تونے اپنے گھر بلایا میں تو اس قابل نہ تھا(عمرہ کا سفرنامہ) قسط ششم

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
تونے اپنے گھر بلایا میں تو اس قابل نہ تھا(عمرہ کا سفرنامہ) قسط ششم۔

قسط پنجم یہاں ملاحظہ فرمائیں۔

روضۃ من ریاض الجنۃ
ہوٹل آنے کے بعد ناشتہ کیا کچھ دیر آرام کے بعد غسل کیا خوشبو لگائی اور نماز ظہر کی تیاری کر کے مسجد آگئے۔ نماز کے بعد ہم روضہ پر حاضری دینے کی نیت سے گئے تو پھر ٹینٹ لگا کر راستہ بند کیا گیا تھا۔ وہاں بہت زیادہ شور تھا ۔مجھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے کا وہ واقعہ یاد آگیا ایک صحابی رضی اللہ عنہ جن کا نام اب ذہن میں نہیں آرہا فرماتے ہیں کہ میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں لیٹا ہوا تھا۔ کوئی چیز مجھے لگی تو میں نے اٹھ کر دیکھا تو سامنے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے تھے مجھے حکم دیا جو سامنے دو آمی اونچی آواز سے باتیں کر رہے ہیں ان کو میرے پاس لاؤ۔ فرماتے ہیں میں نے حکم کی تعمیل کی اور ان دونوں کو امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کردیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے سوال کیا تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ انہوں نے جواب دیا: طائف کے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر تم مدینہ میں رہنے والے ہوتے تو تمہیں دُرے لگاتا تم اتنی اونچی آواز سے بات کر رہے تھے اور یہاں آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہاری آواز سے تکلیف پہنچ رہی ہے اور پھر فرمایا یہاں پر اونچی آواز میں بات مت کیا کرو کیونکہ میرے آقا صلی اللہ علیہ سلم کو تکلیف ہوتی ہے۔ پر آج یہاں معاملہ کچھ اور تھا ہر طرف شوروغل تھا۔ یہ دیکہ کر دکھ ہو رہا تھا۔ اور ہم نے سوچا یہیں انتظار کرلیتے ہیں ٹینٹ کھلے موقع ملا تو ریاض الجنتہ میں نماز ادا کرلینگے اور حاضری دیکر واپس جائینگے دل میں دعا کر رہا تھا یا اللہ مدد فرعطا فرما تاکہ میں روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پہ حاضری دے سکوں۔ ابھی یہی دعا کر رہا تھا ایک خوبصورت نوجوان آیا بھائی جان سے سلام کیا پتہ چلا وہ حافظ ہے اور یہاں کے انجینئر کا بیٹا ہے۔ اور روز نماز عصر سے لیکر نماز مغرب تک روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ کر تلاوت کرتا ہے۔ ابھی بھائی جان اس سے عربی میں بات کر رہے تھے۔ ایک اور نوجوان آیا سر پے سفید عمامہ باندھا ہے سفید کپڑے پہنے ہوئے ہیں سنت کے مطابق اور چہرے پر سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سجائی ہے۔ اس نے آکر بھائی جان کو استاجی کے نام سے پکارا اور سلام کیا اس نے بھائی جان سے کہا پہچانا یا نہیں؟ بھائی جان نے انکار کردیا تو اس نے اپنا تعارف کرایا میرا نام یہ ہے اور میں آپ کا شاگرد ہوں ساری تفصیل بتائی تو بھائی جان نے پہچان لیا۔ جب ہم نے پوچھا یہاں عمرہ کے لیے آئے ہو تو اس نے جواب دیا: میں گزشتہ ایک یا ڈیڑھ سال سے یہیں ہوں اور یہاں کا خادم ہوں اور ریاض الجنتہ کی صفائی کرتا ہوں۔ اسی دوران اس نے بتایا اگر آپ نے ریاض الجنتہ آنا ہو تو جیسے ہی عورتوں کا ٹائم ختم ہوتا ہے اسی دوران یہ ٹینٹ کھول دیے جاتے ہیں اس کے بعد آپ آرام سے ریاض الجنتہ میں بیٹھ کر عبادت کر سکتے ہیں اسی دوران شور کم ہوا تو پتہ چلا عورتوں کا ٹائم ختم ہو گیا ہے۔ جیسے ہی ٹینٹ کھلے ہم ریاض الجنتہ میں گئے اور جہاں مجھے جگہ ملی وہیں بیٹھ گیا کیونکہ جیسے ہی ٹینٹ کھلے سب کی یہی کوشش تھی کسی طریقے جگہ مل جائے تھوڑی دیر بعداِدھر اُدھر نظر دوڑائی تو بھائی جان کو دیکھا وہیں سامنے ہی بیٹھے تھے۔ بعد میں، میں بھائی جان کے پاس چلا گیا۔ وہیں بیٹھ کر تلاوت کرنے لگا یکدم بھائی جان نے کہاِ وہ سامنے دیکھو موذن اذان دینے آرہا ہے۔ ایک چبوترا سا بنا تھا جس پر موذن نے چڑھ کر اذان دی۔ بعد میں پتہ چلا یہی وہ جگہ ہے جہاں موذن رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ اذان دیا کرتے تھے اب ابھی اسی جگہ اذان دی جاتی ہے۔ اس کے بعد نماز عصر شیخ عبدالمحسن القاسم حفظہ اللہ کی امامت میں ادا کی ۔ اور روضہ پر حاضری کے لیے چل پڑے۔
روضہ رسول ﷺ پر حاضری
امام الانبیاء ۔شفیع المذنبین۔مدینہ کے والی۔آمنہ کے لال حلیمہ کے دل کے سرور ۔صحابہ کرام اور خدائے بزرگ وبرتر کے محبوب ۔جہاں فرشتے بھی حاضری پر مست وبیخود ہوجائیں۔جن کے در کی نورانیت وروحانیت میں بھٹکے اور گم گشتہ قافلے کے قافلے راستہ پائیں ۔جہاں اقبال ونانوتوی،جنید وشبلی عرب وعجم کے بادشاہ بھی تھر تھراتے حاضر ہوں وہاں میری بڑی عجیب کیفیت تھی میں تو اُن کا ایک ادنیٰ سا غلام تھا مجھ پر گناہوں کا بوجھ تھا کہ کس منہ سے حاضری دوں کس منہ سے سلام پیش کروں دل کی ایک عجیب کیفیت طاری تھی۔ میرا جسم کانپ رہا تھا ۔میرے جسم کا ہر ہر عضو کانپ رہا تھا آنکھوں میں ندامت کے آنسو تھےآنکھیں جھکی ہوئی تھیں آج ایک گناہ گار اُمتی روضہ اقدس کی خواہش لیے ہوئے برسوں کی کی دلی تمنا پو ری کر رہا تھا رش کافی ہو رہا تھا۔ اس لیے وہاں زیادہ دیر کھڑے ہونے کی اجازت نہیں تھی آخر دھڑکتے دل کے ساتھ درود شریف پڑھا تمام دوست احباب کا سلام پہنچایا پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے روضہ کے پاس آیا حاضری دی سلام پیش کیا پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے روضہ پر آیا حاضری دی سلام پیش کیا اور باہر نکل گئے۔
حاضری کے وقت ایک عجیب سی کیفیت طاری تھی اُن لمحات کو قلم کے ذریعے کتاب پر اُتارنا میرے بس میں نہیں ہے۔ آج بھی جب اُن لمحات کو یاد کرتا ہوں تو اسی کیفیت میں چلا جاتا ہوں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میں وہیں کھڑا ہوں۔ اس خادم نے ہمارا بڑا ساتہ دیا۔ ہر پل ہمارے ساتہ رہا اس کے بعد ہمارا روز کا معمول بن گیا۔ عصر تا مغرب ریاض الجنتہ میں وقت گزارتے تلاوت کرتے، پہر حاضری دیکر نکل جاتے اور ہمارا دروازہ جہاں سے ہم داخل ہوتے وہ باب فہد تھا۔ جب مسجد سے باب فہد کی جناب سے باہر نکلیں تو سامنے احد کا پہاڑ نظر آتا ہے ۔اور جہاں ہمارا ہوٹل تھا۔ وہاں بلکل سامنے مسجد اجابہ تھی۔جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعائیں کی تھیں جب ہم مسجد نبوی جاتے تو راستے میں مسجد امام بخاری رحمہ اللہ آتی تھی جو باب فہد کے بلکل قریب ہےاسی مسجد میں امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب بخاری شریف تصنیف فرمائی تھی۔ اس کے بعد ہم نے ایک دن فیصلہ کیا اب زیارات کی جائیں۔ سب نے حمایت کی، دوسری دن ہم نے نماز فجر ادا کی، اس کے بعد اشراق پڑھ کر باہر نکلے تو سوچا آج ہی زیارات کر لی جائیں اس کے بعد ہم زیارات کرنے کے لیے ٹیکسی لی اور میدان احد کی طرف روانہ ہوائے۔ جہاں اسلام کی سب سے بڑی جنگ لڑی گئی جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندادن مبارک شہید ہوئے اور قریش کے بڑے بڑے سردار قتل ہوئے ہم میدان احد، اور احد کے شہدا کی قبروں کی زیارت کے لیے۔ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے گیٹ باب فہد سے بذریعہ ٹیکسی روانہ ہوئے۔


(جاری ہے)
 
Last edited:

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
داؤد بھائی سفرنامہ بڑا اچھا لگا کاش نصیبہ ساتھ دے “ہم بھی مدینہ جائیں“۔شہنشاہوں کے شہنشاہ۔امام الانبیاء ۔شفیع المذنبین۔مدینہ کے والی۔آمنہ کے لال حلیمہ کے دل کے سرور ۔صحابہ کرام اور خدائے بزرگ وبرتر کے محبوب ۔جہاں فرشتے بھی حاضری پر مست وبیخود ہوجائیں۔جن کے در کی نورانیت وروحانیت میں بھٹکے اور گم گشتہ قافلے کے قافلے راستہ پائیں ۔جہاں اقبال ونانوتوی،جنید وشبلی عرب وعجم کے بادشاہ بھی تھر تھراتے حاضر ہوں وہاں آپ کی کیا کیفیت ہوئی خدار ا اس کا بھی تذکرہ کیجئے۔صلی اللہ علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
داؤد بھائی سفرنامہ بڑا اچھا لگا کاش نصیبہ ساتھ دے “ہم بھی مدینہ جائیں۔شہنشاہوں کے شہنشاہ۔امام الانبیاء ۔شفیع المذنبین۔مدینہ کے والی۔آمنہ کے لال حلیمہ کے دل کے سرور ۔صحابہ کرام اور خدائے بزرگ وبرتر کے محبوب ۔جہاں فرشتے بھی حاضری پر مست وبیخود ہوجائیں۔جن کے در کی نورانیت وروحانیت میں بھٹکے اور گم گشتہ قافلے کے قافلے راستہ پائیں ۔جہاں اقبال ونانوتوی،جنید وشبلی عرب وعجم کے بادشاہ بھی تھر تھراتے حاضر ہوں وہاں آپ کی کیا کیفیت ہوئی خدار ا اس کا بھی تذکرہ کیجئے۔صلی اللہ علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں احمدقاسمی کی عشق میں ڈوبی اس مختصرتحریرمیں مجھے جو جذب وبے خودی،عشق وسرمستی نظرآئی میں تواسی میں ڈوب کرسراغ زندگی پانے کی کوشش کررہاہوں۔اللہ کرے زورقلم اورزیادہ۔ویسے داؤدبھائی بہت اچھے جارہے ہیں۔
 

محمد نبیل خان

وفقہ اللہ
رکن
احمدقاسمی نے کہا ہے:
داؤد بھائی سفرنامہ بڑا اچھا لگا کاش نصیبہ ساتھ دے “ہم بھی مدینہ جائیں۔شہنشاہوں کے شہنشاہ۔امام الانبیاء ۔شفیع المذنبین۔مدینہ کے والی۔آمنہ کے لال حلیمہ کے دل کے سرور ۔صحابہ کرام اور خدائے بزرگ وبرتر کے محبوب ۔جہاں فرشتے بھی حاضری پر مست وبیخود ہوجائیں۔جن کے در کی نورانیت وروحانیت میں بھٹکے اور گم گشتہ قافلے کے قافلے راستہ پائیں ۔جہاں اقبال ونانوتوی،جنید وشبلی عرب وعجم کے بادشاہ بھی تھر تھراتے حاضر ہوں وہاں آپ کی کیا کیفیت ہوئی خدار ا اس کا بھی تذکرہ کیجئے۔صلی اللہ علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم

داود بھائی یہاں بہت ہی زیادہ تشنگی پائی جاتی ہے ۔۔۔ آقا صلی اللہ علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے در کی حاضری پہ دلی کیفیت ضرور بیان فرمائیں ۔ شکریہ
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
شورش کشمیری رحمۃ اللہ علیہ مزار اقدس پر حاضر ہوکر اپنے تاثرات اس بیان کرتے ہیں!
“ گنبد خضرا رو برو تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گستاخ اکھیں کتھے جا اُڑیاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھ پر سکتہ طاری ہو گیا کیا واقعی مدینۃ النبی میں ہوں ؟یا خواب دیکھ رہا ہوں ،سلام ہو اے مدینۃ النبی (صلی اللہ علیہ وسلم)تو کائنات کے فخر وناز کی پونجی ہے ۔تیری بنیادیں صبح قیامت تک قائم ودائم ہیں ۔تونے وہ شرف حاصل کیا جو کرہ ارض کے کسی خطے کو حاصل نہیں اور نہ حشر تک کوئی خطہ اس سعادت سے مشرف ہوگا ۔تیرے آغوش میں ایک ایسا انسان سورہا ہے جو اپنے مولد سے ہجرت کر کے یہاں آیا تو نے اس کو پناہ دی ،اس کی میزبانی کی۔پھر وہ تیرا ہو گیا ۔تیری مٹی کو اس نے اپنے وجود سے زندہ جاوید کر دیا ۔تیرانام اسی کا ہوگیا یہاں تک بالا ہوگیا اور دوام بخشا کہ صدیوں سے انسانوں کے قافلے صبح وشام تیری طرف کھینچتے چلے آتے ہیں ۔ تیری فضاؤں میں قرن یا قرن سے درود وسلام کے موتی بکھر رہے ہیں ۔
تیرے ہاں حاضر ہو نا دنیا کی عظیم سعادتوں میں سے ایک سعادت ہے “سب سے بڑی سعادت“ آج قریب چودہ سو برس ہوتے ہیں تیری کوئی ساعت کوئی ثانیہ کبھی درود وسلام سے خالی نہیں رہا ۔ تیری گلیاں ہم ایسوں کیلئے مصری کی ڈلیاں اور گلاب کی کلیاں ہیں ۔تیرے ذرے مہر وماہ کو شرماتے اور دل ونگاہ کو چمکاتے ہیں ۔ تیری ہواؤں میں انفاس رسالت کی خوشبوئیں بسی ہو ئی ہیں ۔
تونے کتنا حلیم وکریم ہے کہ ہم ایسوں کو بھی حاضری کی سعادت بخشتا ہے تیری عزت بے پایاں اور تیری عظمت بے کراں ہے تو وہ دریائے کرم ہے کہ ہر ذی روح تیرے یہاں آکر اپنی پیاس بجھاتا ہے تو آنکھوں کا نور اور دل کا سرور ہے ۔
اے کرہ ارض کے سرتاج ! اے سرتاج الانبیا ء کی آرمگاہ ایک انسان کیی بدولت کروڑوں انسانوں کو زندگی بخشنے والے اے کلام اللہ کے 86430 کلمات اور تین لاکھ 23ہزار سات سو ساٹھ حروف میں سے مدنی آیتوں کی جائے نزول اے اس آخری نبی کے مدفن مبارک جس کی ذات اقدس پر 22 سال 5 ماہ کے عرضہ میں 6666آیتیں نازل ہوئیں ،اے رحمتوں اور فضیلتوں کے شہر ،اے عظیم انسانوں کے مامن، اے زبان وبیان کی روح رواں، اے سپہ سالاروں کے دل کی دھڑکن، اے انشاء پردازوں کے علو فکر ،اے شاعروں کو تخیل کی معراج ،اے خطیبوں کے ولولہ خطابت کی آبرو ،اے عالموں کے افکار کی آرزو، اے دانشوروں کے علم وحکمت کی جستجو، اے اہل اللہ کے آستانہ آخر، اے عابدوں کی جبین کے ناز ،اے زاہدوں کی محبت کے محور ،اے نجودوسخا کے مخزن، اے جمال دولت کے مسکن، اے گنہگاروں کی بخشش گاہ ،اے بلدہ رسالت پناہ ،اے مرکز دل ونگاہ ،اے انس وملک کی بوسہ گاہ ،اے خطا کاروں کے خطا پوش ،اے ہر عہد کے فضلا کی منزل ،اے عاشقان صادق کے محمل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک ہیچ مداں اور سر وساماں کا سلام قبول کر ۔
اے مدینۃ النبی تو مرکز انوار الہی ہے تو نے سب غایتوں کی غایت اولیٰ کو دیکھا اور جاوداں ہو گیا اللہ نے تجھے ہمیشگی بخشی ہے فرشتے اللہ کے عرش سے تیرے فرش پر سلام ودرود کے تحفے لاتے ہیں تو نے اسلام کو رونق بخشی اور تاریخ کو عزت دی ہے۔تونے ادب کو درخشاں کیا ۔تونے قلم کو توانائی ،زبان کو رعنائی ، بیان کو زیبائی اور فکر کو گہرائی بخشی ہے ہم تیرے اور تو ہمارا ہے تیری صبحوں میں صحابہ کا سوز دروں اور انصار ومہاجرین کا جوش جنوں ہے، تو شب زندہ داروں کی بلا واسطہ حکایت کا گوہر مکنوں ہے ۔ تو عرش سے نازک تر ہے تیرے آغوش میں منصف اسلام سورہا ہے ،تیری مٹی پاتال تک مقدس ہے تو سب سے بڑی تاریخ ہے تیرے شمال میں احد ہے جس نے بقول ابوالحسن علی ندوی لغت کو شجاعت کے لئے بے شمار الفاظ دیئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ پہاڑ جو قیامت کے وز جنت میں اٹھایا جائیگا ۔تیرے مشرق میں جنت البقیع ہے جہاں وہ لوگ سورہے ہیں جو ابد الاباد تک زندہ ہیں جن کے لئے موت نہیں ۔جن سے موت بھاگتی رہی اور ہمیشہ کے لئے بھاگ گئی ۔ جن کے چہروں کی غیرت نے عرش وفرش سے سلام لئے ہیں جو صرف زندہ رہنے کے لئے پیدا کئے گئے جن کا عقیدہ تھا کہ موت زندگی کی ابتدا ہے اور وہ مر کے زندگی کی ابتداء کر گئے وہی زندگی تب سے اب تک رواں دواں ہے ۔
سلام ہو اے مدینۃ النبی۔۔۔۔۔۔۔۔سلام ہو
اے شہروں کے شہنشاہ
اے انسانوں کے امید گاہ
اے زیر فلک عالم پناہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلام ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
داؤد بھائی سفرنامہ بڑا اچھا لگا کاش نصیبہ ساتھ دے “ہم بھی مدینہ جائیں“۔شہنشاہوں کے شہنشاہ۔امام الانبیاء ۔شفیع المذنبین۔مدینہ کے والی۔آمنہ کے لال حلیمہ کے دل کے سرور ۔صحابہ کرام اور خدائے بزرگ وبرتر کے محبوب ۔جہاں فرشتے بھی حاضری پر مست وبیخود ہوجائیں۔جن کے در کی نورانیت وروحانیت میں بھٹکے اور گم گشتہ قافلے کے قافلے راستہ پائیں ۔جہاں اقبال ونانوتوی،جنید وشبلی عرب وعجم کے بادشاہ بھی تھر تھراتے حاضر ہوں وہاں آپ کی کیا کیفیت ہوئی خدار ا اس کا بھی تذکرہ کیجئے۔صلی اللہ علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم

حضرت مجھ جیسا ادنیٰ سا گناہ گار آدمی کی کیاکیفیات ہو سکتی ہیں۔ حاضری کے وقت جو دل کی کیفیت تھی شاید اسے قلم میں اُتارنا مشکل ہے۔ لیکن پہر بھی آپ کے حکم پر چند ایک سطور لکھ دیتا ہوں
امام الانبیاء ۔شفیع المذنبین۔مدینہ کے والی۔آمنہ کے لال حلیمہ کے دل کے سرور ۔صحابہ کرام اور خدائے بزرگ وبرتر کے محبوب ۔جہاں فرشتے بھی حاضری پر مست وبیخود ہوجائیں۔جن کے در کی نورانیت وروحانیت میں بھٹکے اور گم گشتہ قافلے کے قافلے راستہ پائیں ۔جہاں اقبال ونانوتوی،جنید وشبلی عرب وعجم کے بادشاہ بھی تھر تھراتے حاضر ہوں وہاں میری بڑی عجیب کیفیت تھی ۔ میں تو اُن کا ایک ادنیٰ سا غلام تھا۔ مجھ پر گناہوں کا بوجھ تھا کہ کس منہ سے حاضری دوں کس منہ سے سلام پیش کروں دل کی ایک عجیب کیفیت طاری تھی۔ میرا جسم کانپ رہا تھا ۔میرے جسم کا ہر ہر عضو کانپ رہا تھا۔ آنکھوں میں ندامت کے آنسو تھے۔آنکھیں جھکی ہوئی تھیں آج ایک گناہ گار اُمتی روضہ اقدس کی خواہش لیے ہوئے برسوں کی کی دلی تمنا پو ری کر رہا تھا رش کافی ہو رہا تھا۔ اس لیے وہاں زیادہ دیر کھڑے ہونے کی اجازت نہیں تھی آخر دھڑکتے دل کے ساتھ درود شریف پڑھا تمام دوست احباب کا سلام پہنچایا پہر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے روضہ کے پاس آیا حاضری دی پہر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے روضہ پر آیا۔ حاضری دی اور باہر نکل گئے۔
مجھ میں اتنی سکت موجود نہیں کہ مکمل حالات لکھ سکوں۔
 
Top