شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان رحمہ اللہ

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
یہ صدر ایوب کا دور تھا۔حضرت مولانا غلام اللہ خان رحمہ اللہ نے حسب معمول ایک زبردست تقریر فرمادی ۔ انہیں راولپنڈی سے بدر کر کے ان کے آبائی گاؤں حضرو میں پابند کردیا گیا۔ حضرت گاؤں سے باہر نہیں جا سکتے تھے۔ وہ شہباز لاہوتی جس کے پروں کے پھڑ پھڑاہٹ اور سر سراہٹ پورے ملک کی فضاؤں میں محسوس ہوتی تھی ۔ اس قید میں کب تک محصور رہتا۔ راولپنڈی کی ایک سیاسی رہنما کی معرفت مجھے پیغام بھیجا۔ آپ پیچ میں پڑیں۔ رمضان کی آمد آمد ہے۔ اور میرا دورہ تفسیر متاثر ہو رہا ہے۔ ساتہ ہی متنبہ فرمادیا۔ کہ میں کوئی شرط قبول نہیں کروں گا۔حکومت خود ہی غلطی کی تلافی کرے۔
صدر ایوب خان لاہور تشریف لائے۔ میں اُن کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میرا اُن کی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ لیکن ذاتی طور پر ان سے مخلصانہ تعلقات تھے،اور ہمیشہ میرے ساتہ شفقت فرماتے تھے۔میں نے مولانا غلام اللہ خان رحمہ اللہ کی رہائی کی بات کی تو غضب ناک ہو گئے۔ کیونکہ مولانا رحمہ اللہ کچھ ایسی باتیں کہ جاتے تھے۔ کہ ہردور میں انہیں برداشت کرنامشکل رہا۔ اور ان کیا مدرسہ جامعہ تعلیم القرآن بھی دارالسلطنت میں واقع تھا۔جب بھی حضرت اپنی گرج دار آواز میں اہل اقتدار کو پکارتے ۔ ان کے ایوانوں میں زلزلہ آجاتا۔
صدر ایوب کو بھی کچھ ایسی ہی شکایات تھیں۔لیکن میری خاطر پابندی اٹھانے پر تیار ہو گئے۔ حضرت مولانا غلام اللہ خان رحمہ اللہ راولپنڈی شہر میں واپس آگئے۔تو میں نے ہاتہ جوڑ کر رہا۔
“ حضرت دیکھنا میری لاج رکھنا،جانتا ہوں کہ للکار تو آپ کی گفتار کا خاصا ہے۔ کلام کی گرمی تو نہیں جائے گی ۔ مگر اتنی گزارش ہے وار بھر پور نہ ہو، ہاتھ زرا سا نرم رہے۔مگر سورج سے حرارت سمندر سے پانی اور ستاروں سے چمک جاسکتی ہے۔ جو مولانا غلام اللہ خان رحمہ اللہ سے یہ آداب جنون چھٹتے، جلد ہی سننے میں آیا۔ کہ مولانا نے پہر ایسی کوئی جنونی تقریر کی ہے۔ اور محکمہ اوقاف نے ان کی مسجد اور محلق دکانوں کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ملاقات ہوئی تو وہی پہلا سا دم خم وہی عزم حق گوئی اور وہی آئین جواں مردی
ایک طرف تو مزاج میں یہ جلال اور دوسری طرف طبیعت میں یہ جمال کہ اگر اپنے حلقہ احباب میں ہوتے تو بچھ بچھ جاتے۔ ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا۔ کہ میں لاہور سے راولپنڈی آیا ہوں۔ اور مولانا نے اپنا وسیع و عریض دستر خوان نہ بچھایا ہو۔ اور پہر کھانے کے انواع و اقسام کے چیزیں ایک ایک کرکے سامنے رکھتے جارہے ہیں، اور اصرار پر اصرار کیے جا رہے ہیں۔اور میں نے علماء اکرام میں اتنا فیاض اور دوستوں کو کِھلا کر خوش ہونے والا شخص نہیں دیکھا۔ اپنے حلقہ ادارت بلکہ اپنے شاگردوں کو اپنے دارالعلوم کے سالانہ جلسہ میں خطاب کے لیے بلاتے، تو زبردستی سیکنڑوں روپوں کے لفافے اُن کے جیبوں میں ٹھونس کر انہیں واپس بھجواتے۔ کسی کا لباس پرانا دیکھتے تو نیا لباس بنواکر دے دیتے۔علماء میں سے بہت سے ضرورت مند کو قرض حسنہ امداد کرتے ۔ مگر پہر اس کی واپسی کا کیا سوال ۔ اپنا لباس اور کھانا پینا بھی شاہانہ تھا۔ مجھےاکثر کہا کرتے تھے۔
“ مولانا علماء اکرام کو دنیا داروں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی خوش لباس اور خوش وضع ہونا چاہیئے، ان بد بختوں کے تکبر کا علاج ان کے سامنے عاجزی کرنے میں نہیں تکبر ہی کرنے سے ہوگا۔ لوہا ہی لوہے کو کاٹتا ہے۔“
اور میں جانتا ہوں جب مولانا یہ کہتے تو ان کے سامنے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہو تا تھا۔
التکبر مع المتکبرین تواضع
“اہل تکبر کے ساتہ تکبر کے ساتھ پیش آنا اللہ کے نزدیک تکبر نہیں عاجزی ہے۔“

سابق وفاقی وزیر مزہبی امور مولانا کوثر نیازی رحمہ اللہ کی کتاب سے اقتباس
 
Top