بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ برکاتہ!
اللہ رب العزت نے مجھے زیارت حرمین الشریفین کا شرف بخشا تھا کافی دنوں سے سوچ رہا تھا اپنا سفر نامہ لکھوں اب نبیل بھائی کی فرمائش بھی آئی اس لیے کہ سفرنامہ لکھ رہا ہوں
2008 یا 2009 کی بات ہے جب بیماریوں نے مجھ پر حملہ کیا علاج کرواتا رہا لیکن افاقہ نہ ہوا بیماریاں بڑھتی گئیں یہاں تک کہ میں چارپائی کے ساتہ آلگا اور چلنے کے قابل بھی نہ رہا ڈاکٹر حضرات کو میری بیماری سمجھ نہیں آرہی تھی اسی دوران ڈاکٹر نے مجھے لاعلاج قرار دے دیا اسی دوران میرے تایا زاد بھائی مولانا یسین احمد عثمانی صاحب عمرہ کے سفر کی تیاری فر مارہے تھے جب مجھے ڈاکٹروں نے لا علاج قرار دیا تو والد محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا خادم حسین صاحب نے مجھے حرمین الشریفن بھیجنے کا فیصلہ کر لیا جب والد محترم نے مجھے اپنا فیصلہ سنایا تو میں خوشی کی وجہ سے روپڑا اور اللہ کا شکر ادا کیا اس نے مجھ جیسے گناہ گار کو اپنے گھر بلایا ہے اس کے بعد میں نے سفر کی تیاری شروع کردی کچھ دن بعد پتہ چلا والدہ محترمہ اور سب سے بڑے بھائی استادالحدیث حضرت مولانا عبیدالرحمن صدیق صاحب بھی میرے ساتہ جائیں گے میری خوشی کی انتہاء نہ رہی میں اللہ کا شکر ادا کیا اس کے بعد بڑے بھائی مولانا حفظ الرحمن فاروق صاحب مجھے پاسپورٹ آفس لے گئے جہاں ہم نے پاسپورٹ جمع کرایا اور گھر واپس آگئے اور اسی دوران میرے تایا جان محمد غلام حسین صاحب بھی تیار ہو گئے اسی طرح ہم کل 6 افراد بن گئے جن میں 2 خواتین 4 مرد تھے مارچ 2010 یا 2011 میں ہمارا قافلہ لاہور علامہ اقبال انٹر نیشنل ائیر پورٹ سے شام 6 بجے کی فلائیٹ سے کراچی کے لیے روانہ ہوا جب جہاز کے اندر بیٹھا تو کچھ ڈر لگ رہا تھا تو میں نے قرآن مجید کی تلاوت شروع کردی اور ساتہ بھائی جان نے باتیں شروع کردیں تاکہ زیادہ نہ ڈر سکوں وہ مجھے اطمینان دلاتے رہے کیونکہ کسی نے مجھے بتایا تھا انسان یوں ہوجاتا ہے اس طرح ہوجاتا ہے جب جہاز چلتا ہے لیکن جہاز نے جیسے ہی اڑان بھری میری حیرت کو شدید جھٹکا لگا یہاں تو کچھ بھی نہیں ہوا اس کے بعد میں بھائی سے دعائیں ودیکر معلومات لیتا رہا کیونکہ بھائی جان پہلے عمرہ اور حج کر چکے تھے اسی دوران جہاز میں ہمیں ایک پیکٹ دیا گیا جس میں مختلف اشیاء سجائی گئیں تھیں ساتہ بوتل چائے بھی دی گئی اور اسی طرح میں مسلسل جہاز کو بغور دیکھتا رہا اور اللہ کی بڑائی بیان کرتا رہا اور 30 :7 پر ہمارے جہاز نے قائد اعظم انٹرنیشنل ائیرپورٹ کراچی پر لینڈ کیا جہاز سے اتر کر فوراً والد محترم کو کال کرکے اطلاع دی ہم کراچی پہنچ گئے ہیں الحمداللہ اس کے بعد والد صاحب نے کچھ ہدایات دیں اور فون بند کردیا اس کے بعد ہم احرام باندھنے چلے گئے جب احرام باندھا تو مجھ پر ایک عجیب کیفیت طاری تھی