تذکرہ شیخ عبدالقادر جیلانیٌ

السلام علیکم
آج سےمیں اپنے والد مرحوم مفتی عزیزالرحمٰن صاحب نوراللہ مرقدہ کی اتصانیف میں دوسری تصنیف ’’تذکرہ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ‘‘ پیش خدمت کررہا ہوں اس سے پہلے میں اپنے والد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کی سوانح حیات پیش کرچکا ہوں معلوم نہیں آپ حضرات کو پسند آئی کی نہیں بہر حال اس نئے سلسلہ کو شروع کرنے سے پہلے اتنا عرض کردیتا ہوں کہ یہ کتاب ایک بار چھپ چکی ہے جس میں کتابت کی بہت غلطیاں تھیں اور بہت خفی قلم سے لکھی ہوئی تھی جس کی وجہ سے قاری کو پڑھنے میں کافی پریشانی ہوتی تھی الغرض یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے والد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے کچھ مزید اضافہ فرمائے تھے اور دوبارہ شائع کرنے کا تہیہ کرلیا تھا کہ دنیا فانی سے رخصت ہوگئے ،احقر نے اس کی دوبارہ کمپوژنگ کی پروف ریڈنگ سے رہ گئی تھی کہ تعمیری کام کی وجہ سے کتابیں فائلیں سب خلط ملط ہوگئیں اور اتفاقیہ طور سے اس کتاب کا مسودہ بھی کہیں غائب ہوگیا اور فائل کی کتاب بھی نہیں مل پارہی ہے ،اللہ کی ذات سے امید ہے کہ مل جائے گی کہیں رکھی گئی، ان شاء اللہ ۔
اس لیے آپ تمام قارئین سے التماس ہے کہ اس کتاب کا بغور مطالعہ فرمائیں اور اس کی تصحیح میں میرا ہاتھ بٹائیں اور کچھ حوالجات میں رہنمائی فرمائیں، فقط والسلام احقر عابدالرحمٰن مظاہری۔

تذکرہ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ

تالیف
حضرت مفتی عزیز الرحمٰن صاحب بجنوری رحمہ اللہ تعالیٰ


بسم اللہ الرحمن الرحیم

اوائل کتاب​
حامدًومصلیاً۔ اما بعد!
وہ کم نصیب مقام ِنظر نہ پہچانے
جو ان کے دل کی بلندی کا راز نہ جانے​

تفسیر تقریر القرآن لکھتے لکھتے معلوم نہیں کسی بیرونی کشش نے میری باگ قلم ادھر کو پھیردی ۔ گیارہ بارہ سال مصیبتوں کے پہاڑوں کابوجھ جھیلتا جھیلتاعاجز آگیا ۔ دعاکرتارہایاالہی صبح ہوا ۔ چنانچہ مصیبتوں کی تاریکیوں میں عرصئہ درا ز سے میرے پاس رکھی ہوئی دو کتاب مواعظ غوث الاعظم فتوح الغیب تھیں جن کو چند بار پڑھ چکا تھا ان کو الماری سے نکال کر تکیہ کے پاس رکھ لیا اور پھر پڑھا فتو ح الغیب میں لکھا ہوا پایا۔
۱)۔جس طرح گرمیوں کے خاتمہ سے سردیوں کا افتتاح ہوا کرتاہے یا رات کا اختتام نور سحر کا پتہ دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ تم دن کی روشنی کو مغرب وعشا ء کے ما بین تلاش کرو گے تو اس کا حصول نا ممکن ہوگا بلکہ رات کی تاریکیوں میں اضافہ ہو تاچلاجائے گا حتی کہ جس وقت رات کی تاریکیاں دم توڑدیں گی تونمود سحر کے ہمراہ دن کی روشنی نمودار ہوگی ………الخ۔ ( فتوح الغیب:۶۹)
۲)۔ہر شئی کا متعین وقت ہے اورہر بلاو مصیبت کی ایک انتہا ہے جس میں تقدیم وتاخیر کی قطعاً گنجائش نہیں ………الخ۔
غرضیکہ پوری کتاب کو اور پھر اس کے بعد الفتح الربانی مواعظ شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ کو پڑھا بہت طمانیت حاصل ہوئی اور بلاومصائب کا اس وقت کے دفعیہ کا نسخہ ہا تھ آگیا درمیا ن میں کچھ اس قسم کے واقعات بھی پیش آئے جن کو میں نمود سحر سے نیت تعبیر کرسکتا ہوں ۔
چھوٹی سے چھوٹی مصیبت اس وقت پہاڑ بن جاتی ہے جب صبر نہ ہو اور صبرہو تو بڑے سے بڑے پہاڑ بھی رُوئی کے گالے کی طرح اڑجاتے ہیں رات و دن رنج وراحت انسان کیلئے لازم ہیں ان سے مفر نہیں لہٰذا بقول شیخ سعدی رحمہ اللہ تعالیٰ ضروری ہے؎
گر گزنت رسد ز خلق مرنج ……… کہ راحت رسد زخلق نہ رنج
ازخداداں خلاف دشمن ودوست ……… کہ قلب ہر دو در تصرف اوست​
جب یہ خیا ل بندھ جاتا ہے اور دل میں راسخ ہے تو؎
نکوست ہر چہ می رسد از دوست​
یہی ایک غیبی تصرف تھا کہ میں نے حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ کا تذکرہ لکھنے کا ارادہ کرلیا خیا ل کیا تو بہت سے اکابر کے تذکرے ہیں پھر صاحب سلسلہ شیخ طریقت کا تذکرہ کیوں نہ ہو ، کام مشکل تھا الماری میں رکھی کتاب نفحات الانس از مولانا عبدالرحمن جامی کو پڑھا تو بالکل اتفا قاً اور تائید ازغیب جگہ جگہ کتاب میں ہراس جگہ نشان لگا ہوا تھا جہاں حضرت شیخ عبدا لقادر جیلانی کا ذکر خیر تھا ۔ ظاہر ہےکہ کسی نے نشانات لگا ئے ہو ں گے لیکن میر ے لئے توارشارہ غیبی یا الہام غیبی تھا ہمت بڑھی پھر اور کتابوں کو دہلی سے خرید کر لا یاان میں کا فی ذخیر ہ مل گیا اور ہمت بڑھی ۔ہر ایک اور کتاب خانہ میں جاکر دیکھا اور ہمت بڑھی اور ہوتے ہوتے تذکرہ مکمل ہوگیا۔
تذکرہ پڑھنے والے حضرات سے عرض کردوں کہ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ہر زمانہ اور ہر طبقہ کے حضرات کا قبرستان جانا اور اپنے متعلقین کے لیے دعاء مغفرت کرنا اور ایصال ثواب کرنا ثابت ہے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جنت البقیع جانا اور مرحومین کے لیے دعاء مغفرت کرنا ثابت ہے۔ لیکن ان حضرات نے حاضری میں غلومیلے ٹھیلے اور اعراس کے موقعوں پر سجدہ ریزی ، قبر بوسی،طواف اور دیگرممنوعات سے ہمیشہ گریز کیا اور اس سے لوگوں کومنع بھی کیا ہے اور احادیث شریفہ میں بھی اس بارے میں نہایت سختی سے ممانعت مذکور ہے اوریہ کیسے ممکن ہے کہ مسلمانوں کو مشرکانہ اعمال کی اجازت دی جائے ۔ حضرت شیخ قدس سرہٗ نے نہایت شدت سے اس پرنکیر فرمائی ہے۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا جاچکا ہے کہ ہر زمانے میں اور اب بھی مشکل اوقات میں اولیاء اللہ کے مزارات پر مشائخ وقت کی خدمت میں حاضر ہواجاتاہے ایسا کیوں ہے ؟ غالباً اس وجہ سے کہ ان حضرات کے قلوب مصفا اعلیٰ کی روحانیت کا مُہْبَط (اترنے یا نازل ہونے کی جگہ۔ع) ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ دانا اور بینا اور سمیع وبصیر سے ان کو قرب حاصل ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ان سے محبت کرتاہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں ۔
یحبونہ ویحبھم وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں اور اللہ ان سے محبت کرتا ہے۔ اور اس کی علامت یہ ہے:
من احب شیاً اکثر ذکرہ ’’جو کسی سے محبت کرتاہے اکثر اس کاذکر کرتاہے‘‘۔​
یہ حضرات اللہ تعالیٰ کا کثرت سے ذکر کرتے کرتے مقام ِمحبت پر فائز ہو گئے ۔ جنا ب رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں مروی ہے:
یذکراللہ فی کل احیان ’’آپ ہروقت اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے‘‘۔​
یہ کس طرح ہو؟یہ مقام ان لوگوں سے سیکھا جا تا ہے جو اسی راہ پر چل کر اس بلندی پر پہنچے ہیں۔اس لئے ضروری ہے کہ ان حضرات کے تذکرہ اور سوانح کو پڑھا جائے حضرت ‘‘حمدون قصار’’ نے فرمایا ہے:
جو لوگ اسلاف کی سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں وہ لوگوں کے مراتب کو حاصل کر لیتے ہیں اور اپنی کوتا ہی پر جلد آگاہ ہو جاتے ہیں۔(نفخات الانس)
اس سے معلوم ہوا کہ اسلاف کی سیرت و سوانح کو سیرت سازی میں بڑا دخل ہے
اس کے بر خلاف بزرگوں پر طعن وتشنیع کرنے والے اور ان کوا ذیت دینے والوں کا انجام بھی براہوتاہے ۔ ذوالنون مصری رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے اعراض فرماتاہے تو اس میں اولیا ء پر طعن اور انکار شرع ہوجاتاہے‘‘۔ (نفحات )
گر خدا خواہد کہ پردہ کس درد ……… میل اندر طعنہ پاکھان زند​
بہر حال ہم نے اس کتا ب کو چند ابواب پر تقسیم کیا ہے اور ہر عنوان کو متعدد کتابوں سے تحقیق کرنے کے بعد لکھا ہے ۔ تاریخی اعتبار سے ہر چند تایخ وسن کی قید کے ساتھ اور خوب تحقیق کر کے لکھا ہے ترتیب بھی بفضلہٖ تعالیٰ خوب ہوگئی ہے ۔ کتب ماخذ اور روایات کی فہرست وغیرہ غرض میرے بس میں جہاں تک تھا ٹھیک لکھاہے ۔ اللہ تعالیٰ اس تذکرہ کو بھی شرف قبول سے نوازے اور دنیا و آخرت سنوارے۔ آمین یارب العالمین۔ فقط
بندۂ حقیر ۔ مفتی عزیر الرحمٰن
مدنی دارلافتاء بجنور
۲۲؍ج ۲؍ ۱۴۱۲ھ مطابق ۳۰؍دسمبر ۱۹۹۱ء بر وزشنبہ​

