تذکرہ شیخ عبدالقادر جیلانیٌ

۔۔۔گزشتہ سے پیوستہ

حالات بغداد:
بغداد کو ۱۴۵ھ؁ میں ابو جعفر منصور نے آباد کیا تھا (۱)۔ معجم البلدان کے مصنف نے لکھا ہے کہ اس جگہ کا انتخاب تعمیر شہرکیلئے ابوالعباس نے کیا تھا (۲) اس کو ۱۸ لاکھ برادیت دیگر ۸۰ لاکھ درہم خرچ کرکے ابو جعفرنے تعمیرکرایااور اپنے محل کا سبز گنبد اتنی بلندی پر تعمیر کرایا جو دُور سے نظر آتا تھا۔
اسی شہر کی چہار دیواری یا جامع مسجد کے بارے میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اگر مجھ سے اس کی اینٹ شمار کرنے کو کہا جائے تو میں شمار نہ کر سکوں گا، کیوں کہ ان سے پیشتر کسی صاحب نے لاٹھی کے ذریعہ اس کی اینٹوں کو شمار کیا تھا۔ خطیب بغدادی نے لکھا ہے کہ یہ غلط ہے کہ امام نے اس کی اینٹوں کو شمار کیا تھا ،دوسرے ذریعہ سے سے وہی روایت امام صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کو پہنچی تھی(۳)۔
حاشیہ(۱):تاریخ بغداد از خطیب:۲؍۶۹۔ (۲)ایضاً (۳)ایضاً
اس شہر کو ‘‘سیّدۃ البلاد’’ یا ‘‘اُمّ الدنیا’’ کہا جا تا تھا ،اور ‘‘دارُالسلام’’ بھی مروی ہے ،جیسا کہ ہمارے زمانہ میں بمبیٔ (انڈیا کا معروف شہر) کو ‘‘عروسِ بلاد’’ کہا جاتا ہے، اس کے متعدد اسماء نقل ہوئے ہیں۔مفداذ، مغداد ،مقدان ،اور بغداد،عجمی لفظ ہے ۔‘‘بغ’’ باغ،اور ‘‘داد’’ آدمی کو کہتے ہیں،یہ بھی ہے کہ ‘‘بغ’’ کسی بُت کا نام ہے اور ‘‘داد’’ عطا کو کہتے ہیں ۔کسریٰ کا مقولہ ہے کہ ‘‘الصنم اعطانی’’ بُت نے مجھے دیا(۱)۔ ۶۵۶ھ؁کو ہلاکو خان نے اس کو برباد کردیا تھا، یہی چنگیز خان کا پوتا تھا۔
حاشیہ(۱):معجم البلدان۔
حضرت موسیٰ کاظم رحمہ اللہ تعالیٰ کا مقبرہ یہیں ہے، یہ مقبرہ سب سے پہلا مقبرہ ہےجو اس زمین پر واقع ہوا۔اس شہر میں چند مشہور قبرستان ہیں، مثلاً مقبرہ خیزران(۱) وغیرہ، یہیں امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کا مقبرہ ہے، اور یہیں امام احمد حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ کا مقبرہے۔امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب کبھی مجھے کوئی حاجت پیش آتی مَیں دو رکعت نماز پڑھ کر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے مقبرہ کے پاس دُعا کرتا، فوراً دُعا قبول ہوجاتی۔یہی انہوں نے امام موسیٰ کا ظم رحمہ اللہ تعالیٰ کے مقبرہ کے بارے میں فرمایا ہے۔ معلوم رہے بغدادمیں آنے کے بعد امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے احترام میں کبھی رفع یدین نہیں کیا(۲)۔
معلوم رہے کہ اہل اللہ کے مزار کے پاس جاکر دُعا کرنااَقرب الاجابہ ہے، اگر یہ میسر نہ ہوتودورکعت نفل صلوٰۃالحاجت کے طور پر پڑھے۔ اچھا ہے کہ اس کا ثواب کسی ولی اللہ کو بخش دے، ان شاء اللہ مطلب بر آری ہوگی ۔
حاشیہ(۱):معجم البلدان:۱؍۴۵۶۔ (۲)تاریخِ خطیب:۱؍۱۲۷، و تذکرہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ از حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن بجنوری رحمہ اللہ تعالیٰ

جاری ہے۔۔۔
 
۔۔۔گزشتہ سے پیوستہ

حضرت خضرعلیہ السلام کا آپ کوبغداد میں داخل ہونے سے روکنا:
شیخ تقی الدین محمدواعظ بنّانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب ‘‘روضۃ الابرار ومحاسن الاخیار’’ میں لکھاہے کہ جب آپ بغداد پہنچے تو حضرت خضر علیہ السلام نے آپ کو اندر جانے سے روکااور کہا کہ ابھی تم کو سات برس تک اندر جانے کی اجازت نہیں اس لئے آپ سات برس تک دجلہ کے کنارے ٹھہرے رہیں اور شہر میں داخل نہ ہوئیں اورصرف ساگ وغیرہ سے اپنی شکم پری کر تے ر ہیں یہاں تک کہ اس کی سبزی آپ کی گردن سے نمایاں ہونے لگی۔ پھر جب سات برس پورے ہوگئے تو آپ نے شب کو کھڑے ہوئے یہ آواز سنی کہ ‘‘عبد القادر! اَب تم شہر کے اندر چلے جاؤ’’۔ گو شب کو بارش ہورہی تھی اورتمام شب اسی طرح ہوتی رہی مگر آپ شہر کے اندر گئے اور شیخ حماد بن مسلم وباس کی خانقاہ پر اترے ۔ شیخ موصوف نے اپنے خادم سے روشنی بجھوا کر خانقاہ کا دروازہ بند کرادیا اس لئے آپ دروازے پر ہی ٹھہر گئے اور آپ کو نیند بھی آگئی اور احتلام ہوگیا تو آپ نے اٹھ کر غسل کیا۔ اسی طرح آپ کو شب بھر میں سترہ دفعہ احتلام ہوا اور سترہ ہی دفعہ آپ نے اٹھ کر غسل کیا ۔ پھر جب صبح ہوئی اور دروازہ کھلا تو آپ اندر گئے شیخ موصوف نے اٹھ کر آپ سے معانقہ کیا اورآپ کو سینے سے لگاکر روئے اور کہنے لگے کہ ‘‘فرزند عبدالقادر! آج دولت ہمارے ہاتھ ہے اور کل تمہارے ہاتھ میں آئے گی تو تم نے عدل کرنا’’۔ حیاتِ جاودانی ۸؎ کا عنوان ہماری رائے میں یہ حکایت مریدوں کی بے جا عقیدت مندی کی پیداوار ہے ۔۔۔۔۔حضرت خضر علیہ السلام کے جو واقعات حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ پیش آئے ۔ اس قسم کے واقعات سے دیگر اولیاء اللہ کے ساتھ بھی پیش آسکتے ہیں واللہ اعلم ۔
ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ حضر ت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ کی شخصیت اتنی بلند ہے کہ وہ فرضی واقعات سے بے نیاز ہے ۔
آپ کا خرقہ پہننا:
خرقہ شریف آپ نے قاضی ابو سعید المبارک المخرمی موصوف الصّدر سے پہنا اور اُ نہوں نے شیخ ابوالحسن علی بن محمد القرشی سے انہوں نے ابو الفرح الطرطوسی سے انہوں نے ابو الفضل عبدالواحد التمیمی سے انہوں نے اپنے شیخ ابوبکر شیخ شبلی سے انہوں نے شیخ ابوالقاسم جنید بغدادی سے انہوں نے اپنے ماموں سرّی سقطی سے انہوں نے شیخ معروف کرخی سے انہوں نے داود طائی سے انہوں نے سیّد حبیب عجمی سے انہوں نے حضرت حسن بصری سے انہوں نے حضرت علی کرّم اللہ وجہہ سے آپ نے جناب سرور ِ کائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام سے لیا، آپ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے انہوں نے حضرت جل وعلیٰ سے تَقَدََََّ سَتْ اَسْمَا ئَہ۔
آپ سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے خدائے تعالیٰ سے کیا حاصل کیا؟ آپ نے فرمایا: ‘‘علم و اَدب ’’۔
خرقہ کا ایک اور بھی طریقہ ہے جس کی سندعلی بن موسیٰ رضا تک پہنچتی ہے، لیکن حدیث کی سند کی طرح وہ ثابت نہیں۔
قاضی ابو سعید المخرمی موصوف الصّدر لکھتے ہیں کہ ایک دوسرے سے تبّرک حاصل کرنے کے لئے میں نے شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ کو اور انہوں نے مجھ کو خرقہ پہنایا۔
مؤلف مختصر الروض الزّ اہر ، علّامہ ابراہیم الدّیری الشافعی نے بیان کیا ہے کہ آپ نے تصّوف شیخ ابو یعقوب یوسف بن ایوب الہمدانی الزاہد سے حاصل کیا۔
بغداد جاکر آپ کا وہاں کے مشائخ عظام سے شرف حاصل کرنا:
آپ جب بغداد تشریف لے گئے تو آپ نے وہاں جاکر اکابرعلماوصلحاسے شرف ملاقات حاصل کیا جن میں ابو سعید المخرمی موصوف الصّدر بھی داخل ہیں۔ انہوں نے اپنا مدرسہ جو بغداد کے محلّہ باب الاوج میں واقع تھاآپ کی تفویض کردیا توآپ نے اس میں نہایت فصاحت وبلاغت سے تقریر اور وعظ ونصیحت کرنا شروع کردیا، جس سے بغداد میں آپ کی شہرت ہوگئی اور آپ کو قبولیت عامہ حاصل ہوئی ۔

