رسالہ کلیدالتوحید حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ سے کچھ اقتباسات

  • موضوع کا آغاز کرنے والا قاسمی
  • تاریخ آغاز
ق

قاسمی

خوش آمدید
مہمان گرامی
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم​
پیری مریدی مجلس محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والتسلیم کا ایک نمونہ ہوتی ہے۔
بہت سے لوگ پیری مریدی کا سلسلہ رکھتے ہین لیکن پیری مرید ی کو نہیں جانتے وہ بالکل احمق ونادان ہیں پیری مریدی مجلس محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والتسلیم کا ایک نمونہ ہوتی ہے۔جس طرح جناب سرور کائنات علیہ السلام پر آپ کے اصحاب اپنی جان نثار کرتے تھے اسی طرح طالبوں کو اپنے مرشد پر فدا ہونا چاہئے شب وروز آپ کے اصحاب کی قوت دیدار محمدی تھی باوجود اس کے آپ کے اصحاب ہمیشہ اپنی عاجزی کا اعتراف کرتے تھے پھر اور کسی کا ذکر کیا ہے جو شخص شرع محمدی ص کے خلاف راہ چلے اور آپ کی اور آپ کے اصحاب کی پیروی نہ کرے وہ ملعون ومردود ہے اسے مرشد کہنا سخت گناہ وغلطی ہے ۔مرشدی اتباع شرع محمدی ص وکلام الٰہی وحدیث نبوی کی پیروی وتصور اسم اللہ وآیات کلام اللہ سے حاصل ہوتی ہے ۔مرشد کامل وہ فقیر فنا فی اللہ واصل الی اللہ اسے کہنا چائیے جو مقام فنا فی اللہ میں پہنچکر اس میں غرق ہو جائے ۔من کان فی ھذہ اعمیٰ فھو فی الاٰ خرۃ اعمیٰ (جو اس جہاں میں بے بصیرت رہا وہ آخرت میں بھی بے بصیرت رہے گا ۔
جو شخص یہ مرتبہ حاصل کر کے مراقبہ ومشاہدہ کرتا ہے اور مقام فنا فی اللہ بقا باللہ میں آتا ہے زندگی جاودانی حاصل کر تا ہے اور جو شخص مدعی ہوتا ہے وہ اپنی عمر یوں ہی برباد کرتا ہے ۔
آں زباں دیگر است باحق بیاں ایں زبانِ لاف دیگر بداں
مثل مشہور ہے کہ جو بادل زیادہ گرجتے ہیں برستے نہیں ہیں یہی حال اہل کمال کا ہے کہ
وہ اپنی زبان بند رکھتے ہیں ۔ع نہدپٖر میوہ سر بر زمیں۔اسی لئے فرمایا گیا ہے السکوت تاج المؤمنین (کم گونی مومنوں کا تاج ہے) السکوت مفتاح العبادۃ( سکوت عبادت کی کنجی ہے)السکوت من رحمۃ اللہ سکوت رحمت الٰہی سے ہے۔ اسکوت حصار من الشیطان سکوت شیطان سے بچنے کیلئے ایک قلعہ ہے۔ السکوت سنۃ الانبیا سکوت انبیاء کی سنت ہے۔ السکوت نجات من الناس سکوت لوگوں کو شر سے بچنے کا ذریعہ ہے۔ السکوت قرب الرب سکوت قرب الٰہی ہے۔ السکوت غرق من التوحید سکوت توحید ونور الٰہی میں غرق ہونا ہے۔یہ سکوت لائق سزاوارہے کہ طالب کو ہمیشہ حضور ومشاہدہ میں رکھتا ہےاسے مقام لاہوت میں پہونچاتا ہے۔کیونکہ سکوت اصلی یہ ہے کہ جسم جان سے جدا کرے اور اسے لامکاں میں غرق کردے جو سکوت کہ اس کے بر عکس ہو مکر وفریب ہے اور صرف رجوعات خلق کیلئے ہے یہ سکوت مکر شیطان وفریب نفس امارہ ہے۔
طالب کے دل میں خطرات بد کا پیدا ہونا
شیطان فقیر عارف کے سامنے سات باتیں پیش کرتا ہے ۔اول یہ کہ طالب خاموش رہے مگرشغل واشغال نہ کرے ۔دوم یہ کہ وہ خلوت اختیار کرے اور نماز روزہ سے باز رہے ۔ سوم یہ کہ دنیا جمع کرے مکر وفریب اختیا ر کرے۔پھر طالب کو یہ بھی خیال ہوتا ہے کہ میں جو کچھ دنیا حاصل کرونگا اور جو کچھ مال ومتاع جمع کرونگا مسکینوں، درویشوں،فقیروں،عاجزوں،بیواؤں ،یتیموں کا بھی اس میں حق ہوگا یہ بھی شیطانی حیلہ ہے۔چہارم پیشہ شیطانی یہ ہے کہ خلافِ علم عمل کرے۔
چہارم پیشہ شیطانی یہ ہے کہ خلافِ علم عمل کرے۔
