تونے اپنے گھر بلایا میں تو اس قابل نہ تھا(عمرہ کا سفرنامہ) قسط پنجم۔
مدینہ روانگی
ہوٹل آنے کے بعد ناشتہ کیا ناشتہ کے بعد بھائی جان نے بتایا جلدی سے تیاری کرلو مدینہ منورہ جانا ہے۔ میں نے جلدی سے غسل کیا کپڑے پہنے خوشبو لگائی سرمہ لگایا اور نیچے آگیا۔ ہوٹل کے مین گیٹ پر بس تیار کھڑی تھی بس میں سوار ہوئے اور کچھ دیر بعد ہمارا قافلہ مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوا۔مدینہ منورہ جاتے ہوئے راستہ میں میں ان پہاڑوں کو دیکھتا رہا جو مجھے نظر آرہے تھے اور سوچتا رہا آج اتنے ویران لگ رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کیسے لگتے ہونگے۔ اور وہ کیسا منظر ہو گا جب انہی راستوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ اکرام رضوان اللہ علیھم اجمعین گزرتے ہونگے۔ اور میں ان پہاڑوں پر فخر کر رہا تھا کہ کتنے خوش نصیب ہیں یہ پہاڑ اور یہ میدان کہ انہی پر دو جہانوں کے سردار آقا نامدار صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ گزرتے ہونگے۔ اور ساتھ ساتھ درود شریف کا ورد بھی کرتا رہا۔ ایک عجیب سے تڑپ تھی جو مجھے مدینہ منورہ کی طرف کھینچ رہی تھی۔ اور ساتھ میں جنید جمشید کی نعت کا یہ شعر بھی گننا رہا تھا
“ فرشتو یہ دے دو پیغام ان کو کہ خادم تمہارا قریب آرہا ہے“۔
چار پانچ گھنٹے کے سفر کے بعد ہم مدینہ پہنچے۔ ہوٹل میں سمان رکھااور غالباً نماز عصر کے لیےمسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل پڑے۔
مسجدنبوی ﷺ
مسجد نبوی سعودی عرب کے شہر مدینہ منورہ میں قائم اسلام کا دوسرا مقدس ترین مقام ہے۔اسلام میں حرم المکی کے بعد سب سے زیادہ اہمیت حرم النبوی کو حاصل ہے۔
مسجد الحرام کے بعد دنیا کی سب سے اہم مسجد ”مسجد نبوی“ کی تعمیر کا آغاز 18 ربیع الاول سنہ 1ھ کو ہوا۔ حضور اکرم ﷺ نے مدینے ہجرت کے فوراً بعد اس مسجد کی تعمیر کا حکم دیا اور خود بھی اس کی تعمیر میں بھر پور شرکت کی۔ مسجد کی دیواریں پتھر اور اینٹوں سے جبکہ چھت درخت کی لکڑیوں سے بنائی گئی تھی۔ مسجد سے ملحق کمرے بھی بنائے گئے تھے جو آنحضرت ﷺ اور ان کے اہل بیت اور بعض اصحاب رضی اللہ تعالٰی عنہم کے لیے مخصوص تھے ۔
مسجد نبوی جس جگہ قائم کی گئی وہ دراصل دو یتیموں کی زمین تھی۔ ورثاء اور سرپرست اسے ہدیہ کرنے پر بضد تھے اور اس بات کو اپنے لیے بڑا اعزاز سمجھتے تھے کہ ان کی زمین شرف قبولیت پا کر مدینہ منورہ کی پہلی مسجد بنانے کے لیے استعمال ہو جائے مگر محمدﷺ نے بلا معاوضہ وہ زمین قبول نہیں فرمایا، دس دینار قیمت طے پائی اور آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہم کو اس کی ادائیگی کا حکم دیا اور اس جگہ پر مسجد اور مدرسہ کی تعمیر کا فیصلہ ہوا۔ پتھروں کو گارے کے ساتھ چن دیا گیا۔ کھجور کی ٹہنیاں اور تنے چھت کے لیے استعمال ہوئے اور اس طرح سادگی اور وقار کے ساتھ مسجد کا کام مکمل ہوا۔ مسجد سے متصل ایک چبوترا بنایا گیا جو ایسے افراد کے لیے دار الاقامہ تھا جو دوردراز سے آئے تھے اور مدینہ منورہ میں ان کا اپنا گھر نہ تھا۔
آپﷺ نے اپنے ہاتھ سے مسجد نبوی کی تعمیر شروع کی جبکہ کئی مسلم حکمرانوں نے اس میں توسیع اور تزئین و آرائش کا کام کیا۔ گنبد خضراء کو مسجد نبوی میں امتیازی خصوصیت حاصل ہے جس کے نیچے محمدﷺ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے روضہ مبارک ہیں۔ یہ مقام دراصل ام المومنینحضرت عائشہ کا حجرہ مبارک تھا۔ ریاست مدینہ میں مسجد نبوی کی حیثیت مسلمانوں کے لیے عبادت گاہ، کمیونٹی سینٹر، عدالت اور مدرسے کی تھی۔
مسجد کے درمیان میں عمارت کا اہم ترین حصہ محمدﷺ کا مزار واقع ہے جہاں ہر وقت زائرین کی بڑی تعداد موجود رہتی ہے۔ حج کے موقع پر رش کے باعث اس مقام پر داخلہ انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔ اسی مقام پر منبر رسول بھی ہے۔ سنگ مرمر کا بنا حالیہ منبر عثمانی سلاطین کاتیار کردہ ہے
سعودی عرب کے قیام کے بعد مسجد نبوی میں کئی مرتبہ توسیع ہوئی لیکن شاہ فہد بن عبد العزیز کے دور میں مسجد کی توسیع کاعظیم ترین منصوبہ تشکیل دیا گیا جس کے تحت حضرت محمد ﷺ کے دور کے تمام شہر مدینہ کو مسجد کا حصہ بنادیا گیا۔ اس عظیم توسیعی منصوبے کے نتیجے میں مسجد تعمیرات کا عظیم شاہکار بن گئی۔
نماز کی ادائیگی
راستے میں مسجد کا کام ہو رہا تھا۔ اس لیے ہم نے فیصلہ کیا باب الملک فہد بن ملک عبدالعزیز سے داخل ہو جائیں ۔ ہم باب ملک فہد سے داخل ہوئے تو نماز کھڑی ہو چکی تھی جماعت میں شامل ہوکر باجماعت نماز ادا کی۔ نماز کے بعد بھائی جان نے کہا اب حاضری دے لیں۔ تو میں نے کہا: رش کافی ہے اور تازہ و ضو بھی کرنا ہے اس رش میں آگے نہیں جا پاؤں گا۔ اس لیے آپ چلے جائیں بھائی جان چلے گئے حاضری دی اور میرے پاس آگئے اس کے بعد میں نے وضووغیرہ کیا تو نماز مغرب کا ٹائم ہوگیا۔ نماز مغرب پڑھ کر میں نے بھائی جان سے کہا میں حاضری دینے جا رہا ہوں تو بھائی جان نے کہا میں بھی چلتا ہوں جب ہم وہاں پہنچے تو رش زیادہ ہونے کی وجہ سے پولیس آگے نہیں جانے دے رہی تھی۔ تو ہم وہیں بیٹھ کر درود شریف پڑھنے لگے یہاں تک کہ نماز عشاء کا ٹائم ہوگیا۔ نماز کے بعد جب رو ضہ روسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھے تو وہاں ٹینٹ لگے نظر آئے پوچھنے پر بتایا گیا اب عورتیں حاضری دیں گی مردوں کا جانا ممنوع ہے۔ اس لیے ہم حاضری سے محروم رہے پھر ہم ہوٹل آگئے۔ صبح نماز فجر کے لیے گئے نماز کے بعد تلاوت کی ذکر کیے اشراق پڑھے تو مسجد کی صفائی شروع ہو گئی۔ جس کی بنا پر روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر رش انتہاء سے زیادہ ہوگیا۔ دھکم پیل شروع ہو گئی اس لیے ہم واپس ہوٹل آگئے۔
(جاری ہے)
Last edited: