تونے اپنے گھر بلایا میں تو اس قابل نہ تھا(عمرہ کا سفرنامہ) قسط سوم۔
قسط دوم یہاں ملاحظہ فرمائیں۔
مسجدالحرام
حضرت ابوذر سے حدیث مروی ہے کہ : ابوذر بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کوپوچھا کہ زمین میں سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : مسجد حرام، میں نے کہا کہ اس کے بعد کون سی؟ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : مسجد اقصیٰ، میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سوال کیا کہ ان دونوں کے درمیان میں کتنی مدت کا فرق ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : چالیس برس۔(صحیح مسلم)
اس حدیث سے معلوم ہوا مسجدالحرام روئے زمین پر قائم ہونے والی پہلی مسجد ہے۔کعبہ جومسلمانوں کا قبلہ ہے مسجد الحرام کے تقریباً وسط میں قائم ہے۔
مسجد الحرام کی پہلی چار دیواری حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے 639ء میں کرائی تھی جبکہ 777ء میں مہدی کے دور میں مسجد کی تاریخ کی اس وقت کی سب سے بڑی توسیع ہوئی تھی جس کے گرد 1576ء میں عثمانی ترکوں نے سفید گنبدوں والے برآمدے بنائے تھے جو اکیسویں صدی تک موجود تھے۔ یہ چار دیواری بنانے کا سبب یہ تھا کہ لوگوں نے مکانات بنا کر بیت اللہ کو تنگ کر دیا اوراپنے گھروں کو اس کے بالکل قریب کر دیا تو عمر بن خطاب کہنے لگے : بلاشبہ کعبہ اللہ تعالٰی کا گھر ہے اورپھر گھر کے لیے صحن کا ہونا ضروری ہے تو حضرت عمر بن خطاب ر ضی اللہ عنہ نے ان گھروں کوخرید کر منہدم کر کے اسے مسجدالحرام میں شامل کر دیا۔ تو اس طرح مسجد کے اردگرد قد سے چھوٹی دیوار بنا دی گئی جس پر چراغ رکھے جاتے تھے، اس کے بعدحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی کچھ اورگھر خریدے جس کی قیمت بھی بہت زیاد ادا کی اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے مسجد کی توسیع کرتے وقت ایک ستون والے مکان بنائے۔ حضرت ابن زبیر نے مسجد کی توسیع نہیں بلکہ اس کی مرمت وغیرہ کروائی اوراس میں دروازے زیادہ کیے اور پتھر کے ستون بنائے اور اس کی تزئین و آرائش کی۔ عبدالملک بن مروان نے مسجد کی چاردیواری اونچی کروائی اورسمندر کے راستے مصر سے ستون جدہ بھیجے اور جدہ سے اسے ریڑھی پر رکھ کر مکہ مکرمہ پہنچایا اور حجاج بن یوسف کوحکم دیا کہ وہ اسے وہاں لگائے۔ جب ولید بن عبدالملک مسند پربیٹھا تو اس نے کعبہ کے تزئین میں اضافہ کیا اور پرنالہ اورچھت میں کچھ تبدیلی کی، اوراسی طرح منصور اور اس کے بیٹے مہدی نے بھی مسجد کی تزئین و آرائش کی۔ آج کل مسجد کے کل 112 چھوٹے بڑے دروازے ہیں جن میں سب سے پہلا اور مرکزی دروازہ سعودی عرب کے پہلے فرمانروا شاہ عبدالعزیز کے نام پر موسوم ہے جس نے تیل کی دولت دریافت ہونے کے بعد حاصل ہونے والی مالی آسودگی اور ذرائع آمد و رفت مثلاً ہوائی جہازوں وغیرہ کی ایجاد سے ہونے والی آسانیوں سے حاجیوں کی تعداد میں بے پناہ اضافے کے بعد مسجد حرام میں تعمیر و توسیع کا ارادہ کیا تھا۔ اس کے انتقال کے بعد شاہ سعود کے دور میں مسجد کی تاریخ کی سب سے بڑی تعمیر شروع ہوئی اور سابق ترکی تعمیر کے برآمدوں کے پیچھے دو منزلہ عمارت بنی۔ اس تعمیر میں مختلف دروازے بنائے گئے تو مسجد کے جنوب کی طرف سے چار میں سے پہلا اور بڑا دروازہ بنایا گیا جس کا نام باب عبدالعزیز رکھا گیا۔ دوسرا بڑا دروازہ باب الفتح ہے جو شمال مشرق میں مروہ کے قریب ہے جہاں 12 جنوری 630ء کو فتح مکہ کے دن اسلامی لشکر نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیر قیادت مسجد حرام میں داخل ہوا۔ تیسرا بڑا دروازہ باب العمرہ ہے جو شمال مغرب کی طرف ہے اور جہاں سے نبی پاک صلی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپریل 629ء میں عمرے کی سعادت حاصل کی تھی جبکہ چوتھا بڑا دروازہ باب فہد ہے جو مغرب کی سمت ہے۔ ان کے علاوہ مختلف واقعات اور مقامات کی یاد میں مسجد کے دیگر دروازوں کے نام رکھے گئے ہیں۔ شاہ فہد بن عبد العزیز کے زمانے میں تاریخ کی سب سے بڑی توسیع 1993ء میں مکمل ہوئی۔ مسجد الحرام میں کچھ دینی آثار بھی ہیں، جن میں مقام ابراہیم وہ پتھر ہے جس پرابراہیم علیہ السلام کھڑے ہو کر بیت اللہ کی دیواریں تعمیر کرتے رہے اور اسی طرح مسجد میں زمزم کا کنواں بھی ہے جو ایسا چشمہ ہے جسے اللہ تعالٰی نے حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ حضرتہاجرہ کے لیے نکالاتھا۔ اور اسی طرح یہ بھی نہیں بھولا جاسکتا کہ اس میں حجر اسود اور رکن یمانی بھی ہے جو جنت کے یاقوتوں میں سے دو یاقوت ہیں ۔
مسجد الحرام کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ تعالٰی نے اسے امن کا گہوارہ بنایا ہے اوراس میں ایک نماز ایک لاکھ کے برابر ہے۔
مسجد الحرام میں کعبہ کے جنوب مشرق میں تقریباً 21 میٹر کے فاصلے پر تہ خانے میں آب زمزم کا کنواں ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ علیہ السلام کے شیر خوار بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیاس بجھانے کے بہانے اللہ تعالٰیٰ نے تقریباً 4 ہزار سال قبل ایک معجزے کی صورت میں مکہ مکرمہ کے بے آب و گیاہ ریگستان میں جاری کیا جو وقت کے ساتھ سوکھ گیا تھا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا حضرت عبد المطلب نے اشارہ خداوندی سے دوبارہ کھدوایا جوآج تک جاری و ساری ہے۔ آب زمزم کا سب سے بڑا دہانہ حجر اسود کے پاس ہے جبکہ اذان کی جگہ کے علاوہ صفا و مروہ کے مختلف مقامات سے بھی نکلتا ہے۔ 1953ءتک تمام کنوئوں سے پانی ڈول کے ذریعے نکالاجاتا تھا مگر اب مسجد حرام کے اندر اور باہر مختلف مقامات پر آب زمزم کی سبیلیں لگادی گئی ہیں۔ آب زمزم کا پانی مسجد نبوی میں بھی عام ملتا ہے اور حجاج کرام یہ پانی دنیا بھر میں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔(وکی پیڈیا)
حضرت ابوذر سے حدیث مروی ہے کہ : ابوذر بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کوپوچھا کہ زمین میں سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : مسجد حرام، میں نے کہا کہ اس کے بعد کون سی؟ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : مسجد اقصیٰ، میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سوال کیا کہ ان دونوں کے درمیان میں کتنی مدت کا فرق ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : چالیس برس۔(صحیح مسلم)
اس حدیث سے معلوم ہوا مسجدالحرام روئے زمین پر قائم ہونے والی پہلی مسجد ہے۔کعبہ جومسلمانوں کا قبلہ ہے مسجد الحرام کے تقریباً وسط میں قائم ہے۔
مسجد الحرام کی پہلی چار دیواری حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے 639ء میں کرائی تھی جبکہ 777ء میں مہدی کے دور میں مسجد کی تاریخ کی اس وقت کی سب سے بڑی توسیع ہوئی تھی جس کے گرد 1576ء میں عثمانی ترکوں نے سفید گنبدوں والے برآمدے بنائے تھے جو اکیسویں صدی تک موجود تھے۔ یہ چار دیواری بنانے کا سبب یہ تھا کہ لوگوں نے مکانات بنا کر بیت اللہ کو تنگ کر دیا اوراپنے گھروں کو اس کے بالکل قریب کر دیا تو عمر بن خطاب کہنے لگے : بلاشبہ کعبہ اللہ تعالٰی کا گھر ہے اورپھر گھر کے لیے صحن کا ہونا ضروری ہے تو حضرت عمر بن خطاب ر ضی اللہ عنہ نے ان گھروں کوخرید کر منہدم کر کے اسے مسجدالحرام میں شامل کر دیا۔ تو اس طرح مسجد کے اردگرد قد سے چھوٹی دیوار بنا دی گئی جس پر چراغ رکھے جاتے تھے، اس کے بعدحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی کچھ اورگھر خریدے جس کی قیمت بھی بہت زیاد ادا کی اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے مسجد کی توسیع کرتے وقت ایک ستون والے مکان بنائے۔ حضرت ابن زبیر نے مسجد کی توسیع نہیں بلکہ اس کی مرمت وغیرہ کروائی اوراس میں دروازے زیادہ کیے اور پتھر کے ستون بنائے اور اس کی تزئین و آرائش کی۔ عبدالملک بن مروان نے مسجد کی چاردیواری اونچی کروائی اورسمندر کے راستے مصر سے ستون جدہ بھیجے اور جدہ سے اسے ریڑھی پر رکھ کر مکہ مکرمہ پہنچایا اور حجاج بن یوسف کوحکم دیا کہ وہ اسے وہاں لگائے۔ جب ولید بن عبدالملک مسند پربیٹھا تو اس نے کعبہ کے تزئین میں اضافہ کیا اور پرنالہ اورچھت میں کچھ تبدیلی کی، اوراسی طرح منصور اور اس کے بیٹے مہدی نے بھی مسجد کی تزئین و آرائش کی۔ آج کل مسجد کے کل 112 چھوٹے بڑے دروازے ہیں جن میں سب سے پہلا اور مرکزی دروازہ سعودی عرب کے پہلے فرمانروا شاہ عبدالعزیز کے نام پر موسوم ہے جس نے تیل کی دولت دریافت ہونے کے بعد حاصل ہونے والی مالی آسودگی اور ذرائع آمد و رفت مثلاً ہوائی جہازوں وغیرہ کی ایجاد سے ہونے والی آسانیوں سے حاجیوں کی تعداد میں بے پناہ اضافے کے بعد مسجد حرام میں تعمیر و توسیع کا ارادہ کیا تھا۔ اس کے انتقال کے بعد شاہ سعود کے دور میں مسجد کی تاریخ کی سب سے بڑی تعمیر شروع ہوئی اور سابق ترکی تعمیر کے برآمدوں کے پیچھے دو منزلہ عمارت بنی۔ اس تعمیر میں مختلف دروازے بنائے گئے تو مسجد کے جنوب کی طرف سے چار میں سے پہلا اور بڑا دروازہ بنایا گیا جس کا نام باب عبدالعزیز رکھا گیا۔ دوسرا بڑا دروازہ باب الفتح ہے جو شمال مشرق میں مروہ کے قریب ہے جہاں 12 جنوری 630ء کو فتح مکہ کے دن اسلامی لشکر نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیر قیادت مسجد حرام میں داخل ہوا۔ تیسرا بڑا دروازہ باب العمرہ ہے جو شمال مغرب کی طرف ہے اور جہاں سے نبی پاک صلی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپریل 629ء میں عمرے کی سعادت حاصل کی تھی جبکہ چوتھا بڑا دروازہ باب فہد ہے جو مغرب کی سمت ہے۔ ان کے علاوہ مختلف واقعات اور مقامات کی یاد میں مسجد کے دیگر دروازوں کے نام رکھے گئے ہیں۔ شاہ فہد بن عبد العزیز کے زمانے میں تاریخ کی سب سے بڑی توسیع 1993ء میں مکمل ہوئی۔ مسجد الحرام میں کچھ دینی آثار بھی ہیں، جن میں مقام ابراہیم وہ پتھر ہے جس پرابراہیم علیہ السلام کھڑے ہو کر بیت اللہ کی دیواریں تعمیر کرتے رہے اور اسی طرح مسجد میں زمزم کا کنواں بھی ہے جو ایسا چشمہ ہے جسے اللہ تعالٰی نے حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ حضرتہاجرہ کے لیے نکالاتھا۔ اور اسی طرح یہ بھی نہیں بھولا جاسکتا کہ اس میں حجر اسود اور رکن یمانی بھی ہے جو جنت کے یاقوتوں میں سے دو یاقوت ہیں ۔
مسجد الحرام کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ تعالٰی نے اسے امن کا گہوارہ بنایا ہے اوراس میں ایک نماز ایک لاکھ کے برابر ہے۔
مسجد الحرام میں کعبہ کے جنوب مشرق میں تقریباً 21 میٹر کے فاصلے پر تہ خانے میں آب زمزم کا کنواں ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ علیہ السلام کے شیر خوار بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیاس بجھانے کے بہانے اللہ تعالٰیٰ نے تقریباً 4 ہزار سال قبل ایک معجزے کی صورت میں مکہ مکرمہ کے بے آب و گیاہ ریگستان میں جاری کیا جو وقت کے ساتھ سوکھ گیا تھا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا حضرت عبد المطلب نے اشارہ خداوندی سے دوبارہ کھدوایا جوآج تک جاری و ساری ہے۔ آب زمزم کا سب سے بڑا دہانہ حجر اسود کے پاس ہے جبکہ اذان کی جگہ کے علاوہ صفا و مروہ کے مختلف مقامات سے بھی نکلتا ہے۔ 1953ءتک تمام کنوئوں سے پانی ڈول کے ذریعے نکالاجاتا تھا مگر اب مسجد حرام کے اندر اور باہر مختلف مقامات پر آب زمزم کی سبیلیں لگادی گئی ہیں۔ آب زمزم کا پانی مسجد نبوی میں بھی عام ملتا ہے اور حجاج کرام یہ پانی دنیا بھر میں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔(وکی پیڈیا)
ہمارا پہلا عمرہ
دیدِ اولمسجدالحرام جاتے ہوئے بھائی جان ہمیں ہدایات دیں اور کہاکہ ہم باب العمرہ سے داخل ہونگے وہاں سے کعبہ پر نظر صحیح پڑتی ہے۔ آخر وہ وقت بھی آن پہنچا جس کا سب کو انتظار تھا ہم نے مسجدالحرام میں قدم رکھا۔ ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آیا اس نے روح تک پورے جسم کو معطر کردیا ہم آنکھیں نیچے کرتے ہوئے چل پڑے سب برداشت سے باہر ہو رہا تھا کہ آنکھیں اٹھا کر مسجدالحرام اور کعبہ کی زیارت کی جائے لیکن بھائی جان نے ہدایت کی تھی جب تک نہ کہوں اس وقت تک نظریں مت اٹھانا ۔عجیب سی کیفیت تھی ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے، دل کی دھڑکنیں تیز ہو رہیں تھیں آنکھوں سے آنسو چھلک رہے تھے۔ نظریں نیچے کیے چلتے ہوے مطاف میں پہنچے تو بھائی جان کی آواز کانوں میں پڑی آنکھیں اٹھاکر دیکھو اور دعا کرو دھڑکتے دل اور نم آنکھوں کے ساتھ جب نظریں اٹھائیں تو کعبہ سامنے تھا عنقریب میرے منہ سے چیخ نکلتی میں نے اپنے آپ کو سنبھالا جس کعبہ کی زیارت کی تڑپ بچپن سے دل میں تھی جس کعبہ کو دیکھنے کے لیے میں دعائیں کرتا تھا آج وہ لمحہ میرے سامنے تھا۔ عجب منظر تھا کڑکتی ہوئی دھوپ میں کوئی طواف کر رہا تھا کوئی کسی مریض کو وہیل چئیر پر عمرہ کرا رہا تھا۔ کوئی دعائیں مانگ رہا تھا۔ کوئی زم زم پی رہا تھا۔ کوئی حجاج اکرام کو کڑکتی ہوئی دھوپ میں زم زم کو پلا رہا تھا۔ کوئی نماز ادا کر رہا تھا اس منظر کو دیکہ کر مجھ پر عجیب کیفیت طاری ہوگئی ۔
بیت اللہ شریف
خانہ کعبہ مسجد الحرام کے وسط میں واقع ایک واقع ہے، جو مسلمانوں کا قبلہ ہے۔یہ دین اسلام کا مقدس ترین مقام ہے۔صاحب حیثیت مسلمان پر زندگی میں ایک مرتبہ بیت اللہ کا حج کرنا فرض ہے۔
خانہ کعبہ کے اندر تین ستون اور دو چھتیں ہیں۔ کعبہ کے اندر رکن عراقی کے پاس باب توبہ ہے جو المونیم کی 50 سیڑھیاں ہیں جو کعبہ کی چھت تک جاتی ہیں۔ چھت پر سوا میٹر کا شیشے کا ایک حصہ ہے جو قدرتی روشنی اندر پہنچاتا ہے۔ کعبہ کے اندر سنگ مرمر کے پتھروں سے تعمیر ہوئی ہے اور قیمتی پردے لٹکے ہوئے ہیں جبکہ قدیم ہدایات پر مبنی ایک صندوق بھی اندر رکھا ہوا ہے۔
کعبہ کی موجودہ عمارت کی آخری بار 1996ءمیں تعمیر کی گئی تھی اور اس کی بنیادوں کو نئے سرے سے بھرا گیا تھا۔ کعبہ کی سطح مطاف سے تقریباً دو میٹر بلند ہے جبکہ یہ عمارت 14 میٹر اونچی ہے۔ کعبہ کی دیواریں ایک میٹر سے زیادہ چوڑی ہیں جبکہ اس کی شمال کی طرف نصف دائرے میں جوجگہ ہے اسے حطیم کہتے ہیں اس میں تعمیری ابراہیمی کی تین میٹر جگہ کے علاوہ وہ مقام بھی شامل ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت ہاجرہ علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے رہنے کے لیے بنایا تھا جسے باب اسماعیل کہا جاتا ہے۔
حطیم جسے حجر اسماعیلبھی کہا جاتا ہے، خانہ کعبہ کے شمال کی سمت ایک دیوار ہے جس کے باہر سے طواف کیا جاتا ہے۔ اس دیوار کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ خانہ کعبہ میں شامل تھی۔ حطیم کی اونچائی 30 اِنچ (90 سینٹی میٹر) ہے اور چوڑائی 1.5 میٹر (4.9 فُٹ) ہے۔
کعبہ شریف میں داخل ہونے کے لیے صرف ایک دروازہ ہے جسے باب کعبہ کہا جاتا ہے۔ باب کعبہ زمین یا حرم کے فرش سے 2.13 میٹر اوپر ہے۔ یہ دروازہ کعبہ شریف کے شمال-مشرقی دیوار پر موجود ہے اور اس کے قریب ترین دہانے پر حجر اسود نصب ہے جہاں سے طواف کی ابتدا کی جاتی ہے۔ 1942ء سے پہلے پہلے باب کعبہ کس نے تیار کیا اور کیسے تیار کیا اس کا تاریخ میں زیادہ تذکرہ نہیں ملتا۔ تاہم 1942ء میں ابراہیم بدر نے چاندی کا بنایا تھا،اس کے بعد 1979ء میں ابراہیم بدر کے بیٹے احمد بن ابراہیم بدر نے خانہ کعبہ کا سنہرہ دروازہ بنایا۔ یہ سنہرہ دراوزہ تقریباََ 300 کلوگرام سونے سے تیار کیا گیا تھا۔
خانہ کعبہ کی چھت پر لگا پرنالہ جس سے بارش کا پانی کعبے کی چھت سے حطیم میں گرتا ہے۔ یہ پرنالہ سونے کا بنا ہوا ہے۔ اس پرنالے کو عربی میں ’میزاب رحمت ‘ کہتے ہیں۔
رکن یمانی خانہ کعبہ کے جنوب مغربی کونے کو کہتے ہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: رکن یمانی اور حجر اسود دونوں جنت کے دروازے ہیں(ماخوذ تاریخ مکۃ المکرمۃ ج:2، ص:227)
رب سے رازو نیاز
دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور اللہ کے حضور دعا کرنے لگا کیونکہ یہی قبولیت کی گھڑی تھی،نظریں بیت اللہ پر تھیں آنکھیں نم تھیں،دل اس رب ذوالجلال کا شکر بجا لا رہا تھا جس نے یہاں آنے کی توفیق بخشی،جس نے برسوں کی تمنا کو پورا کیا،جس نے اپنے گناہ گار بندے پر کرم کیا۔ خوب رو رو کر اپنے لیے خوب دعائیں کیں اپنے، والدین کے لیے، اساتذہ کے لیے، بھائیوں کے لیے، دوست و احباب کے لیے،رشتہ داروں کے لیے بلکہ سب کے لیے جتنی دعائیں کر سکتا تھا کیں اور ساتھ ساتھ اپنے رب کا شکر بھی ادا کیا۔ دعا سے فراغت کے بعد بھائی جان نے مجھے کہا میں کرسی لاتا ہوں اس پر بیٹھ آپ کو عمرہ کراؤں گا میں نے یہ کہتے ہوئے منع کردیا کہ اپنے پاؤں پر ہی طواف کروں گا چاہے جو مرضی ہو جائے بس خود چل کے طواف کروں گا بھائی جان نے سمجھاتے ہوئے کہا تم لاٹھی کے سہارے چلتے ہو تنگی ہوگی یہ عمرہ کرسی پر کرلو اگلا عمرہ بغیر کرسی کے کرلینا لیکن میں بضد رہا تو بھائی جان نے اجازت دے دی اور ہدایت کی اول تو ہم ساتھ ساتھ طواف کریں گے اگر کہیں آگے پیچھے ہو گئے تو صفا مروہ والی لائن میں میرا انتظار کرنا۔ اگر میں پہلے فارغ ہوگیا تو میں وہاں تمہارا انتظار کروں گا اگر تم پہلے فارغ ہو گئے تو تم میرا انتظار کرنا۔ میں نے حامی بھر لی اس کے بعد ہم سب زم زم کی طرف بڑھے کیونکہ گرمی کافی تھی اور پیاس کا احساس ہو رہا تھا ہم سب نے خوب سیر ہوکر زم زم پیا اور کعبہ کی طرف بڑھتے ہوئے طواف شروع کردیا۔
زم زم
بیت اللہ شریف
خانہ کعبہ مسجد الحرام کے وسط میں واقع ایک واقع ہے، جو مسلمانوں کا قبلہ ہے۔یہ دین اسلام کا مقدس ترین مقام ہے۔صاحب حیثیت مسلمان پر زندگی میں ایک مرتبہ بیت اللہ کا حج کرنا فرض ہے۔
خانہ کعبہ کے اندر تین ستون اور دو چھتیں ہیں۔ کعبہ کے اندر رکن عراقی کے پاس باب توبہ ہے جو المونیم کی 50 سیڑھیاں ہیں جو کعبہ کی چھت تک جاتی ہیں۔ چھت پر سوا میٹر کا شیشے کا ایک حصہ ہے جو قدرتی روشنی اندر پہنچاتا ہے۔ کعبہ کے اندر سنگ مرمر کے پتھروں سے تعمیر ہوئی ہے اور قیمتی پردے لٹکے ہوئے ہیں جبکہ قدیم ہدایات پر مبنی ایک صندوق بھی اندر رکھا ہوا ہے۔
کعبہ کی موجودہ عمارت کی آخری بار 1996ءمیں تعمیر کی گئی تھی اور اس کی بنیادوں کو نئے سرے سے بھرا گیا تھا۔ کعبہ کی سطح مطاف سے تقریباً دو میٹر بلند ہے جبکہ یہ عمارت 14 میٹر اونچی ہے۔ کعبہ کی دیواریں ایک میٹر سے زیادہ چوڑی ہیں جبکہ اس کی شمال کی طرف نصف دائرے میں جوجگہ ہے اسے حطیم کہتے ہیں اس میں تعمیری ابراہیمی کی تین میٹر جگہ کے علاوہ وہ مقام بھی شامل ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت ہاجرہ علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے رہنے کے لیے بنایا تھا جسے باب اسماعیل کہا جاتا ہے۔
حطیم جسے حجر اسماعیلبھی کہا جاتا ہے، خانہ کعبہ کے شمال کی سمت ایک دیوار ہے جس کے باہر سے طواف کیا جاتا ہے۔ اس دیوار کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ خانہ کعبہ میں شامل تھی۔ حطیم کی اونچائی 30 اِنچ (90 سینٹی میٹر) ہے اور چوڑائی 1.5 میٹر (4.9 فُٹ) ہے۔
کعبہ شریف میں داخل ہونے کے لیے صرف ایک دروازہ ہے جسے باب کعبہ کہا جاتا ہے۔ باب کعبہ زمین یا حرم کے فرش سے 2.13 میٹر اوپر ہے۔ یہ دروازہ کعبہ شریف کے شمال-مشرقی دیوار پر موجود ہے اور اس کے قریب ترین دہانے پر حجر اسود نصب ہے جہاں سے طواف کی ابتدا کی جاتی ہے۔ 1942ء سے پہلے پہلے باب کعبہ کس نے تیار کیا اور کیسے تیار کیا اس کا تاریخ میں زیادہ تذکرہ نہیں ملتا۔ تاہم 1942ء میں ابراہیم بدر نے چاندی کا بنایا تھا،اس کے بعد 1979ء میں ابراہیم بدر کے بیٹے احمد بن ابراہیم بدر نے خانہ کعبہ کا سنہرہ دروازہ بنایا۔ یہ سنہرہ دراوزہ تقریباََ 300 کلوگرام سونے سے تیار کیا گیا تھا۔
خانہ کعبہ کی چھت پر لگا پرنالہ جس سے بارش کا پانی کعبے کی چھت سے حطیم میں گرتا ہے۔ یہ پرنالہ سونے کا بنا ہوا ہے۔ اس پرنالے کو عربی میں ’میزاب رحمت ‘ کہتے ہیں۔
رکن یمانی خانہ کعبہ کے جنوب مغربی کونے کو کہتے ہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: رکن یمانی اور حجر اسود دونوں جنت کے دروازے ہیں(ماخوذ تاریخ مکۃ المکرمۃ ج:2، ص:227)
رب سے رازو نیاز
دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور اللہ کے حضور دعا کرنے لگا کیونکہ یہی قبولیت کی گھڑی تھی،نظریں بیت اللہ پر تھیں آنکھیں نم تھیں،دل اس رب ذوالجلال کا شکر بجا لا رہا تھا جس نے یہاں آنے کی توفیق بخشی،جس نے برسوں کی تمنا کو پورا کیا،جس نے اپنے گناہ گار بندے پر کرم کیا۔ خوب رو رو کر اپنے لیے خوب دعائیں کیں اپنے، والدین کے لیے، اساتذہ کے لیے، بھائیوں کے لیے، دوست و احباب کے لیے،رشتہ داروں کے لیے بلکہ سب کے لیے جتنی دعائیں کر سکتا تھا کیں اور ساتھ ساتھ اپنے رب کا شکر بھی ادا کیا۔ دعا سے فراغت کے بعد بھائی جان نے مجھے کہا میں کرسی لاتا ہوں اس پر بیٹھ آپ کو عمرہ کراؤں گا میں نے یہ کہتے ہوئے منع کردیا کہ اپنے پاؤں پر ہی طواف کروں گا چاہے جو مرضی ہو جائے بس خود چل کے طواف کروں گا بھائی جان نے سمجھاتے ہوئے کہا تم لاٹھی کے سہارے چلتے ہو تنگی ہوگی یہ عمرہ کرسی پر کرلو اگلا عمرہ بغیر کرسی کے کرلینا لیکن میں بضد رہا تو بھائی جان نے اجازت دے دی اور ہدایت کی اول تو ہم ساتھ ساتھ طواف کریں گے اگر کہیں آگے پیچھے ہو گئے تو صفا مروہ والی لائن میں میرا انتظار کرنا۔ اگر میں پہلے فارغ ہوگیا تو میں وہاں تمہارا انتظار کروں گا اگر تم پہلے فارغ ہو گئے تو تم میرا انتظار کرنا۔ میں نے حامی بھر لی اس کے بعد ہم سب زم زم کی طرف بڑھے کیونکہ گرمی کافی تھی اور پیاس کا احساس ہو رہا تھا ہم سب نے خوب سیر ہوکر زم زم پیا اور کعبہ کی طرف بڑھتے ہوئے طواف شروع کردیا۔
زم زم
زمزم کا پانی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ علیہا السلام کے شیر خوار بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیاس بجھانے کے بہانے اللہ تعالیٰ نے تقریباً 4 ہزار سال قبل ایک معجزے کی صورت میں مکہ مکرمہ کے بے آب و گیاہ ریگستان میں جاری کیا جو آج تک جاری ہے۔
چاہ زمزم مسجد الحرام میں خانہ کعبہ کے جنوب مشرق میں تقریباً 21 میٹر کے فاصلے پر تہ خانے میں واقع ہے۔ یہ کنواں وقت کے ساتھ سوکھ گیا تھا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا حضرت عبدالمطلب نے اشارہ خداوندی سے دوبارہ کھدوایا جوآج تک جاری و ساری ہے۔ آب زمزم کا سب سے بڑا دہانہ حجر اسود کے پاس ہے جبکہ اذان کی جگہ کے علاوہ صفا و مروہ کے مختلف مقامات سے بھی نکلتا ہے۔ 1953ءتک تمام کنووں سے پانی ڈول کے ذریعے نکالاجاتا تھا مگر اب مسجد حرام کے اندر اور باہر مختلف مقامات پر آب زمزم کی سبیلیں لگادی گئی ہیں۔ آب زمزم کا پانی مسجد نبوی میں بھی عام ملتا ہے اور حجاج کرام یہ پانی دنیا بھر میں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔
جناب عبد المطلب کے زمانے میں چاہِ زم زم کی کھدائی کے بعد سے لے کر اب تک اس کنویں کی لمبائی، چوڑائی اور گہرائی میں تبدیلی نہیں لائی گئی ہے۔ یعنی یہ آج تک 18 فٹ لمبا، 14 فٹ چوڑا اور تقریباً 5فٹ گہرا ہے۔ مکہ کا شہر جس وادی میں ہے وہ چاروں طرف سے گرینائٹ چٹانوں والے پہاڑوں میں گھری ہوئی ہے۔ حرم شریف ( مسجد الحرام) وادی میں سب سے نچلے مقام پر ہے۔ خانہ کعبہ اور مسجد الحرام سمیت پورا شہر مکہ، ریت اور گاد کی تہ ( sand and silt formation) پر واقع ہے۔ جس کی گہرائی 50 سے 100 فٹ تک ہے اور جس کے نیچے آتشی چٹانوں کی ایک تہ پھیلی ہوئی ہے۔ چاہِ زم زم بھی ریت / گاد کی اسی تہ پر واقع ہے اور اس میں پانی کی سطح، اطراف کی زمین سے 40 تا 50 فٹ کی گہرائی پر ہے۔
جدید طبی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ آب زمزم میں ایسے اجزاءمعدنیات اور نمکیات موجود ہیں جو انسان کی غذائی اور طبی ضروریات کو بڑے اچھے طریقے سے پورا کرتے ہیں حکومت سعودی عرب نے اس بات کا اہتمام کررکھا ہے کہ ہر چار گھنٹے بعد زم زم کے پانی کا جدید ترین لیبارٹریوں میں ہر لحاظ سے معائنہ کیا جاتا ہے۔ ان تحقیقات کے نتیجے میں آب زم زم کے بارے میں بے شمار انکشافات ہو رہے ہیں۔ آب زم زم کی کیمیائی تحقیقات اور طبی مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ اس میں وہ اجزاءشامل ہیں جو معدہ جگر‘ آنتوں اور گردوں کے لیے بالخصوص مفید ہیں۔
ابن الصاحب المصری کہتے ہیں کہ میں نے آب زم زم کا وزن مکہ کے ایک چشمہ کے پانی سے کیا تو میں نے زم زم کو اس سے ایک چوتھا حصہ وزنی پایا۔ پھر میں نے میزان طب کے حساب سے دیکھا تو اس کو تمام پانیوں سے طبی اور شرعی لحاظ سے افضل پایا۔
طوافِ کعبہ
بھائی جان والدہ محترمہ کو لیے ہوئے آگے بڑھ گئے اور مجھ سے کہا بھائی جان مولانا یسین صاحب ؒکے ساتھ رہنا کیونکہ وہ بھی دل کے مریض ہیں اس لیے وہ آہستہ چل رہے تھے تو میں بھی ان کے ساتھ ہو لیا اور طواف کعبہ شروع کردیا۔طواف کے دوران عجب کیفیت تھی زبان پر دعائیں تھیں سامنے بیت اللہ تھا ۔ طواف کے دوران طبیعت ہلکی پھلکی ہوگئی۔ طواف کے دوران بھائی جان مولانا یسین صاحب مجھے کہتے رہے اگر تھک گئے ہوتو بیٹھ جاتے ہیں باقی طواف آرام کے بعد کرلینگے لیکن میں نے کہا تھکن کا احساس نہیں ہو رہاطواف مکمل کرلیتے ہیں۔ طواف کے دوران میں سوچنے لگا وہ کیسا وقت ہوگیا جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام اور اماں ہاجرہ کو یہاں چھوڑا اور پھر اللہ کے حکم سے دونوں باپ بیٹوں نے اس گھر کی تعمیر کی ۔ اس کے بعد تاریخ اسلام جو کچھ پڑھی تھی ۔ وہ ساری ذہن میں گردش کرنے لگی ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ والی زندگی میرے آنکھوں کے سامنے آگئی ۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وہ واقعہ یاد آگیا جب اسلام لائے تو کچھ دیر بعد صحابہ اکرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اپنے گھروں کو جانے لگے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پو چھا یہ سب کہاں جا رہے ہیں۔؟ تو آپ صلی اللہ علیہ سلم نے ارشاد فرمایا: کفار ہم پر ظلم کرتے ہیں۔ ہمیں مسجدالحرام میں نماز نہیں پڑھنے دیتے اس لیے سب اپنے گھروں میں نماز پڑھنے جا رہے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عمر(رضی اللہ عنہ) کے اسلام لانے کا کیا فائدہ آج ہم مسجدالحرام میں نماز پڑھیں گےاور اعلان فرما دیا اگر کسی نے اپنی بیوی کو بیوہ کرانا ہو یا کسی نے اپنے بچوں کو یتیم کرانا ہو وہ عمر(رضی اللہ عنہ) کے سامنے آئے آج ہم نماز مسجدالحرام میں ادا کریں گے۔ تاریخ گواہ ہے اس دن مسلمانوں نے مسجدالحرام میں نماز ادا کی اور وہ کیا منظر ہوگا جب آقا نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں صحابہ اکرام یہاں نماز ادا کرتے ہونگے،وہ کیا منظر ہوگا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں طواف کرتے ہونگے،وہ کیا منظر ہوگا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے حضور دعا مانگتے ہونگے،کتنی خوش قسمت ہے یہ جگہ جہاں انبیاء اکرام علیہم السلام کے قدم پڑے ہونگے،کیا منظر ہوگا جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے حضرت ہاجرہ اور ننھے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اس مقدس سرزمین پر چھوڑا،کیا منظر ہوگا وہ جب حضرت اسماعیل پیاس سے روئے ہونگے اور حضرت ہاجرہ پانی کے لیے صفامروۃ پر دوڑی ہونگی، کیا وہ منظر ہوگاجب حضرت اسماعیل علیہ السلام کے قدم مبارک والی جگہ سے اللہ کے حکم سے چشمہ جاری ہوا ہوگا،اور کتنی خوش نصیب تھی یہ سرزمین جس پر انبیاء اکرام علیہم السلام نے سجدے کیے ہونگے،صحابہ اکرام رضوان اللہ علیہ اجمعین،تابعین تبع تابعین ائمہ مجتہدین علماء صلحاء اکابرین نے جب رب سے رازو نیاز ہوگی کیا وہ منظر ہوگا اور آج اس مبارک سرزمین پر رب کائینات نے مجھ گناہ گار خطاکار اور ناچیز کو اس سرزمین پر طواف کی توفیق بخشی تھی جسے میں اپنی خوش قسمتی سمجھتاہوں ۔ دعاؤں ،التجاؤں اور دل شکر بجا لاتے ہوئے نم آنکھوں اور رب کائینات کا شکر بجا لاتے ہوئے اس کی توفیق سے الحمداللہ طواف کو احسن طریقے سے مکمل کرنے کی سعادت حاصل کی۔ طواف کعبہ کے بعد میں نے مقام ابراہیم علیہ السلام پر دورکعت نماز نفل ادا کی اور دعا میں مشغول ہوگیا۔
مقام ابراہیممقام ابراہیم وہ پتھر ہے جو بیت اللہ کی تعمیر کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس پتھ پر کھڑے ہو کر کعبہ کی تعمئر فرمائی تھی۔مقام ابراہیم خانہ کعبہ سے تقریبا سوا 13 میٹر مشرق کی جانب قائم ہے۔1967ء سے پہلے اس مقام پر ایک کمرہ تھا مگر اب سونے کی ایک جالی میں بند ہے۔ اس مقام کو مصلے کا درجہ حاصل ہے اور امام کعبہ اسی کی طرف سے کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھاتے ہیں۔ طواف کے بعد یہاں دو رکعت نفل پڑھنے کا حکم ہے۔
آب ِ حیات
اسی دوران تایا جان میرے پاس آگئے اور کہا باقی کہاں ہیں؟میں نے کہا طواف میں سب ایک دوسرے سے الگ ہو گئے تھے سب طواف کے بعد صفا مروۃ پر جمع ہو جائینگے یہ کہتے ہوئے ہم زم زم کی طرف بڑھ گئے تاکہ زم زم پی کر صفا مروۃ پر چلتے ہیں جہاں سب انتطار کر رہے ہونگے۔ اور ہم دونوں زم زم کی طرف بڑھ گئے آگے جاکر دیکھا تو بھائی جان مولانا یسین صاحب بھی زم زم نوش فر مارہے ہیں میں آگے بڑھا گلاس میں زم زم ڈالا تایا جان کو دیا پھر اپنے لیے ایک گلاس بھرا اور پی لیا۔ اور الحمداللہ ایسا سکون اور روحانیت نصیب ہوئی جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
زم زم کی جگہ عجیب سماں تھا کوئی زم زم سر پر ڈال رہے تھا کوئی بیمار تھا تو وہ اپنی بیماری والی جگہ پر زم زم لگا رہا تھا ہر آدمی اپنے معمولات میں مگن تھا۔ہر رنگ نسل کے لوگ صرف اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے رازو نیاز کر رہے تھے۔ اس کی دربار میں سب ایک تھےکوئی رنگ کا کالا ہے، کوئی گورا ہے، کوئی چھوٹا ہے، کوئی بڑا ہے،کوئی امیر ہے،کوئی غریب ہے بس ہر کوئی اپنی استطاعت کے مطابق اس کے حضور مانگ رہا تھا اپنی غلطی کوتاہیوں پر نادم تھا اور معافی کا طلب گار تھاکیونکہ یہی وہ در تھا جہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں اور یہی وہ دروازہ ہے جہاں بڑے بڑے بادشاہ بھی سر سجدہ میں رکھ کر اس کی حمدو ثناء بیان کرتے ہیں، بس ایک عجیب سا سماں تھا۔ زم زم پینے کے بعد بھائی جان مولانا یسین صاحب نے مجھ پر زم زم ڈال دیا۔ جیسے ہی زم زم مجھ پر آیا تو ایک عجیب سا احساس میرے جسم میں دوڑ گیا۔ اس وقت مجھے ایسی رو حانیت کا احساس ہوا کہ سب بھول گیا بلکہ سرور آگیا۔ اس کے بعد کعبہ کی طرف منہ کر کے اپنے لیے اور دنیا کی تمام بیماروں کے لیےشفاء کی دعاء مانگی۔ اس کے بعد صفا مروہ جانے کی طرف جانے کے لیے چلا ہی تھا کہ آگے سے بھائی جان آتے ہوئے دکھائی دیے بھائی جان نے قریب آکر پو چھا کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی میں نے کہا الحمداللہ ثم الحمداللہ بڑے احسن طریقے سے طواف کیا ہے اور پر سکون ہو کر کیا ہے کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ اس کے بعد بھائی جان نے کہاسعی کرنے کی کیا ترتیب بنائی ہے میں نے کہا جیسے طواف کیا ہے اسی طرح سعی بھی کروں گا۔ سب سمجھانے لگے تمہیں تکلیف ہے طواف کر لیا ہےاب سعی کرسی پر کرلولیکن میں نے کہا کہ اللہ مالک ہے اس نے طواف کرادیا کوئی تکلیف نہیں پہنچی آگے امید کرتا ہوں سعی میں بھی احسن طریقے سے ہو جائے گی ان شاءاللہ اس کے بعد ہم صفا مروہ کی جانب روادواں ہو گئے۔
صفا و مروہصفا اور مروہ دو پہاڑیوں کے نام ہیں جو مکہ میں خانۂ کعبہ کے پاس واقع ہیں ان دو پہاڑیوں کے درمیان حج اور عمرہ کے موقع پر حاجی سات چکر لگائے ہیں اسے سعی کہتے ہیں۔ صفا و مروہ کے درمیان ہی اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ہاجرہ پانی کی تلاش میں سعی (بھاگ دوڑ) کرتی رہی تھیں اور انہی کی یاد تازہ کرنے کے لیے حاجی ان دونوں کے درمیان سعی کرتے ہیں۔
صفا و مروہ کی سعی
جب ہم صفا مروہ کی طرف گئےوہاں جاکر کعبہ کی طرف منہ کرکے دعا کی دعا کے بعد سعی کرتے ہوئے صفا سے مروہ کی طرف بڑھ گئے اسی دوران میرے پاؤں میں کافی تکلیف شروع ہو گئی چلنا مشکل ہو گیا تھکاوٹ بھی کافی تھی لیکن اللہ کا نام لیکر چلنا شروع کر دیا جب میں مروہ کے قریب پہنچا تو درد کافی شدت اختیار کر گیا۔ تو میں چند منٹ وہیں بیٹھا رہا اور سوچتا رہا۔ کیا منظر ہو گا اس وقت جب اسماعیل علیہ السلام پیاس سے ایڑیاں رگڑ رہے ہونگے۔ اور اماں ہاجرہ پانی کی تلاش میں کبھی صفا کی طرف دوڑ لگاتی ہونگی تو کبھی مروہ کی طرف۔ ابھی یہی سوچ رہا تھا بھائی جان نے کہا: کہاں کھو گئے ہو چلو اب مروہ کی طرف میں نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن درد کی وجہ سے نہ اٹھ سکا خیر بھائی جان نے اٹھایا اور میں آہستہ آہستہ قدم اٹھا تے ہوئے صفا کی طرف بڑھ گیا۔ جب صفا کی قریب پہنچا تو درد اور تھکاوت میں اضافہ ہوگیا۔ جب کعبہ کی طرف نظر پڑی تو دل میں ایک عجیب کیفیت طاری ہوگئی اور سعی کو احسن طریقے سے مکمل کرنے کا جزبہ دل میں مزید پیدا ہوگیا جب میں صفا سے مروہ جاتا تو کچھ دیر مروہ پر ہی بیٹھ جاتا۔ اور جب صفا پر جاتا تو کچھ دیر صفا پر ہی بیٹھ جاتااس کے بعد صفا کی طرف آتا اور کچھ دیر صفا پر بیٹھ کر مروہ کی طرف بڑھ جاتا۔اللہ تعالیٰ نے مدد و نصرت فرمائی الحمداللہ اللہ کے فضل و کرم سے میں اپنا پہلا عمرہ احسن طریقے سے مکمل کیا۔
(جاری ہے)
Last edited: