تونے اپنے گھر بلایا میں تو اس قابل نہ تھا(عمرہ کا سفرنامہ) قسط ہفتم

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
تونے اپنے گھر بلایا میں تو اس قابل نہ تھا(عمرہ کا سفرنامہ) قسط ہفتم۔

قسط ششم یہاں ملاحظہ فرمائیں۔

زیارات مدینہ
میدان احد
احد پہنچے تو سامنے احد کے شہداء کا قبرستان تھا ۔قبرستان کے بائیں جانب لوگ کھجوریں لگا کر اور دوسرے سٹال لگا کر کھڑے ہوئے تھے۔ اور سامنے پہاڑ کا وہ ٹکرا تھا جہاں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے حملہ کیا تھا واقعہ کچھ یوں ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ صحابہ اکرام رضی اللہ عنھم اجمعین کو یہاں مقرر کیا تھا اور فرمایا تھا جب میں نہ بلاؤں، تو نیچے مت آنا جنگ کے بعد جب مال غنیمت تقسیم ہونے لگا تو کچھ صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین نیچے اتر آئے۔ چونکہ اس وقت حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ایمان نہیں لائے تھے دوبارہ حملہ کردیا تھا۔ اس جگہ کے قریب پہنچے تو یہی واقعہ مجھے یاد آگیا۔ اس کے بعد ہم شہداء احد کے شہیدوں کے مزارات کے قریب گئے فاتحہ پڑھی ایصال ثواب کیا اس کے بعد میں نے میدان کی طرف دیکھنا، شروع کردیا۔اور اس جنگ کا خاکہ جو احادیث میں آیا ہے ذہن میں گردش کرنے لگا۔​
غزوہ خندق
اس کے بعد ہم غزوہ خندق کی طرف چل پڑے وہاں اب سعودی حکومت نے مسجد بنوا دی ہے جسے مسجد خندق کہا جاتا ہے۔ یہ وہ خندق کا میدان ہے جہاں صحابہ اکرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے اور آقا نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے پیٹ پر پتھر باندھ کر یہ خندق کھودی تھی۔ اب وہاں پر بڑی عالی شان مسجد تعمیر کی گئی ہے وہاں ہم نے دو رکعت نماز نفل پڑھی۔ جب مسجد کے برآمدے میں آئے تو سامنے فوجی چوکیاں نظر آئیں پوچھنے پر معلوم ہوا حضرت عمر رضی اللہ عنہ یا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں یہاں چوکیاں ہو اکرتی تھیں یہ وہی چوکیاں ہیں جو اب کافی بوسیدہ ہو چکی ہیں۔

مسجدقبلتین
خندق کے بعد ہم مسجد قبلتین پہنچے خانہ کعبہ کی طرف نماز پڑھنے کے حکم سے پہلے مسجد اقصٰی کی طرف نماز پڑھی جاتی تھی۔ پھر حکم آنے کے بعد خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی گئی۔ تو یہاں دو محراب ہیں ایک وہ والا جہاں مسجد اقصیٰ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے اور دوسرا محراب کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں ۔ اس لیے اس مسجد کو "مسجد قبلتین"یعنی دو قبلوں والی مسجد کہا جاتا ہے۔​
یہ مسجد بئر رومہ کے قریب واقع ہے۔ مسجد کا داخلی حصہ قبہ دار ہے جبکہ خارجی حصے کی محراب شمال کی طرف ہے۔ عثمانی سلطان سلیمان اعظم نے1543ء میں اس کی تعمیر نو کرائی۔
مسجد قبلتین کی موجودہ تعمیر و توسیع سعودی شاہ فہد بن عبدالعزیز کے دور میں مکمل ہوئی۔ اس نئی عمارت کی دو منزلیں ہیں جبکہ میناروں اور گنبدوں کی تعداد بھی دو، دو ہے۔ مسجد کا مجموعی رقبہ 3920 مربع میٹر ہے۔ مسجد قبلتین میں ہم نے دورکعت نماز ادا کی۔ اس کے بعد مسجد قبا کی طرف روانہ ہوئے۔
مسجد قباء
تاریخ اسلام کی پہلی مسجد جو مدینہ منورہ سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بستی قباء میں واقع ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق 8 ربیع الاول13 نبوی بروز دو شنبہ بمطابق 23 ستمبر622ء کو مدینہ کی اس بیرونی بستی میں پہنچے اور 14 روز یہاں قیام کیا اور اسی دوران اس مسجد کی بنیاد رکھی۔مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیر کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں تشریف لایا کر تے تھے۔ مسجد قباء میں ہم نے دو رکعت نماز پڑھی دعا کی ساتھ میں وہ کنواں دیکھاجسمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی مبارک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے گر گئی تھی۔ اب سعودی حکومت نے اس کنویں کو بند کر دیا ہے۔
مدینہ کی سیر
اس کے بعد ہم مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم آگئے۔ نماز عشاء کے بعد ایک میزبان نے دعوت کی وہاں چلے گئے۔ وہاں پاکستانی کھانا کھانے کو ملا بڑا لطف آیا۔ اس کے بعد ہم ہو ٹل آگئے دو سرے دن مدینہ والے میزبان جناب قاری محمد اشرف صاحب گاڑی لائے اور مدینہ کی سیر کو نکل گئے سب سے پہلے انہوں نے مدینہ یو نیورسٹی دکھائی۔ اس کے بعد وہ کنواں دکھایا جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کیا تھا آج بھی وہ موجود ہے اور ساتھ والے علاقے کو آج بھی اسے کنویں کا پانی دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گستاخ تھا اسے ایک صحابی نے قتل کیا تھا۔ اس کا محل عبرت حاصل کرنے کے لیے دیکھا وہاں اب کھنڈرات ہی کھنڈرات ہیں ایسا لگتا تھا یہاں کبھی کوئی رہا ہی نہیں۔ میزبان نے بتایا کوئی اس علاقے میں رہنا پسند نہیں کرتا ارد گرد آبادیاں ہیں لیکن وہاں کسی گھر کا نام و نشان نہیں ہے۔ اس کے بعد ہم مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم واپس آگئے کیونکہ نماز عصر کا ٹائم ہو چکا تھا۔ اس کے بعد رات کو عشاء کی نماز کے بعد ہم کھجور منڈی گئے۔ وہاں ہر دکان والا ہمیں کھجوریں کھلانے لگا اس کے بعد ایک پٹھان نظر آیا اس نے تو حد کردی۔ جو کچھ کھجوریں اس کی دکان میں تھیں۔ سب میں سے ایک ایک دودو کو اٹھالیا اور کہا آپ ہمارے مہمان ہیں کھائیں میں کھا کھا کر تھک گیا آج بھی وہ دن اچھی طرح یاد ہے کھجوریں خرید کر ہوٹل واپس آگئے۔
حدیث پڑھنے کی خواہش جو ادھوری رہی
اگلا دن مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں گزارا۔ جب عشاء کی نماز پڑھ کر باہر نکلنے لگے۔ تو اچانک وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر اور حضرت مدنی رحمہ اللہ کے شاگرد شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب نظر آگئے حضرت نے کافی حد تک حلیہ تبدیل کیا ہوا تھا تاکہ کوئی پہچان نہ سکے بھائی جان کہنے لگے مولانا سلیم اللہ خان صاحب ہیں پر مولانا یسین صاحب کہتے تھے کہ نہیں کوئی اور ہیں بھائی جان آگے گئے ساتھ خادم سے پوچھا یہ حضرت کون ہیں، پہلے تو زرا ہچکچایا پھر کان میں بتایا مولانا سلیم اللہ خان صاحب ہیں بھائی جان نے آگئےبڑھ کر سلام کیا اور ہمیں آکر بتایا کہ مولانا سلیم اللہ خان صاحب ہی ہیں ہم دوڑ کر باہر نکلےتو حضرت نظر نہیں آئےاس کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ اب حضرت نظر آئے تو ان سے درخواست کریں گے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اصحاب صفہ کو پڑھایا کرتے تھے۔ اگر آپ وہاں ہمیں کوئی چھوٹی سے حدیث پڑھادیں تو حضرت مدنی رحمہ اللہ کی یاد تازہ ہو جائے گی۔ اس کے بعد ہم نظریں دڑاتے رہےلیکن حضرت نظر نہیں آئے اور افسوس کہ ہماری یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔ اس کے بعد مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مشہور و معروف امام شیخ صلاح البُدَیر کی امامت میں مدینہ منورہ میں پہلا جمعہ ادا کیا۔ اس کے بعد ایک دن جنت البقیع گئے۔ جہاں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ، حضرت حسن رضی اللہ عنہ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا، حضرت عباس رضی اللہ عنہ، ودیگر صحابہ اکرام رضوان اللہ علیھم اجمعین، کی اور تابعین رحمہ اللہ، کی قبروں کی زیارت کی،اور فاتحہ پڑھی۔
شیخ عبدالرحمن الحذیفی سے مصافحہ
ایک دن نماز عشاء میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے امام شیخ عبدالرحمن الحذیفی تشریف لائے تو میں نے بھائی جان نے کہا، شیخ سے ملاقات کرنی ہے کیا؟میں نے کہا اگر ممکن ہوتو ضرور بھائی جان نے کہا ٹھیک ہے نماز پڑھ کر غالباً ہم باب السلام سے نکلے شیخ دو گارڈوں کے ساتھ تشریف لا رہے تھے ہم نے آگے بڑھ کر سلام کیا اور دعا کی درخواست کی کیونکہ شیخ ذرا جلدی جلدی چل رہے تھے اور پولیس والے رش کے خوف سے کسی کو قریب نہیں آنے دے رہے تھے ہماری خوش قسمتی کہ شیخ سے مصافحہ بھی کیا اور دعا کی درخواست بھی اور ہٹ گئے۔

مکہ واپسی
مدینہ میں ہمارے دس دن پورے ہو چکے تھے۔ آج ہمارا آخری دن تھا کل صبح نماز کے بعد مکہ مکرمہ روانگی تھی۔ صبح نماز کے بعد، میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بارگاہ الٰہی رب کے حضور دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے عجیب حالت تھی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اتنا رویا،کہ شاید کسی پل ایسا رو یا ہوں۔ اس کے بعد بھائی جان کے ساتھ ریاض الجنۃ گیا وہاں آخری بار نمازادا کی یہ سوچا پھر پتہ نہیں زندگی میں یہ موقع مل پاتا ہے یا نہیں نوافل سے فراغت کے بعد ایک بار پھر بارگاہ الٰہی میں ہاتھ اٹھائے اور سب کے لیے دعاکی۔ اور بوجھل قدموں کے ساتھ آخری بار روضہ رسول پر صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری دی اس وقت دل میں ایک عجیب سے کیفیت طاری تھی وہاں سے جانے کو دل نہیں کر رہا تھا ،پر آخر جانا تھا۔ آخری سلام پیش کیا اور باہر کی طرف چلدیا۔ باہر آکر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو الوداع کہا آنکھوں میں آنسو لیے دل میں واپس آنے کی تڑپ لیے الوداع مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم الوداع کہتے ہوئے ہوٹل کی جانب روانہ ہوئے۔ ہوٹل پہنچ ناشتہ کیا احرام اٹھایا اور بس میں سوار ہوگئے۔ بس جب چلی تو میں بار بار روضہ کی طرف دیکھتا اور آنسو بہاتارہا جب تک روضہ میری آنکھوں سے دور نہ ہوا تو میں دیکھتا ہی رہا۔ مدینہ کو الوداع کہتے ہوئے مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے راستے میں ایک جگہ بس رکی حکم ملا سامنے مسجد ہے۔ جس نے احرام باندھ نا ہو باندھ لے ہم نیچے اترے غسل کیا احرام باندھا اور تیسرے عمرہ کی نیت سے مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے۔
(جاری ہے)
 
Last edited:
Top