سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ

محمد نبیل خان

وفقہ اللہ
رکن
1459100_554853684597437_646263005_n.jpg
خلیفہ ثانی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ.. یکم محرم یوم شہادت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی مناسبت سے لکھی گئی خصوصی تحریر.. اسلام کی سنہری تاریخ کی طرف اگر نگ...اہیں اٹھائی جائیں تو ایسی گرانقدر اور عظیم ہستیاں انسانی آنکھوں کو خیرہ کرتی نظر آتی ہیں جن کی مثال ملنا محال ہے.. اگرچہ اسلام کی ابتدائی حالت ضعف سے دوچار تھی مگر اللہ نے اپنے اس دین کی کمر مضبوط کرنا تھی.. لہٰذا پیارے رسول جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے سپہ سالار اور جانشین عطا کئے کہ جنہوں نے اس کو اپنے لہو سے سیراب کرکے ایسی بنیاد مہیا کی کہ وہ مضبوط تنآور شجر کی صورت اختیار کرگیا.. جس کی شاخیں شرق و غرب کو چھونے لگیں.. اس دین کی بار آوری کے لیے جن عظیم شخصیات نے قربانیاں دیں ان میں ایک لہلہاتا پھول خلیفہ دوم سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی صورت میں کھلکھلاتا نظر آتا ہے.. جو اپنوں کے لئے نرم خو اور غیروں کے لئے ترش رو تھے.. جنہوں نے حق پر سر تسلیم خم کردیا تو ان کے لئے مشفق و مہربان باپ کی صورت اختیار کر گئے.. مگر جنہوں نے راہ حق سے روگردانی کی ان کے لئے فولاد کی طرح سخت بن گئے.. اس چھوٹی سی تحریر میں آپ کی زندگی کے روشن پہلوﺅں پر نظر ڈالنا گویا سورج کے سامنے دیا سلائی جلانا ہے.. آپ عظیم صحابی ' عظیم خلیفہ و حکمران ' عظیم مدبر و مفکر تھے.. آپ کے قبول اسلام سے قبل مسلمان انتہائی کمزور و ضعیف تھے.. چھپ چھپ کر عبادتیں کیا کرتے تھے.. اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر طرح طرح کے ظلم و ستم ڈھائے جاتے تھے.. حتی کہ ان کا دائرہ اس قدر وسیع ہوچکا تھا کہ قلم اس کا نقشہ کھینچنے سے قاصر ہے.. مگر جیسے ہی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام کو سینے سے لگایا تو مسلمانوں میں خوشی کی ایک ایسی لہر دوڑ گئی کہ سب نے مل کر نعرہ تکبیر کی صدا بلند کی جس کی آواز اردگرد میں دور دور تک سنی گئی.. عمر (رضی اللہ عنہ) گھر سے نکلے تاکہ اسلام کے عظیم داعی و پیغمبر جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا خاتمہ کردیں مگر اس خوش بخت کے کیا کہنے کہ اللہ نے اس شیر کو اسلام کا حامی بنادیا اور ایسا حامی کہ اپنے اسلام کا علی الاعلان اظہار فرمادیا.. جو مسلمان گھروں میں چھپ چھپ کر عبادتیں کیا کرتے تھے ' اب سب کے سامنے کعبہ میں نمازیں ادا کرنے لگے.. اہلیان اسلام پر سختیوں کا وسیع دائرہ سکڑ گیا.. غرض کہ اسلام کو ایک ایسی بنیاد مل گئی کہ اسلام کا ڈگمگاتا بیڑہ تیزی سے منزل مقصود کی جانب رواں دواں ہونے لگا.. خوب گورے چٹے ' سرخی مائل رنگ ' ہاتھ پاﺅں اور ہتھلیاں موٹی ' گوشت سے پر اعضا ' دراز قامت ' مضبوط جسم ' سر کے سامنے سے بال گرے ہوئے ' قد و قامت اتنی جمی گویا گھوڑے پر سوار ہوں ' طاقتور ' بہادر ' تیز چلتے تھے ' اونچا بولتے تھے.. رعب دار آواز ' مارتے تو کاری ضرب لگاتے تھے.. یہ تھے خلیفہ ثانی..!! آپ کا نام عمر بن خطاب بن نفیل تھا.. کنیت ابو حفض تھی.. لقب فاروق تھا کیونکہ مکہ میں آپ کے اظہار اسلام کی وجہ سے اللہ نے کفر و ایمان کے درمیان واضح جدائی کروادی.. اللہ نے آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی وجہ سے اسلام کے نور سے مالامال فرمایا.. آپ دور جہالت میں جس قدر مسلمانوں کے سخت مخالف تھے بعینہ اسلام لانے کے بعد اس سے اور بڑھ کر اسلام و اہل اسلام کے ہمدرد بن گئے.. چونکہ آپ سردار تھے اور آپ کا شمار قریش کے چوٹی کے سرداروں میں ہوتا تھا اس لیے آپ کے اسلام لانے سے مسلمانوں کی کمر مضبوط ہوگئی اور ان کے حوصلے پختہ ہوگئے.. آپ نے دین اسلام کی نصرت و تائید کے لیے دن رات ایک کردیا.. آپ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر کفار کو ناکوں چنے چبانے کا فیصلہ کرلیا تھا.. اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذرا سی گستاخی پر آپ کا خون کھول اٹھتا.. آنکھیں سرخ ہوجاتیں.. چہرہ لال ہوجاتا.. ہاتھ تلوار کے دستے پر چلے جاتے اور غصے سے کانپنے لگتے.. فرماتے.. " اے آقا ! مجھے اجازت دیجئے.. میں اس شخص کی گردن تن سے جدا کردوں.. " مگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم صبر کی تلقین کرتے تو غصہ اترجاتا.. آپ "اطیعواللہ واطیعو الرسول" کا عملی نمونہ تھے.. شریعت کے سختی سے پابند تھے.. اللہ نے آپ کو عقل سلیم سے منور فرمایا تھا.. یہی وجہ تھی آپ کی زبان سے کتنی ایسی تجاویز ادا ہوئیں جو اللہ کو اس قدر پسند آئیں کہ قرانی آیات کا نزول فرمادیا.. آپ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر ہرغزوہ میں شرکت کی اور مشرکین مکہ کے دانت کھٹے کیے.. اپنے مال وجان سے اور وقت سے اسلام کی تائیدکی.. اسی طرح آپ سیدنا ابوبکر صدیق کے دور میں بھی انکے لیے مضبوط سہارا بنے رہے.. یہاں تک کہ خلافت کا بارگراں آپ کے کندھوں پر آگرا.. آپ نے سب سے پہلے بطور خلیفہ جو خطبہ دیا وہ کچھ اس طرح سے تھا.. " اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعے سے تم کو آزمایا ہے اور میرے دونوں رفقاء (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) کے بعد تہمارے ذریعے مجھ کو آزمایا ہے.. اللہ کی قسم ! تمہارا جو معاملہ میرے سامنے پیش ہوگا میں خود اس کو حل کروں گا اور جو معاملات مجھ سے دور ہوں گے ان کے لیے قوی و امین حضرات کو مقرر کروں گا.. اللہ کی قسم ! اگر لوگوں نے مجھ سے اچھا برتاﺅ کیا تو میں بھی ان سے اچھا برتاﺅ کروں گا اور اگر غلط طریقے سے پیش آئے تو ان کو سزا دوں گا.. " اسی طرح آپ نے اور بھی چند نصیحتیں کیں.. آپ فرمایا کرتے تھے کہ "حاکم جب تک اللہ کے حقوق ادا کرتا ہے رعایا اسکے حقوق ادا کرتی ہے اور جب حاکم اللہ کے حقوق پامال کرنا شروع کردیتا ہے تو رعایا اس کے حقوق پامال کرنے لگتی ہے.." اسی لیے تو آپ حقوق اللہ پر سختی سے کاربند رہے.. جو لوگ حقوق اللہ کو ادا کرنے میں سستی و کاہلی کا مظاہرہ کرتے تھے آپ ان کی سرزش کیا کرتے تھے.. خلافت کے بارگراں کے کندھوں پر آجانے کے بعد آپ نے مسلمانوں کے غم کو اپنا سمجھا.. آپ فرمایا کرتے تھے.. " اگر اللہ نے مجھے صحیح سالم رکھا تو عراق کی کسی بیوہ کو محتاج نہ چھوڑوں گا جو میرے بعد کسی سے اپنی ضرورت مانگے.. " اس لیے راتوں کے اندھیروں میں غلہ کمر پر لاد کر غریب و مستحقین تک پہنچایا کرتے تھے.. طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک رات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنے گھر سے نکلے.. میں نے آپ کو دیکھ لیا.. آپ رات کی تاریکی میں ایک گھر سے دوسرے گھر میں داخل ہوتے اور نکلتے تھے.. صبح ہوئی تو میں ان گھروں میں آگیا.. ایک گھر میں بوڑھی نابینا خاتون بیٹھی ملی.. پوچھا کہ یہ شخص جو رات کو آپ کے گھر آتا ہے کون ہے اور کیوں آتا ہے..؟ اس نے جواب دیا کہ جو بھی آتا ہے وہ کافی عرصہ سے میرے گھر آتا ہے.. ہمیں اشیائے ضرورت دے کر چلا جاتا ہے اور ہماری پریشانیوں کو دور کرتا ہے.. یہ سن کر طلحہ نے اپنے آپ کو کہا.. "تیرا برا ہو.. تو عمر کی خامیاں تلاش کرتا ہے.. "
رضی اللہ عہم ورضو عنہ​
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا:
“ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، آپ جس راستے پہ چلتے ہیں، شیطان وہ راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کرلیتا ہے۔“

(مصنف ابن ابی شیبہ:32662)
 
Top