اور میں اپنے آپ کو بھت ہلکا محسوس کر رہا تھا دل ملے جلے جزبات سے معمور تھا دل وہاں پہنچ چکا تھا آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور زبان پر دعائیں تھیں جسم کانپ رہا تھا میں تو ایک گناہ گار سیاہ کار انسان ہوں اس کے باوجود خدا تعالٰی نے مجھ ناچیز پر کرم فرمایا اور اپنے گھر اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لیے بلایا ہمارے جہاز نے رات 10 بجے اڑان بھرنی تھی لیکن مختلف وجوہات کی بناء پر لیٹ ہوگیا جب ہم اپنی سیٹیں لینے کاؤنٹر پر گئے تو اس نے جھٹ سے سیٹیں دے دیں اور کہا آپ خوش قسمت ہیں جو سیٹیں آپ کو مل گئیں یہی آخری سیٹیں تھیں ورنہ آپ کو مزید ایک دن انتظار کرنا پڑتا ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا اور جہاز کی طرف چل پڑے اور دل میں یہ سوچ رہے تھے ممکن ہے سیٹیں بلکل آخر میں ہوں گی لیکن جب ہم جہاز کے دروازے پر پہنچے تو وہاں کھڑے ایک آدمی نے ہمارا بھر پور استقبال کیا اور ٹکٹ طلب کی ہم نے جھٹ سے دے دی اور اس نے ہمیں اپنے پیچھے آنے کا حکم صادر کیا بھائی جان مجھے لیے ہوئے اس کے پیچھے چل پڑے میری حیرت کی اس وقت تک انتہا نہ رہی جب اس نے جہاز کی وی آئی پی سیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بھائی جان کو کہا یہ آپ کے چھوٹے بھائی کی سیٹ ہے بھائی جان نے مجھے بٹھایا اس کے بعد میں پریشان ہوگیا اگر سب کی سیٹیں پیچھے ہوں تو میرا مسئلہ بن جائے گا میں نے کبھی زندگی میں اکیلے سفر نہیں کیا پہر میں نے اللہ کا نام لیا اور بیٹھ گیا اور پہر بھائی جان نے اسی اپنی ٹکٹ دکھائی تو اس نے جہاز کی سیٹ نمبر 1 کی طرف اشارہ کیا تو میں خوش ہوگیا اور مطمئن ہوگیا تھوڑی دیر بعد تایا جان بھی وہیں آگئے اس کے بعد میں نے بھائی سے پوچھا باقی کہاں ہیں تو فرمایا مولانا یسین صاحب کو دوسری منزل پر سیٹیں ملی ہیں والدہ اور مولانا یسین صاحب کی وائف جن کو ہم بھابھی بلاتے ہیں وہ ہمارے تھوڑے پیچھے بیٹھی ہیں اس دوران ہمارے جہاز نے جدہ کی طرف اڑان بھری میں اپنے اذکار میں مصروف ہو گیا کچھ دیر بعد جہاز کمپنی کی طرف سے ہمیں بریانی اور دیگر لوازمات پیش کیے اس کے بعد چائے دی گئی میں لوازمات کھانا شروع کیے تو مزہ نہیں آرہا تھا بس دل چاہتا تھا وہاں پہنچوں اس کے بعد میں نے سوچا کافی تھک گیا ہوں کچھ دیر آرام کرلیتا ہوں میں آرام کرنے ہی لگا تھا ہاتہ کے نیچے جو بٹن تھے وہ ہاتہ کے نیچے آنے کی وہ سے چل گئے یکدم دو ادمی نمودار ہوئے کہا مولانا صاحب خیر ہے میں پریشان ہوگیا یا اللہ کیا ماجرا ہے اور انہوں نے مجھے پانی دیا میں حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے لگا انہوں نے یہ سوچا یہ بچہ لاٹھی اور اپنے بھائی کے سہارے چل رہا تھا شاید کوئی ایمر جنسی آگئی ہو پہر انہوں نے مجھے کہا کوئی کام ہے تو بتادیں میں