السلام علیکم
آج سےمیں اپنے والد مرحوم مفتی عزیزالرحمٰن صاحب نوراللہ مرقدہ کی اتصانیف میں دوسری تصنیف ’’تذکرہ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ‘‘ پیش خدمت کررہا ہوں اس سے پہلے میں اپنے والد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کی سوانح حیات پیش کرچکا ہوں معلوم نہیں آپ حضرات کو پسند آئی کی نہیں بہر حال اس نئے سلسلہ کو شروع کرنے سے پہلے اتنا عرض کردیتا ہوں کہ یہ کتاب ایک بار چھپ چکی ہے جس میں کتابت کی بہت غلطیاں تھیں اور بہت خفی قلم سے لکھی ہوئی تھی جس کی وجہ سے قاری کو پڑھنے میں کافی پریشانی ہوتی تھی الغرض یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے والد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے کچھ مزید اضافہ فرمائے تھے اور دوبارہ شائع کرنے کا تہیہ کرلیا تھا کہ دنیا فانی سے رخصت ہوگئے ،احقر نے اس کی دوبارہ کمپوژنگ کی پروف ریڈنگ سے رہ گئی تھی کہ تعمیری کام کی وجہ سے کتابیں فائلیں سب خلط ملط ہوگئیں اور اتفاقیہ طور سے اس کتاب کا مسودہ بھی کہیں غائب ہوگیا اور فائل کی کتاب بھی نہیں مل پارہی ہے ،اللہ کی ذات سے امید ہے کہ مل جائے گی کہیں رکھی گئی، ان شاء اللہ ۔
اس لیے آپ تمام قارئین سے التماس ہے کہ اس کتاب کا بغور مطالعہ فرمائیں اور اس کی تصحیح میں میرا ہاتھ بٹائیں اور کچھ حوالجات میں رہنمائی فرمائیں، فقط والسلام احقر عابدالرحمٰن مظاہری۔
تذکرہ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ
تالیف
حضرت مفتی عزیز الرحمٰن صاحب بجنوری رحمہ اللہ تعالیٰ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اوائل کتاب
حامدًومصلیاً۔ اما بعد!اوائل کتاب
وہ کم نصیب مقام ِنظر نہ پہچانے
جو ان کے دل کی بلندی کا راز نہ جانے
جو ان کے دل کی بلندی کا راز نہ جانے
تفسیر تقریر القرآن لکھتے لکھتے معلوم نہیں کسی بیرونی کشش نے میری باگ قلم ادھر کو پھیردی ۔ گیارہ بارہ سال مصیبتوں کے پہاڑوں کابوجھ جھیلتا جھیلتاعاجز آگیا ۔ دعاکرتارہایاالہی صبح ہوا ۔ چنانچہ مصیبتوں کی تاریکیوں میں عرصئہ درا ز سے میرے پاس رکھی ہوئی دو کتاب مواعظ غوث الاعظم فتوح الغیب تھیں جن کو چند بار پڑھ چکا تھا ان کو الماری سے نکال کر تکیہ کے پاس رکھ لیا اور پھر پڑھا فتو ح الغیب میں لکھا ہوا پایا۔
۱)۔جس طرح گرمیوں کے خاتمہ سے سردیوں کا افتتاح ہوا کرتاہے یا رات کا اختتام نور سحر کا پتہ دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ تم دن کی روشنی کو مغرب وعشا ء کے ما بین تلاش کرو گے تو اس کا حصول نا ممکن ہوگا بلکہ رات کی تاریکیوں میں اضافہ ہو تاچلاجائے گا حتی کہ جس وقت رات کی تاریکیاں دم توڑدیں گی تونمود سحر کے ہمراہ دن کی روشنی نمودار ہوگی ………الخ۔ ( فتوح الغیب:۶۹)
۲)۔ہر شئی کا متعین وقت ہے اورہر بلاو مصیبت کی ایک انتہا ہے جس میں تقدیم وتاخیر کی قطعاً گنجائش نہیں ………الخ۔
غرضیکہ پوری کتاب کو اور پھر اس کے بعد الفتح الربانی مواعظ شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ کو پڑھا بہت طمانیت حاصل ہوئی اور بلاومصائب کا اس وقت کے دفعیہ کا نسخہ ہا تھ آگیا درمیا ن میں کچھ اس قسم کے واقعات بھی پیش آئے جن کو میں نمود سحر سے نیت تعبیر کرسکتا ہوں ۔
چھوٹی سے چھوٹی مصیبت اس وقت پہاڑ بن جاتی ہے جب صبر نہ ہو اور صبرہو تو بڑے سے بڑے پہاڑ بھی رُوئی کے گالے کی طرح اڑجاتے ہیں رات و دن رنج وراحت انسان کیلئے لازم ہیں ان سے مفر نہیں لہٰذا بقول شیخ سعدی رحمہ اللہ تعالیٰ ضروری ہے؎
گر گزنت رسد ز خلق مرنج ……… کہ راحت رسد زخلق نہ رنج
ازخداداں خلاف دشمن ودوست ……… کہ قلب ہر دو در تصرف اوست
جب یہ خیا ل بندھ جاتا ہے اور دل میں راسخ ہے تو؎ازخداداں خلاف دشمن ودوست ……… کہ قلب ہر دو در تصرف اوست
نکوست ہر چہ می رسد از دوست
