۔۔۔گزشتہ سے پیوستہ
حالات بغداد:
بغداد کو ۱۴۵ھ میں ابو جعفر منصور نے آباد کیا تھا (۱)۔ معجم البلدان کے مصنف نے لکھا ہے کہ اس جگہ کا انتخاب تعمیر شہرکیلئے ابوالعباس نے کیا تھا (۲) اس کو ۱۸ لاکھ برادیت دیگر ۸۰ لاکھ درہم خرچ کرکے ابو جعفرنے تعمیرکرایااور اپنے محل کا سبز گنبد اتنی بلندی پر تعمیر کرایا جو دُور سے نظر آتا تھا۔
اسی شہر کی چہار دیواری یا جامع مسجد کے بارے میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اگر مجھ سے اس کی اینٹ شمار کرنے کو کہا جائے تو میں شمار نہ کر سکوں گا، کیوں کہ ان سے پیشتر کسی صاحب نے لاٹھی کے ذریعہ اس کی اینٹوں کو شمار کیا تھا۔ خطیب بغدادی نے لکھا ہے کہ یہ غلط ہے کہ امام نے اس کی اینٹوں کو شمار کیا تھا ،دوسرے ذریعہ سے سے وہی روایت امام صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کو پہنچی تھی(۳)۔
معلوم رہے کہ اہل اللہ کے مزار کے پاس جاکر دُعا کرنااَقرب الاجابہ ہے، اگر یہ میسر نہ ہوتودورکعت نفل صلوٰۃالحاجت کے طور پر پڑھے۔ اچھا ہے کہ اس کا ثواب کسی ولی اللہ کو بخش دے، ان شاء اللہ مطلب بر آری ہوگی ۔
جاری ہے۔۔۔
حالات بغداد:
بغداد کو ۱۴۵ھ میں ابو جعفر منصور نے آباد کیا تھا (۱)۔ معجم البلدان کے مصنف نے لکھا ہے کہ اس جگہ کا انتخاب تعمیر شہرکیلئے ابوالعباس نے کیا تھا (۲) اس کو ۱۸ لاکھ برادیت دیگر ۸۰ لاکھ درہم خرچ کرکے ابو جعفرنے تعمیرکرایااور اپنے محل کا سبز گنبد اتنی بلندی پر تعمیر کرایا جو دُور سے نظر آتا تھا۔
اسی شہر کی چہار دیواری یا جامع مسجد کے بارے میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اگر مجھ سے اس کی اینٹ شمار کرنے کو کہا جائے تو میں شمار نہ کر سکوں گا، کیوں کہ ان سے پیشتر کسی صاحب نے لاٹھی کے ذریعہ اس کی اینٹوں کو شمار کیا تھا۔ خطیب بغدادی نے لکھا ہے کہ یہ غلط ہے کہ امام نے اس کی اینٹوں کو شمار کیا تھا ،دوسرے ذریعہ سے سے وہی روایت امام صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کو پہنچی تھی(۳)۔
اس شہر کو ‘‘سیّدۃ البلاد’’ یا ‘‘اُمّ الدنیا’’ کہا جا تا تھا ،اور ‘‘دارُالسلام’’ بھی مروی ہے ،جیسا کہ ہمارے زمانہ میں بمبیٔ (انڈیا کا معروف شہر) کو ‘‘عروسِ بلاد’’ کہا جاتا ہے، اس کے متعدد اسماء نقل ہوئے ہیں۔مفداذ، مغداد ،مقدان ،اور بغداد،عجمی لفظ ہے ۔‘‘بغ’’ باغ،اور ‘‘داد’’ آدمی کو کہتے ہیں،یہ بھی ہے کہ ‘‘بغ’’ کسی بُت کا نام ہے اور ‘‘داد’’ عطا کو کہتے ہیں ۔کسریٰ کا مقولہ ہے کہ ‘‘الصنم اعطانی’’ بُت نے مجھے دیا(۱)۔ ۶۵۶ھکو ہلاکو خان نے اس کو برباد کردیا تھا، یہی چنگیز خان کا پوتا تھا۔حاشیہ(۱):تاریخ بغداد از خطیب:۲؍۶۹۔ (۲)ایضاً (۳)ایضاً
حضرت موسیٰ کاظم رحمہ اللہ تعالیٰ کا مقبرہ یہیں ہے، یہ مقبرہ سب سے پہلا مقبرہ ہےجو اس زمین پر واقع ہوا۔اس شہر میں چند مشہور قبرستان ہیں، مثلاً مقبرہ خیزران(۱) وغیرہ، یہیں امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کا مقبرہ ہے، اور یہیں امام احمد حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ کا مقبرہے۔امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب کبھی مجھے کوئی حاجت پیش آتی مَیں دو رکعت نماز پڑھ کر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے مقبرہ کے پاس دُعا کرتا، فوراً دُعا قبول ہوجاتی۔یہی انہوں نے امام موسیٰ کا ظم رحمہ اللہ تعالیٰ کے مقبرہ کے بارے میں فرمایا ہے۔ معلوم رہے بغدادمیں آنے کے بعد امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے احترام میں کبھی رفع یدین نہیں کیا(۲)۔حاشیہ(۱):معجم البلدان۔
معلوم رہے کہ اہل اللہ کے مزار کے پاس جاکر دُعا کرنااَقرب الاجابہ ہے، اگر یہ میسر نہ ہوتودورکعت نفل صلوٰۃالحاجت کے طور پر پڑھے۔ اچھا ہے کہ اس کا ثواب کسی ولی اللہ کو بخش دے، ان شاء اللہ مطلب بر آری ہوگی ۔
حاشیہ(۱):معجم البلدان:۱؍۴۵۶۔ (۲)تاریخِ خطیب:۱؍۱۲۷، و تذکرہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ از حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن بجنوری رحمہ اللہ تعالیٰ
جاری ہے۔۔۔