جاری ہے ۔۔۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
جزاک اللہ خیر ۔عرض ہے طویل پوسٹ نہ ڈالیں تاکہ سہولت سے پڑھی جا سکے ۔“دعاکرتارہایاالہی صبح ہوا “ قبوربزرگان ‘دین پرا ‘جاتے رہیں“اس عبارت پر نظر ثانی فرمالیں ۔
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
سوانح حیات بالکل پسند آئی ہے، ماشآء اللہ۔ البتہ کچھ تجاویز سیاہ کار کے ذہن میں آئیں جو آپ کو پی ایم کر دیں۔
بہت عمدہ سلسلہ شروع کیا ہے۔جزاک اللہ خیرا
ایک گزراش ہے کہ جہاں کہیں فارسی اشعار استعمال ہوں، اُن کا ترجمہ بھی ضرور ساتھ کیجئے۔ ورنہ اہلِ علم ہی مستفید ہوں گے عام قارئین محروم رہیں گے۔
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
کمپوزنگ میں غلطیوں کی نشاندہی اور کچھ تجاویز پیش کرنا چاہتا ہوں اس کے لیے پی ایم کروں یا یہیں لکھوں۔۔۔؟
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ہر زمانہ اور ہر طبقہ کے حضرات مزارات اور قبوربزرگان دین پرا جاتے رہیں ہیں ۔ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی واالدہ محتر مہ کی قبر پر اور اصحاب بدر کی قبور پرجا نا ثابت ہے ۔ امام شافعی ؒکاامام ابو حنیفہ اوار امام موسیٰ الکاظم کی قبروں پر جانا وہاں دعامانگناثابت ہے ۔ جیساکہ ہم نے اسی کتاب میں ذکر کیا ہے ۔ ہمارے مشائخ میں حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ اور حضرت مولا نامحمد زکر یا شیخ الحدیثؒ سہارنپور ی کو میں نے بذاتِ خود جاتے اور وہاں دعا مانگتے دیکھاہے ۔
مولاناعابدالرحمن صاحب !قبروں پرجانے کی تعبیرسے بہترہے قبرستان جانا،اورویسے بھی سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم صرف اپنی والدہ ماجدہ کی قبرپرنہیں عموماًجنت البقیع تشریف لے جایاکرتے تھے ہمارے تمام اکابرمحض ایصال ثواب اورفاتحہ خوانی ہی کے لئے قبرستان جاتے تھے دورحاضرکی طرح کسی اورمقصدکے لئے ہرگزنہیں گئے ہیں۔
بہترہوگاکہ آپ رنگین عبارت کوسنگین بنانے سے گریزکرتے ہوئے کچھ ایسی تعبیرات قلمبندفرمائیں جوہمارے عقائدسے متصادم بھی نہ ہوں اورصحیح صورت حال بھی سامنے آجائے۔یہ میری ذاتی رائے ہے۔اس کوکوئی صاحب مشغلہ نہ بنائیں۔
 
السلام علیکم
آپ تمام حضرات کا تہہ دل سے مشکور ہوں یہ الفاظ میرے طبیعت پر بھی بار گزر رہے تھے کل پورے دن میں نے مسودہ تلاش کیا اصل مسودے میں ایسا ہی جیسا آپ نے رہنمائی فرمائی کاتب صاحب کی کرم فرمائی کا کرشمہ ہے کہ انہوں نے قبرستان کا قبر بنا دیا اور یہ میری سستی اور کوتاہی تھی کہ میں نے بھی اسی طرح بات کو آگے بڑھا دیا اللہ تعالیٰ معاف مجھےفرمائے اوراس نشان دہی کے لے آپ حضرات کو اجر عظیم عطا فرمائے ، میں نے تصحیح کردی ہے ۔ جزکم اللہ خیر الجزاء
 
۔۔۔گزشتہ سے پیوستہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

باب اوّل

ابتدائی حالات اور ابتدائی تعلیم
از ۴۷۰ھ؁ تا ۴۸۸ھ؁


کسے خبر ہے کہ ہزاروں مقام رکھتاہے
وہ فقر جس میں پوشیدہ ہو روح قرآنی​
جاری ہے۔۔۔
 
۔۔۔گزشتہ سے پیوستہ

تونے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحبِ اسرار کرے

ہے وہی تیرے زمانے کا امام بر حق
جو تجھے حاضرو موجود سے بیزار کرے

موت کے آئینہ میں دکھاکر رخ دوست
زندگی تیرے لئے اور بھی دشوار کرے

دے کے احسانِ زیاں تیرا لہوگرمادے
فقر کی سان چڑھاکر تجھے تلوار کرے​

جاری ہے۔۔۔
 
۔۔۔گزشتہ سے پیوستہ

مولد شریف:
حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ کامولد شریف یعنی جائے پیدائش مشہور روایت کی بنا ء پر ’’جیلان گیلان جیل‘‘ ہے۔ شہزادہ دارالشکوہ مصنف سفینۃ الاولیاء اور بہجتہ الاسرار کے مصنف امام ابو الحسن شطنونی اور اخبار الا خیار کے مصنف شیخ عبد الحق محدّث دہلوی اور نفحات الانس کے مصنف مولانا عبدالرحمن جامی نے آپ کا مولد شریف ’’جیلان‘‘ کو قرار دیا ہے اور صحیح قول یہی ہے۔ چنانچہ شہزادہ دارالشکوہ نے لکھا ہے:
آپ کو جیلی اس وجہ سے کہتے ہیں کہ آپ کی اصل ولایت جیل ہے۔ آ پ کی ولادت یہیں ہوئی جیل طبرستان کے عقب میں ایک ملک کا نام ہے جس کو جیلان گیلان اور گیل بھی کہتے ہیں ،بعض مورخین کی رائے ہے کہ جیل دریائے دجلہ کے کنارہ ایک موضع کا نام ہے اور صاحب معجم البلدان نے آپ کو شتیز کی طرف منسوب کیا ہے جوجیلان کے مضافات میں سے ہے بعض نے جیلان علاقہ مدائن سے قرار دیاہے۔ (سفینۃ الاولیاء)
معلوم رہے کہ مدائن سے مراد مدائن صالح یاوہ مدائن نہیں ہے کہ جہاں حضرت شعیب علیہ السلام رہتے تھے وہ علاقہ خلیج عقبہ کے آس پاس ہے ۔ یہاں مدائن سے مراد وہ علاقہ ہے جس کو آج کل ’’کردستان‘‘ کہاجاتا ہے یہ اس زمانے میں طویل وعریض صحراتی علاقہ تھا۔ زمانہ قدیم میں کردستا ن عراق کے اس علاقہ کوکہتے ہیں جس پر کردوں کاقبضہ رہا، اور صدام حسین سے ہمیشہ ان کا اختلاف اور جنگ رہی، صدام حسین کی معزولیت اور سقوطِ بغداد کے بعد یہ لوگ امریکہ کے ساتھ ہوگئے۔ یہاں کی بیشتر آبادی مذھباً شیعہ ہے۔ ’’معجم البلدان‘‘ جس کا حوالہ دارا شکوہ نے دیا ہے اس کی طرف جب ہم نے رجوع کیا تو اس میں جیلان کے بارے میں لکھا ہے:
جیلان اسم بلد وکثیرۃ فی طبرستان۔(۲؍۲۰۱)
’’جیلان طبرستان میں بہت سے شہروں کا نام ہے‘‘۔​
اس کے بعد تحریر فرمایا ہے:
علاقہ جیلان میں کوئی بڑا شہر نہیں ہے بلکہ پہاڑوں کے درمیان بہت سے دیہات آباد ہیں ان میں سے ہر ایک گاؤں کی طرف منسوب ہونے والوں کو جیلانی یا جیلی کہا جاتا ہے۔ اس علاقہ میں بہت سے فقہاء اور محدثین پیداہوئے۔
پہاڑی علاقوں میں سفر کرنے والے جانتے ہیں کہ پہاڑ کے نشیبی علاقہ میں جہاں بھی تھوڑے سے ہموار میدان ہو جاتے ہیں وہ آباد ہو جاتے ہیں اور اس کا کوئی نام رکھ دیا جاتا ہے ان پہاڑی دیہات کا فاصلہ اگر چٹانوں کو ہٹا دیا جائے تو بہت قریب ہوجاتا ہے۔ لیکن پگڈنڈیوں کے گھماؤں کی وجہ سے یہ فاصلہٗ فاصلہ ہی رہتا ہے۔
انسائیکلو پیڈیاکے مصنف نے معجم البلدان کی تحقیق کواختیار کرتے ہوئے اس کی مزید وضاحت فرمادی ہے اور متعین کرکے بتلادیاہے ۔
جیلان ایران کاایک علاقہ ہے اور بحر کیپین کاساحلی علاقہ ہے۔
ایران کایہ صوبہ اور اس کامحل وقوع یہ ہے۔ مغرب میں آواز بیجان ۔ مشرق میں مازندان ،جنوب میں قزدین اور شمال میں ایک دریاہے ۔ (حاشیہ غنیۃ)
غرضیکہ اس وقت کے حالات کے مطابق جیلان ایساکوئی مشہور شہر نہ تھا کہ وہاں علم وادب کے بڑے ادارے ہوں ۔ شتیز خود ایک گاؤں تھا جہاں بچوں کوقرآن پاک حفظ وغیرہ کی تعلیم کاانتظام ہوگا اسی وجہ سے تو آپ کو تحصیل ِعلم کے لئے بغداد کا سفر ایک قافلہ کے ساتھ اختیار کر نا پڑا تھا ۔ ظاہر ہے کہ یہ جگہ بغداد شریف کے کافی فاصلہ پر تھی جس کو بعض راویو ں نے برسوں کی راہ تعبیر کیاہے ۔ برسوں کاراستہ نہ بھی ہوگاہفتوں کا ضرور ہوگا ۔ سطور ذیل میں آپ کے والد ابو صالح عبداللہ جنگی دوست اور آپ کے نانا سید عبداللہ الصومعی کی ملاقات کے واقعہ سے یہی مرشح ہوتا ہے ۔


جاری ہے۔۔۔
 
۔۔۔گزشتہ سے پیوستہ

آپ کااسم گرامی:
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کا لقب ’’محی الدین‘‘ ہے اور غوث الاعظم، امامِ ربانی ،قطبِ حمدانی،محبوبِ سبحانی، پیرانِ پیر ہے ۔ حضرت کے والد کا نام نا می ابو صالح عبداللہ جنگی دوست بن سید ابو عبداللہ بن سید یحییٰ الذاہد بن داؤد بن موسیٰ بن عبداللہ محض بن حسن مثنیٰ بن حسن بن علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہم، اور عبداللہ محض کی والدہ فاطمہ بنت ِحسین بن علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہم ۔
تذکرہ نگاروں سے سلسلہ نسب میں آپ کے والد کے اسم گرامی کے بارے میں کچھ غلطی ہوئی ہے بعض نے ’’بن جنگی دوست‘‘ لکھا ہے، حالانکہ ایسانہیں ہے ’’بن‘‘ کااضافہ کاتبوں کا سہوہ ہے ۔ چونکہ آپ کے والد فوجی تھے اس وجہ سے ان کو ایرانی زبانی میں ’’جنگی دوست‘‘ لکھا ہے۔ اس بارے میں شہزادہ داراشکوہ کی رائے زیادہ مناسب ہے، انہوں نے لکھا ہے: ابو صالح موسیٰ سنوسی جنلی۔ کاتب صاحب کی مہربانی سے جنگی ہوگیااور سنوسی کاموسیٰ بنادیاگیا۔
والدہ محترمہ کی طرف سے آپ حسینی ہیں، سلسلہ نسب یوں ہے:
ام الخیرامتہ الجبار فاطمہ سیدبنت سید عبداللہ الصومعی الزاہد بن سید ابو جمال بن سید محمد بن سید محمود بن سید ابو العطاعبدا للہ بن سید کمال الدین عیسیٰ بن سید ابو علائوالدین محمد الجواد بن سید علی الرضابن سید موسیٰ کاظم بن امام جعفر صادق بن امام باقر ین امام زین العابدین بن سیدنا امیر المومنین حضرت حسین ؓ بن سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔ (غنیۃ الطالبین:۴۱، سفینۃ الاولیاء:۶۹)
حضرت قدس سرہٗ کایہ شجرہ نسب ’’اخبارالاخیار‘‘ اور دیگر معتبر تذکروں میں ذکر کیا گیا ہے اور جس پر سب کا اتفاق ہے ،لیکن حضرات شیعہ اس کا انکار کرتے ہیں وہ کہتے ہیں سلسلہ نسب باپ سے چلتا ہے اور حضرت کے والد محترم حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ہم ان کو امام تسلیم نہیں کرتے، کیوں کہ وہ یزید کے حق میں خلافت سے دست بردار ہوگئے تھے۔ قصیدہ غوثیہ میں حضرت شیخ رحمہ اللہ تعالیٰ نے خود ارشاد فرمایاہے:
انا الحسنی والمجد مقامی ……… وجدی صاحب العین کمالی​
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا ہے:
’’سیادت از اِمامین است اورادر نسب ثابت ،حسن از جانب والد حسین از جانب ثانی ‘‘۔​
ترجمہ: ’’ان کا سید ہونا دونوں اماموں سے ثابت ہے ،حسن والد کی جانب سے اور حسین والدہ محترمہ کی جانب سے‘‘۔ لیکن امام جعفر کی صحیح ’’کلینی‘‘کے صفحہ:۷۸ پر مذکور ہے:
فغضب زید عند ذلک ثم قال لیس امام منا من جلس فی بیتہ والامام منا من جاھد فی سبیل اللہ۔
’’پس زید کو اس پر غصہ آیا پھر فرمایا وہ امام نہیں ہے جو گھر میں بیٹھا رہے بلکہ امام وہ ہے جس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیاہو‘‘۔​
اسی قاعدہ کی بنیاد پر آگے تحریر فرماتے ہیں :
’’ پھر امام باقر رحمہ اللہ تعالیٰ کے فرزند امام ہوئے اور امام جعفر رحمہ اللہ تعالیٰ کو محروم کردیا ’’عماری‘‘ شیعہ کے نزدیک بعد امام جعفر کے محمد ان کا فرزند امام قرار پایااور فرقہ’’ اسماعیلیہ‘‘کے عقیدہ میں امام جعفر کے بڑے فرزند اسماعیل بوجہ نجیب الطرفین ہونے کے امام بن بیٹھے اور انہو ں نے کہا اس کی والدہ امام حسن کی پوتی ہے’’۔(رسا لہ فخرالحسن:۲۱)
غرضیکہ اس قسم کی بے سرو پا باتیں کھڑی کرکے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ کو سادات سے خارج کردیا اور آخر میں ایک مضحکہ خیز بات اس رسالہ میں اور لکھ دی کہ ’’حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کیوں کہتے ہو، سید عبدالقادر کہو ‘‘۔ان بیچاروں کو معلوم نہیں کہ شیخ بوڑھے کو بھی کہتے ہیں اور کسی فن میں مہارت رکھنے والے کو بھی شیخ کہتے ہیں (جیسے) شیخ الفقہ ،شیخ الادب، شیخ التفسیر وغیرہ،اور سیّد ہونا ایک خاندانی لقب ہے۔

جاری ہے۔۔۔
 
۔۔۔گزشتہ سے پیوستہ

ابو صالح عبداللہ رحمہ اللہ تعالیٰ کا واقعہ:
چالیس سال سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا کہ حضرت غوث پاک رحمہ اللہ تعالیٰ کی سوانح حیات پڑھی تھی اتنا یاد ہے کہ کسی قابل اعتماد صاحب کی لکھی ہوئی تھی نام بھی یاد نہیں ہے صرف واقعہ یاد رہ گیاوہ یہ ہے :
ایک مرتبہ جناب ابو صالح عبداللہ بزرگوار ایک قافلہ کے ساتھ عازم سفر ہوئے راستہ میں زادِراہ ختم ہوگیا، تین دن کافاقہ ہوگیا اہلِ قافلہ نے دستِ سوال نہ کیا۔ ایک دن شام کو کسی دریا کے کنارے قافلہ نے پڑاؤکیا، دیکھا تو دریا میں چند سیب بہتے آرہے ہیں اہل قافلہ میں سے ہر کسی نے کوشش کی لیکن کسی کے ہاتھ میں نہ آئے، جنا ب ابوصالح عبداللہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے ہاتھ بڑھایا تو ان کے ہاتھ لگ گئے۔ بھوک میں کھانے کا ارادہ کیا مگر متنبہ ہوئے کہ پہلے ان کے مالک کو تلاش کرنا چاہیئے۔ پانی کے بہاؤ سے اوپر کی طرف چلے تو دیکھا کہ سیب کا ایک باغ ہے اس کے پیڑ کی شاخ دریا میں جھکی ہے اسی سے سیب گرے تھے، فوراًباغ میں گئے اورباغبان کو سیب دکھلائے اور اجازت چاہی ۔ مگر اس باغبان نے ان کے تقویٰ کی طرف غورنہ کیا بلکہ پکڑ کر مارنا شروع کردیا گویا کہ وہی چور ہیں اورپکڑکر جناب عبداللہ الصومعی کی خدمت میں پیش کیا۔
جناب عبداللہ صاحب مالدار ورئیس ہونے کے علاوہ صاحبِ باطن اورصاحبِ تصرف بزرگ تھے، انہوں نے دریا فت کیاتو جنا ب ابو صالح نے واقعہ بیان کردیا۔ جناب عبداللہ الصومعی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ ابو صالح صاحب کے تقویٰ سے بے انتہا متا ثر ہوئے، اور فرمایا آپ کو معاف بھی کردیا جائے گا اور یہ سیب ہی نہیں بلکہ اور کچھ بھی دیا جائے گا مگر شرط یہ ہے کہ میری لڑکی فاطمہ جو معذور ہے، آنکھوں سے اندھی ، کانوں سے بہری ، پیروں سے اپاہج، ہاتھوں سے بیکار اور زبان سے گونگی ہے اس کو آپ اپنے عقد میں قبول فرمائیں۔ جناب ابو صالح نے معافی کی امید سے قبول کرلیا اور اسی مجلس میں عقد ہوگیا۔ رات کو جب ابو صالح صاحب حجلہ عروسی میں داخل ہوئے تو دیکھ کر حیران رہ گئے حسین وجمیل نازنین ہے جو مذکورہ عیوب سے پاک ہے، یہ دیکھ کر خیال ہوا کہ مبادا مجھے کسی دوسرے کمرہ میں پہنچادیا گیا ہے یہ میری زوجہ نہیں ہے فوراً نماز کی نیت باندھ لی اور صبح تک نماز میں مشغول رہے،نمازِ فجر کے بعد خسر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوکر شکایت کی۔ خسر صاحب نے فرمایا: میں نے سچ کہا تھا میری لڑکی آنکھوں سے اندھی اس وجہ سے ہے کہ اس کی نظر کبھی نا محرم پر نہیں پڑی، زبان سے کبھی غلط الفاظ نہیں نکالے اور کانوں سے کبھی غلط آواز نہیں سنی اور علیٰ ھذا۔
عبداللہ الصومعی رحمہ اللہ تعالیٰ کا تعارف:
اس جگہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جناب عبداللہ الصومعی کا مختصر تعارف کردیا جائے ، حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ صاحب نفحات الانس تحریر فرماتے ہیں:

جاری ہے۔۔۔
 
۔۔۔گزشتہ سے پیوستہ

آپ گیلان کے مشائخ اور زاہد ترین رؤسا میں تھے، نہایت بلندمقام تھا، صاحبِ تصرف اور بڑے صاحبِ کرامت بزرگ تھے، اتنے مستجاب الدعوات کہ جو زبان سے کہہ دیتے وہی ہوجاتا، قبل از واقعہ کو بیان فرمادیتے اور وہی ہوتا ۔چنانچہ ایک مرتبہ ان کے لوگوں کی ایک جماعت بغرض تجارت سمرقند کیلئے روانہ ہوئی سمرقند کے قریب پہچنےت پر لٹیروں کی ایک جماعت نے لوٹ لیا۔ تا جروں کی جماعت نے جناب عبد اللہ الصومعی کو آواز دی، آپ وہاں موجود ہوگئے، دیکھا تو کھڑے ہیں اور بآواز بلند پڑھ رہے ہیں:’’ سبوح قدوس ربنا اللہ ‘‘۔ یہ آواز سن کر تمام لٹیرے فرار ہوگئے ایک بھی نہ رہا۔ جب یہ قافلہ گیلان پہنچا تو دیگراصحاب نے عبداللہ الصومعی سے ذکر کیا، تو انہو ں نے فرمایا کہ ہمارے پاس سے کسی وقت بھی شیخ باہر نہیں گئے۔
ان گزارشات کے بعد اب تاریخی اور جغرافیائی اعتبار سے حالات پر تبصرہ کیا جاتا ہے۔ حضرت ابو صالح اور حضرت عبداللہ الصومعی دونوں حضرات جب کہ گیلان جیلان کے تھے تو کیا ضرورت سفر پیش آئی حالات سے پتہ چلتاہے دونوں دُور دراز کے دو مقام کے باشندہ تھے؟
جواب اس کایہ ہے کہ انسائیکلو پیڈیا کی تحریر کے مطابق گیلان علاقہ اور صوبہ کا نام ہے دونوں حضرات علاقہ کی طرف منسوب ہیں جیسا کہ ہمارے یہاں بہاری ،بنگالی، پنجابی،گجراتی ، وغیرہ الفاظ بولے جاتے ہیں ۔اگر کوئی آدمی گجرات کے ایک گاؤں کا اور دوسرا آدمی اسی صوبہ کے آخری گاؤں کا ہو تو مسافت کے اعتبار سے سو دوسو کلو میٹر کا فاصلہ ہوگا مگر انتساب سے بہت قریب اور نزدیکی معلوم ہوتی ہے۔یہی تاویل اس جگہ اور مذکور ہ واقعہ کے متعلق کی جاسکتی ہے۔واللہ اعلم

جاری ہے۔۔۔
 
۔۔۔گزشتہ سے پیوستہ

ولادت سے پیشتر اکابر مشائخ کی پیشین گوئیاں:
آپ کی ولادت سے پیشتر بذریعہ کشف والہام متعدد اکابر مشائخ نے آپ کی ولادت کی پیشین گوئی فرمائی تھی، ان میں سے چند یہ ہیں:
۱)۔جناب شیخ ابو بکر ہوار نے فرمایا: عنقریب عراق میں ایک عجمی مردِ خداجولوگوں کے نزدیک بلند مرتبہ ہوگا، اس کا نام ‘‘عبدالقادر’’ ہوگا، اس کی سکونت بغداد میں ہوگی، وہ کہے گا ‘‘میرا یہ قدم ہر ولی اللہ کی گردن پرہے ’’۔
۲)۔ابو احمد عبداللہ جوفی فرماتے ہیں: عنقریب عجم کی زمین پر ایک لڑکا پیداہوگا جس کی کرامات کا بڑاظہور ہوگا تمام اولیاء کے نزدیک اس کا بڑا مرتبہ ہوگا،وہ کہے گا‘‘میرایہ قدم ہر ولی کی گردن پر ہے اس وقت میں اولیا ء اس کے قدم کے نیچے ہوں گے’’۔
۳)۔شیخ عقیل منجی نے فرمایا: اور قریب ہے کہ یہاں ایک جوان ظاہر ہوگاوہ جوان عجمی شریف ہوگا، لوگوں کے سامنے بغداد میں کلام کرے گا،وہ اپنے وقت کا قطب ہوگا،اور وہ کہے گا ‘‘میرا یہ قدم تمام اولیاء کی گردن پر ہے ’’۔
۴)۔شیخ علی بن وھب کی خدمت میں فقراء کی ایک جماعت آئی ۔ شیخ نے پوچھاکہ کہاں سے آئے ہو؟ انہوں نے کہا:عجم سے۔ انہوں نے کہا:کون سے عجم سے ؟ انہوں نے کہا: جیلان سے۔ کہاکہ بے شک اللہ تعالیٰ نے وجود کو ایسے شخص کے ساتھ روشن کردیاہے کہ عنقریب تم میں ظہور کرے گا، وہ اللہ سے قریب ہوگا، اس کا نا م ‘‘عبدالقادر’’ ہے ۔ (بہجۃ الاسرار)
۵)۔اس زمانہ میں عراق کے اوتاد سات ہیں: معروف کرخی، امام احمد بن حنبل، بشر حافی، منصور بن عمّار، جنید بغدادی، عبداللہ تستری، شیخ عبد القادر جیلانی رحمہم اللہ تعالیٰ۔ ان سب بزرگوں سے ان کے اوقات میں دریافت کیاگیا شیخ عبدالقادر جیلانی کون ہیں؟ انہوں نے فرمایا: ‘‘ایک کریم النفس عجمی ہے جو بغداد میں پیدا ہوگا، اس کا ظہور قرن پنجم میں ہوگا۔ (سفینۃ الاولیاء)
حضرت غوث الاعظم رحمہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں ایسی ہی اور بہت سی پیشن گوئیاں ہیں جوان کی ولادت سے پیشتر کردی گئیں تھیں۔ ان پیشنگوائیوں کی عقلی حقیقت بھی ہے اور شرعی حقیقت بھی۔کیا یہ ثابت شدہ حقیقت نہیں کہ فلکیات کے ماہرین اور موسمیات کے ماہرین قبل از وقت بہت سے امور کو بیان کردیتے ہیں اور ان سب سے واقعات ویسے ہی ہوجاتے ہیں؟
جیسا کہ بیان کیا گیا ہے روزانہ ریڈیو اور ٹی وی پر موسمیا ت کی خبریں آیا کر تی ہیں یہ ان لوگوں کے فن کی بات ہے ۔ ان کے علاوہ ذہین اور تجربہ کا ر لوگ محض قرائن سے بہت پہلے کہ دیتے ہیں، مثلاً سیاسی مبصرین اور مدیران جرائد واخبار ۔رہا اہل اللہ کا معاملہ وہ ان سے زیادہ اہم اورمعتمدہے ان کے کشف و الہام میں عموماًغلطی نہیں ہوتی وہ اپنی روح کی لطافت اور قلب کے رجوع الی اللہ کی بناء پر قبل از وقت بتلادیتے ہیں ان کے قلوب میں ملاء اعلیٰ اور عالم قدس سے عکس پڑتا ہے جس طرح سے صاف اور شفاف پانی میں آفتاب کی شعاعیں کروڑوں میل کے فاصلہ پر پڑتی ہیں اور دکھلائی دیتی ہیں اور یہاں تک ان کا رسوخ ہوتا ہے کہ پانی تہہ تک اشیاء نظر آجاتی ہیں اہل اللہ کی ارواح مقدسہ اور قلوب مصطفیٰ کے لئے زمانی اور مکانی کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔
حضرت سید احمد شہید رحمہ اللہ تعالیٰ جب دیوبند اس جگہ سے گزرے جہاں آج دارالعلوم ہے تو پچاس سال پہلے بتلادیا تھا کہ اس جگہ سے علوم کی بو آرہی ہے ۔عام لوگ کہیں گے کہ علم کوئی بو ہوتی ہے ۔میں کہتا ہوں ہر مقدس چیز کا عکس جداگانہ ہوتا ہے جس کو اہل اللہ کے قلوب محسوس کرلیتے ہیں،ایسے ہی گناہ اور حرام کی ظلمت ہوتی ہے جس کو ان کے قلوب محسوس کر لیتے ہیں۔حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ وضو اور غسل کے پانی کو دیکھ کر بتلادیتے تھے کہ اس میں فلاں گناہ دھل گیا ہے،اور اسی وجہ سے انہوں نے شروع میں ماء مستعمل کو نجس غلیظ قرار دیا تھا۔
جناب نواب صدیق حسن خاںصاحب اور حضرت شاہ ولی اللہ صاحب اور حضرت مجدد الف ثانی نے فرمایا: کہ اگر چند آدمیوں کا کشف اور الہام ایک ہی ہو تو اس پر یقین کرلینا چاہئےاور اس پر عمل کرلینا جائز ہے، اور حضرت غوث الاعظم رحمہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں تو ان کی ولادت سے پیشتر سینکڑوں اولیاء اللہ کے الہامات اور مکشوفات ہیں۔

جاری ہے۔۔۔
 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
التماس ہے کہ اس کتاب کا بغور مطالعہ فرمائیں اور اس کی تصحیح میں میرا ہاتھ بٹائیں اور کچھ حوالجات میں رہنمائی فرمائیں، فقط والسلام۔
احقر عابدالرحمٰن مظاہری
 
۔۔۔گزشتہ سے پیوستہ

ولادت با سعادت اور بچپن:
آپ کی ولادت با سعادت یکم رمضان المبارک ۴۷۰ھ؁ کی شب اوّل میں ہوئی یعنی پہلے ماہ مبارک کے چاند نے طلوع کیا اور جناب رسول اللہ ﷺکے چاند طلوع فرمایا۔ ولادت سے پشترن آپ کے والد انتقال فرما چکے تھے آپ کی والدہ کی عمر ۶۰؍سال کی ہوچکی تھی اس طرح آپ کی پرورش آپ کے نا نا جناب عبداللہ الصومعی رحمہ اللہ تعالیٰ کے زیر سایہ رہی۔ ماں بھی ولیہ اللہ اور نانا بھی قطبِ وقت اور خود مادر زاد ولی۔ آپ کی والدہ کا بیان ہے کہ عبد القادر کے حمل کا مجھے ثقل محسوس نہیں ہوا۔ شبِ ولادت کے بعد دن نکلا تو آپ نے کوئی چیز منہ میں نہیں لی، آپ کی والدہ ماجدہ فرماتی ہیں:
’’جب میرے یہاں عبدالقادر پیدا ہوئے تو رمضان شروع تھا اس مقدس مہینہ میں دن کے وقت کبھی میری چھاتی سے دودھ نہیں پیتے تھے۔ اتفاق سے ایک دفعہ اَبر کی وجہ سے ہلال رمضان کا لوگوں کو شبہ پڑ گیا، بعض لوگوں نے لوگوں نے مجھ سے آکر دریافت کیا تمہیں رویت ہلال کی خبر ہے؟ میں نے کہا آج میرے عبدالقادر نے دن کو دودھ نہیں پیا اس لئے میں سمجھتی ہوں کہ آج رمضان المبارک کی پہلی تا ریخ ہے‘‘۔ (سفینۃ الاولیاء:۷۳،حاشیہ غنیۃالطالبین، منقول از بہجۃ الاسرار،اذکار الابرار،ترغیب المناظر)
رمضان المبارک میں دن کو دودھ نہ پینا آپ کی یہ خصوصیت بستی میں سب لوگوں پر عیاں تھی، گویا دن میں دودھ نہ پینا رمضان ہونے پر دلیل مانی جاتی تھی ۔آپ نے اپنے بعض اشعار میں خود فرمایا ہے:
’’میرے ابتدائی حالات کے ذکر سے سارا عالم بھرا پڑا ہے اور گہوارہ میں میرا روزہ رکھنا مشہور ہے‘‘۔(حاشیہ غنیہ از بہجۃ الاسرار)
آپ ہمیشہ بچوں کے ساتھ کھیلنے سے طبعاً اجتناب فرماتے تھے، آپ خود ارشاد فرماتے ہیں:
’’جب کبھی میں جو لیوں کے ساتھ کھیلنے کا ارادہ کرتا تو غیب سے آواز آتی: الیّ یا مبارک ’’اے اللہ کے مبارک بندے! میری طرف‘‘۔یہ سن کرمیں ڈر جاتا اور بھاگ کر اپنی اماں کی گود میں بیٹھ جاتا‘‘۔ (حاشیہ غنیۃ)

جاری ہے۔۔۔
 
۔۔۔گزشتہ سے پیوستہ

ابتدائی تعلیم:
بہجۃ الاسرار کے مصنف نے آپ کے صاحبزادے شیخ عبدالرزاق کی سند سے آپ کاارشاد نقل فرمایا ۔شیخ عبدالقادر رحمہ اللہ تعالیٰ سے لوگوں نے دریافت کیا کہ آپ کو کب معلوم ہوا کہ آپ ولی اللہ ہیں؟ آپ نے جواب فرمایا کہ میں اپنے شہر میں دس سال کا تھا اپنے گھر سے نکلتا تھا اور مکتب کو جاتا تو ہمارے استاذ لڑکوں سے کہتے کہ ولی اللہ کے لئے جگہ چھوڑدو تاکہ بیٹھ جائے(۱)۔
حاشیہ(۱):غنیہ الطالبین کے مترجم نے یہ مقولہ فرشتوں کا نقل کیا ہے ،یعنی اس کو ندائے غیبی قرار دیا ہے۔لیکن بہجۃالاسرار کے مصنف نے اس کو مدرس کا مقولہ نقل کیا ہے، قرین قیاس یہی ہے،واللہ تعالیٰ اعلم۔
پھر ایک دن ہمارے پاس ایک شخص آیا جس کو میں اس دن پہچانتا تھا اس نے فرشتوں سے اس دِن سنا (ندائے غیب )،ایک نے کہا یہ لڑکا کون ہے؟ اس نے اس سے کہا: اس کی ایک دِن شانِ عظیم ہوگی،یہ دیا جائے گا رَدّ نہ کیا جائے گا ،قدرت دیا جائے گا اور محبوب ہوگا، اس سے مکر نہ کیا جائے گا، پھر میں نے اس شخص کو چالیس کے بعد پہچانا تو وہ اس وقت کا ابدال میں سے تھے۔
آپ نے فرمایا کہ میں اپنی جوانی کے دِنوں میں سفر میں تھا، میں نے کہنے والے سے سنا کہ وہ کہتا تھا: ’’عبد القادر! تم کو میں نے اپنے لئے پسند کیا ہے‘‘۔
میں آواز سنا کرتاتھا اور کہنے والے کو نہ دیکھتا تھا ، مجاہدہ کے دِنوں میں جب مجھے اُونگھ آجاتی تو سنا کرتا کہ کوئی کہنے والا کہتا ہے: اے عبد القادر! میں نے تم کو سونے کیلئے نہیں پیدا کیا ہم تمہا رے اس وقت دوست تھے جب تم کچھ نہ تھے، سو جب تم کچھ شئی ہوگئے ہو تو ہم سے غافل نہ رہو(۱)۔ کثرتِ ذکر کی وجہ سے جب نسبت اور ملکہ یادداشت قائم ہو جاتاہے جس کو ’’استحضار‘‘ بھی کہتے ہیں تو منامات تو کم البتہ ندائے غیب اور اُونگھ کی حالت میں زیادہ ہونے لگتا ہے ،یہ کشف والہامات مختلف نوع کے ہو تے ہیں پیش آمدہ واقعات اور حالات کے بارے میں جو مکشوفات اور الہامات ہوتے ہیں ان کو اس طرح سمجھ لیجئے ،مثلاًایک آدمی بلندی پر ہے اور وہ گردو پیش کی اشیاء کو دُور تک دیکھ لیتا ہے اور نشیب میں رہنے والوں کو اس کی خبر بھی نہیں ہوتی،ایسے ہی وہ حضرات جن کے قلوب صاف ہوتے ہیں اور خیالات میں گندگی نہیں ہوتی وہ اُو پر سے نازل ہونے والے حالات کو محسوس کر لیتے ہیں۔حواسِ خمسہ ظاہرہ کیلئے ظاہری مواقع ہو سکتے ہیں ،لیکن ادراکات رُوح وقلب کیلئے کوئی مانع نہیں ہے ۔اس لئے اہل اللہ اپنے وجدان سے محسوس کرکے بیان کرتے ہیں، اسی کو جناب رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا ہے:
’’اتقو بفراسۃ المؤمن فانہ ینظر بنور اللہ تعالیٰ‘‘۔
’’فراستِ سے مؤمن ڈرو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے‘‘۔​
عام لوگ چونکہ ظلمت اور گندگیوں میں آلودہ ہوتے ہیں، بلا دریغ کہتے ہیں کہ سمجھ میں نہیں آیا، اوّل تو ان کی فہم ہی کب اس معیار کی ہے کہ جس پر بھروسہ کیا جائے، بالفرض اگر ہو بھی تو اپنی محسوسات تک رہے گی۔
حاشیہ(۱):ہجۃ الاسرار۔
اُوپر کی روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ دس سال کی عمر میں اپنے علاقہ کے مکتب میں زیر تعلیم تھے ۔ظاہر ہے کہ کچھ ابتدائی تعلیم نانا سے اور والدہ سے اورپھر مکتب کے مدرس سے حاصل کی۔ اور یہ سلسلہ ۴۸۸ھ؁ تک رہا، کیونکہ یہی سال آپ کی بغداد کی روانگی کا ہے ۔روایت سے یہ بھی ثابت ہے کہ مکتب میں پڑھنے ہی کی حد تک معاملہ نہ تھا بلکہ ساتھ ہی ریاضت اور عبادت کا سلسلہ بھی جاری رہتا تھا اور کیوں نہ ہوتا، ناناقطب اور ماں ولیہ ،پورے گھر میں شب بیداری کا ماحول ،ذکراللہ ہی ذکر اللہ،پھر غفلت کا کیا سوال مزید برآں یہ کہ آپ مادر زاد ولی، شروع سے ہی آپ کی نگرانی خود اللہ تعالیٰ فرماتاتھا،اور فرشتہ دیکھ ریکھ کرتے تھے۔ہمارے زمانہ میں مشائخ کاندھلہ کے حالات پڑھنے سے کچھ ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔
موجودہ زمانہ میں طالب علمی کے زمانہ میں ریاضت اورعبادت اور ذکر وشغل کچھ عجیب ہی سا معاملہ بن گیا ہے لیکن میں نے اپنے زمانہ میں دیکھا ہے کہ طلبہ تہجد گزار ہوتے تھے ،ذکر وتسبیح کے پابند ہوتے تھے،اور جن کو اللہ توفیق دیتا وہ تعلیم کے ساتھ ریاضت وعبادت میں بھی مشغول رہتے تھے۔آج حال یہ ہے کہ اساتذہ کی جیب تسبیح سے خالی ہوتی ہے، ہمارے زمانے میں طلباء کی بھی جیب میں تسبیح ہوا کرتی تھی ،یہی حال روزوں کا تھا ،مسنون روزوں کی اور ،اَوراد ووظائف کا معمول اسباق ہی کی طرح رہتا تھا، حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے حالات پڑھ کر دیکھ لیجئے۔
حضرت کی سوانح حیات اور تذکروں کے پڑھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ علاقہ جیلان میں علومِ شریعت کے بڑے مدارس نہ تھے بس قرآن شریف اور بتدائی تعلیم ہوگی ،جیسا کہ ہمارے ملک میں یوپی (انڈیا) کے علاوہ دیگر ریاستوں میں دینی تعلیم کا معاملہ ہے ،لڑکے ابتدائی تعلیم حاصل کرکے یوپی کے مدارسِ دینیہ کی طرف منتقل ہوجاتے ہیں اسی طرح حضرت نے بھی درسیات کی ابتدائی کتابیں اور قرآن شریف حفظ اپنے۔۔۔۔۔۔۔ (یہاں پر مضمون کچھ رہتا ہے بعد میں لکھ دیا جائے گا)
بیدار ہوں دِل جس کی فغان سحری سے
اس قوم مدّت سے وہ درویش ہے نایاب
(اقبال)​

جاری ہے۔۔۔
 
۔۔۔گزشتہ سے پیوستہ

گل خوشبوئے درحمام روزے
رسید از دست محبوب بدستم

بدوگفتم کہ مشگی یاعبیری
کہ بوے دلاویزے توستم

بگفتامن ِگل ناچیز بودم
ولاکن صحبت باگل نشتم

جمال ہم نشیں درمن اثرکرد
وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم​

جاری ہے۔۔۔
 
۔۔۔گشتہ سے پیوستہ

بغداد کیلئے سفر:
شیخ ابو عبداللہ(۱) (حالات آئندہ مذکور ہونگے) نے فرمایا: میں اپنے والد شیخ عبدالقادر کے پاس تھا ، ایک سائل نے آپ سے دریافت کیاکہ آپ کامعاملہ کس پر مبنی ہے؟ فرمایا: میرامعاملہ صدق پر مبنی ہے میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ میں جب اپنے شہرمیں بچہ تھاایک دن عرفہ کے دن جنگل میں نکل گیا اور کھیتی کے بیل کے پیچھے ہولیااس نے میری طرف دیکھا اور کہا: ‘‘اے عبدالقادر! تم اس لئے پیدانہیں ہوئے ہو اور نہ تمہیں اس کا حکم ہواہے’’۔ تب میں ڈر کر اپنے گھر واپس آگیا اور گھر کی چھت پر چڑھ گیا، اس وقت میں نے دیکھاکہ لوگ عرفات کے میدان میں کھڑے ہیں، تب میں اپنی ماں کے پاس آیا اور بولاکہ آپ مجھے بخش دیں اور اجازت دیں کہ میں بغداد جاؤں اور وہاں علم حاصل کروں اور صالحین کی زیارت کروں ۔ انہوں نے اس کا مجھ سے سبب دریافت کیا تو میں نے اپنا سارا حال بیان کردیا وہ سن کر روپڑیں اور میرے پاس اَسّی (۸۰) دینا رلائیں جو میرے والد چھوڑکر فوت ہوگئے تھے ۔ والدہ نے چالیس دینار تو میرے بھائی کے لئے رکھ لئے اور چالیس دینا رمیری گدڑی میں بغل کے نیچے سِی دیئے اور مجھے جانے کی اجازت دی اور مجھ سے عہد لیا کہ میں ہر حال میں سچ بولو ں اور رخصت کرنے کیلئے باہر تک نکلیں اور بولیں: اے فرزند!اب تم جاؤ اب میں واپس جاتی ہوں اب میں یہ چہرہ قیامت تک نہ دیکھوں گی ۔
کتنا رقت آمیز منظرہوگا، جب ماں نے اپنے لختِ جگرکو رخصت کیا ہوگااوار دل پر کیا گزری ہوگی اور لائق بیٹے کے دل پر کیاگذری ہوگی ؟مگر طلبِ علمِ دین کاشوق اور جذبہ۔
جناب رسول اللہ ﷺ نے حق فرمایا ہے کہ طالب علم کی رضا کیلئے فرشتے اس کے پیر وں کے نیچے اپنے پَر بچھاتے ہیں (۲)۔ (مشکوٰۃ)
حاشیہ(۱):حضر ت شیخ کے ایک صاحب زادے کی کنیت ہے۔
(۲):رواہ احمد، ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ، دارمی، عن ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ، مشکوٰۃ، رقم الحدیث:۲۰۱۔
ارشاد فرمایا: تب میں ایک قافلہ کے ساتھ جو بغداد جانے والاتھا روانہ ہوا جب ہم ہمدان (ایران کا ایک شہر ہے) سے نکلے تو زمین تر تنگ میں پہنچے تو جنگل میں سے ہم پر ساٹھ سوار ڈاکوؤں نے حملہ کردیا انہوں نے قافلہ کو پکڑ لیا لیکن مجھ سے کسی نے تعرض نہ کیاان میں سے ایک میرے پاس آیا اور پوچھا: اے فقیر!تریے پاس کیا ہے؟ میں نے کہا: چالیس دینار ہیں۔ اس نے کہا: کہاں ہیں ؟ میں نے کہا:میری گدڑی میں بغل کے نیچے۔ اس نے مجھے ہنس کر چھوڑ دیا، اس کے بعد ایک آدمی اور آیا اور اس نے مجھ سے یہی پوچھا اور میں نے وہی جواب دیا ۔اور دونوں نے جاکر اپنے سر دار سے کہا ، سردار نے مجھے طلب کیا اور وہی سوال کیاجو پہلے لوگوں نے کیا تھا میں نے وہی جوب دیا، تب اس نے میری گدڑی کو پھاڑنے کاحکم دیا تو اس میں سے چالیس دینا ر نکلے۔ سردار نے کہا: تم کواقرار پر کس نے آمادہ کیا؟ میں نے کہا: میری ماں نے رخصت کرتے وقت مجھ سے سچ بولنے کا عہد لیا تھا ۔ یہ سن کر سر دار رونے لگااور بولا:‘‘آپ اپنی ماں کے ساتھ عہد کے اتنے پابند ہیں اور میں خداکے ساتھ عہد کا بھی پابند نہیں ہوں’’ یہ کہہ کر اس نے میرے ہاتھ پر توبہ کی اور سارے ڈاکوؤں نے بھی توبہ کی اور قافلہ والوں کا مال واپس کردیا۔

جاری ہے۔۔۔
 
Top