جس کثرت و شدت اور تواتر و تسلسل کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کے فضائل ومناقب ان کے مزایا و خصوصیات اور ان کے اندرونی اوصاف وکمالات کو بیان فرمایا اس سے واضح ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت کے علم میں یہ بات لانا چاہتے تھے کہ انہیں عام افراد اُمت پر قیاس کرنے کی غلطی نہ کی جائے۔ان حضرات کا تعلق چوں کہ براہِ راست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے ہے، اس لیے ان کی محبت عین محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور ان سے بغض ، بغض رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا شعبہ ہے۔ ان کے حق میں ادنیٰ لب کشائی ناقابل معافی جرم ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:
'' اللّٰہ اللّٰہ فی أصحابی . اللّٰہ اللّٰہ فی أصحابی لا تتخذوھم غرضا من بعدی فمن أحبہم فبحبی أحبہم و من أبغضھم فببغضی أ بغضھم و من آذاھم فقد آذانی ومن آذانی فقد آذی اللّٰہ و من آذی اللّٰہ فیوشک أن یأخذہ .'' (ترمذی)
ترجمہ: '' اللہ سے ڈرو۔ اللہ سے ڈرو میرے صحابہؓ کے معاملہ میں، مکرر کہتا ہوں، اللہ سے ڈرو۔ اللہ سے ڈرو، میرے صحابہؓ کے معاملہ میں، ان کو میرے بعد ہدف تنقید نہ بنانا۔ کیوں کہ جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی بنا پر، اور جس نے ان سے بغض رکھا تو مجھ سے بغض کی بنا پر، جس نے ان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا دی۔ اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ اسے پکڑ لے۔''
اُمت کو اس بات سے بھی آگاہ فرمایا گیا کہ تم میں سے اعلیٰ سے اعلیٰ فرد کی بڑی سے بڑی نیکی کسی ادنیٰ سے ادنیٰ صحابی کی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کا مقابلہ نہیںکرسکتی۔ اس لیے ان پر زبان تشنیع دراز کرنے کا حق اُمت کے کسی فرد کو حاصل نہیں۔ چنانچہ ارشاد ہے:
''لا تسبوا أصحابی ، فلو أن أحدکم أنفق مثل أحد ذھبا مابلغ مد أحدھم ولا نصیفہ . ''
(بخاری و مسلم)
ترجمہ: '' میرے صحابہ کو برا بھلا نہ کہو (کیوںکہ تمہارا وزن ان کے مقابلہ میں اتنا بھی نہیں جتنا پہاڑ کے مقابلہ میں ایک تنکے کا ہوسکتا ہے چنانچہ) تم میں سے ایک شخص اُحد پہاڑ کے برابر سونا بھی خرچ کردے تو ان کے ایک سیر جو کو نہیں پہنچ سکتا ار نہ اس کے عشر عشیر کو۔ ''
مقامِ صحابہ کی نزاکت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ امت کو اس بات کا پابند کیا گیا کہ ان کی عیب جوئی کرنے والوں کو نہ صرف ملعون و مردود سمجھیں بلکہ برملا اس کا اظہار کریں۔ فرمایا:
'' إذا رأیتم الذین یسبون أصحابی فقولوا لعنۃ اللہ علی شرکم .'' (ترمذی)
ترجمہ: '' جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہتے ہیں اور انہیں ہدف تنقید بناتے ہیں تو ان سے کہو تم میں سے (یعنی صحابہ اور ناقدین صحابہ میں سے) جو برا ہے اس پر اللہ کی لعنت ۔ (ظاہر ہے کہ صحابہ ؓ کو برا بھلا کہنے والا ہی بد تر ہوگا)۔''
