دیوبند کے پر کیف نظارے
سید زاہد حسین
دیوبند شمالی ہند کا ویسے ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جس کی آبادی ایک لاکھ سے بھی کم ہے لیکن یہ معمولی سا قصبہ اپنی گوناں گو٘ خصوصیات کے باعث عالم اسلام میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ،دیوبند کا نام آتے ہی لوگ تعظیما اس کے ساتھ "شریف" کا اضافہ کر دیتے ہیں ،یہ خصوصیت دیوبند اور اہل دیوبند کو ہفتوں ، مہینوں میں نصیب نہیں ہوئی ، بلکہ ہزاروں سال کی محنتوں ،مشقتوں اور عظیم قربانیوں کا ثمرہ ہے ۔یہاں کے علماء ، فقہاء،صلحاء ،دانشور، مبلغین،واعظین ،مجاہدین کی عظمت ہر دور میں تسلیم ومستند سمجھی جاتی ہے اور انشا ء اللہ آئندہ سمجھی جاتی رہی گی۔ سید زاہد حسین
اس کے ساتھ یہاں کے دلچسپ وپُر کیف نظاروں کا بھی ایک جائزہ لیتے چلیں ۔
پہلا نطارہ:دیوبند ہر اعتبار سے مشہور زمانہ ہے ۔اسٹیشن سے باہر نکلتے ہی آپ کو "رسیلے آموں" کی آواز کانوں میں گونجتی سنائی دے گی ۔یہ قلمی رسیلے آم جس میں "سیاہ مالدہ "کا شمار یہاں کے مشہور ومعروف ناموں میں ہوتا ہے ۔دیوبند کی خاص پیداوار ہے اور پورے ہندوستان کے لئے مرغوب ہے۔شوقین حضرات بازار سے چن چن کر اس آم کو لے جاتے ہیں اور اعزاء واحباب کو بطور تحفہ پیش کرتے ہیں ۔کبھی کبھی یہی آم حکام وقت کی خوشنودی میں مقصد بر آری کا بہترین ذریعہ بھی ثابت ہوتے ہیں۔
اس مخصوص آم کے علاوہ ان معروف ومشہور "پیوندی بیروں" سے بھی آپ کا واسطہ پڑے گا جن کی شیرینی سے آپس میں ہونٹ چپک جاتے ہیں اور صرف دیوبند کانام ہی ان کی بِکری کی ضمانت ہے ،ان شیریں بیروں کا جس نے ایک بار ذائقہ چکھ لیا یہ ممکن ہی نہیں کہ سیزن آنے پر طلب وخواہش بیدار ہو کر کھانے لئے دل نہ مچل جائے۔
اس سے آگے بڑھئے تو آپ کو دیوبند کی مشہور زمانہ "فیرینی" کے کرشمے نظر آئیں گے ،برف سے لگی اس خوش ذائقہ "فیرینی" کو بوڑھا،بچہ، اور جوان ہر ایک مزے لے کر سیر ہو کر کھاتا ہے ، پھر بھی جی نہیں بھرتا ۔ یہ تمنا دل میں رہ جاتی ہے کہ کاش تھوڑی سی اور گنجائش ہوتی تو اور اُڑا جاتا ۔پیٹ بھر کر بھی من نہیں بھرتا ،دور دراز سے آئے لوگ فر مائشی طور پر بطور تحفہ لے جاتے ہیں ۔
ابھی اس کی بھینی بھینی خوشبو دل ودماغ سے محو نہیں ہوئی تھی کہ روحانی غذاؤں کا خزانہ "کتب خانوں" کی شکل میں قطار در قطار شروع ہو جاتا ہے ۔ہند وبیرون ہند مطلوب کتابوں کا ذخیرہ یہاں وافر مقدار میں موجود ہے اور انتہائی ارزانی کے ساتھ ادب ، فنون، تاریخ ، فقہ ، کلام پاک ، درسی وغیر درسی ہر قسم کی کتابیں بکثرت دستیاب ہیں ۔جس فن میں مہارت مقصود ہو سیرابی کا پورا سامان میسر ہے ۔صرف جذبہ حصول شوق کی ضرورت ہے ۔ ابھی خراماں خراماں منزل مقصود تک نہیں پہونچے تھے کہ چند نامور معروف ومشہور دکانوں پر ہجوم سا نظر آتا ہے ،کوئی اپنے جسمانی حدود اربعہ کی پیمائش کرانے میں مصروف ہے تو کوئی بھڑک دار شیروانی میں ملبوس فرنگی محل کا شہزادہ بن کر کوچہ جاناں کی طرف گامزن دور مغلیہ کا چوڑی دار پاجامہ تو نہیں رہا البتہ شیروانی اور مغلئی پا جامہ کی شان بھی نرالی لگتی ہے ۔اس مہذب لباس دیکھ کر بر ملا یہ کہا جا سکتا ہے کہ تہذیب اسی گہوارے کی باندی ہے ۔
اس سے بھی آگے بڑھئے!جاری