جاری ہے۔۔۔
 
۔۔۔گزشتہ سے پیوستہ

بغدادمیں مجلسِ وعظ:
بغداداس زمانہ میں علوم اسلامیہ کا مخزن تھا۔ فقہ،احادیث کے بہت سے حلقہائے درس تھے، جیسا کہ امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ کے سوانح میں مذکور ہے، اسی طرح وہاں حلقہائے وعظ بھی متعدد تھے۔علومِ شریعت کی اشاعت کا تعلق حلقہائے درس سے ہے، اور لوگوں کی اصلاح و تربیت کا تعلق حلقہائے وعظ سے تھا ۔میرا قیاس یہ ہے کہ دونوں کام اس وقت دو طبقوں کے سپرد تھے۔ ‘‘فقہ وحدیث’’ کا درس دینے والے حضرات کو ‘‘فقہاء ومحدثین’’ کہا جاتا تھا، اور ‘‘وعظ’’ کا کام کرنے والے حضراے کو ‘‘صوفیا’’ کہا جاتا تھا۔ غرضکہ دونوں قسم کے بزرگ بغداد میں تھے، اسی وجہ سے حضرت شیخ نے فرمایا تھا کہ میں حصولِ علم اور بزرگوں کی زیارت کے لئے بغداد جانا چاہتا ہوں۔
وعظ کی ابتداء:
بغداد میں مجلس وعظ کی ابتدا حضرت ابو حمزہ بغدادی (۱) سے ہوئی، یہ حضرات صوفیاء کے تیسرے طبقہ سے ہیں۔ ‘‘ابو حمزہ’’ کنیت ‘‘محمد ابراہیم’’ نام ہے، سن وفات ۲۶۹ھ؁ ہے، عیسیٰ بن ابان مشہور محدّث کی اولاد میں سے ہیں۔ سرّی سقطی ،بشر حافی، ابو تراب بخشی کے ساتھیوں میں سے تھے، اور ابوبکر کتان اور خیر نساج نے ان سے حدیث بھی روایت کی ہے۔
حاشیہ(۱):تاریخ بغداد:۷۱۔
جنید بغدادی ،ابو حمزہ خراسانی ،ابو سعید خزاز کے بعد انتقال ہوا ہے، ان کا مقولہ ہے:
لولا الغفلۃ مات الصد یقون من روح ذکر اللہ
یعنی ‘‘کبھی کبھی غفلت بھی خاصہ بشریہ میں سے ہے’’(۱)۔​
کہتے ہیں کہ ایک دفعہ وہ طرطوس پہنچے وہاں لوگوں میں بہت مقبولیت ہوئی ۔اتفاقاًکسی دن حالتِ سکر میں کوئی جملہ منہ سے نکل گیا ۔اہل ظاہر نے وہی کیا جو اس قسم کے لوگوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں ان کو قرار دے کر ان کے جانور لوٹ لئے اور کہا: ‘‘یہ زندیق کا مال ہے لوٹ لو!’’۔ جب وہ طرطوس سے باہر نکالے جارہے تھے، تو وہ یہ بیت پڑھ رہے تھے:
لک فی قلبی المکان المصؤن
کل عتب علی فیک یہون

میرے دل میں تیرا ایک مکان محفوظ ہے
تیرے بارے میں میرے اوپر عتاب آسان​
آپ کا ہی یہ ارشادہے:
حب الفقرا شدید لا یصبر علیہ الا صدیق۔
‘‘فقراء سے محبت کرنا دُشوار ہے اس پر صدیق ہی صبر کرسکتا ہے’’۔​
یعنی حضرات فقرا سے دوستی اور محبت میں بہت بلایا اور مصائب برداشت کرنے پڑ تے ہیں۔ ان کی محبت میں دولت اور جاہ دُنیا نہیں ملتی کہ جس کے حصول کے لئے ہر مشقت آسان ہو جاتی ہے، اور ہر دُنیا دار اس کو برداشت کر لیتا ہے۔ فقراء کی محبت میں صرف صدق وصفا ہی حاصل ہوتا ہے اور اس کے لئے بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور اس پرصبر کوئی صدیق ہی کر سکتا ہے۔
یاد رہے علماء ظاہر اور اہلِ دِل کی آویزش ہمیشہ سے رہی ہے ۔علماء ظاہر اہلِ عقل ہوتے ہیں اور اہلِ دل حق وحقیقت کے واقف کار اور راز دار ہوتے ہیں۔یہی خلیفہ اللہ ہوتے ہیں اور یہی وارثِ انبیاء ہوتے ہیں۔
حاشیہ(۱): اوّل غفلت حضرت آدم علیہ السلام کو جنت میں ہوئی اسی وجہ سے تو شجر ممنوعہ کی طرف راغب ہوئے، لیکن معلوم رہے کہ ہر ایک کی غفلت اسی کے مرتبہ وشان کے مطابق غفلت کہلاتی ہے۔ ہم لوگوں کی غفلت ہماری شخصیت کے اعتبار ہے اسی وجہ سے گناہوں کا صدور ہوتا ہے، اور سب سے بڑی غفلت کفر ہے۔(عزیز الرحمن)

جاری ہے۔۔۔
 
۔۔۔گزشتہ سے پیوستہ

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں ہم نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کی والدہ کو ایک مسئلہ پیش آیا ، انہوں نے امام صاحب سے کہا: جاؤ! ابو ذرع واعظ سے پوچھ کرآؤ۔ یہ بھی روایت ہے کہ یہ کہا تھا کہ مجھے ابوذرع واعظ کی مجلس میں لے کر چلو۔ آپ ابو ذرع واعظ کی مجلس میں گئے اور بیان فرمایا ۔ابو ذرع نے کہا: حضرت ! آپ ہی بتلا دیتے۔ آپ نے فرمایا: والدہ صاحبہ کا اصرار تھا۔ ابو ذرع واعظ نے کہا: اچھا! اس کا جواب کیا ہے۔ امام صاحب نے جواب دے دیا ،وہی ابو ذرع نے بتلادیا تب آپ کی والدہ کو سکون ہوا۔
اسی طرح کا ایک واقعہ : امام صاحب ہی کا ،عمر بن ذر واعظ کی مجلس کے بارے میں لکھا ہے۔ ان دونوں واعظوں سے امام صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کی والدہ صاحبہ کو بہت عقیدت تھی(۱)۔
حاشیہ(۱):حیات امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ:۳۹۶۔
اسلام میں واعظین کا معاملہ بھی عجیب ہے کم ہی حضرات ہیں جو اہل حق ہوئے ہیں ورنہ بیشتر تعداد ان لوگوں کی ہے جو دنیا طلب ہوئے ہیں ،روٹی روزی اور خوشنودی ہی عوام یا حکومت وقت کی خاطر ان لوگوں نے احادیث گھڑی ہیں، موضوعات کبیر میں ان کے بہت قصے ہیں۔
ابتداء ہی سے کچھ ایسا اتفاق ہے کہ اسلامی معاشرہ نے واعظوں کو بزرگوں کا درجہ دے دیا ہے اور درس تدریس والوں کو صرف عالم جانا ہے جیسا کہ اوپر کے واقعات سے ثابت ہے ۔لیکن اچھے اور نیک واعظوں نے قوم کی اصلاح کی ہے ،اور قوم کو فائدہ پہنچایا ہے ۔اور اگر اہلِ دنیا نے اس منصب کو اختیار کیا ہے تو انہوں نے لوگوں کو گمراہ کیا ہے اور خوب دنیا کمائی ہے ۔بغداد پہنچنے پر امام ابن تیمیہ کے واعظوں سے بہت سے مناظر ے ہوئے ہیں اور امام صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے ان کو خوب شکست دی ہے۔
منبر واعظ پر بیٹھ کر یہ حضرات جس طرح بے سرو پا باتیں ہانکتے ہیں اور عوام پر چھا جاتے ہیں کہ اہلِ حق کو حق کی اشاعت میں بڑی مصیبتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں موضوعات کبیر اور دوسری کتابوں کو پڑھنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان ہی بناؤٹی مولاناؤں اور صوفیوں نے حلقہائے وعظ سے حلقہائے عرس اور قوالیوں کو پیدا کیا ہے۔آج بھی ان واعظین اور مقررین کے ہاتھوں علمائے حق کو بہت ایذائیں پہنچتی ہیں۔لیکن مسلم عوام ہیں کہ بقول شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ ’’انہیں بھیڑیوں کو بزرگ سمجھ رہے ہیں ‘‘ شیخ عبدالقادرجیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مواعظ میں انہیں ’’علماء سوء‘‘ قرار دیا ہے،اور انہی کو ’’منافق‘‘ قرار دیا ہے اور انہیں کو ’’شیطان‘‘ قرار دیا ہے ،ورنہ حقیقۃًانہوں نے اپنے مواعظ میں ارشاد فرمایاہے:
’’تمہیں دو اماموں کی ضرورت ہے: پہلے ’’امام شریعت‘‘ کی اور بعد میں ’’امام طریقت‘‘ کی، اگر یہ دونوں چیزیں کسی ایک ہی شخص کو حاصل ہوں تو کیا کہنا‘‘۔ (فیوض یزدانی)

جاری ہے ۔۔۔
 
۔۔۔گزشتہ سے پیوستہ

خطبہ وعظ:
الحمد للہ رب العالمین… الحمد للہ رب العالمین…الحمد للہ رب العالمین…
عدد خلقہ وزنۃ عرشہ ورضاء نفسہ ومداد کلماتہٖ ومنتہیٰ علمہٖ وجمیع ماشاء وخلق وزراء وبراء عالم الغیب والشہادۃ الرحمٰن الرحیمِ المَلِک القدوسِ العزیزالحکیم واشہد ان لاالٰہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد یحی ویمیت وھو حی لا یموت بیدہ الحیر والیہ المصیر وھوکل شئ قدیر ولا ندلہ ولا مشیرلہ ولا مشارک لہ ولا وزیر لہ ولاعون ولا ظہیر لہ الواحد الا حد الفرد الصمد الذی لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفواً احد،واشہد ان محمداًعبدہ ورسولہ وحبیبہ وخلیلہ وصفیہ ونجیہ وخیرتہ من خلقہٖ وارسلہ بالہدیٰ ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہٖ ولوکرہ المشرکون وصلی اللہ علیہ وسلم وعلیٰ آلہٖ واصحابہٖ والتابعینَ باحسانٍ الیٰ یوم الدینِ وسلم تسلیماً کثیراً کثیراً ۔ امابعد!​
مجلسِ وعظ کی دعا:
اللہم انا نعوذ بوصلک من صدک وبقربک من طروک وبقبولک من ردک واجعلنا من اہل طاعتک وودّک واھلنا لشکرک وحمدک یا ارحم الراحمین۔
’’اے اللہ! ہم آپ کے وصل کی پناہ چاہتے ہیں آپ کی رکاوٹوں سے اور آپ کے قرب کی پناہ چاہتے ہیں آپ کے چھڑکنے سے اور آپ کے قبول کی پناہ چاہتے ہیں آپ کی پھٹکار سے ،ہمیں طاعت والوں میں سے اور اہلِ محبت سے بنا اور ہم کو اپنے شکر اور حمد کا اہل بنا، یا ارحم الراحمین!‘‘۔
حضرت نے جو سلوک وتصوف پیش کیا ہے، وہ ہےجوعلمِ شریعت کے ساتھ ساتھ ہو ، وہ فرماتے ہیں: ’’جو کچھ لو وہ شریعت کے ہاتھ سے لو‘‘۔
الحمد للہ! ہمارے مشائخ میں یہ خوبی ہے کہ وہ بیک وقت واعظ بھی تھے اور صاحبِ درس وافتاء اورصاحبِ خانقاہ صوفی بھی تھے اور ہیں ۔

جاری ہے۔۔۔
 
۔۔۔گزشتہ سے پیوستہ

طالب علمی کے بعض واقعات:
شیخ ابوالفضل احمد بن صالح رحمہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں میں مدرسہ نظامیہ میں شیخ عبدالقادر کے ساتھ تھا ،آپ ایک مجلس میں بیٹھے قضا وقدر کے بارے میں کلام فرما رہے تھے اتنے میں چھت سے ایک سانپ گرا، سب حاضرین بھاگ کھڑے ہوئے، مگر آپ بدستور ویسے ہی بیٹھے رہے، سانپ آپ کے گریبان سے داخل ہو کر پورے جسم کا چکر لگاتا ہوا گردن کا لپیٹ لیتا ہوا باہر نکل آیا اور کھڑا ہوگیا اور آپ سے بات کرنے لگا ،آپ نے اس سے سنا اور اس کو جواب دیا، ہم کچھ نہ سمجھے ہم نے آپ سے دریافت کیا، تو آپ نے فرمایا: ’’یہ سانپ کہہ رہا تھا کہ میں نے بہت سے اولیاء اللہ کو آزمایا مگر آپ جیسا ثابت قدم نہ دیکھا۔ آپ نے فرمایا: تو جس وقت گرا میں قضا وقدر کے بارے کلام کررہا تھا ،سو میں نے ارادہ کیا کہ میرا فعل میرے قول کے خلاف نہ ہو اور تو ایک کیڑا ہے اور قضا تجھ کو حرکت دیتی ہے‘‘۔ (بہجۃ الاسرار)
قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کے بارے میں ارشاد فرمایاہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَالَا تَفْعَلُوْنَ (۱)
’’اے ایمان والو! وہ بات نہ کہو جو نہ کر سکتے ہو‘‘۔​
حاشیہ(۱):سورۃالصف:۲۔
ہمارے مشائخ میں سے حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ تعالیٰ کا واقعہ ہے کہ ترمذی شریف کے درس کے دوران ایک دفعہ بچھو اور ایک دفعہ چھپکلی کُرتے کے اندر گھس گئی ، لیکن آپ برابر درس دیتے رہے بعد درس کے کُرتا اُٹھا کر دیکھا تو ایک مرتبہ بچھو نکلا اور ایک مرتبہ چھپکلی نکلی۔
معلوم رہے یہ حضرت قطب العالم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ سے تقابل نہیں بلکہ یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ اُسوہ ٔ صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ور اُسوۂ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ کو زندہ رکھنے والے آپ کے سچے جان نثار اور متبعین یہ لوگ ہیں نہ کہ بناوٹی وجد وحال والے ،معلوم رہے اتباع حلوے پر نہیں گرم توے پر ہوتی ہے۔
جناب شیخ عبدالرزاق صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ، آپ کے صاحبزادے نے روایت کیا ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ایک بار میں جامع منصور میں نماز پڑھ رہا تھا ،ستونوں میں سے سرسراہٹ کی آواز سنی اس پر سے ایک سانپ اُترا اور مقامِ سجدہ پر آکر کھڑا ہوگیا ،جب میں سجدہ میں گیا تو اس کو ہاتھ سے ہٹا دیا اور جب میں التحیات میں بیٹھا تو وہ میری رَان پر آگیا، جب میں نے سلام پھیرا تو وہ غائب ہوگیا۔ اگلے دن میں جامع مسجد سے باہر میدان میں گیا تو میں نے ایک دراز قد آدمی جس کی بلی کی سی آنکھیں تھیں دیکھا ،اس نے کہا ’’میں وہی کل والا سانپ ہوں ،اور کہا میں نے بہت سے اولیاء اللہ کو دیکھا ہے لیکن آپ جیسا ثابت قدم نہیں دیکھا‘‘۔ اس کے بعد اس نے میرے ہاتھ پر توبہ کی اور چلا گیا۔ (بہجۃ الاسرار)

جاری ہے۔۔۔
 
۔۔۔گزشتہ سے پیوستہ

والدہ کی جانب سے تحفہ:
چند سال گزرنے کے بعد آپ کی والدہ محترمہ نے ایک شخص کے ہاتھ دس دینار بھیجے وہ بغداد آیا اور آپ کو تلاش کیا مگر آپ کا پتہ نہ چلا ۔ایک دن جب وہ فاقہ سے تنگ آگیاتو انہیں دس دینار میں سے کچھ کھانا خریدا اورمسجد میں جا بیٹھا آپ اسی مسجد میں کئی دن کے فاقہ سے تھے ۔اس آدمی نے آپ سے دریافت کیا، توآپ نے فرمایا کہ عبدالقادر میں ہی ہوں۔ تب اس نے آپ سے معذرت چاہی اور کہا آپ کی والدہ نے دس دینار دئیے تھے اس میں سے مجھ سے بھوک میں اتنا تصرف ہوگیا ہے ۔آپ نے اس کو معاف کردیااور فوراً بقایا دینار کا کھانا لی کر جنگل گئے اور تمام فقراء کو تقسیم کردیا۔ (سفینہ)
شیخ حمادبن مسلم دبّاس:
اُوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ حضرت شیخ رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی والدہ سے عرض کیا کہ میں بغداد تحصیل علم اور بزرگوں کی زیارت کی لئے جاناچاہتا ہوں، اس لئے آپ اکثر وبیشتر شیخ حماد کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے ۔ آپ کی روحانی تربیت شیخ حماد نے فرمائی تھی اور بیعت آپ شیخ ابو سعید مبارک مخزومی سے ہوئے وہ آپ کے استاذ بھی ہوتے ہیں اور پیر بھی۔
بہجۃالا سرار کے مصنف نے لکھا ہے شیخ حماد ان لوگوں میں ہے ہیں جن کی صحبت میں شیخ محی الدین عبدالقادر رہے، انہوں نے شیخ حماد کی تعریف کی ہے ۔ شیخ ابو الوفاجب بغداد میں آتے توان کے پاس ٹھہرتے تھے۔ شیخ نجیب الدین سہروروی فرماتے ہیں: ‘‘اگر ابو القاسم قیر ی آپ کودیکھتے تواپنے رسالے میں ان کو بہت حضرات پر مقدم رکھتے اور فوقیت دیتے’’۔ ابو یعقوب یوسف ہمدانی فرماتے ہیں کہ شیخ حماد کے کلام میں وہ خوبی ہے جوبہت سے متقدمین کے کلام میں نہیں ہے ،اپنے نفس پر سخت گرفت کرتے تھے۔ ان سے روایت ہے کہ ایک دن معروف کرخی کے مزار کی زیارت کو چلے، راستہ میں ایک مکان سے گانے کی آواز آئی، واپس آگئے، گھر والوں کو جمع کیا اور پوچھا کہ آج مجھ سے کون سا گنا ہ ہواہے جو ایساواقعہ پیش آیا ۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ کل ایک پیالہ خریداتھاجس میں تصویرتھی ۔
آپ نے فرمایا کہ دِل تین قسم کے ہوتے ہیں: ایک دل وہ جودنیا کا چکر لگاتاہے، ایک دل وہ جو آخرت کے چکر لگاتاہے، ایک دل وہ جو مولیٰ کا چکر لگاتاہے ۔ جودل دنیا کا چکر لگاتاہے وہ زندیق ہے ۔ لہذا تم دل کو یقین کے ساتھ پاک کرو، تاکہ اس میں تقدیر جاری ہو۔
جب آدمی میں معرفت آجاتی ہے تو اس کے افعال ربّانی ہوجاتے ہیں اور موجودات غائب ہوجاتے ہیں ۔

جاری ہے۔۔۔
 
۔۔۔گزشتہ سے پیوستہ

امام حنبل کے مزار پر :
شیخ علی بن ہیتی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ایک دن میں نے شیخ بقابن بطو اور شیخ عبد القادر صاحب کے ساتھ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ کے روضہ کی زیارت کی، میں نے دیکھاامام موصوف اپنی قبرسے نکلے اور شیخ کواپنے سینے سے لگالیا اور ان کو خلعت پہنایا اور فرمایا: ‘‘اے شیخ عبدالقادر! بیشک میں تمہارے علمِ شریعت اور علمِ حقیقت ، علمِ حال وفعل میں محتاج ہوں’’۔ (بہجۃ الاسرار)
شیخ معروف کرخی کے مزار پر:
شیخ علی بن ہیتی نے فرمایا میں نے شیخ عبدالقادر کے ساتھ امام معروف کرخی رحمہ اللہ تعالیٰ کی قبر کی زیارت کی ہے۔ آپ نے فرمایا: ‘‘السلام علیک یا شیخ معروف!’’ تم ہم سے دو درجہ اوپر گزرگئے ہو۔ پھر دوبارہ زیارت کی، تو آپ نے فرمایا: ‘‘السلام علیک یا شیخ معروف!’’ ہم تم سے دو درجہ آگے بڑھ گئے ہیں۔ معروف کرخی رحمہ اللہ تعالیٰ نے قبر سے جواب دیا: ‘‘والسلام علیک اے اپنے زمانہ کے سردار!’’۔ حضرت شیخ کے ارشاد کا مطلب بہت واضح ہے جو آدمی مَرگیا اس کا عمل ختم ہوا ،جو مقام تھا ملا، زندہ کا عمل جاری ہے اور مقام بھی بڑھتا رہتا ہے۔
معلوم رہے اس طرح کے واقعات حضرات اولیاء کرام کے حالات میں بکثرت ملتے ہیں، بظاہر تو یہ حیرت واستعجاب کے واقعات ہیں لیکن حیرت کی کوئی بات نہیں، ان حضرات کو بذریعہ کشف ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بلکہ اپنی آنکھوں سے وہ ایسا دیکھتے ہیں کہ عالم واقعہ میں ان کے ساتھ ایسا یہ واقعہ پیش آیا ہے۔حضرت شاہ عبدالرحیم صاحب والدحضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے فرمایاتھاکہ شیخ عبدالقادر جیلانی کا اس و قت رُوح سے اتصال تھاجو پورے عالم میں سرایت کےی ہوئے تھا، اسی وجہ سے ان کی مجلس میں عجائبات کاظہورہوتا تھا۔ (انفاس العارفین ازشاہ ولی اللہ دہلوی)

جاری ہے۔۔۔
 
۔۔۔گزشتہ سے پیوستہ

زیارت قبور کا طریقہ:
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے غنیۃ الطالبین میں ارشاد فرمایا ہے کہ اگر کسی کی قبر پر حاضری کا اتفاق ہو تو قبرستان میں جوتا پہن کر نہ جائے اورقبر سے اتنی دور کھڑا ہو جتنی دور اس کی زندگی میں ہوا کرتا تھا ،اول آخر درودشریف کے بعد گیارہ مرتبہ قل ھو اللہ پڑھ کر ایصال ثواب کرے۔اور امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے روایت کیا ہے:
اذااخرج الیٰ المقابر ھوا قال السلام علی اھل الدیار من المسلمین وانا ان شاء اللہ بکم لا حقون نسال اللہ لنا ولکم العاقبۃ (مسند امام)
جب حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان کی طرف جاتے تو فرماتے: السلام علیٰ اھل الدیار من المسلمین اور ہم بھی تم سے ملنے والے ہیں ان شاء اللہ ،ہم تمہارے لئے اور اپنے لئے اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرتے ہیں۔
معلوم رہے زیارتِ قبور مستحب ہے بالاجماع۔اس سے قلب میں نرمی پیدا ہوتی ہے، موت اور آخرت یاد آتی ہے۔ غیراللہ سے استمدادکو اکثر فقہاء نے مکروہ اور ناجا ئز قرار دیا ہے، لیکن حضراتِ صوفیہ اور بعض فقہاء نے اس کو جائز قرار دیا ہے۔امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے: حضرت موسیٰ کاظم کی قبر کے پاس دعا مانگنا مجرب اور تریاق ہے۔
حضرت شیخ قدس سرہ العزیز نے قبور پرراگ یا گانے کوناجائز قرار دیا ہے، وہ فرماتے ہیں: اگر کوئی کہے کہ وہ یاد الٰہی میں رغبت بڑھانے کو گانا سنتا ہے جو بخشش کا باعث ہے، تو جھوٹا ہے۔کیونکہ شریعت میں راگ سننے کے بارے میں کوئی حکم نہیں ہے ،جس سے ثابت ہوا کہ فلاں کیلئے جائز اورفلاں کیلئے ناجائز حکم شریعت سب کے لئے یکساں ہے ۔ اگر گاناسننا جائز ہوتا تو انبیاء علیہ السلا م یا ایسے شخص کے لئے جائز ہوتا جسے اس کے سننے سے لذت حاصل نہ ہوتی ہواسی طرح ایسے افراد کو شراب پینا جائز ہو تا اور شراب پی کر حرام سے بچ جاتے۔اگر کوئی شخص خوبصورت لڑکیوں یا عورتوں میں بیٹھ کر یہ دعویٰ کرے کہ میں دل کو حسن کی جانب سے عبرت یا بے رغبتی کے لئے ایسا کرتا ہوں ،تو یہ اس کا محض حیلہ اور مکر ہے۔یاد رہے جو شخص حرام چیز کے استعمال کو عبرت اور نصیحت کا موجب بتاتا ہے اس کا یہ فعل حرام کاری کے ارتکاب سے زیادہ ہے۔
اصل سماع اور وجد کے لئے حضرت نصیرالدین چراغ دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ کا اسوۂ موجود ہے۔ وہ حضرت نظام الدین اولیاء رحمہ اللہ تعالیٰ کی محفل وجد وسماع میں شرکت نہیں کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ خلافِ سنت ہے،حضرت نظام الدین اولیاء رحمہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایاکہ نصیر الدین ٹھیک کہتے ہیں۔
حذاقت علمی:
ایک دفعہ بلاد عجم سے بغداد کے علماء کے پاس سوال آیا کہ ایک شخص نے اپنی عورت پر تین طلاق کی قسم کھائی ہے ،کہ وہ ایسی عبادت کرے گا کہ اس وقت روئے زمین پر اس کے برابر کوئی عبادت نہ کرتا ہوگا ۔ تمام علماء وفقہاء اس سے حیران ہوگئے ،سوال آپ کے پاس گیا تو آپ نے جواب ارشاد فرمایا کہ اس کے لئے مطاف کو بالکل خالی کردیا جائے کہ کوئی آدمی طواف نہ کرے صرف وہی طواف کرے اس وقت وہ اپنی قسم سے باہر آجائے گا۔
ایک دفعہ آپ کی مجلس میں ایک قاری نے ایک آیت تلاوت فرمائی، آپ نے اس کی چالیس تفسیر اور ہر تفسیر دلیل کے ساتھ اور ہر دلیل سند کے ساتھ بیان فرمائی اور اس کے بعد ارشاد فرمایا:
گذاشتیم قال وباز آمدیم بحال (اخبارالاخیار)
‘‘اب ہم قول کو چھوڑکر حال کی طرف آتے ہیں‘‘۔​
ارشاد فرمایا :
الولایۃ ظل النبوۃ والنبوۃ ظل الالٰھیۃ (الفتح المبین،ص:۵۱)
یوں سمجھ لیجئے کہ ہر نبی ولی ہوتا ہے جبکہ ہر ولی نبی نہیں ہوتا ۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض مرتبہ خود ولی کو اپنا ولی ہونا معلوم نہیں ہوتاجبکہ ہر نبی کو اپنی نبوت کا علم ہوتا ہے۔اس میں بھی شک نہیں ہے کہ نبی فرشتوں سے افضل ہوتے ہیں ۔فرشتوں کے بارے میں ارشاد ہے:
ا)۔لا یعصون اللہ ما امرھم ویفعلون ما یؤمرون
‘‘فرشتے اللہ کی نا فرمانی نہیں کرتے جو ان کو حکم دیا جاتا ہے اور کرتے ہیں وہی جو حکم دیا جاتا ہے’’۔
۔۲)۔یسبحون اللیل والنہارولایفترون
‘‘وہ رات دن اللہ کی تسبیح کرتے ہیں اور ناغہ نہیں کرتے’’۔​
اور نبوت فرشتوں سے کہیں بالاتر ہے اسی سے اندازہ لگا یا جائے کہ نبی کو اللہ تعالیٰ کس درجہ کا قرب ہوتا ہے۔
جہاں تک خصائص بشریت کا معاملہ ہے نبی اور رسول انسان ہوتے ہیں یہ بات جب مشرکین کی سمجھ میں نہ آئی تو بول اٹھے:
ما لہٰذ الرسول یاکل الطعام ویمشی فی الاسواق
‘‘یہ رسول کیسا ہے جو کھاتا ہے اور بازاروں پھرتا ہے’’۔​
لیکن قلب کی بلندیوں کا ادراک اور ان کے مقام قرب اور نسبت قرب الٰہی کو ،کون کیا جانے جبکہ انسان اس قرب کے ادراک سے نا آشنا ہے۔
نحن اقرب الیہ من حبل الورید
‘‘ہم انسان سے اس کی رگ جان سے بھی زیادہ نزدیک ہیں’’۔​
اندازہ لگائیےکہ زمین کا وہ حصہ جو جسدِ اطہر سرور کائنات سے متصل ہے عرشِ الٰہی سے افضل ہے ۔رہی یہ بات کہ نبی ‘‘ظل الالٰہیہ’’ ہوتا ہے ۔ہم اس راج کو نہیں جانتے بس ہم تو یہی اعتراف کرتے ہیں اور شہادت دیتے ہیں:
اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ واشہد ان محمداً عبدہ ورسولہ
ارشاد فرمایا: تقویٰ کی چند اقسام ہیں:
۱)۔عوام کا تقویٰ ……… خالق کے ساتھ شرک نہ کرنا ۔
۲)۔ خواص کا تقویٰ ……… خواہشات اور معصیت کو ترک کرنا،تمام احوال میں نفس کے خلاف کرنا۔
۳)۔تقویٰ خاص الخاص یعنی اولیاء اللہ کا تقویٰ ……… تمام اشیاء میں ترک ارادہ نوافل کے ساتھ اشتغال، ماسوا اللہ سب سے ترک تعلق ۔ان تمام امور میں اوامر کی پابندی کرنا۔
دوسری جگہ ‘‘ورع’’ کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘ہر چیزمیں توقف کرنا اور اقدام کرنے میں حکم شرع کی پابندی کرنا’’۔ اس کے بعد مزید تشریح میں وہی ارشاد فرمایاہے جو تقویٰ کی تشریح میں ارشاد فرمایا۔

جاری ہے۔۔۔
 

سید مجاہد حسین شاہ

وفقہ اللہ
رکن
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
محترم جناب مفتی عابد الرحمٰن صاحب کا تذکرہ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ تعالٰی ایک بہترین سلسلہ ہے اور مجھ جیسے دنیا دارکے لیئے انشااللہ مفید ثابت ہو گا۔ میری ایک گزارش ہے کہ اللہ نے آپ حضرات کو علم کی دولت سے نوازا ہے اور یہ علم ایک امانت ہے اور اللہ کی طرف سے عطا کردہ ایک بہت بڑی نعمت ہے امانت کی صحیح ادائگی اور نعمت کا شکر ادا کرنا فرض ہے۔ اس لیئے امید کرتا ہوں کہ مجھ جیسے کم علم کی جب صحیح راہنمائی ہو گی تو وہ آگے اپنی اولادوں کی بھی صحیح خطوط پر راہنمائی کرسکے گا اس لیئے ایسے موضوعات میں احتیاط برتتے ہوئے مکمل چھان بین کے بعد جو مضامین شائع ہوں گے تو وہ یقینا دین کی خدمت ہو گی۔ دعا ہے کہ اللہ آپ حضرات کی اس نیک مقصد کی تکمیل میں مدد و نصرت فرمائے اور حق کو پھیلانے اور دنیا میں دین کو عام کرنے کی توفیق نصیب فرمائے اور ہم س
ب کو عمل کرنے کی توفیق بخشے ۔ آمین ثم آمین
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
مفتی صاحب وضاحت فر مادیں
“غیراللہ سے استمدادکو اکثر فقہاء نے مکروہ اور ناجا ئز قرار دیا ہے، لیکن حضراتِ صوفیہ اور بعض فقہاء نے اس کو جائز قرار دیا ہے
ممکن ہو بعض حضرات صوفیہ اور فقہاء کا نام لکھدیں۔میرے گمان سے اہل سنت والجماعت کے نزدیک کسی بھی صورت میں بھی “غیر اللہ “استمداد ( مانگناجیسا کی مزارات پر دیکھنے میں آتا ہے حرام ہے اور شرک ہے۔
 
۔۔۔گزشتہ سے پیوستہ

مدرسہ نظامیہ:
یہ عرض کیا جا چکا ہے کہ ۱۴۵ھ؁ میں خلیفہ منصور نے بغداد کو تعمیر کیا تھا تاریخ الخلفاء میں نقل کیا ہے ۱۴۱ھ؁ سے بنانا شروع کیاتھا اور ۱۴۵ھ؁ میں فراغت ہو گئی تھی خلیفہ منصور کا انتقال ۱۸۵ھ؁ میں ہوا اور ۱۵۹ھ؁ میں مدرسہ نظامیہ کی تعمیر سے فراغت ہوئی ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ مدرسہ نظامیہ ۱۸۵ھ؁ میں خلیفہ منصور کے زمانہ میں تعمیر ہوا ۔اس کے سب سے پہلے مدرس ابو اسحاق شیرازی رحمہ اللہ تعالیٰ تھے لیکن انہوں نے کسی وجہ سے علیحدگی اختیار کرلی تھی ،ابن صباع نے ۱۶۰ھ؁ میں یہاں درس دیا اس کے بعد ابو اسحاق شیرازی کو راضی کرلیا گیااور وہ پڑھانے لگے۔(تا ریخ الخلفاء:۲۹۵)
امام غزالی رحمہ اللہ تعالیٰ (متوفی ٰ۵۵۰ھ؁) نے نظام الملک طوسی کے زمانہ میں اسی مدرسہ میں تعلیم پائی تھی یہیں شیخ نجیب الدین سہروردی رحمہ اللہ تعالیٰ اور شیخ شہاب الدین رحمہ اللہ تعالیٰ نے تعلیم حاصل کی تھی، یہیں شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ۴۸۸ھ؁ داخلہ لیا تھا ۔بہجۃالاسرار کے مصنف کا بیان ہے کہ حضرت شیخ نے ۳۱۵ھ؁ میں مدرسہ نظامیہ میں پڑھایا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا ۲۵؍سال تک پڑھنے پڑھانے کا تعلق مدرسہ نظامیہ سے رہا ۔صاحب اخبار الاخیار نے آپ کے پڑھنے اور پڑھا نے کی کل مدت ۳۳؍سال لکھی ہے یعنی ۵۲۱ھ؁ تک، اس کے بعد آپ اپنے استاذ کے مدرسہ منتقل ہوگئے، یہ مدرسہ ۵۲۸ھ؁ میں بن کر مکمل ہو گیا تھا، بعد میں اسی مدرسہ کا نام مدرسہ معمورہ ہوا (واللہ اعلم بالصواب)۔
آپ کے مدرسہ کا وسیع کیا جانا:
آپ کی مجلس وعظ میں اس کثرت سے لوگ آنے لگے کہ مدرسہ کی جگہ ان کے لئے کافی نہ ہوتی اور تنگی کی وجہ سے آنے والوں کو مدرسہ کے اندر جگہ نہیں مل سکتی تھی تو لوگ باہر فصیل کے نزدیک سرائےکے دروازے سے رک کر سڑک پر بیٹھ جاتے اور ہر روز ان کی آمد زیادہ ہوتی جاتی تو قرب وجوار کے مکانا ت شامل کرکے مدرسہ کو وسیع کردیاگیا ۔ امراءنے اس کی وسیع عمارت بنوا دینے میں بہت سامال صرف کیا اور فقرانے اس میں اپنے ہاتھوں سے کا م کرکے اس کی عمارت کو بنوایا۔ منجملہ ان کے ایک مسکین عورت اپنے شوہر (اس کا شوہر معماری کا کام جانتاتھا ) کو ہمراہ لے کر آپ کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ یہ میراشوہر ہے اس پر بیس دینا ر میرامہر ہے اسے اپنا نصف معاف کرتی ہوں بشرطیکہ نصف باقی کے عوض یہ آپ کے مدرسہ میں کام کرے، اس کے شوہر نے بھی اس بات کو منظور کرلیا ۔ عورت نے مہر وصول پانے کی رسید لکھواکر آپ کے ہاتھ میں دے دی اس کا شوہر مدرسہ میں کا م کرنے آنے لگاآپ نے دیکھاکہ یہ شخص غریب ہے تو آ پ ایک روز اُسے اُس کے کام کی اجرت دیتے اور ایک روز نہیں دیتے تھے ۔ جب یہ شخص پانچ دینار کاکام کرچکاتوآپ نے اسے مہر رسید نکال کر دے دی اور فرمایاکہ باقی پانچ دینارتمہیں میں نے معاف کیے۔
۵۲۸ھ؁ میں یہ مدرسہ ایک وسیع عمارت کی صورت میں بن کرتیارہوگیا، اور اب آپ ہی کی طرف منسوب کیا گیا ۔ اب آپ نے نہایت جدو جہد و اجتہاد کے ساتھ تدریس افتاووعظ کے کام کو شروع کیا۔ دُوردُور سے لوگ آپ سے شرف ملاقات حاصل کرنے کے لئے آنے لگے اور نذرانے گذارنے لگے، چاروں طرف سے دُور درازکے لوگ آکر آپ کے پاس جمع ہوگئے، اور علماء وصلحاء کی بڑی جماعت آپ کے پاس تیار ہوگئی، اور آپ سے علم حاصل کرکے پھر وہ اپنے اپنے شہروں کو واپس چلے گئے اور تمام عراق میں آپ کے مرید پھیل گئے اور آپ کے او صافِ حمیدہ وخصائل برگزیدہ کے متعلق لوگوں کی زبانیں مختلف ہوگئیں ۔ کسی نے آپ کو ‘‘ذوالبیانین’’ اور کسی نے آپ کو ‘‘کریم الجدّین والطرفین’’ اور کسی نے ‘‘صاحب البرہانین’’ کہا، کسی نے آپ کا لقب ‘‘امام الفریقین والطریقین’’ اور کسی نے ‘‘ذوالسراجین والمنہاجین’’ رکھا ۔اسی لئے بہت سے علماوفضلاآپ کی طرف منسوب ہوئے ہیں اور خلقِ کثیر نے آپ سے علوم حاصل کئے، جن کی تعداد شمار سے زائد ہے ۔
منجملہ ان کے الامام القدوہ ابوعمر وعثمان بن مرزوق بن حمیر ابن سلامۃالقرشی نزیل مصرتھے۔ آپ کے صاحبزادے شیخ عبدالرّزاق بیان کرتے ہیں کہ جب میرے والد نے حج بیت اللہ کیا اور اس وقت میں بھی آپ کے ہمراہ تھا ۔ تو میں نے دیکھا کہ عرفات کے میدان میں شیخ بن مرزوق اور شیخ ابو مدین کی آپ سے ملاقات ہوئی تو ان دونو ں حضرات نے والد ماجد سے تبرکاً خرقہ پہنا اور آپ کے رُو برو بیٹھ کر آپ سے کچھ حدیثیں سنیں ۔
شیخ عثمان بن مرزوق موصوف الصدر کے صاحبزادے شیخ سعد بیان کرتے ہیں کہ میرے والد ماجد اکثر امور کی نسبت بیان کیاکرتے تھے کہ ہم سے ہمارے شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایسا بیان کیا، کبھی کہتے کہ ہم نے اپنے شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ کوایسا کرتے دیکھا، یاآپ کومیں نے ایسا کہتے سنا، کبھی اس طرح کہتے کہ ہمارے پیشوا ومقتدا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ ایسا کیا کرتے تھے ۔
قاضی ابو یعلیٰ محمد الفرالحنبلی رحمہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ ہم سے عبد العزیز بن الاخضر نے بیا ن کیا کہ مجھ سے ابو یعلیٰ کہتے تھے کہ میں حضر ت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ کی مجلس میں اکثر بیٹھا کرتاتھا اور شیخ فقہیہ ابو الفتح نصرالمنی شیخ ابو محمد محمود بن عثمان البقال امام ابو حفص عمر بن ابو نصر بن علی الغزالؒشیخ ابو محمد الحسن الفارسی، شیخ عبداللہ بن احمد الخشاب، امام ابو عمر وعثمان الملقب بشافعی زمانہ، شیخ الکیزانی، شیخ فقیہ رسلان عبد اللہ بن شعبان بن شیخ محمد بن قائد الادانی عبداللہ بن سنان الّردینی، حسن بن عبداللہ بن رافع الانصاری، شیخ طلحہ بن مظفر بن غانم العلثمی، احمد بن سعد بن وہب بن علیٰ الہردی، محمد بن ازہرالصیرفی، یحی ٰ بن البرکہ محفوظ الدبیقی، علی بن احمد بن وہب الازجی، قاضی القضاۃ عبد الملک بن عیسیٰ بن ہرباس المارائی، عبد الملک بن کا لبائی کے بھائی عثمان اور ان کے صاحب زادے عبدالرحمن، عبد اللہ بن نصر بن حمزہ البکری، عبدالجبار بن ابوالفضل القفضی،علی بن ابو طاہر الانصاری، عبدالغنی بن عبد الواحد المقدسی الحنبلی، ابراہیم بن عبد الواحد المقدسی الحنبلی وغیرھم بھی آپ کی مجلس میں شریک رہا کرتے تھے۔

جاری ہے۔۔۔
 
۔۔۔گزشتہ سے پیوستہ

بغداد کے مشہور مزارات:
۱)…مزار امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ متوفی ۱۵۰ھ؁
۲)…مزار امام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالیٰ متوفی۱۹۳ھ؁
۳)…مزار شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ متوفی ۵۶۱ھ؁
۴)…مزار سیدنامعروف کرخی رحمہ اللہ تعالیٰ متوفی۲۰۰ھ؁
۵)… مزار سیدناجنید بغدادی رحمہ اللہ تعالیٰ متوفی ۲۹۷ھ؁
۶)…مزار سیدناسری سقطی رحمہ اللہ تعالیٰ متوفی ۲۵۲ھ؁
۷)…مزار سیدناموسیٰ کاظم رحمہ اللہ تعالیٰ متوفی ۱۸۳ھ؁
۸)…مزار سیدناامام محمد تقی جواد رحمہ اللہ تعالیٰ متوفی ۲۲۰ھ؁
۹)…مزار سیدناامام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ متوفی۶۲۱ھ؁
۱۰)…مزار سیدنا امام غزالی رحمہ اللہ تعالیٰ متوفی۵۰۵ھ؁
۱۱)… مزار سیدنا شیخ شہاب الدین سہروردی رحمہ اللہ تعالیٰ
۱۲)…مزار سیدنااما داؤدطائی رحمہ اللہ تعالیٰ
۱۳)…مزار سیدناحضرت ابو بکر شبلی رحمہ اللہ تعالیٰ
۱۴)…مزار بشر حافی رحمہ اللہ تعالیٰ
۱۵)…مزار سیدنامنصور حلاج رحمہ اللہ تعالیٰ
۱۶)…ملکہ زبیدہ زوجہ ہارون رشید
ان کے علاوہ۲۱؍خلفاء بن عباس ،حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے احاطہ میں مدفون ہیں۔
حصول علم اور اساتذہ:
۴۸۸ھ؁ میں چار سو میل کا پُر خطراور مشقت سے لبریز سفرکرنے کے بعد آپ بغداد پہنچے اور مدرسہ نظامیہ کے اساتذہ اور دیگر علماء کرام سے علم حدیث اور فقہ، علم نحو، معانی، بلاغت ادب غرضیکہ مختلف فنون اسلامیہ کومختلف اساتذہ سے حاصل کیااور نہایت مشقت سے اس کو سیکھا۔ بہت تکالیف اور مصائب کا آپ کوسامناکرنا پڑا ، آپ کا ارشاد ہے کہ:
’’جس زمانہ میں مَیں اساتذہ اور علماء سے علم فقہ حاصل کررہا تھا اس وقت سبق پڑھ کر جنگل کی طرف نکل جایاکرتاتھا، دن ہو یارات، آندھی ہویابارش، جنگلوں اور بیابانوں میں پھراکرتاتھا،میرے سر پر ایک چھوٹاساعمامہ ہوتا، صوفی جبہ پہناکرتاتھا،ننگے پیرہواکرتاتھااور کانٹوں پتھر یلی زمین پر پھراکرتاتھا، دریائے دجلہ کے کنارے گھاس ،پات ساگ ملتا اس کوکھالیتا، غرضیکہ بڑی محنت اور مشقت اور مصیبت برداشت کرناپڑی ہیں ‘‘۔
آپ نے تمام علوم میں اس قدر مہارت حاصل کرلی کہ آپ اپنے زمانہ کے تمام علماء پرسبقت لے گئے اور دُور ونزدیک مشہور ہوگئے ۔ (دیباچہ غنیۃ الطالبین)
آپ کے اساتذہ :
آپ نے جن حضرات سے علم حاصل کیا ان میں سے بعض جو مشہور ہیں ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں:
۱)…ابو الخطاب محفوظ الکلاباذی
۲)…ابو الحسن محم بن قاضی ابو العلی
۳)…محمد بن حسین بن فراحنبلی
۴)…قاضی ابو سعید مبارک بن مخزومی
علم حدیث ان حضرات سے حاصل کیا:
۱)…ابوغالب محمد بن حسن باقالانی
۲)…ابو سعید محمد بن عبدالکریم
۳)…ابو الغناتم محمد بن علجلیمون القرش
۴)…ابوبکر احمد بن مظفر
۵)…ابو محمد جعفر بن احمد بن الحسین ۔
۶)…القاری السراج
۷)…ابو طاہرعبدالرحمن بن احمد
۸)…ھیبۃاللہ بن مبارک ۔
۹)…ابو نصر محمد
۱۰)…ابو زکریابن یحییٰ بن علمی تبریزی۔
آپ نے مؤخرالذکر تین حضرات سے علم ادب بھی حاصل کیایہ مدرسہ نظامیہ کے مدرس اعلیٰ تھے چند کتابوں کے مصنف ہیں ان میں دیوان متنبی کی شرح بھی ہے ۔ آخر میں آپ قاضی ابو سعیدک مخزومی کے مدرسہ میں داخل ہوئے اور ان سے پڑھا ۵۲۸؁ھ میں یہ مدرسہ بن کر مکمل ہوگیاتھا پھر آپ اسی میں پڑھاتے تھے بعد میں یہ مدرسہ ’’مدرسہ معمورہ‘‘ کے نا م سے مشہور ہوا۔مندرجہ بالا حضرات علماء کرام میں بیشتر حضرات شافعی ، حنبلی ہیں صرف ھیبۃاللہ مبارک حنفی ہیں ۔

جاری ہے۔۔۔
 
۔۔۔گزشتہ سے پیوستہ

آپ کی مرویات:
ویسے تو حضرت شیخ کی مرویات کی تعداد بہت زیادہ ہیں مگر جب پندر ہ متصل ہیں جن کوائمہ صحاح ستہ نے بلاجرح وتنقید تخریج کیا ہے ۔ یہ بات دیگرہے کہ ائمہ صحاح تک وہ احادیث حضرت شیخ رحمہ اللہ تعالیٰ کی سند سے نہیں بلکہ دوسرے اسناد سے متصل ہیں ۔ البتہ حضرت شیخ نے ان احادیث کو ائمہ صحاح ستہ تک اپنے اسناد سے متصل کیاہے ۔
۱)۔عن یعلی بن امیّہ قال قلت العمر بن الخطاب انھا قال اللہ تعالٰی ان تقصروامن الصلٰوۃان خفتھم ان یفتنکم الذین کفرو افقد امن الناس قال عمر عجیت حماعجبت منہ قالت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال صدقہ تصدق اللہ بھا علیکم فاقبلو اصدقہ (مسلم)
یعلی بن امیہ سے روایت ہے انہوں نے کہامیں نے حضرت عمر سے کہا ، اللہ تعا لیٰ نے فرمایا ہے: ان تقصرو امن الصلوٰۃالخ یعنی قصر کا حکم دیا ہے اب تو لوگ بے خوف ہوجائیں گے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا مجھے بھی تعجب ہواتھاجو تمہیں ہوا ہے تومیں نے جناب ر سول اللہ ﷺسے دریافت کیاتھا تو آپ نے فرمایااللہ تعالیٰ نے اس کاتم پر صدقہ کیاہے پس تم اللہ تعالیٰ کے صدقہ کوقبول کرو ۔
اس حدیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں نما ز کے بیان میں روایت کیاہے ابو بکر بن شیبہ اور ابو کریب محمد بن العلااور ابو حشیمہ زہیر بن حرب الحق بن ابراہیم سے روایت کیاہے اور ان چاروں نے عبداللہ بن ادریس اور محمد مقدسی سے اوریحیی ٰبن سعید سے اور ان دونوں نے ابن جر یح سے روایت کی ہے ۔ مشکوٰۃشریف میں باب صلوٰۃالمسافر میں یہ حدیث ہے ۔
۲)۔ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مسلم کی روح پرندہ کی ہوگی جو جنت کے دروازہ پر لٹکتا ہو گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس کے جسم میں اس دن لوٹائے گا جس دن اس کو اٹھائے گا۔
اس حدیث شریف کو تین ائمہ نے تخریج کیا ہے،ترمذی ،نسائی ،ابن ماجہ نے ، ترمذی نے باب جہاد میں اور ابن ماجہ نے باب الجنائز میں روایت کیا ہے۔
۳)۔قال رسول اللہ ﷺکل عمل ابن اٰدم یضاعف الجنۃبعشر امثالہا الیٰ سبع مأتہ ضعفٍ قال اللہ تعالیٰ الا الصوم فانہ لی وانا اجزی بہ یدع شھوتہ وطعامہ من اجلی للصائم فرحتان فرحۃ عند فطرہ وفرحۃ عند القاربۃ والخلوف فم الصائم اطیب عنداللہ من ریح المسک الخ،(بخاری)
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ابن آدم کے ہر عمل کا بدلہ دیا جائے گا ایک نیکی کا دس گنا سے سات سو گنا تک زیادہ کردیا جائے گا ،مگر روزہ ،اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا ،اس نے میرے لئے اپنی خواہشات اور کھانے کو چھوڑا ہے،اور روزہ دار کے لئے دو فرحت ہیں: ایک روزہ افطار کے وقت اور دوسری اپنے رب سے ملاقات کے وقت ،اور روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک سے بہتر ہے۔
اس کو امام بخاری نے روایت کیا ہے اور مشکوٰۃ شریف میں کچھ اضافہ ہے۔
۴)۔ عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال قال رسول اللہﷺ لان اقول سبحان اللہ والحمد للہ و لا الٰہ الا اللہ واللہ اکبراحب الی مما طلعت علیہ الشمس (مسلم)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ارشادفرمایا کہ میں سبحان اللہ، الحمد للہ، لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر میرے لئے یہ پڑھنا ان تمام چیزوں سے محبوب ہے جن پر سورج طلوع ہوتا ہے۔
اس حدیث شریف کو امام مسلم نے کتاب الدعوات میں روایت کیا ہے اور مشکوٰۃ شریف میں باب التسبیح میں فصل اول میں مذکور ہے۔
۵)۔عن ابی سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ لا تسبو اصحابی فلو ان احدکم انفق مثل احدذھباما بلغ مد احدھم ولا نصفہ‘(بخاری)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایاتم میرے صحابہ کو گالی نہ دو،اگرتم میں سے کوئی آدمی مثل اُحد پہاڑ کے سونا خرچ کرے تو بھی صحابہ کے آدھا سیر بلکہ اس کے آدھا کے برابر بھی نہیں ہو سکتا ۔
اس حدیث شریف کو ائمہ صحاح ستہ نے اپنی اپنی کتابوں میں روایت کیا ہے، اور یہ حدیث مشکوٰۃ شریف میں باب مناقب صحابہ میں مروی ہے۔

جاری ہے۔۔۔
 
۔۔۔گزشتہ سے پیوستہ

۶)۔عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ لان یجلس احدکم علیٰ جھرۃ فحرق ثیابہ فتخلص الی جلدہ خیر لہ ان یجلس علی قبر(مسلم)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ تم میں سے کوئی اَنگارے پر بیٹھے کہ اس کے کپڑے جل جائیں اور کھال تک پنچت جائے ،یہ بہتر ہے اس سے کہ کسی کی قبر پر بیٹھے ۔
اس حدیث شریف کو امام مسلم نے کتاب الجنانہ میں ذکر کیاہے اور صاحب فتح الملہم نے مرقات کے حوالہ سے ذکر کیا ہے کہ قبر پر مطلقاً بیٹھنا،تکیہ لگا نا مکروہ ہے،اور اس پر پیشاب پاخانہ کیلئے بیٹھنا حرام ہے، یہ وعید اسی کے لئے ہے۔ (فتح الملہم:۲؍۵۰۷)
۷)۔عن عائشۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہا قالت کان رسول اللہ ﷺحتیٰ نقول لا یفطر۔یفطر حتیٰ نقول لا یصوم وما رأیت رسول اللہﷺ اشکمل صیام شھر الا رمضان وما رأیتہ فی شھر اکثر منہ صیاما فی شعبان(مسلم)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ روزہ نہیں رکھا کرتے تھے حتیٰ کہ ہم کہتے کہ آپ افطار نہ کریں گے،اورنہ رکھتے تھے اتنا کہ ہم کہتے تھے کہ آپ روزہ نہ رکھیں گے ،اور میں نے رمضان کے علاوہ پورے ماہ کا روزہ رکھتے آپ کو کبھی نہیں دیکھا ،اور شعبان سے زیادہ کسی مہینہ میں آپ نے روزہ نہیں رکھا۔
یہ متفق علیہ حدیث ہے، اس کو امام مسلم نے متعدد اسناد سے روایت کیا ہے اور اس کو حضرت ابن عباس سے بھی روایت کیا ہے۔
۸)۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے جناب رسول اللہﷺ سے عرض کیا: یا رسول اللہ! جب ہم آپ کی خدمت میں ہوتے ہیں تو ہمارے دل نرم ہوتے ہیں اور جب ہم آپ سے علیحدہ ہوتے ہیں اور عورتوں و اولاد سے ملتے ہیں توہم کو دنیا اچھی معلوم ہوتی ہے ۔تب آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مجھ کو اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! اگر تم اسی حالت میں جس میں میرے پاس ہوتے ہو تو فرشتے تم سے مصافحہ اور تمہارے گھر والوں میں آکر تم سے ملاقات کریں، اور اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ تعالیٰ ایسی قوم پیدا کرے گا جو گناہ کرے اور استغفار کرے پھر اللہ تعالیٰ سے توبہ کرے۔ ہم نے کہا: یا رسول اللہ! ہم کو جنت کی بات بتائیں کہ وہ کیسی ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اس کی ایک اینٹ سونے کی اور ایک اینٹ چاندی کی ہے اس کے کنگرے موتی اور یاقوت کے ہیں اس کا گارا مشک اور مٹی زعفران کی ہے جو اس میں داخل ہوگا وہ ترو تازہ رہے گا اور پُرانا نہ ہوگا ، ہمیشہ رہے گا کبھی نہ مَرے گا اور نہ اس کے کپڑے پرانے ہوں گے اور نہ اس کی جوانی فنا ہوگی ۔تین شخص ہیں کہ جن کی دُعا مردود نہیں: ایک تو روزہ دار جب افطار کرے دوسرا امام عادل وتیسرا مظلوم کی دُعا ۔اس کی دُعا بادل کے اُوپر اُٹھالی جاتی ہے اور اس کے لئے آسمان کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے: مجھے اپنے عزت وجلال کی قسم! میں تجھ کو فتح دوں گا اگرچہ ایک مدت کے بعد ہو(۱)۔
حاشیہ(۱):اس حدیث سے ثابت ہے کہ مظلوم کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو اور ظالم کتنا ہی قوی کیوں نہ ہو انجام کار غلبہ مظلوم کو ہی حا صل ہو گا۔
یہ حدیث حسن ہے، بخاری ومسلم نے اس پر اتفاق کیا ہے اور ترمذی نے اپنی جامع میں اور ابن ماجہ نے اپنی سنن میں اس کو ذکر کیا ہے ترمذی نے اس کو مختصر اًمحمد بن علا ہمدانی سے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اس کو حسن قرار دیاہے۔
۹)۔ طارق بن شہاب نے روایت کیا ہے کہ ایک یہودی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: اے امیر المؤمنین! ایک آیت آپ کی کتاب میں ہے ،اگر ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید کا دن بنا لیتے۔ آپ نے پو چھا: وہ کون سی آیت ہے؟ یہودی نے کہا: ’’الیوم اکملت لکم دینکم‘‘ (آج میں نے تمہارے لئے تمہارادین مکمل کردیا)۔ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یہ آیت عرفات میں جمعہ کے دن نازل ہوئی۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے اور نسائی نے اپنی سنن میں بھی ذکر کیا ہے، اور تمام تفسیر کی کتابوںمیں بھی اس آیت کی تفسیر میں یہ حدیث مذکور ہے ۔
۱۰)۔حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ مشرکین مکہ حضو ر ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے معجزہ طلب کیا پس مکہ میں دو مرتبہ شق القمر ہوا، اور یہ آیت نازل ہوئی: ’’اقتربت الساعۃ والنشق القمر‘‘۔
اس کو بخاری اور مسلم اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ اس روایت میں مختلف الفاظ ہیں لغوی اور ترمذ ی نے مر تین روایت کیاہے اور دوسری روایت میں فرتین (دو ٹکڑے) روایت ہواہے ۔ واللہ اعلم
۱۱)۔ حضرت عمار بن یاسر روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے نما زپڑھی اور اس کو ہلکا کیا۔ جب وہ نماز پڑھ چکے تو میں نے ان سے اس کا ذکر کیا، تو انہوں نے کہا میں نے وہ دعائیں مانگی ہیں جن کو میں نے رسول ﷺسے سنا ہے، اس کے بعد عمار چلے گئے اور ان کے پیچھے میرے والد آگئے، انہوں نے دعا کی نسبت ان سے پوچھا، تو انہوں نے فرمایایہ ہے:
اللھم بعلمک الغیب وبقدرتک علی الخلق لعینی ما کانت الحیاۃخیراً لی وتوفنی ماکا نت اعمات خیراًلی واسئلک خشیتک فی الغیب واسئلک کلمۃالحکمت فی الرضاع والغضب واسئلک قرۃً عین لا تنقطع واسئلک الرضاء عند القضاع واسئلک بر دالعیش بعد الموت واسئلک انظر الی وجھک والشوق الی لقاء ک فی غیر ضرّاع مفرۃولافتنۃ مفلۃ اللھم زیّنابنسر ینۃالایمان وجعلناھدٰۃ مھتدین۔
اس کو امام نسائی نے روایت کیاہے ۔
۱۲)۔ابن ابی لیلیٰ نے روایت کیا ہے کہ فرمایا جناب رسو ل اللہ ﷺنے اس آیت کے بارے میں: ’’الذین احسنو الحسنی وزیادۃ‘‘ فرما یاکہ جب جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں داخل ہوجائیں گے تو منادی ندادیگا کہ اے جنتیو ! تمہارے لئے اللہ تعالی کے پاس ایک زیادتی ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کو پوراکر دے۔ وہ کہیں گے: کیا اس نے ہمارے چہرے روشن نہیں کئے؟ کیااس نے ہماری منیرافین بھاری نہیں کیں؟ ہم کو جنت میں داخل نہیں کیا؟ دوزخ سے نجات نہیں دی؟ فرمایا: پھر اللہ تعالی پردہ کھول دے گا پھر وہ اللہ تعالی کی طرف دیکھیں گے، پس خداکی قسم! وہ اپنے دیدار سے بڑھ کر کوئی چیز عطانہ کرے گا۔
حضرت نے اس کو دوطرح پر روایت کیاہے ہم نے دونوں کو مشتر ک کر کے ایک لکھ دیاہے اس کو امام احمد نے اپنی مسندمیں اور امام مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔
۱۳)-امام مالک نے ابن شہاب سے اور انہوں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیاہے کہ جب رسول اللہ ﷺ مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر پر خود تھی ۔ پھر آپ ابن حنظل سے ملے اور وہ کعبہ کے پردوں میں چھپاہواتھا، آپ نے فرمایا کہ اس کو قتل کردو۔
اس حدیث کو امام مالک نے ابن شہاب زہری سے روایت کیااور امام مالک سے اس کو دوسو آدمیوں نے روایت کیااور اس کو ائمہ ستہ نے روایت کیاہے ۔
۱۴)۔انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کیاہے کہ ایک شخص نے آ پ سے دریافت کیایارسول اللہ! قیامت کب آئے گی؟ آپ نے فرمایاتم نے اس کے لئے کیاتیاری کی ہے؟ عرض کیاکہ کچھ بھی نہیں مگراتناکہ میں اللہ اوراس کے رسول کو دوست رکھتاہوں ۔ تب آپ نے فرمایاکہ تو ان کے ساتھ ہے جن کے ساتھ دوستی رکھتاہے ۔
………٭………

جاری ہے۔۔۔
 
۔۔۔گزشتہ سے پیوستہ

یکے پرسید،زاں گم کردہ فرزند
کہ اے روشن گہرپیر خسرومند

ز مصرش بوئے پیراہن شنیدی
چرا ، در چاہ کنعانش ندیدی

بگفت احوال ما برق جہا ں است
دمے پیدا ،ودیگر دم نہا نست

گہے بر طارمِ اعلیٰ نشینم
گہے بر پشت پائے خود نہ بینم

اگردرویش بر حالے بماندے
سر دست از دو عالم برفشاندے​

جاری ہے۔۔۔
 
۔۔۔گزشتہ سے پیوستہ

اس باب کے ہم نے دو جز کئے ہیں پہلے جز میں ان حضرات کے مختصر حالات ہیں جن میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ کے پیران طریقت کا سلسلہ متصل ہوتا ہے، دوسرے باب میں ان حضرات قدس سرہم جن کو خرقہ خلافت سلسلہ بسلسلہ حاصل ہوا ہے۔
حضرت داؤد طائی رحمہ اللہ تعالیٰ:
داؤد نام ابو سلیمان کنیت ،نصر طائی کے فرزند ارجمند ہیں محدث ثقہ ،فقیہ بے نظیر امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے شاگرد خاص ہیں۔بیس سال بروایت دیگر تیس سال ان کی صحبت میں رہ کر علم حدیث وعلم فقہ حاصل کیا ۔امام اعمش ابن ابی لیلیٰ سے حدیث روایت کرتے ہیں اور ان سے ابن عینہ اور ابن عتبہ نے تخریج کی ہے۔ نسائی نے اپنی سنن میں ان کی روایات کو اخذ کیا ہے ،امام طحاوی نے بسند متصل امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ کا واقعہ نقل کیا ہے کہ وہ جب کبھی حضرت داؤد طائی کے پاس کوئی مسئلہ دریافت کرنے آتے ،اگر ان کے دل میں آتا کہ مسئلہ امر دین سے متعلق ہے تو جواب دے دیتے تھے اور اگر یہ جان لیتے کہ یہ منجملہ مسائل کے ہے تو تبسم فرما کر امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ سے فرماتے:
ان لنا شغلاً ان لنا شغلاً​
’’ہمیں مشغولیت ہے، ہمیں مشغولیت ہے‘‘۔ (طبقات حنفیہ:۲؍۲۴۰)​
حضرات صاحبین(امام ابو یوسف، امام محمد رحمہم اللہ تعالیٰ) کو اگر کسی مسئلہ میں اختلاف ہوتا تو فیصلہ کے لئے امام ابو داؤدطائی رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے ۔آپ کا دستور تھا کہ جب کبھی یہ دونوں صاحب حاضر ہوتے تو آپ امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ کی طرف منہ کرتے اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالیٰ کی طرف پشت، اور فرماتے ہمارے استاذ(امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ) نے کوڑے کھا کھا کر اپنی جان دے دی مگر عہدہ قضا کو قبول نہ کیا ،اور امام ابو یوسف نے ان کے خلاف کیا اور قضا کو قبول کرلیا پس جو شخص اپنے استاذ کے طریقہ کی مخالفت کرے میں ان سے بات نہیں کرتا(۱)۔ اگر امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ کا قول درست ہوتا تو فرماتے امام محمد کا قول درست ہے ، اگر امام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالیٰ کا قول درست ہوتا تو فرماتے ان کا قول درست ہے اور نام نہ لیتے(۲)۔
حاشیہ(۱):حدائق الحنفیہ: ۱۱۲۔
(۲):یہ بات قابلِ غور وقابلِ عبرت ہے کہ اہل اللہ کو استاذ کے طریقہ سے خلاف پر اتنی نفرت ہوتی ہے؟ تو جو لوگ استاذ اور پیر کو اذیت دیتے ہیں وہ حقیقۃً معتوب الٰہی ہیں ،ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے مرقات میں لکھا ہے کہ ان کے سوءِ خاتمہ کا اندیشہ ہے ۔ہمارے اکا بر نے ہمیشہ نسبتوں کا احترام کیا ۔الغرض اگر کسی سے کوئی لغزش ہو گئی قولاً یا فعلاً تب بھی اس کی حسین تأویل کرلیتے تھے، اور ادب کو کسی حال میں بھی ترک نہ کرتے تھے۔ع
بے ادب محروم باشد بفضل رب​
محارب وثارکہتے ہیں کہ اگر داؤد طائی رحمہ اللہ تعالیٰ سابقہ امتوں میں ہوتے تو اللہ تعالیٰ قرآن شریف ضرور ان کا ذکر فرماتا۔ ایک دن کسی قبرستان سے گزر رہے تھے تو کسی گا نے والے نے یہ شعر پڑھا۔ ع
بای خدک نبدی البلاد
وای عینک اذا سلا​
د
آپ بے قرار ہوگئے اور حالتِ ضطرار میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے حلقۂ درس میں حاضر ہوئے، امام صاحب نے فرمایا: ’’آپ مخلوق سے کنارہ کر لیں‘‘۔ چنانچہ یہ گوشہ نشین ہو گئے، بعد ایک مدت جب حضرت امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ شاگرد رشید کو دیکھنے گئے تو فرمایا: ’’ہمارا منشاء یہ نہیں تھا بلکہ آپ ائمہ کی مجالس میں شریک ہوا کریں اور زبان سے کچھ نہ کہیں ‘‘۔ آپ نے ایک سال ایسا ہی کیا، آپ فرمایا کرتے تھے:
’’اس ایک سال کے صبر نے وہ کام کیا جو تیس سال نے نہیں کیا‘‘۔ (حدائق الحنفیہ:۱۱۲)​
اس کے بعد آپ حبیب راعی رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہوئے یہ حضرت سلمان فارسی رحمہ اللہ تعالیٰ سے بیعت تھے اور حضرات صوفیا کی روایت کے مطابق انہیں سے خرقہ خلافت پہنا اور حضرت سلمان فارسی رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے خرقہ خلافت پہنا تھا۔اس کے بعد آپ نے اس قدر ریاضت وعبادت کی کہ کھانے سے بھی تغافل برتتے تھے، جب سوکھی روٹی ہوتی تو اس کو پانی میں ڈال دیتے جب وہ خوب گھل جاتی تو پی لیتے تھے، فرمایا کرتے تھے:
’’جب تک روٹی کا ایک ٹکڑا کھاؤں گا اس وقت تک پچاس آیات قرآنی پڑھی جا سکتی ہیں‘‘(۱)۔
حاشیہ(۱):حائق الحنفیہ۔
آپ کو اعلیٰ درجہ کا تقویٰ حاصل تھا کسی کا عطیہ، ہدیہ، صدقہ قبول نہ کرتے تھے۔ آپ کو مال وراثت کی کچھ رقم ملی تھی، آپ کی دُعا یہ تھی کہ الٰہی! جب یہ ختم ہوجائے تو میری رُوح قبض فرما دیجئے۔ جب آپ کے پاس دس درہم رہ گئے تو امام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی والدہ سے دریافت کیا کہ آپ روزانہ کس قدر خرچ کرتی ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا ایک دانگ۔ امام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالیٰ برابر اس کا حساب رکھتے رہے، جب یہ رقم خرچ ہوگئی تو امام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو خبردریافت کرنے بھیجا، تو بے شک اسی دن درہم ختم ہوئے تھے اور اسی دن امام داؤد طائی رحمہ اللہ تعالیٰ کا انتقال ہوا تھا، سن وصال ۱۶۰ھ؁یا ۱۶۵ھ؁ ہے، زیب عالم تاریخ وفات ہے۔
حضرت معروف کرخی آپ کے شاگرد خاص وتربیت یافتہ تھے اور آپ کے معاصر مشائخ فضیل بن عیاض(۱)، ابراہیم ادہم(۲) ابو تراب بخشی(۳) وغیرہ ہیں۔ آپ کے نصائح میں سے ہے:
ان اردت السلامۃ سلّم علی الدنیا وان اردت الکرامۃ کبر علی الاٰخرۃ۔ (نفحات الانس:۴۲)​
’’اگر سلامتی چاہتے ہو تو دُنیا کو چھوڑ دو، اگر کرامت چاہتے ہو تو آخرت کو خیر باد کہہ دو، یعنی صرف خدا کے ہو جاؤ‘‘۔​
حاشیہ(۱):فضیل بن عیاض نام ابو علیٰ کنیت کوفی ہیں، بعض نے کہا بخاری ہیں، بعض نے کہا خراسانی ہیں۔ طبقہ اولیٰ کے مشائخ اولیاء کبار میں سے ہیں۔ آپ نے فرمایا: میں اللہ تعالیٰ کی عبادت دوستی کی وجہ سے کرتا ہوں۔ وفات ۱۹۶ھ؁ ہے۔ (نفحات:۱۲۹)
(۲)ابراہیم ادہم بن سلیمان بن منصور بلخی ابنائے ملوک (شہزادے) ہیں، عالم جوانی میں تائب ہوئے۔ حضرت ابو سفیان ثوری، حضرت فضیل عیاض اور حضرت ابو یوسف سے تربیت پائی اور حضرت فضیل عیاض سے خرقہ خلافت پہنا، امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے شاگرد خاص تھے۔ جنید بغدادی رحمہ اللہ تعالیٰ کو ’’مفا تح العلوم‘‘ فرمایا کرتے تھے اور امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ آپ کو ’’سیّدنا‘‘ فرمایا کرتے تھے۔ جس دن آپ کی وفات ہوئی تو ہاتف غیبی نے ندا دی ’’قد مات امان الارض‘‘۔ سن وفات ۱۶۲ھ؁ ہے۔ (نفحات:۴۳، حدائق)
(۳)نام عسکربن محمد المحیض ہے ابوتراب کنیت ہے، وفات ۲۴۵ھ؁۔ اسی سال حضرت ذوالنون مصری کی وفات ہوئی۔ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کسی بندہ سے اعراض فرماتا ہے تو اس شخص میں اولیاء کرام پر طعن تشنیع اور انکار شروع ہو جاتا ہے۔

جاری ہے۔۔۔
 
Top