نے شکریہ ادا کیا تو انہوں نے بتایا اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو آپ کے ہاتہ کے نیچے یہ والا بٹن ہے اسے دبا دینا لائیٹ کی ضرورت ہو تو یہ اسی طرح انہوں نے مجھے سب بٹنوں کا بتا دیا اس وقت مجھے سارا ماجرا سمجھ آیا اصل بات کیا ہے اصل میں جو پچھلی سیٹیں ہیں ان کے بٹن اوپر لگے ہوئے ہوتے ہیں اور وی آئی پی سیٹیوں پر بٹن ہاتہ کے نیچے لگے ہوتے ہیں اس کے بعد میں نے ساتہ والے کو سلام کیا تعارف ہوا پتہ چلا وہ بھی سعادت عمرہ کے لیے جارہا ہے اس کے بعد اس نے مسلک کی بات چھیڑ دی تو مجھے شک ہوا یہ کوئی بریلوی ہے کچھ دیر بعد اس نے خود تصدیق کی میں بریلوی ہوں اس کے بعد میں نے سوچا اب راستہ کم رہ گیا ہے اذکار شروع کردوں اور بھائی جان مجھ پر نظر رکھے ہوئے تھے اور حال پوچھنے بھی آتے تھے کیونکہ بعض او قات میری طبیعت اچانک خراب ہوجاتی تھی اس کے بعد اعلان ہوا جنہوں نے احرام نہیں باندھے وہ جلد از جلد باندھ لیں اس کے بعد بھائی میرے پاس آئے اور کہا احرام کی نیت کر لو اس کے بعد جہاز لبیک اللھم لبیک کی صداؤں سے گونج اٹھا تھوڑی دیر بعد اعلان ہوا ابھی کچھ دیر بعد شیخ عبدالعزیز انٹر نیشنل ائیر پورٹ پر ہم اتریں گے کچھ لمحے بعد محسوس ہوا جہاز کے ٹائر زمین پر لگ گئے ہیں اس کے بعد اعلان ہوا عمرہ والے جہاز میں بیٹھے رہیں اور کاروبار والے باہر نکل جائیں تقریباً 10 منٹ بعد ہمیں حکم ملا اب نیچے اتر جائیں اسی طرح ہم نے سعودیہ عرب کے ٹائم کے مطابق نماز فجر کے ٹائم اس مقدس سر زمین پر پاؤں رکھا
(جاری ہے)2008 یا 2009 کی بات ہے جب بیماریوں نے مجھ پر حملہ کیا علاج کرواتا رہا لیکن افاقہ نہ ہوا بیماریاں بڑھتی گئیں یہاں تک کہ میں چارپائی کے ساتہ آلگا اور چلنے کے قابل بھی نہ رہا ڈاکٹر حضرات کو میری بیماری سمجھ نہیں آرہی تھی اسی دوران ڈاکٹر نے مجھے لاعلاج قرار دے دیا اسی دوران میرے تایا زاد بھائی مولانا یسین احمد عثمانی صاحب عمرہ کے سفر کی تیاری فر مارہے تھے جب مجھے ڈاکٹروں نے لا علاج قرار دیا تو والد محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا خادم حسین صاحب نے مجھے حرمین الشریفن بھیجنے کا فیصلہ کر لیا جب والد محترم نے مجھے اپنا فیصلہ سنایا تو میں خوشی کی وجہ سے روپڑا اور اللہ کا شکر ادا کیا اس نے مجھ جیسے گناہ گار کو اپنے گھر بلایا ہے اس کے بعد میں نے سفر کی تیاری شروع کردی کچھ دن بعد پتہ چلا والدہ محترمہ اور سب سے بڑے بھائی استادالحدیث حضرت مولانا عبیدالرحمن صدیق صاحب بھی میرے ساتہ جائیں گے میری خوشی کی انتہاء نہ رہی میں اللہ کا شکر ادا کیا اس کے بعد بڑے بھائی مولانا حفظ الرحمن فاروق صاحب مجھے پاسپورٹ آفس لے گئے جہاں ہم نے پاسپورٹ جمع کرایا اور گھر واپس آگئے اور اسی دوران میرے تایا جان محمد غلام حسین صاحب بھی تیار ہو گئے اسی طرح ہم کل 6 افراد بن گئے جن میں 2 خواتین 4 مرد تھے مارچ 2010 یا 2011 میں ہمارا قافلہ لاہور علامہ اقبال انٹر نیشنل ائیر پورٹ سے شام 6 بجے کی فلائیٹ سے کراچی کے لیے روانہ ہوا جب جہاز کے اندر بیٹھا تو کچھ ڈر لگ رہا تھا تو میں نے قرآن مجید کی تلاوت شروع کردی اور ساتہ بھائی جان نے باتیں شروع کردیں تاکہ زیادہ نہ ڈر سکوں وہ مجھے اطمینان دلاتے رہے کیونکہ کسی نے مجھے بتایا تھا انسان یوں ہوجاتا ہے اس طرح ہوجاتا ہے جب جہاز چلتا ہے لیکن جہاز نے جیسے ہی اڑان بھری میری حیرت کو شدید جھٹکا لگا یہاں تو کچھ بھی نہیں ہوا اس کے بعد میں بھائی سے دعائیں ودیکر معلومات لیتا رہا کیونکہ بھائی جان پہلے عمرہ اور حج کر چکے تھے اسی دوران جہاز میں ہمیں ایک پیکٹ دیا گیا جس میں مختلف اشیاء سجائی گئیں تھیں ساتہ بوتل چائے بھی دی گئی اور اسی طرح میں مسلسل جہاز کو بغور دیکھتا رہا اور اللہ کی بڑائی بیان کرتا رہا اور 30 :7 پر ہمارے جہاز نے قائد اعظم انٹرنیشنل ائیرپورٹ کراچی پر لینڈ کیا جہاز سے اتر کر فوراً والد محترم کو کال کرکے اطلاع دی ہم کراچی پہنچ گئے ہیں الحمداللہ اس کے بعد والد صاحب نے کچھ ہدایات دیں اور فون بند کردیا اس کے بعد ہم احرام باندھنے چلے گئے جب احرام باندھا تو مجھ پر ایک عجیب کیفیت طاری تھی اور میں اپنے آپ کو بھت ہلکا محسوس کر رہا تھا دل ملے جلے جزبات سے معمور تھا دل وہاں پہنچ چکا تھا آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور زبان پر دعائیں تھیں جسم کانپ رہا تھا میں تو ایک گناہ گار سیاہ کار انسان ہوں اس کے باوجود خدا تعالٰی نے مجھ ناچیز پر کرم فرمایا اور اپنے گھر اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لیے بلایا ہمارے جہاز نے رات 10 بجے اڑان بھرنی تھی لیکن مختلف وجوہات کی بناء پر لیٹ ہوگیا جب ہم اپنی سیٹیں لینے کاؤنٹر پر گئے تو اس نے جھٹ سے سیٹیں دے دیں اور کہا آپ خوش قسمت ہیں جو سیٹیں آپ کو مل گئیں یہی آخری سیٹیں تھیں ورنہ آپ کو مزید ایک دن انتظار کرنا پڑتا ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا اور جہاز کی طرف چل پڑے اور دل میں یہ سوچ رہے تھے ممکن ہے سیٹیں بلکل آخر میں ہوں گی لیکن جب ہم جہاز کے دروازے پر پہنچے تو وہاں کھڑے ایک آدمی نے ہمارا بھر پور استقبال کیا اور ٹکٹ طلب کی ہم نے جھٹ سے دے دی اور اس نے ہمیں اپنے پیچھے آنے کا حکم صادر کیا بھائی جان مجھے لیے ہوئے اس کے پیچھے چل پڑے میری حیرت کی اس وقت تک انتہا نہ رہی جب اس نے جہاز کی وی آئی پی سیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بھائی جان کو کہا یہ آپ کے چھوٹے بھائی کی سیٹ ہے بھائی جان نے مجھے بٹھایا اس کے بعد میں پریشان ہوگیا اگر سب کی سیٹیں پیچھے ہوں تو میرا مسئلہ بن جائے گا میں نے کبھی زندگی میں اکیلے سفر نہیں کیا پہر میں نے اللہ کا نام لیا اور