شیخ التفسیر حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمتہ اللہ علیہ کااستغناء

محمد نبیل خان

وفقہ اللہ
رکن

شیخ التفسیر حضرت محمد ادریس کاندھلوی رحمتہ اللہ علیہ تقسیم سے قبل دارلعلوم دیوبند میں شیخ التفسیر تھے.اس زمانے میں پچاس روپے ماہوار تنخواہ تھی.جس سے فقر و استغناء کے ساتھ گزر بسر کرتے ایک دن اہلیہ محترمہ نے کہا میں نے سال بھر میں دو سو روپے کے لگ بھگ جمع کیا ہے،اپ کے ہاں بڑے بڑے لوگ آتے اور فرش کی چٹائی پر بیٹھتے ہیں اور روپوں سے کرسیاں وغیرہ خرید لیں تا کہ سیٹھوں اور تاجروں کی حیثیت کی مطابق نشست کا انتظام ہو سکے،اہلیہ محترمہ نے عرض کیا:"میں چالیس روپے ماہوار میں بخوبی گزرا کر لیتی ہوں" حضرت نے فرمایا:"ہمیں دنیا والوں سے کیا تعلق"؟ ہم نے ان سے کیا لینا اور یہ ہمیں کیا دے سکتے ہیں؟ جس کو آنا ہے شوق سے آے لیکن نشست چٹائی پر ہوگی اور فرشی ہوگی" دارلعلوم کے خزانچی کو بلوایا اور، اور بیوی سے دو سو روپے لیے اور اس کی حوالے کر دیے.فرمایا" میاں! تنخواہ ہماری ضرورت سے زیادہ ہے،یہ رقم واپس لو اور آیندہ پچاس کی بجایے چالیس روپے ماہوار کر دو.

فائدہ: یہ ہمارے اکابرین تھے اور اگر میں یہ کہوں کہ ان لوگوں نے صحابہ رضی اللہ عنھم کی کامل اتباع کی اور ان پاک ہستیوں کی یاد اس فتنہ اور فساد کے دور میں تازہ کی تو اس میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا.میں اس نسبت پر فخر نہ کروں تو کیوں نہ کروں؟اللہ جل جلالہ ان حضرات کی قبروں کو جنّت کے باغ بناے.امین ثمّ امین

ہفتہ روزہ چٹان جلد ٢٧، شمارہ ٢٩،ص٣١.بحوالہ حکایات اسلاف ص ٢٥٧
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
ائدہ: یہ ہمارے اکابرین تھے اور اگر میں یہ کہوں کہ ان لوگوں نے صحابہ رضی اللہ عنھم کی کامل اتباع کی اور ان پاک ہستیوں کی یاد اس فتنہ اور فساد کے دور میں تازہ کی تو اس میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا.میں اس نسبت پر فخر نہ کروں تو کیوں نہ کروں؟اللہ جل جلالہ ان حضرات کی قبروں کو جنّت کے باغ بناے.امین ثمّ امین
بہت شکریہ
 
Top