ایک بار امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سفرمیں تھے، ایک قصبے میں رات ہو گئی تو نماز کے بعد مسجد میں ہی ٹھہرنے کا ارادہ کر لیا۔امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی عاجزی و انکساری نے یہ گوارا نہ کیا کہ لوگوں کو اپنا تعارف کروا کر خوب آؤ بھگت کروائی جائے۔ مسجد کے خادم نے امام رحمہ اللہ کو نہ پہچانا اور اور امام رحمہ اللہ کو مسجد سے باہر نکل جانے کو کہا، امام رحمہ اللہ نے سوچا کہ مسجد کے دروازے پر سو جاتا ہوں، لیکن خادم نے وہاں سے بھی کھینچ کر نکالنا چاہا۔
یہ تمام منظرایک نانبائی نے دیکھ لیا جو مسجد کے قریب ہی رہتا تھا، اُس نانبائی نے امام رحمہ اللہ کو اپنے گھر رات گزارنے کی دعوت دی جبکہ وہ امام رحمہ اللہ کو جانتا بھی نہیں تھا۔ امام رحمہ اللہ جب اُس کے گھر تشریف لے گئے تو دیکھا کہ نانبائی کام کے دوران بھی کثرت سے استغفار (استغفر اللہ) پڑھ رہا ہے۔
امام رحمہ اللہ نے نانبائی سے پوچھا: کیا تمہیں اس قدر استغفار کرنے کا پھل ملا ہے؟
نانبائی نے جواب دیا: میں نے جو بھی مانگا اللہ رب العزت نے عطا کیا ۔۔۔۔ ہاں ایک دعا ہے جو ابھی تک قبول نہیں ہوئی۔
امام رحمہ اللہ نے پوچھا: وہ کونسی دعا ہے؟
نانبائی بولا: میرے دل میں کچھ دنوں سے یہ خواہش مچل رہی ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے ملنے کا شرف حاصل کروں۔
امام رحمہ اللہ فرمانے لگے: میں ہی احمد بن حنبل ہوں۔ اللہ نے نا صرف تمہاری دُعا سُنی بلکہ مجھے تمہارے دروازے تک کھینچ لایا.
یہ تمام منظرایک نانبائی نے دیکھ لیا جو مسجد کے قریب ہی رہتا تھا، اُس نانبائی نے امام رحمہ اللہ کو اپنے گھر رات گزارنے کی دعوت دی جبکہ وہ امام رحمہ اللہ کو جانتا بھی نہیں تھا۔ امام رحمہ اللہ جب اُس کے گھر تشریف لے گئے تو دیکھا کہ نانبائی کام کے دوران بھی کثرت سے استغفار (استغفر اللہ) پڑھ رہا ہے۔
امام رحمہ اللہ نے نانبائی سے پوچھا: کیا تمہیں اس قدر استغفار کرنے کا پھل ملا ہے؟
نانبائی نے جواب دیا: میں نے جو بھی مانگا اللہ رب العزت نے عطا کیا ۔۔۔۔ ہاں ایک دعا ہے جو ابھی تک قبول نہیں ہوئی۔
امام رحمہ اللہ نے پوچھا: وہ کونسی دعا ہے؟
نانبائی بولا: میرے دل میں کچھ دنوں سے یہ خواہش مچل رہی ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے ملنے کا شرف حاصل کروں۔
امام رحمہ اللہ فرمانے لگے: میں ہی احمد بن حنبل ہوں۔ اللہ نے نا صرف تمہاری دُعا سُنی بلکہ مجھے تمہارے دروازے تک کھینچ لایا.