بیٹھ گیا اور پہر بھائی جان نے اسی اپنی ٹکٹ دکھائی تو اس نے جہاز کی سیٹ نمبر 1 کی طرف اشارہ کیا تو میں خوش ہوگیا اور مطمئن ہوگیا تھوڑی دیر بعد تایا جان بھی وہیں آگئے اس کے بعد میں نے بھائی سے پوچھا باقی کہاں ہیں تو فرمایا مولانا یسین صاحب کو دوسری منزل پر سیٹیں ملی ہیں والدہ اور مولانا یسین صاحب کی وائف جن کو ہم بھابھی بلاتے ہیں وہ ہمارے تھوڑے پیچھے بیٹھی ہیں اس دوران ہمارے جہاز نے جدہ کی طرف اڑان بھری میں اپنے اذکار میں مصروف ہو گیا کچھ دیر بعد جہاز کمپنی کی طرف سے ہمیں بریانی اور دیگر لوازمات پیش کیے اس کے بعد چائے دی گئی میں لوازمات کھانا شروع کیے تو مزہ نہیں آرہا تھا بس دل چاہتا تھا وہاں پہنچوں اس کے بعد میں نے سوچا کافی تھک گیا ہوں کچھ دیر آرام کرلیتا ہوں میں آرام کرنے ہی لگا تھا ہاتہ کے نیچے جو بٹن تھے وہ ہاتہ کے نیچے آنے کی وہ سے چل گئے یکدم دو ادمی نمودار ہوئے کہا مولانا صاحب خیر ہے میں پریشان ہوگیا یا اللہ کیا ماجرا ہے اور انہوں نے مجھے پانی دیا میں حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے لگا انہوں نے یہ سوچا یہ بچہ لاٹھی اور اپنے بھائی کے سہارے چل رہا تھا شاید کوئی ایمر جنسی آگئی ہو پہر انہوں نے مجھے کہا کوئی کام ہے تو بتادیں میں نے شکریہ ادا کیا تو انہوں نے بتایا اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو آپ کے ہاتہ کے نیچے یہ والا بٹن ہے اسے دبا دینا لائیٹ کی ضرورت ہو تو یہ اسی طرح انہوں نے مجھے سب بٹنوں کا بتا دیا اس وقت مجھے سارا ماجرا سمجھ آیا اصل بات کیا ہے اصل میں جو پچھلی سیٹیں ہیں ان کے بٹن اوپر لگے ہوئے ہوتے ہیں اور وی آئی پی سیٹیوں پر بٹن ہاتہ کے نیچے لگے ہوتے ہیں اس کے بعد میں نے ساتہ والے کو سلام کیا تعارف ہوا پتہ چلا وہ بھی سعادت عمرہ کے لیے جارہا ہے اس کے بعد اس نے مسلک کی بات چھیڑ دی تو مجھے شک ہوا یہ کوئی بریلوی ہے کچھ دیر بعد اس نے خود تصدیق کی میں بریلوی ہوں اس کے بعد میں نے سوچا اب راستہ کم رہ گیا ہے اذکار شروع کردوں اور بھائی جان مجھ پر نظر رکھے ہوئے تھے اور حال پوچھنے بھی آتے تھے کیونکہ بعض او قات میری طبیعت اچانک خراب ہوجاتی تھی اس کے بعد اعلان ہوا جنہوں نے احرام نہیں باندھے وہ جلد از جلد باندھ لیں اس کے بعد بھائی میرے پاس آئے اور کہا احرام کی نیت کر لو اس کے بعد جہاز لبیک اللھم لبیک کی صداؤں سے گونج اٹھا تھوڑی دیر بعد اعلان ہوا ابھی کچھ دیر بعد شیخ عبدالعزیز انٹر نیشنل ائیر پورٹ پر ہم اتریں گے کچھ لمحے بعد محسوس ہوا جہاز کے ٹائر زمین پر لگ گئے ہیں اس کے بعد اعلان ہوا عمرہ والے جہاز میں بیٹھے رہیں اور کاروبار والے باہر نکل جائیں تقریباً 10 منٹ بعد ہمیں حکم ملا اب نیچے اتر جائیں اسی طرح ہم نے سعودیہ عرب کے ٹائم کے مطابق نماز فجر کے ٹائم اس مقدس سر زمین پر پاؤں رکھا