آج سے تیئس سال پہلے اس ناکارہ نے مؤخر الذکر حدیث کے چند فوائد ماہنامہ بینات محرم الحرام ١٣٩٠ھ میں ذکر کئے تھے۔ بتصرف یسیر ان فوائد کو یہاں نقل کرتا ہوں:
١۔۔۔۔۔۔حدیث میں '' سبّ '' سے بازاری گالیاں دینا مراد نہیں، بلکہ ہر ایسا تنقیدی کلمہ مراد ہے جو ان حضرات کے استخفاف میںکہا جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ صحابہؓ پر تنقید اور نکتہ چینی جائز نہیں، بلکہ وہ قائل کے ملعون و مطرود ہونے کی دلیل ہے۔
٢۔۔۔۔۔۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر کو اس سے ایذا ہوتی ہے۔ (وقد صرح بہ بقولہ فمن اذاہم فقد آذنی) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر کو ایذا دینے میں حبط اعمال کا خطرہ ہے۔ لقولہ تعالیٰ : ان تحبط اعمالکم و انتم لا تشعرون لہٰذا سبِّ صحابہؓ میں سلب ایمان کا اندیشہ ہے۔
٣۔۔۔۔۔۔ صحابہ کرامؓ کی مدافعت کرنا اور ناقدین کو جواب دینا ملت اسلامیہ کا فرض ہے۔ (فان الامر للوجوب)
٤۔۔۔۔۔۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ ناقدین صحابہ ؓ کو ایک ایک بات کا تفصیلی جواب دیا جائے کیوں کہ اس سے جواب اور جواب الجواب کا ایک غیر مختتم سلسلہ چل نکلے گا، بلکہ یہ تلقین فرمائی کہ انہیں بس اصولی اور فیصلہ کن جواب دیا جائے اور وہ ہے : لعنۃ اللّٰہ علی شرکم
٥۔۔۔۔۔۔ '' شرکم '' کے لفظ میں دو احتمال ہیں، ایک یہ ''شر'' مصدر مضاف ہے فاعل کی طرف، اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ تمہارے پھیلائے ہوئے شر پر اللہ کی لعنت! دوسرا احتمال یہ ہے کہ '' شرکم '' اسم تفضیل کا صیغہ ہے ، جو مشاکلت کے طور پر استعمال ہوا ہے اس صورت میںمطلب یہ ہوگا کہ '' تم میں سے اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے جو بھی بدتر ہو، اس پر اللہ کی لعنت ۔ '' اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ناقدین صحابہؓ کے لیے ایسا کنایہ استعمال فرمایا ہے کہ اگر وہ اس پر غور کریں تو ہمیشہ کے لیے تنقید صحابہؓ کے روگ کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ اتنی بات تو بالکل کھلی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کیسے ہی ہوں مگر تم سے تو اچھے ہی ہوںگے۔ تم ہوا پر اڑلو، آسمان پر پہنچ جاؤ، سوبار مرکر جی لو۔ مگر تم سے صحابی تو نہیں بنا جاسکے تھا، آخر تم وہ آنکھ کہاںسے لاؤ گے جس نے جمال جہاں آرائے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا دیدار کیا؟ وہ کان کہاں سے لاؤ گے جو کلمات نبوت سے مشرف ہوئے؟ ہاں! تم وہ دل کہاں سے لاؤ گے جو انفاس مسیحائی محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے زندہ ہوئے؟ وہ دماغ کہاں سے لاؤگے جو انوار قدس سے منور ہوئے ؟ تم وہ ہاتھ کہاں سے لاؤگے جو ایک بار بشرہئ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے مس ہوئے اور ساری عمر ان کی بوئے عنبریں نہیںگئی؟ تم وہ پاؤں کہاں سے لاؤ گے جو معیت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں آبلہ پاہوئے؟ تم وہ زمان کہاں سے لاؤگے جب آسمان زمین پر اتر آیا تھاـ؟ تم وہ مکان کہاں سے لاؤگے جہاں کونین کی سیادت جلوہ آرا تھی؟ تم وہ محفل کہاں سے لاؤ گے جہاں سعادت دارین کی شراب طہور کے جام بھر بھر کے دئیے جاتے اور تشنہ کا مان محبت، ''ہل من مزید '' کا نعرہ مستانہ لگارہے تھے؟ تم وہ منظر کہاں سے لاؤگے ، جو کانی اری اللّٰہ عیاناً کا کیف پیدا کرتا تھا؟ تم وہ مجلس کہاں سے لاؤگے جہاں کانما علی رؤسنا الطیر کا سماں بندھ جاتا تھا؟ تم وہ صدر نشین تخت رسالت کہاں سے لاؤگے ، جس کی طرف ھذا الابیض المتکی سے اشارے کیے جاتے تھے؟ (صلی اللہ علیہ وسلم) تم وہ شمیم عنبر کہاں سے لاؤگے جس کے ایک جھونکے سے مدینہ کے گلی کو چے معطر ہوجاتے تھے؟ تم وہ محبت کہاں سے لاؤگے جو دیدار محبوب میں خواب نیم شبی کو حرام کردیتی تھی؟ تم وہ ایمان کہاں سے لاؤگے جو ساری دنیا کو تج کر حاصل کیا جاتا تھا؟ تم وہ اعمال کہاں سے لاؤگے جو پیمانہ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم سے ناپ ناپ کر ادا کیے جاتے تھے؟ تم وہ اخلاق کہاں سے لاؤ گے جو آئینہ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سامنے رکھ کر سنوارے جاتے تھے؟ تم وہ رنگ کہاں سے لاؤ گے جو ''صبغۃ اللہ '' کی بھٹی میں دیا جاتاتھا؟ تم وہ ادائیں کہاں سے لاؤ گے جو دیکھنے والوں کو نیم بسمل بنادیتی تھیں؟ تم وہ نماز کہاں سے لاؤ گے جس کے امام نبیوں کے امام تھے؟ تم قدوسیوں کی وہ جماعت کیسے بن سکوگے جس کے سردار رسولوں کے سردار تھے؟ (صلی اللہ علیہ وسلم) تم میرے صحابہ کو لاکھ برا کہو، مگر اپنے ضمیر کا دامن جھنجھوڑ کر بتاؤ! اگر ان تمام سعادتوں کے بعد بھی (نعوذباللہ) میرے صحابہ (رضی اللہ عنہم)برے ہیں تو کیا تم ان سے بدتر نہیں ہو؟ اگر وہ تنقید و ملامت کے مستحق ہیں تو کیا تم لعنت و غضب کے مستحق نہیں ہو؟ اگر تم میںانصاف و حیا کی کوئی رمق باقی ہے تو اپنے گریبان میں جھانکو اور میرے صحابہ کے بارے میں زبان بند کرو۔
علامہ طیبیؒ نے اسی حدیث کی شرح میں حضرت حسانؓ کا ایک عجیب شعر نقل کیا ہے ؎
اتھجوہ و لست لہ بکفوئ فشر کما لخیر کما فداء
ترجمہ: '' کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتاہے جبکہ تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر کا نہیں ہے؟ پس تم دنوں میں کا بدتر تمہارے بہتر پر قربان۔''
٦۔۔۔۔۔۔ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تنقید صحابہؓ کا منشا ناقد کا نفسیاتی شر اور خبث و تکبر ہے۔ آپ جب کسی شخص کے طرز عمل پر تنقید کرتے ہیں تو اس کا منشا یہ ہوتا ہے کہ کسی صفت میں وہ آپ کے نزدیک خود آپ کی اپنی ذات سے فروتر اور گھٹیا ہے۔ اب جب کوئی شخص کسی صحابیؓ کے بارے میں مثلاً یہ کہے گا کہ اس نے عدل وانصاف کے تقاضوں کو کما حقہ ادا نہیں کیا تھا تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اگر اس صحابیؓ کی جگہ یہ صاحب ہوتے تو عدل و انصاف کے تقاضوں کو زیادہ بہتر ادا کرتے، گویا ان میں صحابیؓ سے بڑھ کر صفت عدل موجود ہے۔ یہ ہے تکبر کا وہ ''شر'' اور نفس کا وہ '' خبث '' جو تنقید صحابہؓ پر اُبھارتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی ''شر'' کی اصلاح اس حدیث میں فرمانا چاہتے ہیں۔