پنجم یہ کہ مال زیادہ ہو جائے تو زکوٰۃ سے منکر ہو جائے ۔ششم یہ کہ شیطان طالب سے کہتا ہےکہ تیرا مرتبہ مرشد سے زیادہ ہو گیا ہے اپنے رتبہ کو دیکھ اور سمجھ اسی طرح شیطانی وسوسہ اس کےہے دل میں پیدا کرتا ہے اور اسے مرشد کے توجہ سے دور کر دیتا ہے ،ہفتم کہ شیطان اسے کہتا ہے کہ اب تجھے ظاہری عبادت اور ذکروفکر وتصور اسم اللہ ذات ومقام ربوبیت کی کیا ضرورت ہے تجھے اب میرا دیدار کافی ہے کیونکہ اسم صرف نام ہے اور اب نام سے تجھے کیا سروکارہے۔اگر طالبِ صادو وبیعت مرشد کامل سے اہل تحقیق ہوتا ہے تو شیطانی مکروفریب کو جانتا پہچانتا ہے اور اسی وقت لاحول پڑھتا ہے اور اسکے ہمیشہ طالب کا رفیق بنا رہے اپنے حال احوال واقوال خدا کو سونپے اور خودی کو درمیان سے نکالدے
کارے جہاں چنانکہ تو خواہی اگر شود ایماں نیاوری بخداے جہاں کہ ہست
مکروفریب سے نجات پاتا ہے اس راہ میں مرشد کامل چاہئے جو صاحبِ تحقیق ہو اور ظاہر وباطن میں
کیونکہ جو کچھ کرتا ہے خدا تعالیٰ کرتا ہے ۔جو کچھ ہے اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔[]یمحو اللہ مایشاء ویثبت وعندہ ام الکتاب ۔مٹاتا ہے اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے اور باقی رہنے دیتا ہے جو چاہے
اور اسکے پاس لوحِ محفوظ ہے۔ انسان کے وجود میں جب نفس مردہ ہوجاتا ہے تو دل زندہ ہو جاتا ہے اوراب اگر اسےذکرروحی حاصل ہےتو وہ اسم اللہ وکلمہ طیبہ لاالٰہ الا اللہ کی تلوار سے گویا شداد ونمرود، قارون،ہامان،فرعون وغیرہ کفار کو قتل کرتا ہے اور اگر نفس زندہ ہے تو دل مردہ ہے اور خدا تعالیٰ سے غافل رہتا ہے اور اپنی غفلت کی تلوار سے گویاانبیاء،اولیا، شھدا، صالحین کو قتل کرتا ہے ۔اہل نفس یزید کی مجلس میں اور اہل ذکر بایزید کی مجلس میں رہتے ہیں ۔اسلئے ہر ایک انسان کو سوچنا چاہئے کہ شب وروز اس کے اوقات کس کی مجلس میں کٹتے ہیںیاوہ شب وروز حضرت با یزید بسطامی رح کی مجلس میں رہتا ہے یا یزید کی مجلس میں ۔راہ معرفتِ قرب الٰہی ہے ہمہ تن اس میں غرق واستغراق ہونا چاہئے۔
توبہ کرنے سے گناہ سے پاک وصاف ہونا
جو شخص توبہ واستغفار کرتا ہے گناہ سے پاک وصاف ہو جاتا ہے جیسا کہ حدیث شریف میں یا ہے التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ ۔توبہ کرنیوالا گناہ سے اس طرح سے پاک ہوجاتا ہے کہ گویا اس نے گناہ کیا ہی نہیں ۔انسان کی پیدائش ناپاک قطرہ سے ہوئی ہے ناپاک قطرہ انسان کو خراب کرتا ہے انسانیت کے جامہ سے نکالکر اسے حیوانیت کا جامہ پہناتا ہے صرف اس لئے اس مشکل راہ میں مرشد کامل اس کے کام آتا ہے وہ اسے خواہشات نفسانی اور خصائل حیوانی سے نکال کر انسانیت کا جامہ پہناتا ہے ۔کیونکہ عارفوں کا وجود خواہش نفسانی سے دور اور شوق اشتیاق مقامِ حضور سے معمور ہوتا ہے ۔قربِ الٰہی انسان کو خواہشات نفسانی سے روکتا ہے ۔اسیلےجب تک انسان ہو اوہوس کے فرش سے قدم نہیں اٹھاتا عرشِ بریں پر قدم نہیں رکھ سکتا ۔ ترا گر ہوا ے بہشت آرزوست مَرودرپئے آرزوے ہوا
جو شخص کی ہوا وہوس سے باز آ تاہے عارفِ حق ہو جاتا ہے ۔
عارف 3قسم کے ہوتے ہیں ۔
عارف ازل۔عارف ابد۔عارف د نیا۔عارف عقبی یہ چاروںٰ مقامات عارف حقیقی کے لئے حجاب اکبر ہوتے ہیں۔وہ ان چاروں مقامات سے مقام خاص الخاص میں داخل ہوتا ہے مقام خاص الخاص انتہاے معرفت غرق مقام فنا فی اللہ بقا با اللہ کا ہے.
مردآں باشد کہ ماند غرق نور = کے رسد بانور ایں اہلِ غرور
یہ مراتب مردان خدا کے ہیں جو مقام معرفت میں شہسواری کر تے ہیں اور میدان کو طے کر کے رہتے ہیں ۔طالبان دنیا مردار اس کوچہ میں قدم نہیں رکھ سکتے تمام دنیوی جھگڑے چھوڑ کر تجرید وتفرید وہی شخص اختیار کر سکتا ہے جو تھتر کروڑ دس لاکھ تین ہزار بلکہ بیشمار مقامات ایک شبانہ روز یا انتہاایک ہفتہ میں اور اگر مرشد کامل توجہ کرےتو ایکدم میں بطور سیرکے طے کرے اور ان مقامات کا طے کرنا اس طرح سے ہے کہ انسان کے بدن پر جس طرح رونگٹے ہیں ہرایک رونگٹےمیں تصور اسم اللہ سے تجلی ظاہر ہوتی ہے ۔کیونکہ اس کا وجود تصوراسم اللہ ذات سے سراپا نور ہو جاتا ہے اور اب نور معرفت میں غرق اور محو ہوجاتا ہے اور اس کا وجود پختہ اور خلق اللہ کی رہنمائی کے لائق ہو جاتا ہے ۔یہ مراتب ومقام وصورت نورتجلیات ذات معرفت کا پہلا مقام اور ابتدائی درجہ ہے انتہا کا ذکر کیا اس کی حقیقت کو ن جان سکتا ہے ۔
کن کن لوگوں پر شیطان کو قدرت نہیں اور کن پر وہ غالب رہتا ہے
اور یہ یاد رہے کہ عالموں، فاضلوں،فقیروں،درویشوں،عارفوں ،واصلوں پر شیطان ان کی قوت ان کی قوتِ علم کی وجہ یہ ہے کہ شیطان ہر ایک ¬آدمی کے وجود میں شب وروزستر دفعہ آتا جاتا ہے۔اور انسان کے جسم می٘ں اسکی ہر ایک رو نوے رو نوے ہےاسکی آمد ورفت کا راستہ ہے۔ جب شیطان کسی مردہ دل یا طالب دنیا کے قالب میں جاتا ہے تو وہ اس کے نفس امارہ کو زندہ کرتا ہےاور اسے دنیا کی طمع دلاتا ہےاور اس کے دل میں خناس وخرطومِ شیطان (حرص وحسد بغض وکینہ وغیرہ) وسوسہ وخطرات بد پیدا کرتا ہے اور اپنے علم سے وہ ان لوگوں پر غالب رہتا ہے جس سے یہ لوگ شیطان کے تا بعدار بنے رہتے ہے اور حرص وہوس وطمع دنیا سے کسی خلاصی نہیں پا سکتے کیونکہ طمع شیطان کی کنجی ہےجس سے وہ انسان کے وجود میں آمد ورفت رکھتا ہے مگر تین شخصوں کے وجودمیں اسے داخل ہو نے کی مطلق قدرت نہیں۔اول وہ جس کے دل میں نور ہوتا ہے اور تصدیق دل سے کلمہ طیبہ پڑھتا ہے ۔لاالٰہ الااللہ محمد الرسول اللہ ۔دوسرا وہ شخص کہ تصور اسم اللہ ذات جسکو دل میں رہتا ہےکیونکہ کلمہ کی آتشِ نور اور تصوراسم اللہ ذات کی سوزش میں شیطان جلکر خاک ہو جاتا ہے ۔تیسرے اس شخص کے وجود میں نہیں جا سکتا ہےکہ جو ہمیشہ لا حول ولا قوۃ الا با اللہ العظیم پڑھتا رہتا ہے اور دو گروہ اورہیں کہ انکے وجود میں بھی شیطان نہیں جا سکتا ۔اول فقراےکامل دوم علماے عامل کہ یہ دونوں گروہ شیطان کے مکرووفریب اور اسکے حیلہ سے محفوظ رہتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وان عبادی لیس لک علیھم سلطٰن (میرے خاص بندوں پر تجھے کچھ قدرت نہیں ہو گی )مگر اہل دنیاکہ جن کا دل حب دنیا سے پُر ہو تا ہے اس کے مکر وفریب سے محفوظ نہیں رہ سکتا حالانکہ خداوند کریم نے ان سے فرمایا کہ وہ شیطان کی پیروی نہ کریں جیسا کہ اس نے فرمایا یا بنی اٰدم لا تعبدو الشیطٰن انہ لکم عدومبین (اے بنی آدم تم ہرگز ہر گز شیطان کی پیروی نہ کرنا کیو نکہ وہ تمہارا ظاہری دشمن ہے۔


 
Top