انسان فطرت کے اعتبار سے اجتماعیت پسند واقع ہواہے لیکن تخلیقی اعتبار سے انفرادیت پسند واقع ہواہے۔ہرانسان کے سوچنے سمجھنے ،کردار وگفتار کا رنگ ڈھنگ دوسروں سے الگ اورمختلف ہوتاہے اوریہ کوئی عیب کی بات نہیں بلکہ حسن اورخوبصورتی ہےجیساکہ استاد ذوق نے کہاہے
ماضی میں ابن حزم نے اوردورحاضر میں سلفی حضرات اس خیال کی نشرواشاعت کرتے ہیں یہ اختلاف جوفروعاتی مسائل میں وارد ہے وہ اختلاف فی الدین کا مترادف ہے اورقرآن نے جس اختلاف اورتفرقہ سے منع کیاہے یہ بھی اس میں شامل ہے۔
ابن حزم کہتے ہیں ۔
و هذا من أفسد قول يكون , لأنه لو كان الاختلاف رحمة لكان الاتفاق سخطا , و هذا ما لا يقوله مسلم , لأنه ليس إلا اتفاق أو اختلاف , و ليس إلا رحمة أو سخط .( الإحكام في أصول الأحكام “5 / 64 )
یہ سب سے زیادہ فاسد قول میں سے ایک ہوسکتاہے اس لئے کہ اگر اختلاف رحمت ہے تواتفاق عذاب ہوگا اوریہ ایسی بات ہے جسے کہنے کا کوئی بھی مسلمان روادار نہ ہوگا اس لئے یاتو اتفاق ہوگا یااختلاف ہوگا اور وہ بھی یاتو رحمت ہوگا یاعذاب ہوگا۔
سلفی خیال ومسلک کے ایک نامور عالم شیخ البانی فروعاتی مسائل میں اختلاف کے بارے میں یوں فرماتے ہیں۔
جملة القول أن الاختلاف مذموم في الشريعة , فالواجب محاولة التخلص منه ما أمكن , لأنه من أسباب ضعف الأمة كما قال تعالى : *( و لا تنازعوا فتفشلوا و تذهب ريحكم )* , أما الرضا به و تسميته رحمة فخلاف الآيات الكريمة المصرحة بذمه , و لا مستند له إلا هذا الحديث الذي لا أصل له عن رسول الله صلى الله عليه وسلم .(سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ )
خلاصہ کلام یہ کہ شریعت میں اختلاف مذموم ہے اوراس سے بقدر استطاعت چھٹکارہ پاناواجب ہے کیونکہ یہ امت کی کمزوری کے اسباب میں سے ہے جیساکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایاہے اورآپس میں نزاع نہ کروکیونکہ کہیں ایسانہ ہو کہ تم شکست کھاجاؤ اورتمہاری ہوااکھڑجائے۔اوراس سے(شریعت میں اختلاف)سے راضی رہنا اوراس کو رحمت کانام دینا ان صریح آیات کے خلاف ہے جس میں اختلاف کی مذمت کی گئی ہے اوران (اختلاف کو رحمت قراردینے والوں)کی اس بارے میں سوائے اس حدیث کے کوئی دلیل نہیں ہے اوریہ حدیث بھی بے اصل ہے ۔
آپ نے شیخ البانی کاکلام ملاحظہ کرلیا۔ایک دوسرے سلفی عالم کابھی کلام دیکھیں وہ بھی کس تیور اورلہجہ میں فروعات میں اختلاف کی مذمت کرتے ہوئے
ومنها: أن الاختلاف ليس رحمة؛ بل إنه شقاق، وبلاء؛ وبه نعرف أن ما يروى عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «اختلاف أمتي رحمة»(1) لا صحة له؛ وليس الاختلاف برحمة؛ بل قال الله سبحانه وتعالى: { ولا يزالون مختلفين * إلا من رحم ربك } [هود: 118] أي فإنهم ليسوا مختلفين؛ نعم؛ الاختلاف رحمة بمعنى: أن من خالف الحق لاجتهاد فإنه مرحوم بعفو الله عنه؛ فالمجتهد من هذه الأمة إن أصاب فله أجران؛ وإن أخطأ فله أجر واحد؛ والخطأ معفو عنه؛ وأما أن يقال هكذا على الإطلاق: «إن الاختلاف رحمة» فهذا مقتضاه أن نسعى إلى الاختلاف؛ لأنه هو سبب الرحمة على مقتضى زعم هذا المروي!!! فالصواب أن الاختلاف شر.
شیخ ابن عثیمین اللہ تبارک وتعالیٰ کے اس ارشاد ان الذین اختلفوا لفی شقاق بعید کے فوائد میں بیان کرتے ہیں
اوراس میں یہ ایک یہ بھی ہے کہ اختلاف رحمت نہیں ہے بلکہ وہ دلوں کو پھاڑنے والی اورمصیبت ہے اوراوراسی کے ذریعہ ہم یہ جان سکتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث جوروایت کی جاتی ہے کہ میری امت کا اختلاف رحمت ہے تو وہ صحیح نہیں ہے اوراختلاف رحمت نہیں ہے بلکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا قول ہے اوروہ لوگ ہمیشہ آپس میں اختلاف کرتے رہیں گے مگر یہ کہ جس پر آپ کا رب رحم کرے۔ یعنی یہ کہ وہ آپس میں اختلاف نہیں کرتے ہیں ہاں اختلاف رحمت اس معنی میں ہے کہ جس نے اجتہاد کیا اوراس کا اجتہاد حق وصواب ہوا تواسے دوہرااجر ملے گا اورجس نے اجتہاد کیا اوراس کااجتہاد درست نہ ہوا تو اسے ایک اجر ملے گا اوراس کی یہ اجتہادی غلطی اللہ کے یہاں معاف ہوگی۔لیکن یہ مطلقا کہناکہ اختلاف رحمت ہے تواس کا تقاضہ تویہ ہے کہ ہم اختلاف کی کوشش کریں اس لئے کہ وہ رحمت کا سبب ہے اس حدیث کی روایت کرنے والے کے گمان پر ۔درست بات یہ ہے کہ اختلاف شر ہے۔
آپ نے اس خیال وفکر کے تین عالموں کی تحریر ملاحظہ فرمائی ۔الفاظ اگرچہ مختلف ہیں لیکن فکر ایک ہے اور وہ یہ کہ امت میں جوفروعی مسائل میں اختلاف ہے وہ اختلاف فی الدین کا مترادف ہے اور وہ شر ہے براہے امت کیلئے اوراس اس امت کی اجتماعیت کیلئے نقصان دہ ہے۔
ان حضرات کا بزعم خود گمان باطل یہ ہے کہ فروعی مسائل میں اختلاف کو رحمت قراردینے والوں کی دلیل یہ حدیث یااصحابی کالنجوم جیسی حدیث ہے جب کہ بات ایسی نہیں ہے ۔جن حضرات نے فروعی مسائل میں اختلاف کو رحمت کہاہے اوراسے رحمت سے تعبیر کیاہے وہ بڑے تابعی،تبع تابعین اجلہ علماء میں سے ہے۔
آپ کے علم میں اضافہ کیلئے یہ بات کہہ دوں کہ اس حدیث کی تکذیب کرتے ہوئے فروعی مسائل میں اختلاف کوجن حضرات نے تنقید کانشانہ بنایاہے اس میں سب سے پہلا نام مشہور معتزلی اورعربی ادیب جاحظ کاہے اوردوسراشخص وہ ہے جس کی عدالت مخدوش ہےجوموسیقی کا بڑاماہر تھا۔ یعنی اسحاق بن ابراہیم الموصلی ۔
اوران دونوں نے بھی وہی بات کہی ہے جوکہ ابن حزم نے کہی ہے ایسالگتاہے کہ ابن حزم نے انہی دونوں کی بات اپنے الفاظ میں نقل کردی ہے۔ یہ دونوں کہتے ہیں۔اورکچھ لوگ ان کی یہ بات آج تک دوہراتے چلے جارہے ہیں۔
شیخ البانی فروعی مسائل میں اختلاف پر اپنے مخصوص اسلوب تحریر میں لکھتے ہیں
و إن من آثار هذا الحديث السيئة أن كثيرا من المسلمين يقرون بسببه الاختلاف الشديد الواقع بين المذاهب الأربعة , و لا يحاولون أبدا الرجوع بها إلى الكتاب و السنة الصحيحة , كما أمرهم بذلك أئمتهم رضي الله عنهم , بل إن أولئك ليرون مذاهب هؤلاء الأئمة رضي الله عنهم إنما هي كشرائع متعددة ! يقولون هذا مع علمهم بما بينها من اختلاف و تعارض لا يمكن التوفيق بينها إلا برد بعضها المخالف للدليل , و قبول البعض الآخر الموافق له , و هذا ما لا يفعلون ! و بذلك فقد نسبوا إلى الشريعة التناقض۔
اس حدیث کے برے نتائج میں سے یہ بھی ہے کہ مذاہب اربعہ کے درمیان جو شدید اختلافات واقع ہیں اس کا اقرار کرتے ہیں اوران کو کتاب وسنت کی جانب رجوع کرنے کی کوشش نہیں کرتے جیساکہ ان کے ائمہ نے ان کو حکم دیاہے۔بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان ائمہ کے مذاہب متعدد شریعتوں کی طرح ہیں ۔یہ بات وہ یہ جان کربھی کہتے ہیں کہ ان مسالک میں جو اختلاف اورتعارض واقع ہے اس کو کسی طورپر دور کرنا ممکن نہیں مگر یہ دلیل کے ذریعہ ایک کور د کیاجائے اوردوسرے کو قبول کیاجائے۔اورایسایہ لوگ نہیں کرتے ہیں اوراس طرح تناقض کی نسبت شریعت کی جانب کرتے ہیں۔
اب یہاں سے کچھ ہماری گزارشات ان حضرات کی خدمت میں جو فروعی مسائل میں اختلاف کو قابل مذمت سمجھتے ہیں۔
ابن حزم ظاہری کے اقتباس کو دوبارہ دیکھئے۔
اس استدلال کے پورابخیہ ادھیراہے علامہ خطابی نے جومشہور محدث اورفقیہ ہیں اورجن کی ابوداؤد کی شرح معالم السنن مشہور ہے ان کی بات کو پوری تفصیل اوروضاحت کے ساتھ بیان کریں گے۔
بہت مرتبہ ایساہوتاہے کہ کوئی شے اوراس کی ضد حکمت اورمصلحت میں ایک ہی درجہ کے ہوتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کاارشاد ہے ومن رحمتہ جعل لکم اللیل والنہار لتسکنوا فیہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دن اوررات دونوں کو رحمت میں شمار کیاہے حالانکہ ہرایک کو پتہ ہے کہ دن رات کی ضد ہے اوررات دن کے مخالف ہے لیکن یہ دونوں بیک وقت رحمت ہیں ارشاد ربانی کے مطابق۔اب جو منطق اورلاجک اولامعتزلیوں نے ،بعد ازاں،ابن حزم اوردور حاضر میں کچھ سلفی علماء نے پیش کی ہے اس کاتقاضاتویہ ہوناچاہئے تھاکہ اگر رات رحمت ہے تو دن عذاب ہے اوراگر دن عذاب ہے توپھر رات رحمت ہے حالانکہ کوئی بھی صاحب عقل وہوش اس کا مدعی نہیں ہوگا۔دولت خداکی نعمت ہے توکیافقروفاقہ خدا کا عذاب ہے کوئی یہ کہہ سکتاہے؟ ۔ سبھی کو معلوم ہے کہ امت کے بیشتر اولیاء اللہ بلکہ انبیا ء کرام کی زندگی فقر و فاقہ کا مر قع تھی خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب فقروفاقہ اوردولت سلطنت کے درمیان اختیار کی من جانب اللہ پیشکش ہوئی تھی توآپ نے فقروفاقہ کی زندگی پسند کی کہ ایک دن کھاؤں اورایک دن فاقہ کشی سے گزرے۔
صحت وتندرسی خداکی بڑی نعمت ہے لیکن اس کا کوئی یہ مطلب نہیں لیتا کہ بیماری خداکی ناراضگی اورعذاب ہے۔بلکہ وہ بھی مومن کیلئے خدا کی رحمت ہے ۔بارش کو عموماہم رحمت سے تعبیر کرتے ہیں اس کا کوئی یہ مطلب نہیں لیتاکہ جب بارش نہ ہورہی ہو تواب بندوں پر خدا کی رحمت باقی نہیں رہی۔
اب ہم دوسرے حصے کی جانب آتے ہیں اوراس میں میں اپنی ایک پرانی تحریر کا جستہ جستہ اقتباس پیش کرنا چاہوں گا۔
اختلاف امتی رحمۃ یااختلاف علمائ امتی رحمۃ بلاشبہ موضوع ہے اورکتب احادیث میں اس کاکوئی وجود نہیں ہے لیکن اس پر یہ دعوی کرنا کہ موضوع حدیث کاجو مفہوم ہے وہ بھی غلط اورباطل ہو ایک ناقابل تسلیم بات ہے۔
جس نے بھی وضع حدیث کی تاریخ پڑھی ہوگی وہ جانتاہے کہ بسااوقات وضاعین حدیث اورقصہ گویان حکمت اوردانشمندی کے اقوال جو مشہور تھے اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب کردیاکرتے تھے ۔اس بات کی نسبت حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی جانب غلط ہوسکتی ہے لیکن وہ دانشمندانہ قول وضاعین کی اس حرکت سے عقل ودانائی کی حد سے باہر کیسے ہوسکتاہے۔
طہ جابر العلوانی یااختلاف کے موضوع پر دوسرے لکھنے والوں میں سے ہرایک نے مذموم اختلاف کیاہےاس کی وضاحت کی لیکن فروعی اورفقہی مسائل میں جو اختلاف علمائ اورفقہائ کے درمیان ہے کیاوہ بھی مذموم ہے۔
اب کچھ لوگ اس سلسلے میں یہ کرتے ہیں کہ قرآن کی وہ آیتیں جوحق اورباطل کے درمیان اختلاف کی صورت میں مذمت یاعقائد میں اختلاف سے ممانعت کیلئے آئی ہیں ان کو فروعی مسائل کے اختلاف پر بھی چسپاں کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اسی لئے ضروری ہے کہ آیت کاشان نزول اوراس کا مصداق دیکھ لیاجائے اورسمجھ لیاجائے اوراس کے بعد آگے کلام کیاجائے۔
فروعی مسائل میں اختلاف رحمت خداوندی ہے اس کا اقرارواعتراف اجلہ تابعین اورفقہاء کرام نے کیاہے ان کی تصریحات ملاحظہ ہوں۔
قاسم بن محمد بڑے مرتبہ کے تابعی اورمدینہ کے فقہاء سبعہ میں سے ایک ہیں۔خاندانی شرافت میں بھی ممتاز ہیں۔ حضرت ابوبکرصدیق کے خانوادہ سے ان کا تعلق ہے آپ فرماتے ہیں۔
رسول اللہ کے اصحاب کا اختلاف لوگوں کیلئے رحمت ہے۔(ادب الخلاف ص
امام مالک کے نام نامی سے کون شخص ناواقف اورجاہل ہوگا۔ نامورمحدث اورائمہ اربعہ میں سے ایک ہیں ۔ان سے جب ہارون رشید نے درخواست کی اوراجازت چاہی کہ پورے اسلامی قلمرو میں موطا امام اما م مالک کے مطابق عمل نافذ کردیاجائے توانہوں نے جواب میں یہ فرمایا۔
اے امیر المومنین علماء کا اختلاف اللہ تعالیٰ کی اس امت پر رحمت ہے ہرایک اپنے نزدیک صحیح ثابت شدہ امر کی پیروی کرتاہے اورہرایک ہدایت پر ہے اورہرایک کا مقصد اللہ تعالی(کی رضا)ہے۔ (تاریخ بغداد،سیر اعلام النبلاء )
امام بغوی مشہور محدث ہیں ان کی کتاب شرح السنۃ محتاج تعارف نہیں ہے۔وہ اپنی تالیف شرح السنۃ (1/229) میں لکھتے ہیں۔
اما الاختلاف فی الفروع بین العلماء فاختلاف رحمۃ اراد اللہ ان لایکون علی المومنین حرج فی الدین فذلک لایوجب الجھران والقطیعة ،لان ھذاالاختلاف کان بین اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مع کونھم اخوانا موتلفین ،رحماء بینھم وتمسک بقول کل فریق منھم طائفة من اھل العلم بعدھم وکل طلب الحق وسلوک سبیل الرشد مشترکون۔
بہرحال فروعات میں علماء کے درمیان اختلاف کاواقع ہونا اللہ کی رحمت ہے۔اللہ کی مشیت اس کی متقاضی ہوئی کہ مومنین پر دین پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہ ہو ۔اسی لئے واجب ہے کہ فروعی اختلاف کی وجہ سے کسی کو چھوڑنااوربائیکاٹ نہیں کرناچاہئے اس لئے کہ یہ اختلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کے درمیان بھی موجود تھااوراسی کے ساتھ وہ آپس میں ایک دوسرے کے خیرخواہ،مہربانی کرنے والے تھے۔اورانہی کے اقوال سے بعد کے اہل علم نے استدلال کیاہے اوران میں سے ہرایک حق کا جویاہے اورہدایت کے راہ پر چلنے میں سبھی مشترک ہیں۔
ابن قدامہ بڑے محدث اورفقیہہ ہیں ۔مذہباحنبلی ہیں اوران کی کتاب المغنی فقہ کی نامور کتابوں میں شمار کی جاتی ہے بطور خاص فقہ حنبلی میں اسے ممتاز مقام حاصل ہے۔ وہ اپنی اس مایہ ناز کتاب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں۔
جعل فی سلف ھذہ الامة ایٔمة من الاعلام مھد بھم قواعد الاسلام واوضح بھم المشکلات الاحکام ،اتفاقھم حجة قاطعة واختلافھم رحمة واسعة
اللہ نے اس امت کے متقدمین میں ایسے نامور علماء اورایٔمہ پیداکیٔے جنہوں نے اسلام کے اصول وضوابط طے کیٔے (اصول فقہ)اوران کے ذریعہ احکام کے مشکلات کوواضح کیا۔ان کا کسی مسیئلہ پر اتفاق حجت قاطعہ اوران کااختلاف رحمت واسعہ ہے۔(ادب الخلاف 12)
علامہ شاطبی بڑے نامور فقیہ اوراصولی ہیں۔ ان کی کتاب الموافقات اورالاعتصام بہت مشہور ہے۔اول الذکر کتاب مقاصد شریعت کے بیان میں اورثانیت الذکر سنت وبدعت کے بیان میں اپنے موضوع پر فردفرید سمجھی جاتی ہے۔ وہ الاعتصام میں لکھتے ہیں۔
ان جماعۃ من السلف الصالح جعلوا اختلاف الامۃ فی الفروع ضربا من ضروب الرحمۃ ،واذاکان من جملۃ الرحمۃ فلایمکن ان یکون صاحبہ خارجا من قسم اہل الرحمۃ(شاطبی الاعتصام (2/170)
سلف صالحین کی ایک جماعت نے فروعی مسائل میں امت کے اختلاف کو رحمت کی اقسام میں سے ایک قسم قراردیاہے اورجب یہ اختلاف رحمت ہے توفروعی مسائل میں اختلاف کی وجہ سے کوئی اہل رحمت میں سے خارج نہیں ہوگا۔
ایک دوسرے مقام پر امام شاطبی لکھتے ہیں۔
انانقطع بان الخلاف فی مسایٔل الاجتہاد واقع فیمن حصل لہ محض الرحمة وھم الصحابۃ ومن اتبعھم باحسان(الاعتصام)
ہمارایقین جازم ہے کہ اجہتادی مسائل میں اختلاف جوکچھ واقع ہواہے وہ رحمت خداوندی کا تقاضاہے اوریہ اختلاف صحابہ اوران کے بعد والوں کے درمیان واقع ہواہے۔
رابطہ عالم اسلامی کی المجمع الفقہ الاسلامی کادسواں اجلاس جو مکہ مکرمہ میں 24 صفر1408ہجری مطابق 21اکتوبر1987میں ہوا تھا۔اس میں فقہی اورفروعی اختلافاتکے تعلق سے یہ قرارداد پاس کی گئی تھی۔
واماالثانی وھواختلاف المذاہب الفقھیۃ فی بعض المسائل فلہ اسباب علمیۃ وللہ سبحانہ فی ذلک حکمۃ بالغۃ،ومنھاالرحمۃ بعبادہ وتوسیع مجال استنباط الاحکام من النصوص ،ثم ھی بعد ذلک نعمۃ وثروۃ فقھیۃ تشریعیۃ تجعل الامۃ الاسلامیۃ فی سعۃ من امر دینھا وشریعتھا فلاتنحصر فی تطبیق شرعی واحد حصرا لامناص لھامنہ الی غیرہ، بل اذا ضاق بالامۃ مذہب احد الائمۃ الفقہاء فی وقت ما او فی امر ھا ،وجدت فی المذہب الآخر سعۃ ورفقا ویسرا ۔
دوسری بات جو فقہی مسالک کے بعض مسائل میں اختلاف کے بارے میں تواس کے کچھ علمی اسباب ہیں اوراللہ جل شانہ کی حکمت بالغہ اس میں کارفرماہے جس میں سے ایک یہ اس کی اپنے بندوں پر رحمت اورمہربانی ہے(یعنی یہ اختلاف اللہ تبارک وتعالیٰ کی اپنے بندوں پر مہربانی کے قبیل سے ہے)اورنصوص سے احکام کے استنباط کے دائرہ کو وسیع کرنا ہے۔ اس سب کے علاوہ یہ ایک نعمت ہے اورفقہی دولت وذخیرہ ہے جس کے ذریعہ امت اسلامیہ اپنے دین کے تعلق سے وسعت اورفراخی میں ہے کہ اسے ایک ہی شرعی حل پر منحصر نہیں رہناہے کہ اس سے دوسرے کی جانب جایاہی نہ جاسکے ۔ بلکہ امت پر جب بھی کسی امام کے مسلک میں کوئی تنگی اوردشواری ہوتی ہے خواہ وہ کسی قبیل سے ہو تودوسرے امام کے مسلک میں نرمی اورگنجاش اورسہولت ہوتی ہے۔
دیگر علماء کی تصریحات جو اس کے ہم معنی ہیں جو فروعی مسائل میں اختلاف کو جائز اورروا سمجھتے ہیں۔بے شمار ہیں۔ ہم محض طوالت سے گریز کرتے ہوئے اور اختصار کی غرض سے ادب الخلاف سے اجلہ علماء اورکے چند بیانات نقل کردیتے ہیں۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزرضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ صحابہ کرام آپس میں اختلاف نہ کرتے(فروعی مسائل میں)اس لئے اگر صرف ایک بات ہوتی تولوگ تنگی میں پڑجاتے اور وہ ایسے ائمہ ہیں جن کی پیروی کی جاتی ہے تو اگرکوئی شخص ان میں سے کسی ایک کے قول پر عمل کرے تواس کی گنجائش ہے۔
محمد بن عبدالرحمن الصیرفی کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل سے کہاکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے درمیان آپس میں اختلاف ہو توکیاہمارے لئے جائز ہے کہ ہم ان کے اقوال میں غور کریں تاکہ اس میں سے جودرست ہو اس کی پیروی کریں۔فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے اقوال کے درمیان غورکرنا جائز نہیں میں نے پوچھا کہ پھر کیاکیاجائے توفرمایاکہ ان میں سے جس کی چاہے تقلید کرو۔
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ نے مجموع فتاوی میں نقل کیاہے کہ ایک شخص نے (فقہائ وعلمائ) کے اختلافات پر ایک کتاب لکھی ۔توامام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس کو اختلاف کی کتاب کا نام مت دو بلکہ اس کو وسعت اورگنجائش کی کتاب کا نام دو۔
سنن دارمی میں باب اختلاف الفقہائ میں حمید سے منقول ہے کہ میں نے حضرت عمربن عبدالعزیز سے کہاکہ اگرآپ لوگوں کو کسی ایک چیز(فقہ)پر جمع کردیں توفرمایا کہ مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ وہ آپس میں فقہی مسائل میں اختلاف نہ کریں۔ پھر انہوں نے اپنی قلمرو میں تمام والیوں کو خط لکھاکہ ہر شہر یاولایت کے لوگ اسی پر عمل کریں جس پر ان کے فقہائ متفق ہوں۔(حوالہ کیلئے دیکھئے ادب الخلاف مصنف سعید بن عبدالقادربن سالم باشنفر،باب مشروعیۃ الاختلاف والادب فیہ)
کچھ اس پر بھی غورکیجئے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے ارشادات اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات ہی ایسے ہیں جس میں متعدد معانی کااحتمال اورگنجائش ہے۔اگراللہ تبارک وتعالیٰ کی مصلحت یہ ہوتی ہے کہ سارے لوگ ایک ہی مسلک اختیار کرلیں توپھر قرآن وحدیث میں دوٹوک اورمتعین طورپر حکم دیاجاتاجس میں ایک سے زیادہ معانی کااحتمال تک نہ ہوتا۔
مثلًااللہ تعالیٰ نے وضومیں سرکے مسح کو ضروری قراردیا اوراس سلسلہ میں حکم ان الفاظ میں فرمایا۔وامسحوابرؤسکم یہاں لفظ ب استعمال کیاگیاہے۔ ب کے معنی عربی زبان میں بعض حصہ کے بھی ہوتے ہیں اورب زائد بھی ہوتی ہے بعض مراد ہونے کی صورت میں معنی ہوگا بعضے سر کا مسح کرلو اورب کے زائد ہونے کی صورت میں معنی ہوگا۔ پورے سرکامسح کرو۔ظاہر ہے کہ اللہ کے علم میں یہ دونوں معنی پہلے سے ہیں۔ اگر اللہ چاہتے توبعض کومتعین کرتے یا بغیر ب وامسحوروسکم فرماتے تودونوں صورتوں میں معنی متعین ہوجاتا۔
قرآن مجیدمیں عورت کی عدت کیلئے تین قرئ گزارنے کا حکم دیاہے۔ قرئ کے معنی حیض کے بھی ہیں اورطہر کے بھی اس لئے بعض فقہائ نے تین حیض مدت قراردی ہے اوربعض نے تین پاکی۔ ظاہر ہے کہ قرئ کے دونوں معانی اللہ کے علم محکم میں پہلے سے تھے اگراللہ کا منشائ یہ ہوتاہے کہ احکام شرعیہ میں کوئی اختلاف رائے نہ ہو توقرآن میں قرئ کے بجائےصریحآ حیض یاطہر کالفظ استعمال کیاجاتا۔اس سے کیاثابت ہوتاہے؟یہی ناکہ قرآن یاحدیث کو سمجھنے میں اگر اختلاف رائے ہے اوردونوں کے پاس دلیل موجود ہے تو اس پر نکیر نہیں کرنی چاہئے۔
مجھے امید ہے کہ یہ چند الفاظ اس بحث کو سمجھنے میں مدددین گے اورجن کے دلوں میں کچھ شبہات ہیں وہ ختم ہوں گے۔
نوٹ اس مضمون میں جوکچھ اقوال نقل کئے گئے ہیں وہ سب کے سب سعید بن عبدالقادر بن سالم باشنفر کی کتاب ادب الاختلاف سے ماخوذ ہے۔حوالوں کیلئے اس کی جانب رجوع کرین۔ویسے اس میں جتنے حوالے یاااقوال آئے ہیں وہ سب کے سب کم وبیش مشہور محدث ابن عبدالبر کی مشہور کتاب جامع بیان العلم وفضلہ میں بھی موجود ہیں مزید تحقیق کیلئے اس کی جانب بھی مراجعت کی جاسکتی ہے۔ واللہ ولی التوفیق
کچھ اس پر بھی غورکیجئے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے ارشادات اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات ہی ایسے ہیں جس میں متعدد معانی کااحتمال اورگنجائش ہے۔اگراللہ تبارک وتعالیٰ کی مصلحت یہ ہوتی ہے کہ سارے لوگ ایک ہی مسلک اختیار کرلیں توپھر قرآن وحدیث میں دوٹوک اورمتعین طورپر حکم دیاجاتاجس میں ایک سے زیادہ معانی کااحتمال تک نہ ہوتا۔
مثلًااللہ تعالیٰ نے وضومیں سرکے مسح کو ضروری قراردیا اوراس سلسلہ میں حکم ان الفاظ میں فرمایا۔وامسحوابرؤسکم یہاں لفظ ب استعمال کیاگیاہے۔ ب کے معنی عربی زبان میں بعض حصہ کے بھی ہوتے ہیں اورب زائد بھی ہوتی ہے بعض مراد ہونے کی صورت میں معنی ہوگا بعضے سر کا مسح کرلو اورب کے زائد ہونے کی صورت میں معنی ہوگا۔ پورے سرکامسح کرو۔ظاہر ہے کہ اللہ کے علم میں یہ دونوں معنی پہلے سے ہیں۔ اگر اللہ چاہتے توبعض کومتعین کرتے یا بغیر ب وامسحوروسکم فرماتے تودونوں صورتوں میں معنی متعین ہوجاتا۔
قرآن مجیدمیں عورت کی عدت کیلئے تین قرئ گزارنے کا حکم دیاہے۔ قرئ کے معنی حیض کے بھی ہیں اورطہر کے بھی اس لئے بعض فقہائ نے تین حیض مدت قراردی ہے اوربعض نے تین پاکی۔ ظاہر ہے کہ قرئ کے دونوں معانی اللہ کے علم محکم میں پہلے سے تھے اگراللہ کا منشائ یہ ہوتاہے کہ احکام شرعیہ میں کوئی اختلاف رائے نہ ہو توقرآن میں قرئ کے بجائےصریحآ حیض یاطہر کالفظ استعمال کیاجاتا۔اس سے کیاثابت ہوتاہے؟یہی ناکہ قرآن یاحدیث کو سمجھنے میں اگر اختلاف رائے ہے اوردونوں کے پاس دلیل موجود ہے تو اس پر نکیر نہیں کرنی چاہئے۔
مجھے امید ہے کہ یہ چند الفاظ اس بحث کو سمجھنے میں مدددین گے اورجن کے دلوں میں کچھ شبہات ہیں وہ ختم ہوں گے۔
نوٹ اس مضمون میں جوکچھ اقوال نقل کئے گئے ہیں وہ سب کے سب سعید بن عبدالقادر بن سالم باشنفر کی کتاب ادب الاختلاف سے ماخوذ ہے۔حوالوں کیلئے اس کی جانب رجوع کرین۔ویسے اس میں جتنے حوالے یاااقوال آئے ہیں وہ سب کے سب کم وبیش مشہور محدث ابن عبدالبر کی مشہور کتاب جامع بیان العلم وفضلہ میں بھی موجود ہیں مزید تحقیق کیلئے اس کی جانب بھی مراجعت کی جاسکتی ہے۔ واللہ ولی التوفیق
گلہائے رنگارنگ سے ہے زینت چمن
اے ذوق اس جہان کو ہے زیب اختلاف سے
تمام دیگر علوم وفنون کی طرح جس میں ماہرین فن کا مختلف امور پر ایک دوسرے سے اختلاف ہے۔ فقہ وفتاوی میں بھی ائمہ اورفقہاء میں اختلاف موجود ہے اورصرف ائمہ اورفقہاء کی ہم بات کیوں کریں۔صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے درمیان شرعی امور اورمعاملات میں ایک دوسرے کے درمیان مختلف آراء موجود رہی ہیں اورکبھی کسی نے یہ نہیں کہاکہ یہ اختلاف مضر اورملت کی اجتماعیت کیلئے نقصان دہ ہے۔اورسب کو ایک ہی رائے اورمسلک اختیار کرلیناچاہئے۔اے ذوق اس جہان کو ہے زیب اختلاف سے
ماضی میں ابن حزم نے اوردورحاضر میں سلفی حضرات اس خیال کی نشرواشاعت کرتے ہیں یہ اختلاف جوفروعاتی مسائل میں وارد ہے وہ اختلاف فی الدین کا مترادف ہے اورقرآن نے جس اختلاف اورتفرقہ سے منع کیاہے یہ بھی اس میں شامل ہے۔
ابن حزم کہتے ہیں ۔
و هذا من أفسد قول يكون , لأنه لو كان الاختلاف رحمة لكان الاتفاق سخطا , و هذا ما لا يقوله مسلم , لأنه ليس إلا اتفاق أو اختلاف , و ليس إلا رحمة أو سخط .( الإحكام في أصول الأحكام “5 / 64 )
یہ سب سے زیادہ فاسد قول میں سے ایک ہوسکتاہے اس لئے کہ اگر اختلاف رحمت ہے تواتفاق عذاب ہوگا اوریہ ایسی بات ہے جسے کہنے کا کوئی بھی مسلمان روادار نہ ہوگا اس لئے یاتو اتفاق ہوگا یااختلاف ہوگا اور وہ بھی یاتو رحمت ہوگا یاعذاب ہوگا۔
سلفی خیال ومسلک کے ایک نامور عالم شیخ البانی فروعاتی مسائل میں اختلاف کے بارے میں یوں فرماتے ہیں۔
جملة القول أن الاختلاف مذموم في الشريعة , فالواجب محاولة التخلص منه ما أمكن , لأنه من أسباب ضعف الأمة كما قال تعالى : *( و لا تنازعوا فتفشلوا و تذهب ريحكم )* , أما الرضا به و تسميته رحمة فخلاف الآيات الكريمة المصرحة بذمه , و لا مستند له إلا هذا الحديث الذي لا أصل له عن رسول الله صلى الله عليه وسلم .(سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ )
خلاصہ کلام یہ کہ شریعت میں اختلاف مذموم ہے اوراس سے بقدر استطاعت چھٹکارہ پاناواجب ہے کیونکہ یہ امت کی کمزوری کے اسباب میں سے ہے جیساکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایاہے اورآپس میں نزاع نہ کروکیونکہ کہیں ایسانہ ہو کہ تم شکست کھاجاؤ اورتمہاری ہوااکھڑجائے۔اوراس سے(شریعت میں اختلاف)سے راضی رہنا اوراس کو رحمت کانام دینا ان صریح آیات کے خلاف ہے جس میں اختلاف کی مذمت کی گئی ہے اوران (اختلاف کو رحمت قراردینے والوں)کی اس بارے میں سوائے اس حدیث کے کوئی دلیل نہیں ہے اوریہ حدیث بھی بے اصل ہے ۔
آپ نے شیخ البانی کاکلام ملاحظہ کرلیا۔ایک دوسرے سلفی عالم کابھی کلام دیکھیں وہ بھی کس تیور اورلہجہ میں فروعات میں اختلاف کی مذمت کرتے ہوئے
ومنها: أن الاختلاف ليس رحمة؛ بل إنه شقاق، وبلاء؛ وبه نعرف أن ما يروى عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «اختلاف أمتي رحمة»(1) لا صحة له؛ وليس الاختلاف برحمة؛ بل قال الله سبحانه وتعالى: { ولا يزالون مختلفين * إلا من رحم ربك } [هود: 118] أي فإنهم ليسوا مختلفين؛ نعم؛ الاختلاف رحمة بمعنى: أن من خالف الحق لاجتهاد فإنه مرحوم بعفو الله عنه؛ فالمجتهد من هذه الأمة إن أصاب فله أجران؛ وإن أخطأ فله أجر واحد؛ والخطأ معفو عنه؛ وأما أن يقال هكذا على الإطلاق: «إن الاختلاف رحمة» فهذا مقتضاه أن نسعى إلى الاختلاف؛ لأنه هو سبب الرحمة على مقتضى زعم هذا المروي!!! فالصواب أن الاختلاف شر.
شیخ ابن عثیمین اللہ تبارک وتعالیٰ کے اس ارشاد ان الذین اختلفوا لفی شقاق بعید کے فوائد میں بیان کرتے ہیں
اوراس میں یہ ایک یہ بھی ہے کہ اختلاف رحمت نہیں ہے بلکہ وہ دلوں کو پھاڑنے والی اورمصیبت ہے اوراوراسی کے ذریعہ ہم یہ جان سکتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث جوروایت کی جاتی ہے کہ میری امت کا اختلاف رحمت ہے تو وہ صحیح نہیں ہے اوراختلاف رحمت نہیں ہے بلکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا قول ہے اوروہ لوگ ہمیشہ آپس میں اختلاف کرتے رہیں گے مگر یہ کہ جس پر آپ کا رب رحم کرے۔ یعنی یہ کہ وہ آپس میں اختلاف نہیں کرتے ہیں ہاں اختلاف رحمت اس معنی میں ہے کہ جس نے اجتہاد کیا اوراس کا اجتہاد حق وصواب ہوا تواسے دوہرااجر ملے گا اورجس نے اجتہاد کیا اوراس کااجتہاد درست نہ ہوا تو اسے ایک اجر ملے گا اوراس کی یہ اجتہادی غلطی اللہ کے یہاں معاف ہوگی۔لیکن یہ مطلقا کہناکہ اختلاف رحمت ہے تواس کا تقاضہ تویہ ہے کہ ہم اختلاف کی کوشش کریں اس لئے کہ وہ رحمت کا سبب ہے اس حدیث کی روایت کرنے والے کے گمان پر ۔درست بات یہ ہے کہ اختلاف شر ہے۔
آپ نے اس خیال وفکر کے تین عالموں کی تحریر ملاحظہ فرمائی ۔الفاظ اگرچہ مختلف ہیں لیکن فکر ایک ہے اور وہ یہ کہ امت میں جوفروعی مسائل میں اختلاف ہے وہ اختلاف فی الدین کا مترادف ہے اور وہ شر ہے براہے امت کیلئے اوراس اس امت کی اجتماعیت کیلئے نقصان دہ ہے۔
ان حضرات کا بزعم خود گمان باطل یہ ہے کہ فروعی مسائل میں اختلاف کو رحمت قراردینے والوں کی دلیل یہ حدیث یااصحابی کالنجوم جیسی حدیث ہے جب کہ بات ایسی نہیں ہے ۔جن حضرات نے فروعی مسائل میں اختلاف کو رحمت کہاہے اوراسے رحمت سے تعبیر کیاہے وہ بڑے تابعی،تبع تابعین اجلہ علماء میں سے ہے۔
آپ کے علم میں اضافہ کیلئے یہ بات کہہ دوں کہ اس حدیث کی تکذیب کرتے ہوئے فروعی مسائل میں اختلاف کوجن حضرات نے تنقید کانشانہ بنایاہے اس میں سب سے پہلا نام مشہور معتزلی اورعربی ادیب جاحظ کاہے اوردوسراشخص وہ ہے جس کی عدالت مخدوش ہےجوموسیقی کا بڑاماہر تھا۔ یعنی اسحاق بن ابراہیم الموصلی ۔
اوران دونوں نے بھی وہی بات کہی ہے جوکہ ابن حزم نے کہی ہے ایسالگتاہے کہ ابن حزم نے انہی دونوں کی بات اپنے الفاظ میں نقل کردی ہے۔ یہ دونوں کہتے ہیں۔اورکچھ لوگ ان کی یہ بات آج تک دوہراتے چلے جارہے ہیں۔
شیخ البانی فروعی مسائل میں اختلاف پر اپنے مخصوص اسلوب تحریر میں لکھتے ہیں
و إن من آثار هذا الحديث السيئة أن كثيرا من المسلمين يقرون بسببه الاختلاف الشديد الواقع بين المذاهب الأربعة , و لا يحاولون أبدا الرجوع بها إلى الكتاب و السنة الصحيحة , كما أمرهم بذلك أئمتهم رضي الله عنهم , بل إن أولئك ليرون مذاهب هؤلاء الأئمة رضي الله عنهم إنما هي كشرائع متعددة ! يقولون هذا مع علمهم بما بينها من اختلاف و تعارض لا يمكن التوفيق بينها إلا برد بعضها المخالف للدليل , و قبول البعض الآخر الموافق له , و هذا ما لا يفعلون ! و بذلك فقد نسبوا إلى الشريعة التناقض۔
اس حدیث کے برے نتائج میں سے یہ بھی ہے کہ مذاہب اربعہ کے درمیان جو شدید اختلافات واقع ہیں اس کا اقرار کرتے ہیں اوران کو کتاب وسنت کی جانب رجوع کرنے کی کوشش نہیں کرتے جیساکہ ان کے ائمہ نے ان کو حکم دیاہے۔بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان ائمہ کے مذاہب متعدد شریعتوں کی طرح ہیں ۔یہ بات وہ یہ جان کربھی کہتے ہیں کہ ان مسالک میں جو اختلاف اورتعارض واقع ہے اس کو کسی طورپر دور کرنا ممکن نہیں مگر یہ دلیل کے ذریعہ ایک کور د کیاجائے اوردوسرے کو قبول کیاجائے۔اورایسایہ لوگ نہیں کرتے ہیں اوراس طرح تناقض کی نسبت شریعت کی جانب کرتے ہیں۔
اب یہاں سے کچھ ہماری گزارشات ان حضرات کی خدمت میں جو فروعی مسائل میں اختلاف کو قابل مذمت سمجھتے ہیں۔
ابن حزم ظاہری کے اقتباس کو دوبارہ دیکھئے۔
اسے شیخ البانی نے بھی تائیدانقل کیاہے اولاہم اس استدلال کی خامیاں نقل کرتے ہیں۔ کسی چیز کے رحمت لازم آنے سے یہ لازم کرنااورفرض ماننا کہ اس کی ضد عذاب اورزحمت ہوگی۔کچے ذہن کااستدلال ہے۔یہ سب سے زیادہ فاسد قول میں سے ایک ہوسکتاہے اس لئے کہ اگر اختلاف رحمت ہے تواتفاق عذاب ہوگا اوریہ ایسی بات ہے جسے کہنے کا کوئی بھی مسلمان روادار نہ ہوگا اس لئے یاتو اتفاق ہوگا یااختلاف ہوگا اور وہ بھی یاتو رحمت ہوگا یاعذاب ہوگا۔
اس استدلال کے پورابخیہ ادھیراہے علامہ خطابی نے جومشہور محدث اورفقیہ ہیں اورجن کی ابوداؤد کی شرح معالم السنن مشہور ہے ان کی بات کو پوری تفصیل اوروضاحت کے ساتھ بیان کریں گے۔
بہت مرتبہ ایساہوتاہے کہ کوئی شے اوراس کی ضد حکمت اورمصلحت میں ایک ہی درجہ کے ہوتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کاارشاد ہے ومن رحمتہ جعل لکم اللیل والنہار لتسکنوا فیہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دن اوررات دونوں کو رحمت میں شمار کیاہے حالانکہ ہرایک کو پتہ ہے کہ دن رات کی ضد ہے اوررات دن کے مخالف ہے لیکن یہ دونوں بیک وقت رحمت ہیں ارشاد ربانی کے مطابق۔اب جو منطق اورلاجک اولامعتزلیوں نے ،بعد ازاں،ابن حزم اوردور حاضر میں کچھ سلفی علماء نے پیش کی ہے اس کاتقاضاتویہ ہوناچاہئے تھاکہ اگر رات رحمت ہے تو دن عذاب ہے اوراگر دن عذاب ہے توپھر رات رحمت ہے حالانکہ کوئی بھی صاحب عقل وہوش اس کا مدعی نہیں ہوگا۔دولت خداکی نعمت ہے توکیافقروفاقہ خدا کا عذاب ہے کوئی یہ کہہ سکتاہے؟ ۔ سبھی کو معلوم ہے کہ امت کے بیشتر اولیاء اللہ بلکہ انبیا ء کرام کی زندگی فقر و فاقہ کا مر قع تھی خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب فقروفاقہ اوردولت سلطنت کے درمیان اختیار کی من جانب اللہ پیشکش ہوئی تھی توآپ نے فقروفاقہ کی زندگی پسند کی کہ ایک دن کھاؤں اورایک دن فاقہ کشی سے گزرے۔
صحت وتندرسی خداکی بڑی نعمت ہے لیکن اس کا کوئی یہ مطلب نہیں لیتا کہ بیماری خداکی ناراضگی اورعذاب ہے۔بلکہ وہ بھی مومن کیلئے خدا کی رحمت ہے ۔بارش کو عموماہم رحمت سے تعبیر کرتے ہیں اس کا کوئی یہ مطلب نہیں لیتاکہ جب بارش نہ ہورہی ہو تواب بندوں پر خدا کی رحمت باقی نہیں رہی۔
اب ہم دوسرے حصے کی جانب آتے ہیں اوراس میں میں اپنی ایک پرانی تحریر کا جستہ جستہ اقتباس پیش کرنا چاہوں گا۔
اختلاف امتی رحمۃ یااختلاف علمائ امتی رحمۃ بلاشبہ موضوع ہے اورکتب احادیث میں اس کاکوئی وجود نہیں ہے لیکن اس پر یہ دعوی کرنا کہ موضوع حدیث کاجو مفہوم ہے وہ بھی غلط اورباطل ہو ایک ناقابل تسلیم بات ہے۔
جس نے بھی وضع حدیث کی تاریخ پڑھی ہوگی وہ جانتاہے کہ بسااوقات وضاعین حدیث اورقصہ گویان حکمت اوردانشمندی کے اقوال جو مشہور تھے اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب کردیاکرتے تھے ۔اس بات کی نسبت حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی جانب غلط ہوسکتی ہے لیکن وہ دانشمندانہ قول وضاعین کی اس حرکت سے عقل ودانائی کی حد سے باہر کیسے ہوسکتاہے۔
طہ جابر العلوانی یااختلاف کے موضوع پر دوسرے لکھنے والوں میں سے ہرایک نے مذموم اختلاف کیاہےاس کی وضاحت کی لیکن فروعی اورفقہی مسائل میں جو اختلاف علمائ اورفقہائ کے درمیان ہے کیاوہ بھی مذموم ہے۔
اب کچھ لوگ اس سلسلے میں یہ کرتے ہیں کہ قرآن کی وہ آیتیں جوحق اورباطل کے درمیان اختلاف کی صورت میں مذمت یاعقائد میں اختلاف سے ممانعت کیلئے آئی ہیں ان کو فروعی مسائل کے اختلاف پر بھی چسپاں کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اسی لئے ضروری ہے کہ آیت کاشان نزول اوراس کا مصداق دیکھ لیاجائے اورسمجھ لیاجائے اوراس کے بعد آگے کلام کیاجائے۔
فروعی مسائل میں اختلاف رحمت خداوندی ہے اس کا اقرارواعتراف اجلہ تابعین اورفقہاء کرام نے کیاہے ان کی تصریحات ملاحظہ ہوں۔
قاسم بن محمد بڑے مرتبہ کے تابعی اورمدینہ کے فقہاء سبعہ میں سے ایک ہیں۔خاندانی شرافت میں بھی ممتاز ہیں۔ حضرت ابوبکرصدیق کے خانوادہ سے ان کا تعلق ہے آپ فرماتے ہیں۔
رسول اللہ کے اصحاب کا اختلاف لوگوں کیلئے رحمت ہے۔(ادب الخلاف ص
امام مالک کے نام نامی سے کون شخص ناواقف اورجاہل ہوگا۔ نامورمحدث اورائمہ اربعہ میں سے ایک ہیں ۔ان سے جب ہارون رشید نے درخواست کی اوراجازت چاہی کہ پورے اسلامی قلمرو میں موطا امام اما م مالک کے مطابق عمل نافذ کردیاجائے توانہوں نے جواب میں یہ فرمایا۔
اے امیر المومنین علماء کا اختلاف اللہ تعالیٰ کی اس امت پر رحمت ہے ہرایک اپنے نزدیک صحیح ثابت شدہ امر کی پیروی کرتاہے اورہرایک ہدایت پر ہے اورہرایک کا مقصد اللہ تعالی(کی رضا)ہے۔ (تاریخ بغداد،سیر اعلام النبلاء )
امام بغوی مشہور محدث ہیں ان کی کتاب شرح السنۃ محتاج تعارف نہیں ہے۔وہ اپنی تالیف شرح السنۃ (1/229) میں لکھتے ہیں۔
اما الاختلاف فی الفروع بین العلماء فاختلاف رحمۃ اراد اللہ ان لایکون علی المومنین حرج فی الدین فذلک لایوجب الجھران والقطیعة ،لان ھذاالاختلاف کان بین اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مع کونھم اخوانا موتلفین ،رحماء بینھم وتمسک بقول کل فریق منھم طائفة من اھل العلم بعدھم وکل طلب الحق وسلوک سبیل الرشد مشترکون۔
بہرحال فروعات میں علماء کے درمیان اختلاف کاواقع ہونا اللہ کی رحمت ہے۔اللہ کی مشیت اس کی متقاضی ہوئی کہ مومنین پر دین پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہ ہو ۔اسی لئے واجب ہے کہ فروعی اختلاف کی وجہ سے کسی کو چھوڑنااوربائیکاٹ نہیں کرناچاہئے اس لئے کہ یہ اختلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کے درمیان بھی موجود تھااوراسی کے ساتھ وہ آپس میں ایک دوسرے کے خیرخواہ،مہربانی کرنے والے تھے۔اورانہی کے اقوال سے بعد کے اہل علم نے استدلال کیاہے اوران میں سے ہرایک حق کا جویاہے اورہدایت کے راہ پر چلنے میں سبھی مشترک ہیں۔
ابن قدامہ بڑے محدث اورفقیہہ ہیں ۔مذہباحنبلی ہیں اوران کی کتاب المغنی فقہ کی نامور کتابوں میں شمار کی جاتی ہے بطور خاص فقہ حنبلی میں اسے ممتاز مقام حاصل ہے۔ وہ اپنی اس مایہ ناز کتاب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں۔
جعل فی سلف ھذہ الامة ایٔمة من الاعلام مھد بھم قواعد الاسلام واوضح بھم المشکلات الاحکام ،اتفاقھم حجة قاطعة واختلافھم رحمة واسعة
اللہ نے اس امت کے متقدمین میں ایسے نامور علماء اورایٔمہ پیداکیٔے جنہوں نے اسلام کے اصول وضوابط طے کیٔے (اصول فقہ)اوران کے ذریعہ احکام کے مشکلات کوواضح کیا۔ان کا کسی مسیئلہ پر اتفاق حجت قاطعہ اوران کااختلاف رحمت واسعہ ہے۔(ادب الخلاف 12)
علامہ شاطبی بڑے نامور فقیہ اوراصولی ہیں۔ ان کی کتاب الموافقات اورالاعتصام بہت مشہور ہے۔اول الذکر کتاب مقاصد شریعت کے بیان میں اورثانیت الذکر سنت وبدعت کے بیان میں اپنے موضوع پر فردفرید سمجھی جاتی ہے۔ وہ الاعتصام میں لکھتے ہیں۔
ان جماعۃ من السلف الصالح جعلوا اختلاف الامۃ فی الفروع ضربا من ضروب الرحمۃ ،واذاکان من جملۃ الرحمۃ فلایمکن ان یکون صاحبہ خارجا من قسم اہل الرحمۃ(شاطبی الاعتصام (2/170)
سلف صالحین کی ایک جماعت نے فروعی مسائل میں امت کے اختلاف کو رحمت کی اقسام میں سے ایک قسم قراردیاہے اورجب یہ اختلاف رحمت ہے توفروعی مسائل میں اختلاف کی وجہ سے کوئی اہل رحمت میں سے خارج نہیں ہوگا۔
ایک دوسرے مقام پر امام شاطبی لکھتے ہیں۔
انانقطع بان الخلاف فی مسایٔل الاجتہاد واقع فیمن حصل لہ محض الرحمة وھم الصحابۃ ومن اتبعھم باحسان(الاعتصام)
ہمارایقین جازم ہے کہ اجہتادی مسائل میں اختلاف جوکچھ واقع ہواہے وہ رحمت خداوندی کا تقاضاہے اوریہ اختلاف صحابہ اوران کے بعد والوں کے درمیان واقع ہواہے۔
رابطہ عالم اسلامی کی المجمع الفقہ الاسلامی کادسواں اجلاس جو مکہ مکرمہ میں 24 صفر1408ہجری مطابق 21اکتوبر1987میں ہوا تھا۔اس میں فقہی اورفروعی اختلافاتکے تعلق سے یہ قرارداد پاس کی گئی تھی۔
واماالثانی وھواختلاف المذاہب الفقھیۃ فی بعض المسائل فلہ اسباب علمیۃ وللہ سبحانہ فی ذلک حکمۃ بالغۃ،ومنھاالرحمۃ بعبادہ وتوسیع مجال استنباط الاحکام من النصوص ،ثم ھی بعد ذلک نعمۃ وثروۃ فقھیۃ تشریعیۃ تجعل الامۃ الاسلامیۃ فی سعۃ من امر دینھا وشریعتھا فلاتنحصر فی تطبیق شرعی واحد حصرا لامناص لھامنہ الی غیرہ، بل اذا ضاق بالامۃ مذہب احد الائمۃ الفقہاء فی وقت ما او فی امر ھا ،وجدت فی المذہب الآخر سعۃ ورفقا ویسرا ۔
دوسری بات جو فقہی مسالک کے بعض مسائل میں اختلاف کے بارے میں تواس کے کچھ علمی اسباب ہیں اوراللہ جل شانہ کی حکمت بالغہ اس میں کارفرماہے جس میں سے ایک یہ اس کی اپنے بندوں پر رحمت اورمہربانی ہے(یعنی یہ اختلاف اللہ تبارک وتعالیٰ کی اپنے بندوں پر مہربانی کے قبیل سے ہے)اورنصوص سے احکام کے استنباط کے دائرہ کو وسیع کرنا ہے۔ اس سب کے علاوہ یہ ایک نعمت ہے اورفقہی دولت وذخیرہ ہے جس کے ذریعہ امت اسلامیہ اپنے دین کے تعلق سے وسعت اورفراخی میں ہے کہ اسے ایک ہی شرعی حل پر منحصر نہیں رہناہے کہ اس سے دوسرے کی جانب جایاہی نہ جاسکے ۔ بلکہ امت پر جب بھی کسی امام کے مسلک میں کوئی تنگی اوردشواری ہوتی ہے خواہ وہ کسی قبیل سے ہو تودوسرے امام کے مسلک میں نرمی اورگنجاش اورسہولت ہوتی ہے۔
دیگر علماء کی تصریحات جو اس کے ہم معنی ہیں جو فروعی مسائل میں اختلاف کو جائز اورروا سمجھتے ہیں۔بے شمار ہیں۔ ہم محض طوالت سے گریز کرتے ہوئے اور اختصار کی غرض سے ادب الخلاف سے اجلہ علماء اورکے چند بیانات نقل کردیتے ہیں۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزرضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ صحابہ کرام آپس میں اختلاف نہ کرتے(فروعی مسائل میں)اس لئے اگر صرف ایک بات ہوتی تولوگ تنگی میں پڑجاتے اور وہ ایسے ائمہ ہیں جن کی پیروی کی جاتی ہے تو اگرکوئی شخص ان میں سے کسی ایک کے قول پر عمل کرے تواس کی گنجائش ہے۔
محمد بن عبدالرحمن الصیرفی کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل سے کہاکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے درمیان آپس میں اختلاف ہو توکیاہمارے لئے جائز ہے کہ ہم ان کے اقوال میں غور کریں تاکہ اس میں سے جودرست ہو اس کی پیروی کریں۔فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے اقوال کے درمیان غورکرنا جائز نہیں میں نے پوچھا کہ پھر کیاکیاجائے توفرمایاکہ ان میں سے جس کی چاہے تقلید کرو۔
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ نے مجموع فتاوی میں نقل کیاہے کہ ایک شخص نے (فقہائ وعلمائ) کے اختلافات پر ایک کتاب لکھی ۔توامام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس کو اختلاف کی کتاب کا نام مت دو بلکہ اس کو وسعت اورگنجائش کی کتاب کا نام دو۔
سنن دارمی میں باب اختلاف الفقہائ میں حمید سے منقول ہے کہ میں نے حضرت عمربن عبدالعزیز سے کہاکہ اگرآپ لوگوں کو کسی ایک چیز(فقہ)پر جمع کردیں توفرمایا کہ مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ وہ آپس میں فقہی مسائل میں اختلاف نہ کریں۔ پھر انہوں نے اپنی قلمرو میں تمام والیوں کو خط لکھاکہ ہر شہر یاولایت کے لوگ اسی پر عمل کریں جس پر ان کے فقہائ متفق ہوں۔(حوالہ کیلئے دیکھئے ادب الخلاف مصنف سعید بن عبدالقادربن سالم باشنفر،باب مشروعیۃ الاختلاف والادب فیہ)
کچھ اس پر بھی غورکیجئے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے ارشادات اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات ہی ایسے ہیں جس میں متعدد معانی کااحتمال اورگنجائش ہے۔اگراللہ تبارک وتعالیٰ کی مصلحت یہ ہوتی ہے کہ سارے لوگ ایک ہی مسلک اختیار کرلیں توپھر قرآن وحدیث میں دوٹوک اورمتعین طورپر حکم دیاجاتاجس میں ایک سے زیادہ معانی کااحتمال تک نہ ہوتا۔
مثلًااللہ تعالیٰ نے وضومیں سرکے مسح کو ضروری قراردیا اوراس سلسلہ میں حکم ان الفاظ میں فرمایا۔وامسحوابرؤسکم یہاں لفظ ب استعمال کیاگیاہے۔ ب کے معنی عربی زبان میں بعض حصہ کے بھی ہوتے ہیں اورب زائد بھی ہوتی ہے بعض مراد ہونے کی صورت میں معنی ہوگا بعضے سر کا مسح کرلو اورب کے زائد ہونے کی صورت میں معنی ہوگا۔ پورے سرکامسح کرو۔ظاہر ہے کہ اللہ کے علم میں یہ دونوں معنی پہلے سے ہیں۔ اگر اللہ چاہتے توبعض کومتعین کرتے یا بغیر ب وامسحوروسکم فرماتے تودونوں صورتوں میں معنی متعین ہوجاتا۔
قرآن مجیدمیں عورت کی عدت کیلئے تین قرئ گزارنے کا حکم دیاہے۔ قرئ کے معنی حیض کے بھی ہیں اورطہر کے بھی اس لئے بعض فقہائ نے تین حیض مدت قراردی ہے اوربعض نے تین پاکی۔ ظاہر ہے کہ قرئ کے دونوں معانی اللہ کے علم محکم میں پہلے سے تھے اگراللہ کا منشائ یہ ہوتاہے کہ احکام شرعیہ میں کوئی اختلاف رائے نہ ہو توقرآن میں قرئ کے بجائےصریحآ حیض یاطہر کالفظ استعمال کیاجاتا۔اس سے کیاثابت ہوتاہے؟یہی ناکہ قرآن یاحدیث کو سمجھنے میں اگر اختلاف رائے ہے اوردونوں کے پاس دلیل موجود ہے تو اس پر نکیر نہیں کرنی چاہئے۔
مجھے امید ہے کہ یہ چند الفاظ اس بحث کو سمجھنے میں مدددین گے اورجن کے دلوں میں کچھ شبہات ہیں وہ ختم ہوں گے۔
نوٹ اس مضمون میں جوکچھ اقوال نقل کئے گئے ہیں وہ سب کے سب سعید بن عبدالقادر بن سالم باشنفر کی کتاب ادب الاختلاف سے ماخوذ ہے۔حوالوں کیلئے اس کی جانب رجوع کرین۔ویسے اس میں جتنے حوالے یاااقوال آئے ہیں وہ سب کے سب کم وبیش مشہور محدث ابن عبدالبر کی مشہور کتاب جامع بیان العلم وفضلہ میں بھی موجود ہیں مزید تحقیق کیلئے اس کی جانب بھی مراجعت کی جاسکتی ہے۔ واللہ ولی التوفیق
کچھ اس پر بھی غورکیجئے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے ارشادات اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات ہی ایسے ہیں جس میں متعدد معانی کااحتمال اورگنجائش ہے۔اگراللہ تبارک وتعالیٰ کی مصلحت یہ ہوتی ہے کہ سارے لوگ ایک ہی مسلک اختیار کرلیں توپھر قرآن وحدیث میں دوٹوک اورمتعین طورپر حکم دیاجاتاجس میں ایک سے زیادہ معانی کااحتمال تک نہ ہوتا۔
مثلًااللہ تعالیٰ نے وضومیں سرکے مسح کو ضروری قراردیا اوراس سلسلہ میں حکم ان الفاظ میں فرمایا۔وامسحوابرؤسکم یہاں لفظ ب استعمال کیاگیاہے۔ ب کے معنی عربی زبان میں بعض حصہ کے بھی ہوتے ہیں اورب زائد بھی ہوتی ہے بعض مراد ہونے کی صورت میں معنی ہوگا بعضے سر کا مسح کرلو اورب کے زائد ہونے کی صورت میں معنی ہوگا۔ پورے سرکامسح کرو۔ظاہر ہے کہ اللہ کے علم میں یہ دونوں معنی پہلے سے ہیں۔ اگر اللہ چاہتے توبعض کومتعین کرتے یا بغیر ب وامسحوروسکم فرماتے تودونوں صورتوں میں معنی متعین ہوجاتا۔
قرآن مجیدمیں عورت کی عدت کیلئے تین قرئ گزارنے کا حکم دیاہے۔ قرئ کے معنی حیض کے بھی ہیں اورطہر کے بھی اس لئے بعض فقہائ نے تین حیض مدت قراردی ہے اوربعض نے تین پاکی۔ ظاہر ہے کہ قرئ کے دونوں معانی اللہ کے علم محکم میں پہلے سے تھے اگراللہ کا منشائ یہ ہوتاہے کہ احکام شرعیہ میں کوئی اختلاف رائے نہ ہو توقرآن میں قرئ کے بجائےصریحآ حیض یاطہر کالفظ استعمال کیاجاتا۔اس سے کیاثابت ہوتاہے؟یہی ناکہ قرآن یاحدیث کو سمجھنے میں اگر اختلاف رائے ہے اوردونوں کے پاس دلیل موجود ہے تو اس پر نکیر نہیں کرنی چاہئے۔
مجھے امید ہے کہ یہ چند الفاظ اس بحث کو سمجھنے میں مدددین گے اورجن کے دلوں میں کچھ شبہات ہیں وہ ختم ہوں گے۔
نوٹ اس مضمون میں جوکچھ اقوال نقل کئے گئے ہیں وہ سب کے سب سعید بن عبدالقادر بن سالم باشنفر کی کتاب ادب الاختلاف سے ماخوذ ہے۔حوالوں کیلئے اس کی جانب رجوع کرین۔ویسے اس میں جتنے حوالے یاااقوال آئے ہیں وہ سب کے سب کم وبیش مشہور محدث ابن عبدالبر کی مشہور کتاب جامع بیان العلم وفضلہ میں بھی موجود ہیں مزید تحقیق کیلئے اس کی جانب بھی مراجعت کی جاسکتی ہے۔ واللہ ولی التوفیق