٧۔۔۔۔۔۔ حدیث میں بحث و مجادلہ کا ادب بھی بتایا گیا ہے۔یعنی خصم کو براہِ راست خطاب کرتے ہوئے یہ نہ کہا جائے کہ تم پر لعنت! بلکہ یوں کہا جائے کہ تم دونوں میں جو برا ہو اس پر لعنت! ظاہر ہے کہ یہ ایک ایسی منصفانہ بات ہے جس پر سب کو متفق ہوناچاہیے۔ اس میں کسی کے برہم ہونے کی گنجائش نہیں۔ اب رہا یہ قصہ کہ '' تم دونوں میں برا'' کا مصداق کون ہے؟ خود ناقد؟ـ یا جس پر وہ تنقید کرتا ہے؟ اس کا فیصلہ کوئی مشکل نہیں۔ دونوں کے مجموعی حالات کو سامنے رکھ کر ہر معمولی عقل کا آدمی یہ نتیجہ آسانی سے اخذ کرسکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابیؓ برا ہوسکتا ہے یا اس کا خوش فہم ناقد؟
٨۔۔۔۔۔۔ حدیث میں فقولوا کا خطاب امت سے ہے، گویا ناقدین صحابہؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت نہیں سمجھتے بلکہ انہیں اُمت کے مقابل فریق کی حیثیت سے کھڑا کرتے ہیں۔ اور یہ ناقدین کے لیے شدید وعید ہے جیسا کہ بعض دوسرے معاصی پر '' فلیس منا '' کی وعید سنائی گئی ہے۔
٩۔۔۔۔۔۔ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جس طرح ناموس شریعت کا اہتمام تھا، اسی طرح ناموس صحابہ رضی اللہ عنہم کی حفاظت کا بھی اہتمام تھا۔ کیوں کہ ان ہی پر سارے دین کا مدار ہے۔ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ناقدین صحابہؓ کی جماعت بھی ان '' مارقین'' سے ہے جن سے جہاد باللسان کا حکم اُمت کو دیا گیا ہے۔ یہ مضمون کئی احادیث میں صراحتاً بھی آیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
'' اللّٰہ اللّٰہ فی أصحابی . اللّٰہ اللّٰہ فی أصحابی لا تتخذوھم غرضا من بعدی فمن أحبہم فبحبی أحبہم و من أبغضھم فببغضی أ بغضھم و من آذاھم فقد آذانی ومن آذانی فقد آذی اللّٰہ و من آذی اللّٰہ فیوشک أن یأخذہ .'' (ترمذی)
ترجمہ: '' اللہ سے ڈرو۔ اللہ سے ڈرو میرے صحابہؓ کے معاملہ میں، مکرر کہتا ہوں، اللہ سے ڈرو۔ اللہ سے ڈرو، میرے صحابہؓ کے معاملہ میں، ان کو میرے بعد ہدف تنقید نہ بنانا۔ کیوں کہ جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی بنا پر، اور جس نے ان سے بغض رکھا تو مجھ سے بغض کی بنا پر، جس نے ان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا دی۔ اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ اسے پکڑ لے۔''
اُمت کو اس بات سے بھی آگاہ فرمایا گیا کہ تم میں سے اعلیٰ سے اعلیٰ فرد کی بڑی سے بڑی نیکی کسی ادنیٰ سے ادنیٰ صحابی کی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کا مقابلہ نہیںکرسکتی۔ اس لیے ان پر زبان تشنیع دراز کرنے کا حق اُمت کے کسی فرد کو حاصل نہیں۔ چنانچہ ارشاد ہے:
