وَلَوۡ اَنَّ اَھۡلَ الۡقُریَ اٰمَنُوۡا لَفَتَحۡنَا عَلَیۡھِمۡ بَرَکَاتٍ مِنَ السَّمآءِ وَالۡاَرۡضِ
( اور اگر ان بستیوں والے کفر ونا فرمانی کے بجائے ایمان اور تقویٰ کا راستہ اختیار کرتے تو ہم ان پر زمین واسمان کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے)
یہ اللہ تعالیٰ کا عام اور ہمہ گیر قانون اور ازلی ابدی سنت اللہ ہے کہ جو قوم اور امت ایمان اور تقویٰ والی زندگی اختیار کر لے وہ آخرت میں جنت کے کی نعمتوں کے علاوہ اس دنیا میں بھی زمین واسمان کی برکتوں سے نوازی جائیگی۔
جس زمانہ میں مسلامانوں کی عام زندگیاں ایمان اور تقویٰ والی تھی ۔ان کےلئے بھی اللہ تعالیٰ نے اسی طرح زمین وآسمان کی برکتوں کے درازے کھولدئیےتھے ۔شروع شروع میں تو ابتلائی اور امتحانی دور رہا جو ایمان والوں کی تربیت کیلئے ضروری ہوتا ہے ۔لیکن اس مرحلہ کو طے کر لینے کے بعد ان پر ہر طرف سے نعمتوں کی بارش ہی بارش تھی ۔اور چیزوں کے علاوہ زمینی پیدا وار میں برکت کا یہحال تھا کہ ابو داؤد شریف جو صحاح ستہ کی اہم کتابوں میں سے ہے ، اس کے مؤلف اور جامع امام ابو داؤد نے خود اپنا مشاہدہ لکھا یے کہ زمین کی پیدا وار میں ایسی برکت تھی کہ مصر کے بازاروں میں میں نے ایسے کھیرے دیکھے ہیں جن میں سے ایک کو میں نے اپنے بالشت سے ناپا تو وہ تیرہ بالشت تھا۔ اسی طرح انھوں نے لکھا ہے کہ وہیں میں نے ایسے لیموں دیکھے جن کو بیچ سے دو حصےکر کے ایک حصہ کو اونٹ کی پیٹھ پر ایک جانب اور دوسرے کو دوسری جا نب لادا جا تا تھا اسی طرح حضرت امام حنبلؒ نے بیان فرمایا کہ انھوں نے ایسے گیہوں دیکھے جن کا ایک دانہ بصرہ کی کھجور کی گٹھلی کے برابر تھا۔
یہ در اصل لَفَتَحۡنَا عَلَیۡھِمۡ بَرَکَاتٍ مِنَ السَّمآءِ وَالۡاَرۡضِ کا ایک ظہور تھا لیکن کسی قوم اور امت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ معاملہ اسی وقت ہوتا ہے جن اسکی زندگی اجتماعی اور عمومی طور پر ایمان اور تقویٰ کی ہو ،نفاق اور فسق وفجور اگر ہو بھیبتو بالکل دبا ہوا ہو لیکن اسکے بر عکس اگر کسی قوم اور امت کی حالت یہ ہو کہ اس میں آخرت سے بے فکری ،اللہ ور اسکے رسول کی نافرمانی اور فسق وفجور عام ہو تو اگر چہ اس میں کچھ صالح اور متقی لوگ اور اولیا ء اللہ بھی ہوں تو وہ قوم اجتماعی حیثیت سے ان نعمتوں اور بر کتوں کی مستحق نہیں۔ (مولانا منظور نعمانیؒ)
( اور اگر ان بستیوں والے کفر ونا فرمانی کے بجائے ایمان اور تقویٰ کا راستہ اختیار کرتے تو ہم ان پر زمین واسمان کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے)
یہ اللہ تعالیٰ کا عام اور ہمہ گیر قانون اور ازلی ابدی سنت اللہ ہے کہ جو قوم اور امت ایمان اور تقویٰ والی زندگی اختیار کر لے وہ آخرت میں جنت کے کی نعمتوں کے علاوہ اس دنیا میں بھی زمین واسمان کی برکتوں سے نوازی جائیگی۔
جس زمانہ میں مسلامانوں کی عام زندگیاں ایمان اور تقویٰ والی تھی ۔ان کےلئے بھی اللہ تعالیٰ نے اسی طرح زمین وآسمان کی برکتوں کے درازے کھولدئیےتھے ۔شروع شروع میں تو ابتلائی اور امتحانی دور رہا جو ایمان والوں کی تربیت کیلئے ضروری ہوتا ہے ۔لیکن اس مرحلہ کو طے کر لینے کے بعد ان پر ہر طرف سے نعمتوں کی بارش ہی بارش تھی ۔اور چیزوں کے علاوہ زمینی پیدا وار میں برکت کا یہحال تھا کہ ابو داؤد شریف جو صحاح ستہ کی اہم کتابوں میں سے ہے ، اس کے مؤلف اور جامع امام ابو داؤد نے خود اپنا مشاہدہ لکھا یے کہ زمین کی پیدا وار میں ایسی برکت تھی کہ مصر کے بازاروں میں میں نے ایسے کھیرے دیکھے ہیں جن میں سے ایک کو میں نے اپنے بالشت سے ناپا تو وہ تیرہ بالشت تھا۔ اسی طرح انھوں نے لکھا ہے کہ وہیں میں نے ایسے لیموں دیکھے جن کو بیچ سے دو حصےکر کے ایک حصہ کو اونٹ کی پیٹھ پر ایک جانب اور دوسرے کو دوسری جا نب لادا جا تا تھا اسی طرح حضرت امام حنبلؒ نے بیان فرمایا کہ انھوں نے ایسے گیہوں دیکھے جن کا ایک دانہ بصرہ کی کھجور کی گٹھلی کے برابر تھا۔
یہ در اصل لَفَتَحۡنَا عَلَیۡھِمۡ بَرَکَاتٍ مِنَ السَّمآءِ وَالۡاَرۡضِ کا ایک ظہور تھا لیکن کسی قوم اور امت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ معاملہ اسی وقت ہوتا ہے جن اسکی زندگی اجتماعی اور عمومی طور پر ایمان اور تقویٰ کی ہو ،نفاق اور فسق وفجور اگر ہو بھیبتو بالکل دبا ہوا ہو لیکن اسکے بر عکس اگر کسی قوم اور امت کی حالت یہ ہو کہ اس میں آخرت سے بے فکری ،اللہ ور اسکے رسول کی نافرمانی اور فسق وفجور عام ہو تو اگر چہ اس میں کچھ صالح اور متقی لوگ اور اولیا ء اللہ بھی ہوں تو وہ قوم اجتماعی حیثیت سے ان نعمتوں اور بر کتوں کی مستحق نہیں۔ (مولانا منظور نعمانیؒ)