں یہ لفظ بھی کھٹکتا ہے۔
اردو میں عام طور پر بولتے ہیں۔ میری مشکل اس نے دور کی۔ میری مشکل آپ ہی دور کرسکتے ہیں۔ اخبارات میں باباؤں اور عاملوں کاملوں کے اشتہارات دیکھ لیجئے۔ آپ کی تمام مشکلات کا فوری حل۔ آپ کی جملہ پریشانیوں کا علاج وہ بھی لئے بیٹھے ہیں۔ مشکل چھوٹی ہو یا بڑی جودور کردے( وہ اچھا ہو یا بُرا) وہ مشکل کشا ہے، حضرت علیؓ کے علاوہ بزرگوں کو بھی مشکل کشا کہا جاتا ہے۔
پاکستانی پنچ سورہ کے اندر شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ کو مشکل کشا لکھا گیا ہے۔ حالانکہ اہل بدعت بھی ان کو حضرت علیؓ کے مساوی اور مماثل نہیں مانتے ۔
مشکل کشا فارسی لفظ ہے اور گرہ کشا بھی۔ اور دونوں ہم معنی ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے طالب علم کیلئے کہا ہے۔
؂ ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب گرہ ؔ کشا ہے نہ رازیؔ نہ صاحب کشافؔ
شعرکا دوسرا مصرعہ سمجھنے کیلئے شروع میں’’تُو‘‘ بڑھا لیجئے یعنی تو گرہ کشا ہے نہ رازی الخ۔۔۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ مشکل مسائل کا علم رکھنے والے۔ حاضر جواب اور برجستہ جواب دینے والے تھے اور حضورﷺ نے ان کو باب العلم کا لقب بھی دیا تھا۔ اس لئے ان کو’’ مشکل کشا‘‘کہا جاتا تھا۔ بعد میں لوگوں نے ان کو خداکے برابر سمجھ لیا۔ رزق کی وسعت، اولاد اور خوش بختی وغیرہ خداسے مانگنے کی بجائے حضرت علیؓ اور ان کے فرزندوں کی شبیہوں، علموں اور تعزیوں وغیرہ سے مانگنے لگے۔اور مشکل کشا کا معنیٰ بدل دیا گیا۔ جاہل عوام کو بد عقیدگی سے بچانے کیلئے اس ذومعنی لفظ کا استعمال نہ کرنابہتر ہے، لیکن یہ سمجھ لینا چاہئے کہ لفظ کو اپنا مخصوص معنی پہنانا اور غلط عقیدہ رکھنا اور بات ہے اور کلام میں’’مشکل کشا‘‘بہ معنی لغوی استعمال کرنا اور بات۔ جیسا کہ ’’مختار کل‘‘ کے سلسلے میں کہا گیا۔
حضورﷺ کو شفیع المذنبین، شافع محشر، شفیع عاصیاں وغیرہ کہنا چاہئے یا نہیں۔۔۔ بعض حضرات اس پر بھی معترض ہیں۔ اور قرآن سے دلیل دیتے ہیں’’وَلاَشَفَاعَۃٌ ‘‘ اور نہ کوئی شفارش ہوگی(قیامت کے دن) (سورۂ بقرہ آیت ۱۵۴)لیکن یہ بھی کم علمی اور سطحی نظر کی دلیل ہے مذکورہ آیت کے بعد والی آیت ہی میں ہے ’’کہ ایسا کون ہے جوسفارش کرسکے بغیر اس کی اجازت کے‘‘یعنی اللہ کی اجازت سے سفارش ہوگی۔ اسی مضمون میں اَوَّلُ شَافِعٍ وَّاَوّلُ مُشَفَّع والی حدیث گزری۔ آنحضرتﷺ اول شافع محشر ہیں تو آپﷺ کے بعد بھی کوئی ثانی وثالث یا آخر شافع محشر بھی ہوگا۔ اور سب جانتے ہیں کہ اللہ کی اجازت سے انبیاء اور نیک اور متقی بلکہ ادنیٰ جنتی بھی سفارش کریں گے، اگر یہ کہیں کہ’’ اللہ کی اجازت سے‘‘ تو میں ان سے پوچھنا چاہوں گا کہ کوئی ایساکام بھی ہے جو اللہ کی اجازت کے بغیر ہوسکے یا کوئی کرسکے؟
فصیح وبلیغ کلام وہی ہے جو سادہ ہواور سیدھے سادے طریقے پر کہا جائے نعت پاک دراصل منظوم سیرت ہے اور سیرت میں جھوٹ ،بے جا مبالغہ ناجائز اور حرام ہے اسلئے نعت پاک میں بے جا غلو اور مبالغہ آرائی سے احتراز افضل ہے۔ جن الفاظ سے غلط عقائد کی ترجمانی ہواس کا ترک اولیٰ ہے۔۔۔لیکن تنقید کرنے والے کو یہ سوچنا چاہئے کہ شاعر نے لفظ کو حقیقی معنی میں استعمال کیا ہے یا مجازی معنی میں۔ لغوی معنی میں استعمال کیا ہے یا مخصوص اصطلاحی معنی میں، ایسا نہ ہوکہ شاعر پر تنقید کی بجائے نبوت کی توہین ہوجائے ۔یہ بھی خیال رہے کہ بعض ترکیبوں کے معنیٰ بعد میں بدل دئیے گئے۔
کہا ہے کس نے کہ سردار انبیانہ کہو کہا ہے کس نے کہ سرتاج انبیا نہ کہو
یہی ہے فلسفۂ قُلْ اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ خداکے بعد سبھی کچھ کہوخدانہ کہو

یم جسیم الدین شرر ؔ
 
Top