یہی ایک غیبی تصرف تھا کہ میں نے حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ کا تذکرہ لکھنے کا ارادہ کرلیا خیا ل کیا تو بہت سے اکابر کے تذکرے ہیں پھر صاحب سلسلہ شیخ طریقت کا تذکرہ کیوں نہ ہو ، کام مشکل تھا الماری میں رکھی کتاب نفحات الانس از مولانا عبدالرحمن جامی کو پڑھا تو بالکل اتفا قاً اور تائید ازغیب جگہ جگہ کتاب میں ہراس جگہ نشان لگا ہوا تھا جہاں حضرت شیخ عبدا لقادر جیلانی کا ذکر خیر تھا ۔ ظاہر ہےکہ کسی نے نشانات لگا ئے ہو ں گے لیکن میر ے لئے توارشارہ غیبی یا الہام غیبی تھا ہمت بڑھی پھر اور کتابوں کو دہلی سے خرید کر لا یاان میں کا فی ذخیر ہ مل گیا اور ہمت بڑھی ۔ہر ایک اور کتاب خانہ میں جاکر دیکھا اور ہمت بڑھی اور ہوتے ہوتے تذکرہ مکمل ہوگیا۔تذکرہ پڑھنے والے حضرات سے عرض کردوں کہ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ہر زمانہ اور ہر طبقہ کے حضرات کا قبرستان جانا اور اپنے متعلقین کے لیے دعاء مغفرت کرنا اور ایصال ثواب کرنا ثابت ہے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جنت البقیع جانا اور مرحومین کے لیے دعاء مغفرت کرنا ثابت ہے۔ لیکن ان حضرات نے حاضری میں غلومیلے ٹھیلے اور اعراس کے موقعوں پر سجدہ ریزی ، قبر بوسی،طواف اور دیگرممنوعات سے ہمیشہ گریز کیا اور اس سے لوگوں کومنع بھی کیا ہے اور احادیث شریفہ میں بھی اس بارے میں نہایت سختی سے ممانعت مذکور ہے اوریہ کیسے ممکن ہے کہ مسلمانوں کو مشرکانہ اعمال کی اجازت دی جائے ۔ حضرت شیخ قدس سرہٗ نے نہایت شدت سے اس پرنکیر فرمائی ہے۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا جاچکا ہے کہ ہر زمانے میں اور اب بھی مشکل اوقات میں اولیاء اللہ کے مزارات پر مشائخ وقت کی خدمت میں حاضر ہواجاتاہے ایسا کیوں ہے ؟ غالباً اس وجہ سے کہ ان حضرات کے قلوب مصفا اعلیٰ کی روحانیت کا مُہْبَط (اترنے یا نازل ہونے کی جگہ۔ع) ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ دانا اور بینا اور سمیع وبصیر سے ان کو قرب حاصل ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ان سے محبت کرتاہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں ۔
یحبونہ ویحبھم وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں اور اللہ ان سے محبت کرتا ہے۔ اور اس کی علامت یہ ہے:
من احب شیاً اکثر ذکرہ ’’جو کسی سے محبت کرتاہے اکثر اس کاذکر کرتاہے‘‘۔
یہ حضرات اللہ تعالیٰ کا کثرت سے ذکر کرتے کرتے مقام ِمحبت پر فائز ہو گئے ۔ جنا ب رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں مروی ہے:یذکراللہ فی کل احیان ’’آپ ہروقت اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے‘‘۔
یہ کس طرح ہو؟یہ مقام ان لوگوں سے سیکھا جا تا ہے جو اسی راہ پر چل کر اس بلندی پر پہنچے ہیں۔اس لئے ضروری ہے کہ ان حضرات کے تذکرہ اور سوانح کو پڑھا جائے حضرت ‘‘حمدون قصار’’ نے فرمایا ہے:جو لوگ اسلاف کی سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں وہ لوگوں کے مراتب کو حاصل کر لیتے ہیں اور اپنی کوتا ہی پر جلد آگاہ ہو جاتے ہیں۔(نفخات الانس)
اس سے معلوم ہوا کہ اسلاف کی سیرت و سوانح کو سیرت سازی میں بڑا دخل ہے
اس کے بر خلاف بزرگوں پر طعن وتشنیع کرنے والے اور ان کوا ذیت دینے والوں کا انجام بھی براہوتاہے ۔ ذوالنون مصری رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے اعراض فرماتاہے تو اس میں اولیا ء پر طعن اور انکار شرع ہوجاتاہے‘‘۔ (نفحات )
گر خدا خواہد کہ پردہ کس درد ……… میل اندر طعنہ پاکھان زند
بہر حال ہم نے اس کتا ب کو چند ابواب پر تقسیم کیا ہے اور ہر عنوان کو متعدد کتابوں سے تحقیق کرنے کے بعد لکھا ہے ۔ تاریخی اعتبار سے ہر چند تایخ وسن کی قید کے ساتھ اور خوب تحقیق کر کے لکھا ہے ترتیب بھی بفضلہٖ تعالیٰ خوب ہوگئی ہے ۔ کتب ماخذ اور روایات کی فہرست وغیرہ غرض میرے بس میں جہاں تک تھا ٹھیک لکھاہے ۔ اللہ تعالیٰ اس تذکرہ کو بھی شرف قبول سے نوازے اور دنیا و آخرت سنوارے۔ آمین یارب العالمین۔ فقطبندۂ حقیر ۔ مفتی عزیر الرحمٰن
مدنی دارلافتاء بجنور
۲۲؍ج ۲؍ ۱۴۱۲ھ مطابق ۳۰؍دسمبر ۱۹۹۱ء بر وزشنبہ
مدنی دارلافتاء بجنور
۲۲؍ج ۲؍ ۱۴۱۲ھ مطابق ۳۰؍دسمبر ۱۹۹۱ء بر وزشنبہ
جاری ہے ۔۔۔