شوق آخرت

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
شوقِ آخرت​

نام کتاب: شوقِ آخرت۔
مصنف: حکیم الامۃ مجدد الملۃ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ
( موت، برزخ ،حشر ونشر ، جنت وجہنم وغیرہ کا تذکرہ صحیح احادیث کی روشنی میں​
یں

پہلا باب​

امراض ومصائب کے ثواب میں:
عن ابی سعید عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال ما یصیب المسلم من نصب ولاھم ولا حزن ولا اذیٰ ولا غم حتی الشوکۃ یشاکھا الا کفر اللہ بھا من خطایاہ ( مفتق علیہ ۔ مشکوٰۃ)
ترجمہ: حضرت ابو سعید پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ کسی مسلمان کو کوئی مشقت اور تعب اور فکر اور رنج اور اذیت اور غم نہیں پہنچتا یہاں تک کانٹا بھی لگ جاوےجس میں اس کے گناہوں کا کفارہ نہ ہوتا ہو۔) بخاری ومسلم ۔

عن جابر قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لام السائب لاتسبی الحمی فانھا تذھب خطایا بنی آدم کما یذھب الکیر خبث الجدید۔ (رواہ مسلم ، مشکوٰۃ )
ترجمہ: حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سائب سے فر مایا کہ بخار کو برا مت کہو وہ بنی آدم کے گناہوں کو اس طرح دور کرتا ہے جیسا بھٹی لوہے کے میل کو دور کرتی ہے (مسلم)

عن انس قال سمعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقول قال اللہ سبحانہ وتعالیٰ اذا ابتلیت عبدی بحیبیتہ ثم صبر عوضتہ منھا الجنۃ یرید عینیہ ( رواہ البخاری ، مشکوٰۃ )
ترجمہ: حضرت انس سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ حق تعالیٰ فر ماتے ہیں کہ جب میں اپنے بندے کو اس کی دو پیاری چیزوں آنکھوں کو مصیبت میں گرفتار کرتا ہوں پھر وہ صبر کرتا ہے تو اس کے عوض جنت دیتا ہوں ( مشکوٰۃ)

عن انس ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال اذا ابتلی المسلم ببلاء فی جسدہ قیل للملک اکتب لہ صالح عملہ الذی کان یعمل فان شفاء غسلہ وطھرہ وان قبضہ غفر لہ ورحمہ
۔رواہ فی شرح السنۃ ( مشکوٰہ)
ترجمہ: حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ جب مسلمان کسی بلائے جسمانی یعنی مرض وغیرہ میں مبتلا ہوتا ہے ، تو فر شتہ کو ( جو اس کے اعمال صالحہ لکھا کرتا تھا ) حکم ہو جاتا ہے کہ جو نیک عمل یہ پہلے سے ( یعنی حالت صحت میں ) کیا کرتا تھا وہ سب لکھتے رہو پھر اللہ تعالیٰ اگر اس کو شفا دے دیتا ہے تو اس کو پاک وصاف کر دیتا ہے اور اگر وفات دیتا ہے تو اس کے ساتھ مغفرت ورحمت کا معاملہ فر ماتا ہے ( مشکوٰۃ)

عن محمد ابن خالد السلمی عن ابیہ عن جدہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان العبد اذا سبقت لہ من اللہ منزلہ لم یبلغھا بعملہ ابتلاہ اللہ فی جسدہ او فی ما لہ او ولدہ لم صبرہ علیٰ ذالک حتی یبلغہ المنزلۃ التی سبقت لہ من اللہ ۔رواہ احمد وابو داود (مشکوٰہ)
تر جمہ: محمد بن خالد اپنے باپ اور دادا کے واسطہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے ارشاد فر مایا کہ جب بندے کے لئے کوئی مرتبہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تجویز ہوتا ہے جس پر وہ اپنے عمل کے ذریعہ نہیں پہنچ سکتا تو اللہ تعالیٰ اس کے جسم پر یا اس کے مال یا اس کی اولاد میں کوئی بلا مسلط کر کے اس کو صبر دیتا ہے حتی کہ وہ اس مرتبہ پر پہنچ جاتا ہے ( مشکوٰۃ)

عن جابر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یود اھل العافیۃ یوم القیمۃ حین یعطی اھل البلاء الثواب لو ان جلودھم کانت قرضت فی الدنیا با لمقاریض۔ ( رواہ التر مذی، مشکوٰۃ)
تر جمہ: حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا کہ قیامت کے روز جس وقت اہل مصیبت کو ثواب عطا ہو گا اس وقت اہل عافیت تمنا کریں گے کہ کاش دنیا میں ہماری کھال قینچیوں سے کاٹی جاتی ( تاکہ ہم کو بھی ایسا ہی ثواب ملتا ( مشکوٰۃ)

عن عائشہ قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا کثرت ذنوب العبد ولم یکن لہ ما یکفرھا من العمل ابتلاہ اللہ با لحزن لیکفرھا عنہ ( رواہ احمد ، مشکوٰۃ)
تر جمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ جب بندے کے گناہ بڑھ جاتے ہیں اور اس کے پاس کوئی نیک عمل ایسا نہیں، جو ان کا کفارہ ہو سکے تو خدا تعالیٰ اس کو کسی غم میں مبتلا فر ماتا ہے تا کہ وہ اس کا کفارہ ہو جائے ۔( احمد ، مشکوٰۃ)
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
گذشتہ سے پیوستہ
دوسرا باب
طاعون کی فضیلت

عن انس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اطاعون شھادۃ کل مسلم (ن متفق علیہ مشکوٰۃ)

تر جمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ طاعون سے مسلمانوں کیلئے شہادت کا درجہ ملتا ہے ( بخاری ، مسلم ، مشکوٰۃ)

عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الشھداء خمسۃ المطعون المبطون والغریق وصاحب الھدم والشھداء فی سبیل اللہ ( متفق علیہ)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا کہ شھداء پانچ قسم کے ہیں ، طاعون والا اور جس کو پیٹ کی بیماری ہو ( جیسے اسھال استسقاء) اور جو غرق ہو جائے ( ڈوب جائے ) اور جس پر مکان گر پڑے اور جو جہاد میں شہید ہو جائے ( بخاری ومسلم )

عن عائشہ قالت سالت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن الطاعون فا خبرنی انہ عذاب یبعثہ اللہ علی من یشاء وان اللہ جعلہ رحمۃ للمؤمنین لیس من احد یقع الطاعون فیمکث فی بلدہ صابرا محتسبا یعلم انہ لا یصیبہ الا ما کتب اللہ لہ الا کان لہ مثل اجر شھید ( رواہ البخاری ، مشکوٰۃ )
تر جمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے طا عون کی نسبت دریافت کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ یہ ( بعض کیلئے ) ایک طرح کا عذاب ہے کہ اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے ( بطور عذاب ) بھیجتا ہے ( اس بعض سے مراد کفار ہیں جیسا تقابل مومنین اس کا قرینہ ہے ) اور اللہ تعالیٰ نے اس کو اہل ایمان کیلئے رحمت بنایا ہے جو شخص وقوع طاعون کے وقت اپنی بستی میں صابر اور امید وار ثواب ہو کر اس اعتقاد سے ٹھرا رہے گا تو اس کو شھید کے برابر ثواب ملے گا ( بخاری ، مشکوٰۃ)

فائدہ : یہ ثواب صرف وہا ں ٹھرا رہنے اور نہ بھاگنے سے ملتا ہے گو اس میں مرے نہیں اور طاعون میں مر جانے کے فضائل اس کے علاوہ ہیں ۔ فقط۔

عن علیم الکندی قال کنت مع ابی عبس الغفاری علیٰ سطح فرای قوما یتحملون من الطاعون قال یا طاعون خذلی الیک ثلاثا الحدیث ( رواہ ابن عبد البر والمرفوزی والطبرانی ( شرح الصدور)
تر جمہ:علیم کندی سے روایت ہے کہ میں ابو عبس غفاری کے ساتھ ایک چھت پر تھا انہوں نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ طاعون سے شہر چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں فر مانے لگت اے طاعون مجھ کو لے لے ( کہ میں متمنی ہوں ) روایت کیا اس کو عبد البر مروزی واحمد طبرانی ( شرح الصدور )
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
نمبر 3
[align=center][align=center]تیسرا باب
حیات پر موت کو تر جیح​
[/align][/align]


[size=x-large]عن عبد اللہ بن عمر قال قال رسول اللہ ﷺ تحفۃ المؤمنین الموت، اخرجہ ابن المبارک وابن ابی الدردء والطبرانی والحاکم
[/size]

عن محمود ابن لبید ان النبی ﷺ قال یکرہ ابن اٰدم الموت والموت خیر من الفتنۃ ، اخرجہ احمد وسعید بن منصور
محمود ابن لبید سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ آدمی موت کو نا گوار سمجھتا ہے حالانکہ موت اس کے لئے دین میں خرابی پڑنے سے بہتر ہے۔

فائدہ: یعنی موت میں یہ نفع ہے کہ دین بگڑنے کا اندیشہ نہیں اور حایت میں اس کا خوف لگا رہتا ہے خصوصا جب اس کے اسباب بھی جمع ہوں ۔ نعوذ با اللہ

عن عبد اللہ ابن عمر وبن العاص عن النبی ﷺ قال الدنیا سجن المؤمن وسنۃ فاذا فارق الدنیا فارق السجن والسنۃ ( اخرجہ ابن المبارک والطبرانی)
ترجمۃ: حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ پیغمبر ﷺ نے فر مایا دنیا مومن کا قید خانہ اور مقام قحط ہے ( کہ راحت ونعمت دونوں کم ہیں ) سو جب دنیا کو چھوڑنا ہے تو جیل خانہ اور مقام قحط کو چھوڑتا ہے ( کیونکہ آخرت میں راحت اور نعمت دونوں کامل ہیں)

عن انس قال قال رسول اللہ ﷺ الموت کفارۃ لکل مسلم ( اخرجہ ابو نعیم )
تر جمہ: حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فر مایا کہ موت ہر مسلمان ( کے گناہوں ) کا کفارہ ہے ( کہ اس کی تکالیف سے گناہ معاف ہوتے ہیں کل یا بعض ، علیٰ اختلا الاحوال ۔

عن ابی مالک الاشعری قال قال رسول اللہ ﷺ اللھم حبب الموت الی من یعلم الیٰ رسولک ( اخرجہ الطبرانی )
حضرت ابو مالک اشعری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دعا کہ الٰہی جو شخص میرے رسول ہونے کا اعتقاد رکھتا ہے موت کو اس کا محبوب بنا دیجئے۔

عن انس ان النبی ﷺ قال ان حفظت وصیتی فلا یوکن شئی وحب الیک من الموت ، ( اخرجہ الاصبھانی)
تر جمہ: حجرت انسؓ سے روایت ہے کہ ان سے نبی ﷺ نے فر مایا کہ اگر میری نصیحت یاد رکھو تو تم کو موت سے بڑھ کر کوئی چیز محبوب نہ ہونی چاہئے

عن انس قال قال رسول اللہ ﷺ ما شبھت خروج ابن آدم من الدنیا الا کمثل خروج الصبی من بطن امہ من ذالک الغم والظلمۃ الیٰ روح الدنیا
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کر یم ﷺ نے فر مایا دنیا سے آدمی انتقال کرنے کو پس اس مثال کے مشابہ پاتا ہوں جیسے ماں کے پیٹ سے یعنی اس تنگی وتا ریکی سے دنیا کی کشادگی میں آتا ہے ( کہ آنے کے قبل اس کو بڑی راحت کی چیز سمجھتا تھا مگر دنیا کی راحت ولذت دیکھ کر پھر وہاں جانا نہیں چاہتا اسی طرح دنیا میں رہ کر آخرت سے گھبراتا ہے مگر وہاں جاکر پھر یہاں آنا پسند نہیں کرے گا ۔ یہ تفسیر خود ایک حدیث میں آئی ہے ۔ ( اخرجہ ابن ابی الدنیا مر فوعا )

فائدہ :یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں ایک یہ کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ موت کو حیات پر ترجیح ہے ، اور بعض حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے ہے کہ حیات کو موت پر تر جیح ہے ، مثلا بخاری اور مسلم کی کی حدیث ہے کہ فر مایا جناب رسول اللہ ﷺ نے کہ نہ تمنا کرے کوئی تم میں کا موت کی کیونکہ اگر وہ نیکو کار ہے تو زندگی بڑھنے سے اور نیکیاں اس کی بڑھ جا ویں گی ،اور گنہگار ہے تو شاید تو بہ کی تو فیق ہو جائے ،اس سے صاف معلوم ہوا کہ موت سے زندگی بہتر ہے ،اس شبہ کا حل یہ ہے کہ مختلف اعتبار سے احکام بھی مختلف ہو جاتے ہیں ، زندگی میں نیکیاں بڑھ سکتی ہیں اور گناہوں سے تو بہ ہو سکتی ہے جیسا حدیث مذکور میں بھی یہی وجہ بیان کی گئی ہے اور موت اس کے بر عکس ہے مگر یہ وجہ تر جیح کی ایک عارضی اور چند روزہ ہے اور اس اعتبار سے کہ دنیا آخرت کے مقابلہ میں ایسی تنگ وتاریک ہے جیسے دنیا کے مقابلہ میں ماں کا پیٹ تھا ، اس اعتبار سے موت ہی کو تر جیح ہو سکتی ہے کیونکہ دنیا سے چھوٹنا اور اس ت نگ وتاریک اگھر سے نکل کر فراخ اور اچھے گھر میں پہنچنا بلا موت کے ممکن نہیں اور آخرت کا یہ وصف دنیا سے بدرجہا بہتر ہے ، اور دنیا اس کے سامنے کوئی چیز نہیں یہ وصف عارضی نہیں بلکہ ذاتی اور دائمی ہے اور ذاتی اور دائمی کو تر جیح عارضی اور فانی پر ظاہر ہے
تو اس جواب سے دونوں حدیثوں میں مخالفت بھی نہیں رہی اور موت کو زندگی کے ساتھ برابری بھی نہیں رہی بلکہ موت ہی کو تر جیح ہوئی ، اور دوسرا سوال یہ ہے کہ حدیث میں موت کی تمنا کرنے سے ممانعت آئی ہے تو اگر موت اچھی چیز ہوتی ہے تو اس کی تمنا سے کیوں منع کیا جاتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث مہیں یہ لفظ بھی ہے : من ضر اصابہ اونصر نزل بہ ۔ رواھما البخاری والمسلم ) کی بھی قید ہے )
یعنی کسی دنیاوی تکلیف سے گھبرا کر موت کی تمنا نہ کرنی چاہئے ، کیونکہ ئی علامت ہے حکم الٰہی پر راضی نہ ہو نے کی، تو اگر موت کی تمنا آخرت کے شوق کی وجہ سے ہو یا دنیا کے فتنوں سے بچنے کے لئے ہو تو منع ن ہ ہو گی ۔ اور ایک جواب اس کا اخیر کتاب میں زیر عنوان ( زیادتی عمر کے متعلق تحقیق ) بھی آتا ہے ۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
نمبر 4
چوتھا باب

بعض مؤمنین پر شدت موت کی مصلحت

عن ابن مسعود قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان المؤمن لیعمل الخطیئۃ فیشد دبھا علیہ عند الموت لیکفر بھا عنہ وان الکافر لیعمل الحسنۃ فیسھل علیہ الموت لیجری بھا ( اخرجہ الطبرانی ،وابونعیم ) شرح صدور)

ترجمہ: حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا ( بعض مومن سے کوئی گناہ ہوجاتا ہے سو اس کے کفارہ کے لئے اس پر موت کے وقت ( نزاع میں ( شدت کی جاتی ہے اور ( بعض اوقات ) کافر سے کوئی نیک کام ہو جاتا ہے تو اس کے صلہ دینے کے لئے موت کے وقت اس پر سہولت کی جاتی ہے ۔

فائدہ: پس نہ شدتِ موت علامتِ مذمومہ ہے اور نہ سہولت مطلقا علامتِ محمودہ ہے ، پس اس شدت سے مدح موت میں جو کہ اوپر مذکور ہے نہ کیا جائے ، اس مضمون کی مزید رسالہ تقطیف الثمرات فی تخفیف السکرات میں مذکور ہے ۔ یہ رسالہ بھی حضرت مؤلف شوق آخرت ہی کے اضافات میں سے ہے ۔
 
Top