تونے اپنے گھر بلایا میں تو اس قابل نہ تھا(عمرہ کا سفرنامہ) قسط اول

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
تونے اپنے گھر بلایا میں تو اس قابل نہ تھا(عمرہ کا سفرنامہ) قسط اول ۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔

السلام علیکم ورحمتہ اللہ برکاتہ؟
!

اللہ رب العزت نے مجھے زیارت حرمین الشریفین کا شرف بخشا تھا۔ کافی دنوں سے سوچ رہا تھا اپنا سفر نامہ لکھوں ۔ اب نبیل بھائی کی فرمائش بھی آئی ہے۔ اور مولانا احمد قاسمی صاحب و مفتی ناصر مظاہری صاحب کا حکم بھی ہوا ہے اس لیے یہ سفرنامہ لکھ رہا ہوں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سُوئے حرم لے چل!


میں کلاس میں بیٹھا سبق پڑھ رہا تھا اچانک طبیعت کچھ خراب ہوگئی۔ گھر آکر سردرد کی دوائی کھائی اور سو گیا،جب بیدار ہوا تو بہت سخت بخار تھا۔ڈاکٹر سے دوائی لی تو کچھ افاقہ ہوا۔چند دن کے بعدایک دن والد محترم نماز فجر کے لیے اُٹھایا جب میں نے اُٹھنے کی کوشش کی تو نہیں اٹھ پایا۔تھوڑی ہمت کی تو اُٹھ کر بیٹھ گیا۔جب وضو کرنے کے لیے جانے لگا تو ایک چکر سا آیا تو میں وہیں بیٹھ گیاجب سکون محسوس ہوا وضو کرنے چلدیا ابھی چند قدم ہی اٹھائے تھے چکر دوبارہ شروع ہوگئے اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا ۔کچھ دیر بعد ٹھیک ہوا وضو کیا نماز پڑھی ،جیسے ہی گھر داخل ہوا سردی سی محسوس ہوئی اور جسم پر کپکپی طاری ہوگئی ،یہیں سے میری بیماری کا آغاز ہوا،بیماری بڑھتی ہی چلی گئی یہاں تک کہ میں چارپائی کے ساتہ آلگا،اور چلنے کے قابل بھی نہ رہا۔ ڈاکٹر حضرات کو میری بیماری سمجھ نہیں آرہی تھی ۔ یہاں تک کہ کچھ عرصہ گزر گیا اسی دوران ڈاکٹر زنےکہا کہ ہمیں سمجھ ہی نہیں آرہی بیمار کی تو علاج کیا کریں۔ 2010 میں میرے استاد اور میرے تایا زاد بھائی مولانا یسین احمد عثمانیؒ صاحب عمرہ کے سفر کی تیاری فر مارہے تھے۔ جب ڈاکٹروں کو بیماری کی سمجھ نہ آئی تو والد محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا خادم حسین صاحب نے مجھے بھی حرمین الشریفن بھیجنے کا فیصلہ فرمایا۔ جب والد محترم نے مجھے اپنے فیصلہ سے آگاہ فرمایا، توایک ایسی خوشی محسوس ہوئی کہ ان الفاظ کو بیان کرنامیرے بس میں نہیں تھا حتیٰ کہ خوشی کی وجہ سےآنکھوں سے آنسو جھلک پڑے، اور اللہ کے حضور اس کا شکر بجالایا ۔ اس نے مجھ جیسے گناہ گار کو اپنے گھر جانے کی توفیق بخش رہا ہے۔یہ اس کا کرم اور احسان تھا کہ وہ مجھ جیسے خطا کار کو اپنے گھر آنے کی توفیق بخش رہا تھا اور اس پر اپنے رب کا جتنا شکریہ ادا کرتا وہ کم تھا۔ اس کے بعد میں نے سفرحرمین شریفین کی تیاری شروع کردی ۔ اس طرح گھر کے کل 6 افراد کا قافلہ تیار ہوگیا،جس میں تایا جان مہر غلام حسین صاحب ،بھائی جان مولانا یسین احمد عثمانی ؒصاحب،بڑے بھائی مولانا عبیدالرحمن صدیق صاحب،والدہ محترمہ ،مولانا یسین احمد عثمانی صاحب کی زوجہ محترمہ اور بندہ ناچیز شامل تھے۔خوشی دوبالہ ہو گئی کہ والد ہ محترمہ اور بڑے بھائی ساتھ ہیں۔میرا اس وقت شناختی کارڈ نہیں تھا مجھے پاسپورٹ بنوانے کے لیے ’’ب‘‘ فارم درکار تھا ۔’’ب‘‘ فارم بنوانے کے لیے بھاگ دوڑ شروع کی ۔ پہلےبرتھ سرٹیفکٹ بنوانا تھا اس کے بعد ’’ب‘‘ بنناتھا۔ہمارے گھر کے قریب ایک بزرگ رہتے تھے جو شاہ صاحب کے نام سے مشہور تھے۔ ان کی دفتر میں واقفیت تھی ان سے گزارش کی تو انہوں نے ہماری گزارش کو قبول فرمایاخیر انہوں نے ’’ب‘‘ فارم تک تمام امور میں میرا بہت ساتھ دیا۔(آج وہ ہم میں موجود نہیں ہے،اللہ پاک انہیں غریق رحمت کرے۔آمین)اس کے بعد پاسپورٹ بنوانے کے لیے اپنے کزن محمد شعیب کے ساتھ دفتر گیا۔ وہاں پہنچا تو ان کا کہنا تھا آپ کے ساتھ آپ کے والد یا والدہ کا ہونا ضروری ہے۔والد صاحب کو فون کیا اور بتایا کہ یہ ماجرا ہے،کیونکہ پہلے علم نہیں تھا کہ یہ شرط ہےکیونکہ وہاں ایک جاننے والے تھے جانے سے پہلے والدصاحب کے حج کے ساتھی جناب آدم خان مرحوم نے بڑے بھائی مولانا حفظ الرحمن فارق کے ذریعے نمبر بھیجا تھاتاکہ وہاں جاکر رابطہ کرلوں۔ اور آفس بھی بند ہونے کا ٹائم ہوگیاتھا، تو دوسرے دن آنے کا فیصلہ کیا ، دوسرے دن والد محترم کے ساتھ گیا اور پاسپورٹ جمع کر وایا اور گھر واپس آگئے۔آخر وہ دن بھی آہی گیا جس کا مجھے شدت سے انتظار تھاکیونکہ اس گھر کو دیکھنے کی تمنا اور آرزو تھی جس کی تمنا ہر مسلمان کرتا ہے۔
(جاری ہے)
 
Last edited:

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
دوسری قسط کب آئے گی؟؟؟؟؟
شیخ جب یہ سفرنامہ شروع کیا تھا اس وقت اقساط مکمل ہوگئی تھیں
اس کے بعد اس کو پی ڈی ایف بناکر بھی شئیر کیا گیاتھا
آپ کے و مفتی ناصر صاحب کی سرپرستی اور حکم سے یہ زندگی کا پہلا سفر نامہ لکھا تھااور یہیں سے لکھنے کی ابتداء ہوئی تھی ۔ اس وقت معلوم نہیں تھا کیا لکھنا ہے کیا نہیں۔ اور بہت سی چیزیں اس وقت نہ لکھ سکا تھا۔
اللہ پاک نے جو مقبولیت اس سفر نامہ کو عطا فرمائی تھی اسے تحریر میں لکھنا ممکن نہیں
دعا فرمائیں اللہ پاک دوبارہ بلائیں تو ان شاءاللہ نئے طریقے اور نئے انداز سے اس سفر کو لکھا جائے گا اور جو چیزیں رہ گئیں تھیں ان شاءاللہ وہ بھی گوش گزار کی جائینگی۔
 
Top