''لا تسبوا أصحابی ، فلو أن أحدکم أنفق مثل أحد ذھبا مابلغ مد أحدھم ولا نصیفہ . ''
(بخاری و مسلم)
ترجمہ: '' میرے صحابہ کو برا بھلا نہ کہو (کیوںکہ تمہارا وزن ان کے مقابلہ میں اتنا بھی نہیں جتنا پہاڑ کے مقابلہ میں ایک تنکے کا ہوسکتا ہے چنانچہ) تم میں سے ایک شخص اُحد پہاڑ کے برابر سونا بھی خرچ کردے تو ان کے ایک سیر جو کو نہیں پہنچ سکتا ار نہ اس کے عشر عشیر کو۔ ''
مقامِ صحابہ کی نزاکت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ امت کو اس بات کا پابند کیا گیا کہ ان کی عیب جوئی کرنے والوں کو نہ صرف ملعون و مردود سمجھیں بلکہ برملا اس کا اظہار کریں۔ فرمایا:
'' إذا رأیتم الذین یسبون أصحابی فقولوا لعنۃ اللہ علی شرکم .'' (ترمذی)
ترجمہ: '' جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہتے ہیں اور انہیں ہدف تنقید بناتے ہیں تو ان سے کہو تم میں سے (یعنی صحابہ اور ناقدین صحابہ میں سے) جو برا ہے اس پر اللہ کی لعنت ۔ (ظاہر ہے کہ صحابہ ؓ کو برا بھلا کہنے والا ہی بد تر ہوگا)۔''
آج سے تیئس سال پہلے اس ناکارہ نے مؤخر الذکر حدیث کے چند فوائد ماہنامہ بینات محرم الحرام ١٣٩٠ھ میں ذکر کئے تھے۔ بتصرف یسیر ان فوائد کو یہاں نقل کرتا ہوں:
١۔۔۔۔۔۔حدیث میں '' سبّ '' سے بازاری گالیاں دینا مراد نہیں، بلکہ ہر ایسا تنقیدی کلمہ مراد ہے جو ان حضرات کے استخفاف میںکہا جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ صحابہؓ پر تنقید اور نکتہ چینی جائز نہیں، بلکہ وہ قائل کے ملعون و مطرود ہونے کی دلیل ہے۔
٢۔۔۔۔۔۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر کو اس سے ایذا ہوتی ہے۔ (وقد صرح بہ بقولہ فمن اذاہم فقد آذنی) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر کو ایذا دینے میں حبط اعمال کا خطرہ ہے۔ لقولہ تعالیٰ : ان تحبط اعمالکم و انتم لا تشعرون لہٰذا سبِّ صحابہؓ میں سلب ایمان کا اندیشہ ہے۔
٣۔۔۔۔۔۔ صحابہ کرامؓ کی مدافعت کرنا اور ناقدین کو جواب دینا ملت اسلامیہ کا فرض ہے۔ (فان الامر للوجوب)
٤۔۔۔۔۔۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ ناقدین صحابہ ؓ کو ایک ایک بات کا تفصیلی جواب دیا جائے کیوں کہ اس سے جواب اور جواب الجواب کا ایک غیر مختتم سلسلہ چل نکلے گا، بلکہ یہ تلقین فرمائی کہ انہیں بس اصولی اور فیصلہ کن جواب دیا جائے اور وہ ہے : لعنۃ اللّٰہ علی شرکم
٥۔۔۔۔۔۔ '' شرکم '' کے لفظ میں دو احتمال ہیں، ایک یہ ''شر'' مصدر مضاف ہے فاعل کی طرف، اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ تمہارے پھیلائے ہوئے شر پر اللہ کی لعنت! دوسرا احتمال یہ ہے کہ '' شرکم '' اسم تفضیل کا صیغہ ہے ، جو مشاکلت کے طور پر استعمال ہوا ہے اس صورت میںمطلب یہ ہوگا کہ '' تم میں سے اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے جو بھی بدتر ہو، اس پر اللہ کی لعنت ۔ '' اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ناقدین صحابہؓ کے لیے ایسا کنایہ استعمال فرمایا ہے کہ اگر وہ اس پر غور کریں تو ہمیشہ کے لیے تنقید صحابہؓ کے روگ کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ اتنی بات تو بالکل کھلی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کیسے ہی ہوں مگر تم سے تو اچھے ہی ہوںگے۔ تم ہوا پر اڑلو، آسمان پر پہنچ جاؤ، سوبار مرکر جی لو۔ مگر تم سے صحابی تو نہیں بنا جاسکے تھا، آخر تم وہ آنکھ کہاںسے لاؤ گے جس نے جمال جہاں آرائے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا دیدار کیا؟ وہ کان کہاں سے لاؤ گے جو کلمات نبوت سے مشرف ہوئے؟ ہاں! تم وہ دل کہاں سے لاؤ گے جو انفاس مسیحائی محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے زندہ ہوئے؟ وہ دماغ کہاں سے لاؤگے جو انوار قدس سے منور ہوئے ؟ تم وہ ہاتھ کہاں سے لاؤگے جو ایک بار بشرہئ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے مس ہوئے اور ساری عمر ان کی بوئے عنبریں نہیںگئی؟ تم وہ پاؤں کہاں سے لاؤ گے جو معیت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں آبلہ پاہوئے؟ تم وہ زمان کہاں سے لاؤگے جب آسمان زمین پر اتر آیا تھاـ؟ تم وہ مکان کہاں سے لاؤگے جہاں کونین کی سیادت جلوہ آرا تھی؟ تم وہ محفل کہاں سے لاؤ گے جہاں سعادت دارین کی شراب طہور کے جام بھر بھر کے دئیے جاتے اور تشنہ کا مان محبت، ''ہل من مزید '' کا نعرہ مستانہ لگارہے تھے؟ تم وہ منظر کہاں سے لاؤگے ، جو کانی اری اللّٰہ عیاناً کا کیف پیدا کرتا تھا؟ تم وہ مجلس کہاں سے لاؤگے جہاں کانما علی رؤسنا الطیر کا سماں بندھ جاتا تھا؟ تم وہ صدر نشین تخت رسالت کہاں سے لاؤگے ، جس کی طرف ھذا الابیض المتکی سے اشارے کیے جاتے تھے؟ (صلی اللہ علیہ وسلم) تم وہ شمیم عنبر کہاں سے لاؤگے جس کے ایک جھونکے سے مدینہ کے گلی کو چے معطر ہوجاتے تھے؟ تم وہ محبت کہاں سے لاؤگے جو دیدار محبوب میں خواب نیم شبی کو حرام کردیتی تھی؟ تم وہ ایمان کہاں سے لاؤگے جو ساری دنیا کو تج کر حاصل کیا جاتا تھا؟ تم وہ اعمال کہاں سے لاؤگے جو پیمانہ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم سے ناپ ناپ کر ادا کیے جاتے تھے؟ تم وہ اخلاق کہاں سے لاؤ گے جو آئینہ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سامنے رکھ کر سنوارے جاتے تھے؟ تم وہ رنگ کہاں سے لاؤ گے جو ''صبغۃ اللہ '' کی بھٹی میں دیا جاتاتھا؟ تم وہ ادائیں کہاں سے لاؤ گے جو دیکھنے والوں کو نیم بسمل بنادیتی تھیں؟ تم وہ نماز کہاں سے لاؤ گے جس کے امام نبیوں کے امام تھے؟ تم قدوسیوں کی وہ جماعت کیسے بن سکوگے جس کے سردار رسولوں کے سردار تھے؟ (صلی اللہ علیہ وسلم) تم میرے صحابہ کو لاکھ برا کہو، مگر اپنے ضمیر کا دامن جھنجھوڑ کر بتاؤ! اگر ان تمام سعادتوں کے بعد بھی (نعوذباللہ) میرے صحابہ (رضی اللہ عنہم)برے ہیں تو کیا تم ان سے بدتر نہیں ہو؟ اگر وہ تنقید و ملامت کے مستحق ہیں تو کیا تم لعنت و غضب کے مستحق نہیں ہو؟ اگر تم میںانصاف و حیا کی کوئی رمق باقی ہے تو اپنے گریبان میں جھانکو اور میرے صحابہ کے بارے میں زبان بند کرو۔
علامہ طیبیؒ نے اسی حدیث کی شرح میں حضرت حسانؓ کا ایک عجیب شعر نقل کیا ہے ؎
اتھجوہ و لست لہ بکفوئ فشر کما لخیر کما فداء
ترجمہ: '' کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتاہے جبکہ تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر کا نہیں ہے؟ پس تم دنوں میں کا بدتر تمہارے بہتر پر قربان۔''
٦۔۔۔۔۔۔ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تنقید صحابہؓ کا منشا ناقد کا نفسیاتی شر اور خبث و تکبر ہے۔ آپ جب کسی شخص کے طرز عمل پر تنقید کرتے ہیں تو اس کا منشا یہ ہوتا ہے کہ کسی صفت میں وہ آپ کے نزدیک خود آپ کی اپنی ذات سے فروتر اور گھٹیا ہے۔ اب جب کوئی شخص کسی صحابیؓ کے بارے میں مثلاً یہ کہے گا کہ اس نے عدل وانصاف کے تقاضوں کو کما حقہ ادا نہیں کیا تھا تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اگر اس صحابیؓ کی جگہ یہ صاحب ہوتے تو عدل و انصاف کے تقاضوں کو زیادہ بہتر ادا کرتے، گویا ان میں صحابیؓ سے بڑھ کر صفت عدل موجود ہے۔ یہ ہے تکبر کا وہ ''شر'' اور نفس کا وہ '' خبث '' جو تنقید صحابہؓ پر اُبھارتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی ''شر'' کی اصلاح اس حدیث میں فرمانا چاہتے ہیں۔
٧۔۔۔۔۔۔ حدیث میں بحث و مجادلہ کا ادب بھی بتایا گیا ہے۔یعنی خصم کو براہِ راست خطاب کرتے ہوئے یہ نہ کہا جائے کہ تم پر لعنت! بلکہ یوں کہا جائے کہ تم دونوں میں جو برا ہو اس پر لعنت! ظاہر ہے کہ یہ ایک ایسی منصفانہ بات ہے جس پر سب کو متفق ہوناچاہیے۔ اس میں کسی کے برہم ہونے کی گنجائش نہیں۔ اب رہا یہ قصہ کہ '' تم دونوں میں برا'' کا مصداق کون ہے؟ خود ناقد؟ـ یا جس پر وہ تنقید کرتا ہے؟ اس کا فیصلہ کوئی مشکل نہیں۔ دونوں کے مجموعی حالات کو سامنے رکھ کر ہر معمولی عقل کا آدمی یہ نتیجہ آسانی سے اخذ کرسکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابیؓ برا ہوسکتا ہے یا اس کا خوش فہم ناقد؟
٨۔۔۔۔۔۔ حدیث میں فقولوا کا خطاب امت سے ہے، گویا ناقدین صحابہؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت نہیں سمجھتے بلکہ انہیں اُمت کے مقابل فریق کی حیثیت سے کھڑا کرتے ہیں۔ اور یہ ناقدین کے لیے شدید وعید ہے جیسا کہ بعض دوسرے معاصی پر '' فلیس منا '' کی وعید سنائی گئی ہے۔
٩۔۔۔۔۔۔ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جس طرح ناموس شریعت کا اہتمام تھا، اسی طرح ناموس صحابہ رضی اللہ عنہم کی حفاظت کا بھی اہتمام تھا۔ کیوں کہ ان ہی پر سارے دین کا مدار ہے۔ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ناقدین صحابہؓ کی جماعت بھی ان '' مارقین'' سے ہے جن سے جہاد باللسان کا حکم اُمت کو دیا گیا ہے۔ یہ مضمون کئی احادیث میں صراحتاً بھی آیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب