دیوبند کے پر کیف نظارے

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
دیوبند کے پر کیف نظارے
سید زاہد حسین​
دیوبند شمالی ہند کا ویسے ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جس کی آبادی ایک لاکھ سے بھی کم ہے لیکن یہ معمولی سا قصبہ اپنی گوناں گو٘ خصوصیات کے باعث عالم اسلام میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ،دیوبند کا نام آتے ہی لوگ تعظیما اس کے ساتھ "شریف" کا اضافہ کر دیتے ہیں ،یہ خصوصیت دیوبند اور اہل دیوبند کو ہفتوں ، مہینوں میں نصیب نہیں ہوئی ، بلکہ ہزاروں سال کی محنتوں ،مشقتوں اور عظیم قربانیوں کا ثمرہ ہے ۔یہاں کے علماء ، فقہاء،صلحاء ،دانشور، مبلغین،واعظین ،مجاہدین کی عظمت ہر دور میں تسلیم ومستند سمجھی جاتی ہے اور انشا ء اللہ آئندہ سمجھی جاتی رہی گی۔
اس کے ساتھ یہاں کے دلچسپ وپُر کیف نظاروں کا بھی ایک جائزہ لیتے چلیں ۔
پہلا نطارہ:دیوبند ہر اعتبار سے مشہور زمانہ ہے ۔اسٹیشن سے باہر نکلتے ہی آپ کو "رسیلے آموں" کی آواز کانوں میں گونجتی سنائی دے گی ۔یہ قلمی رسیلے آم جس میں "سیاہ مالدہ "کا شمار یہاں کے مشہور ومعروف ناموں میں ہوتا ہے ۔دیوبند کی خاص پیداوار ہے اور پورے ہندوستان کے لئے مرغوب ہے۔شوقین حضرات بازار سے چن چن کر اس آم کو لے جاتے ہیں اور اعزاء واحباب کو بطور تحفہ پیش کرتے ہیں ۔کبھی کبھی یہی آم حکام وقت کی خوشنودی میں مقصد بر آری کا بہترین ذریعہ بھی ثابت ہوتے ہیں۔
اس مخصوص آم کے علاوہ ان معروف ومشہور "پیوندی بیروں" سے بھی آپ کا واسطہ پڑے گا جن کی شیرینی سے آپس میں ہونٹ چپک جاتے ہیں اور صرف دیوبند کانام ہی ان کی بِکری کی ضمانت ہے ،ان شیریں بیروں کا جس نے ایک بار ذائقہ چکھ لیا یہ ممکن ہی نہیں کہ سیزن آنے پر طلب وخواہش بیدار ہو کر کھانے لئے دل نہ مچل جائے۔
اس سے آگے بڑھئے تو آپ کو دیوبند کی مشہور زمانہ "فیرینی" کے کرشمے نظر آئیں گے ،برف سے لگی اس خوش ذائقہ "فیرینی" کو بوڑھا،بچہ، اور جوان ہر ایک مزے لے کر سیر ہو کر کھاتا ہے ، پھر بھی جی نہیں بھرتا ۔ یہ تمنا دل میں رہ جاتی ہے کہ کاش تھوڑی سی اور گنجائش ہوتی تو اور اُڑا جاتا ۔پیٹ بھر کر بھی من نہیں بھرتا ،دور دراز سے آئے لوگ فر مائشی طور پر بطور تحفہ لے جاتے ہیں ۔
ابھی اس کی بھینی بھینی خوشبو دل ودماغ سے محو نہیں ہوئی تھی کہ روحانی غذاؤں کا خزانہ "کتب خانوں" کی شکل میں قطار در قطار شروع ہو جاتا ہے ۔ہند وبیرون ہند مطلوب کتابوں کا ذخیرہ یہاں وافر مقدار میں موجود ہے اور انتہائی ارزانی کے ساتھ ادب ، فنون، تاریخ ، فقہ ، کلام پاک ، درسی وغیر درسی ہر قسم کی کتابیں بکثرت دستیاب ہیں ۔جس فن میں مہارت مقصود ہو سیرابی کا پورا سامان میسر ہے ۔صرف جذبہ حصول شوق کی ضرورت ہے ۔ ابھی خراماں خراماں منزل مقصود تک نہیں پہونچے تھے کہ چند نامور معروف ومشہور دکانوں پر ہجوم سا نظر آتا ہے ،کوئی اپنے جسمانی حدود اربعہ کی پیمائش کرانے میں مصروف ہے تو کوئی بھڑک دار شیروانی میں ملبوس فرنگی محل کا شہزادہ بن کر کوچہ جاناں کی طرف گامزن دور مغلیہ کا چوڑی دار پاجامہ تو نہیں رہا البتہ شیروانی اور مغلئی پا جامہ کی شان بھی نرالی لگتی ہے ۔اس مہذب لباس دیکھ کر بر ملا یہ کہا جا سکتا ہے کہ تہذیب اسی گہوارے کی باندی ہے ۔
اس سے بھی آگے بڑھئے!جاری
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
جب بھی کوئی مورخ دیوبندکاتذکرہ کرے گاتووہ وہاں کے رکشہ پولرس کاذکرضرورکرے گاوہاں کی سب چیزیقابل ہیں اس لئے رکشہ پولرس بھی مستحق تعارف ہیں۔اگرقاسمی صاحب نے اس قوم کاذکرنہیں کیاتومیں کروں گا
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
مفتی ناصرمظاہری نے کہا ہے:
جب بھی کوئی مورخ دیوبندکاتذکرہ کرے گاتووہ وہاں کے رکشہ پولرس کاذکرضرورکرے گاوہاں کی سب چیزیقابل ہیں اس لئے رکشہ پولرس بھی مستحق تعارف ہیں۔اگرقاسمی صاحب نے اس قوم کاذکرنہیں کیاتومیں کروں گا
جی جناب ضرورتذکرہ کیجئے ۔تنگ سیٹ والے رکشہ کی کارفرمائی تھی جس نے حضرت مولانا منظور نعمانی رحمۃ اللہ علیہ کو ہمیشہ کیلئے معذور کر دیا تھا۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
۔۔۔گزشتہ سے پیوستہ

اس سے بھی آگے بڑھئے!تو ہوٹلوں،چائے خانوں اور مشروب کی بھینی بھینی خوشبوئیں دل ودماغ کو تروتازہ بنا دیتی ہیں ، کبھی "بریانی وزردہ" کی خواہش تو کبھی "نہاری اوتہاری"کی اور گرما گرم شامی وشیخ کباب کی،یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ یہاں سے گزرنے والا بغیر چٹخارہ لئے گزر جائے ، بعض احباب تو ان کی خوشبوؤں سے بے قابو ہو ر مستقر پر پہنچنے سے پہلے ہی لذت کام ودہن میں مصروف ہو نے لگتے ہیں۔ابھی دل ودماغ پر مختلف قسم کی خوشبوئیں طاری تھیں کہ ایک مخصوص انداز میں ایک ہی یو نیفارم میں ملبوس طالبان علوم کی قطاریں نظر آنے لگتی ہیں ۔دنیا وما فیہا سے بے نیاز وپُر نور چہرے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کچھ آسمانی فر شتے کسی خاص مقصد کے لئے یہاں سر گرم عمل ہیں ۔
ان سب کے طلسماتی کیفیات کے بعد اب آپ پہلے منبع مخزن تک پہنچ چکے ہیں جہاں ہر سمت "قال اللہ وقال الرسول " کی ایمان افزا روح پرور صدائیں گو نجتی نظر آتی ہیں ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے تجلیات الٰہی کا ظہور ان ہی متبرک مقامات کے لئے مخصوص ہے ،ان دلکش وپر نور نظاروں سے مسحور ہو کر آنے والے اپنے آپ کو دنیا وما فیہا سے بے خبر مدہوش عرش بریں پر اڑتا ہوا محسوس کرتے ہیں ۔یہی وہ سر چشمہ علم ہے جہاں سے فیض علم کا ایک ٹھاٹھیں مارتاا سمندر ۱۵۰ سال سے جاری ہے ۔گو یہ سمندر حالات کی ستم ظریفی کے باعث دو حصوں میں منقسم ہو چکا ہے لیکن اپنی آب وتاب کے ساتھ تشنگان علم کے لئے بلا شبہ آج بھی دونوں سر چشمہ فیض ہیں اور فیضان علم کے اس سمندر سے بساط کے مطابق ہر شخص سیراب ہو کر دنیا کے کونے کونے میں "مسلک دیوبند:" کی آبیای میں مصروف ہیں ،ان گوناں گوں کیفیات کا نام ہی " دیوبند شریف" ہے ۔
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
دیوبندکے رکشے معاذاللہ اوردیوبندکے رکشہ پولراعوذباللہ:کم ظرفوں کوحقوق العبادپامال کرنے اورایذائے مسلم میں ایسی لذت ملتی ہے کہ کبھی کبھی سوچنے پرمجبورہوجاتاہوں کہ یااللہ کہیں یہ رکشہ پولربریلوی اورغیرمقلدتونہیں ہیں ؟خدانخواستہ انہوں نے دیوبندیوں کوتکلیف دینے کاکوئی نیاحربہ توانہیں استعمال کیاہے؟
اللہ نے چاہاتوکبھی صرف اسی موضوع پرمستقل لکھوں گا۔
 
Top