السلام علیکم
محترم قارئین کرام اس مراسلہ کو توجہ سے مطالعہ فرمائیں اور اپنی آراء سے نوازیں اس کے بعد میں اس کو اپنے بلاگ پر پوسٹ کروں گا لیجئے ملاحظہ فرمائیں
پیش کردہ :مفتی عابد الرحمٰن مظاری بجنوری
جنگ آزادی اور مدینہ اخبار بجنور
جنگ آزادی میں اردو اخبارات نےجو اہم کردار ادا کیا ہے وہ محتاج تعارف نہیں دارورسن کی مسلسل آزمائشوں کے با وجود ان اخبارات نے دنیا کی عظیم ترین سامراجی قوت سے بھر پور ٹکر لی اور ان کو کیفر کردار تک پہنچانے میں ایک اہم کردار ادا کیا، اورصحافتی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے صحافتی دیانت داری کے علم اونچا رکھا ، تمام قومی تحریکیں انہیں اخباروں کے ذریعہ وجود میں آئیں اور انہیں کے ذریعہ پھیلیں اور انہیں کے ذریعہ شمع حریت کے پروانوں کو اپنے خوابوں کی تعبیرملی، اردو صحافت کی یہ خوش قسمتی رہی کہ ابتداء سےہی اسے جذبہ حریت کےاس ننھے پودے کو سینچنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ چنانچہ اس کی جڑوں کو پہلا خون دہلی کےمشہور زمانہ ’’دہلی اخبار‘‘ کے اڈیٹر مولوی محمد باقر صاحب نے دیا ۔۱۸۵۷ء کی پہلی جنگ آزادی سے ۱۹۴۷ء تک اس پودے کے بار آوار درخت ہونے تک اس کے چاہنے والے جانثاروں کے ایثار و سرفروشی کے کار ہاے نمایاں آج بھی قومی آزادی کا ایک درخشاں باب ہے اور تاریخ کا قابل فخر سرمایہ ہےاور قوم وملت کے لیے عظیم الشان یادگاریں رقم کرنے میں کامیاب رہے۔
۱۹۱۲ ء میں عالم اسلام کے لیے ایک سیاہ دور کا آغاز ہوا جس میں برطانیہ عظمیٰ‘ British Empire اور اس کی ہمنوا حکومتوں نے ملکر بلقان کی ریاستوں کو اکسا کر ترکوں کے بالمقابل لا کھڑا کیا ۔اور دیکھتے ہی دیکھتے خلافت کا خاتمہ ان دشمنان اسلام کے ہاتھوں ہوا یہ وہی خلافت کا زمانہ تھاجس نےان کے ناک میں دم کر رکھا تھا۔ اس دوران ملتِ روم کی سیادت کا پرچم ’برطانیہ عظمیٰ‘ British Empire کے ہاتھ میں تھا اور اس کی کچھ جھنڈیاں فرانس کے پاس۔ اس ہنگامے نے منتشر ملت کو ایک نقطہ پر جمع کردیا ۔اسی پرآشوب دور میں تین ایسے اردو اخبارات’’ الہلال ‘‘ ’’ہمدرد‘‘ اور ’’مدینہ‘‘ نے جنم لیا جن کا شمار جنگ آزادی کے ہر اول دستے کے طور پر ہوتا تھا ۔ ان اخبارات میں ’’ مدینہ‘‘ کو تقدم زمانی کا شرف حاصل ہے ،اور یہ تفوق اس کی قر بانیوں کی وجہ ہے کہ ہزاروں دقتوں کے باوجود یہ مسلسل نکلتا رہا ،اور طویل عمر پائی
’’مدینہ ‘‘ کے بانی مولوی مجید حسن مرحوم نے اسے قلیل پونجی کے ساتھ یکم مئی ۱۹۲۱ ء کو ہفتہ واراخبار کی شکل میں بجنور سے جاری کیا یکم جنوری ۱۹۱۷ءسے سہ روزہ ہوگیا۔ ’’مدینہ‘‘ اخبار نے قومی تحریک آزادی کی تائید ،اور آزادی خواہ جماعتوں کی حمایت ، مسلمانوں کے سیاسی تمدنی اور لسانی حقوق نیز اسلامی آثار وشعائر کے تحفظ کی جس پالیسی کا آغاز روز اول سے کیا تھا اس پر پوری سچائی اور بے لوثی کے ساتھ آخر تک قائم رہا۔
’’مدینہ‘‘ کی بڑی خصوصیت یہ بھی رہی کی اس کے ادارہ تحریر میں جن حضرات کی خدمات حاصل ہوئیں، وہ نہ صرف اس کی قوم پرورانہ، اور حریت پسندانہ موقف کے موئید تھے بلکہ اپنے زمانے کے مشہور انشاء پرداز اور صاحب طرزنثر نگار بھی تھے ۔ چنانچہ’’ مدینہ‘‘ کے اڈیٹروں کی فہرست میں ہمیں علی الترتیب ،حافظ نورالحسن ذہین ، آغاز رفیق بلند شہری، مولانامظہرالدین شیرکوٹی ، مولوی نصیرالحق دہلوی، مولوی احقاد حسین بریلوی، حافظ علی بہادرخاں مرادآبادی، شاہ خلیل الرحمٰن بہاری، قاضی محمد عباس ، قاضی بدرالحسن جلالی،مولوی امین احمداصلاحی ، مولانا مفتی عزیزالرحمٰن بجنوری،مولوی شبیراحمد چاندپوری،مولوی نورالرحمٰن بچھرانوی،ابوسعید بزمی،حمیدحسن فکر،مولانا مسعود عالم ندوی،مولانا ابواللیث اصلاحی،قدوس صہبائی، مولاناحامد اللہ انصاری غازی،ضیاالحسن فاروقی۔اور سعید اختر،جیسےمشہور اہل قلم اور صحافی نظر آتے ہیں جنہوں نے اردو صحافت کی زبوں حالی کے باوجود’’ مدینہ‘‘کے ادارتی فرائض انتہائی دیانت داری سے انجام دیئے ۔ جنگ آزادی میں یوں تو متعدد اردو اخبارات نے حصہ لیا لیکن ادبی رنگ میں حریت پسندی کی ترویج واشاعت میں ’’مدینہ‘‘ نے جو کردار ادا کیا اس کوکبھی بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